Concept of Intercession i.e. Tawassul/Wasila in Islam through Prophets and Awliya.

اسلام میں توسل (وسیلہ) کا موقف

Article Bottom

اسلام میں توسل (وسیلہ) کا موقف

سماع الموتی اور قبر میں حیات انبیاء کے تصور کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد ہم اب توسل کی تفصیل میں جائیں گے۔

 سماع الموتی اور حیات انبیاء پر آرٹیکل اِدھر پڑھیں 

Click Here

توسل کے ثبوت میں کئی احادیث اور قرآنی آیات ہیں۔
 
قرآن کہتا ہے:

ہم نے ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے ، تو یقیناًیہ لوگ اللہ تعالیٰ کومعاف کرنے والامہربان پاتے۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورۃالنسا:64)

یہ براہ راست حکم الہی ہے کہ ہم رسول اللہ کا وسیلہ طلب کریں۔ یہ آیت مطلق (کسی ایک زمانے تک محدود نہیں) ہے۔ 

کسی مقدم مفسر نے یہ نہیں کہا کہ یہ آیت شریفہ رسول اللہ کی ظاہری زندگی تک محدود ہے، جیسا سلفیوں کی طرف سے اس بات پر غلط زور دیا جاتا ہے۔ کسی چیز کو عام سے خاص بنانے کے لیے سلفیوں کو قرآن یا حدیث سے یہ ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ رسول اللہ نے اس آیت کو صرف اپنی ظاہری زندگی تک محدود کیا۔ 

کئی اور ثبوت پیش کرنے سے پہلے ہم ایک منطقی سوال رکھنا چاہیں گے  اور پھر اس کا جواب بھی فراہم کریں گے۔ 

سوال: جب اللہ سب سے قریب ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ مجھے اپنے گھروں میں پکارو اور میں تمہارا جواب دوں گا۔ وہ اس آیت میں نبی کے پاس جانے کی شرط کیوں رکھتا ہے؟
 
جواب: اگر توسل کے انکاریوں کو یہ نقطہ سمجھ میں آجائے تو ان شاءاللہ یہ ان کی اور ان کی آنے والی اولادوں کی ہدایت کا سبب بنے گا۔ یہ آیت قرآنی نص سے ثابت کرتی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کا توسل اختیار کرنا حکم الہٰی ہے۔ 

یہ یاد رکھیے کہ ہم اہلسنت دونوں طریقوں کو صحیح سمجھتے ہیں۔ یعنی

1-  اللہ سے بغیر کسی وسیلے کے سوال کرنا۔
2-  اللہ سے وسیلے کے ذریعے سوال کرنا۔ 

امام نووی نے توسل کو ثابت کرتے ہوئے کہا:

ثم يرجع إلى موقفه الاول قبالة وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ويتوسل به في حق نفسه ويستشفع به إلى ربه سبحانه وتعالى ومن أحسن ما يقول ما حكاه الماوردي والقاضي أبو الطيب وسائر أصحابنا عن العتبي مستحسنين له قال (كنت جالسا عند قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال السلام عليك يا رسول الله سمعت الله يقول (ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما) وقد جئتك مستغفرا من ذنبي مستشفعا بك إلى ربي

ترجمہ: (حاجی) کو چاہیے کہ رسول اللہ کے چہرے کی طرف (قبالة وجه رسول الله) ہو لے اور انہیں اپنا وسیلہ (ويتوسل بہ) بنا لے، اور ان کی شفاعت طلب کرے اللہ تک پہنچنے کے لیے (ويستشفع به إلى ربه )۔ اس حوالے سے "سب سے اچھا قول" امام ماوردی اور قاضی ابو طیب کی حکایت ہے۔ میرے باقی سارے ساتھی بھی اس کو روایت کرتے ہیں اور اس کو مستحسن سمجھتے ہیں" العتبی کی روایت یعنی: ایک اعرابی بدو رسول اللہ کی قبر پر حاضر ہوا اور ان کے سرہانے بیٹھ گیا،اور بولا السلام علیک یارسول اللہ، میں نے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے: جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے ، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ۔ (القرآن سورۃ النساء:64)

اسی لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے اور اللہ تک آپ کا وسیلہ تلاش کرنے کے لئے۔ (المجموع امام نووی جلد نمبر 8 صفحہ 274)

مندرجہ ذیل نے بھی اس اعرابی بدو کا واقعہ نقل کیا ہے: 

1- امام بیہقی نے شعب الایمان میں (جلد 3 صفحہ 495 تا 496 : 4178). 

2- امام ابن قدامہ نے المغنی میں (کتاب الحج جلد 5 صفحہ 465)

3-  امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر میں المعروف تاریخ ابن عساکر جیسے امام سبکی نے شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام میں نقل کیا ہے (صفحہ 46 تا 47)

4-  تفسیر بحر المحیط امام ابو حیان الاندلسی 
(3/282 دار الفکر بیروت ) یا کتاب تفسیر بحر المحیط جلد 3 صفحہ 269 سورۃ نساء آیت 64 کے تحت)

5- امام المتقی الہندی نے کنز العمال میں (1/714 : 10422)

6- امام ابن حجر ہیثمی نے الجوھر المنظم میں (صفحہ 51)

7۔ امام ابن کثیر تحت سورہ نساء آیت # 64

ضروری نوٹ: یہ روایت صرف اس لئے دکھائی گئی ہے تا کہ اتنے سارے علماء کا خوبصورت عقیدہ دکھایا جاسکے اور کسی نے بھی اس کو شرک یا بدعت نہیں کہا۔ اگر امام نووی کی تحسین کے باوجود سلفی اس روایت کو رد کرتے ہیں تو ہمارے پاس کئی احادیث ہیں جو توسل کو ثابت کرتی ہیں۔ 

قرآن کہتا ہے: 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ. (کنزالایمان ،المائدہ:35)

یہ آیت لفظ وسیلہ استعمال کرتی ہے۔ وسیلہ کے معنی قربت ( یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنا) کے بھی ہیں۔ البتہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں لفظ توسل کے معنی سفارش کے بھی ثابت ہیں۔ عمر رضى اللہ عنہ کی عباس عمر رضى اللہ عنہ کے ذریعے شفاعت کی حدیث پڑھیں جو اس باب میں بعد میں دکھائی جائے گی۔ 

ابن مفلیح الحنبلی نے سورہ المائدہ:35 کے بارے میں کہا: 

ويجوزُ التَّوسُّلِ بصالحٍ، وقيلَ: يستحبُّ، قالَ أحمدُ في منسكِهِ الَّذِي كتبَهُ للمروذيِّ: إنَّهُ يُتوسَّلُ بالنَّبيِّ صلَّى اللهُ عليْهِ  وسلَّمَ  في دعائِهِ، وجزمَ  بِهِ في «المستوعبِ»  وغيرِهِ،وجعلَهَا شيخُنَا كمسألةِ اليمينِ بِهِ، قالَ: والتَّوسُّلُ بالإيمانِ بِهِ، وطاعتِهِ، ومحبَّتِهِ، والصَّلاةِ، والسَّلام عليْهِ، صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ، وبدعائِهِ وشفاعتِهِ، ونحوِهِ ممَّا هُوَ مِنْ فعلِهِ وأفعالِ العبادِ المأمورِ بِهَا فِي حقِّهِ مشروعٌ (ع)، وهُو مِنَ الوسيلةِ المأمورِ بهَا في قولِهِ تعالى؛ {ٱتَّقُوا ٱللَّهَ وَٱبْتَغُوۤا إِلَيْهِ ٱلْوَسِيلَةَ

ترجمہ: صالح لوگوں کے ذریعے سفارش/توسل جائز ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ: یہ مستحب ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی المنسک میں کہا جسے المروذی نے لکھا ہے: انہوں نے اپنی دعاؤں میں رسول اللہ کا وسیلہ طلب کیا (کرتے تھے)، جس کی تصدیق المستوعب اور دیگر میں موجود ہے۔ ہمارے شیخ نے اس حوالے سے اتفاق کیا اور کہا: توسل ہے نبی کریم علیہ السلام پر ایمان، ان کی اطاعت، ان کی محبت کے ساتھ اور ان پر درود و سلام اور ان کی شفاعت کے ساتھ وسیلہ پکڑنا۔ اور ان کے (نحو) اسی کی طرح جو ان کے اعمال سے ہے اور ان مامور کیے گئے بندوں کے اعمال جس کے ذریعے یہ مشروع (شریعت میں دلیل ہونا) ہوتا ہے اور یہ ایک وسیلہ ہے جس کا ارشاد خداوند عالم نے کیا ہے: "اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو" (5:35) (الفروع ابن مفلیح الحنبلی 2/159)

احادیث سے سبوت 

حدیث : 1

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے ، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ ( جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا ) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے ۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا ۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں (صحیح مسلم 5409)

ہمارے ماں باپ قربان ہوں ان عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین پر جنہوں نے رسول اللہ کا جبہ مبارک بھی سنبھال کر رکھا اور اس کے ذریعے شفا حاصل کی۔ اور ہم ان لوگوں پر افسوس کرتےہیں جو رسول اللہ کی ذات سے وسیلہ کا انکار کرتے ہیں۔ 

رسول اللہ کا براہ راست اور صریح حکم۔ 

حدیث : 2

حدثنا ‏ ‏أحمد بن منصور بن سيار ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عثمان بن عمر ‏ ‏حدثناشعبة ‏ ‏عن ‏ ‏أبي جعفر المدني ‏عن ‏عمارة بن خزيمة بن ثابت ‏ ‏عن ‏ ‏عثمان بن حنيف أن رجلا ضرير البصر أتى النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏فقال ادع الله لي أن يعافيني فقال إن شئت أخرت لك وهو خير وإن شئت دعوت فقال  ‏ادعه ‏ ‏فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويصلي ركعتين ويدعو بهذا الدعاء اللهم إني أسألك وأتوجه إليك ‏ ‏بمحمد ‏نبي الرحمة يا ‏محمد ‏ ‏إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه ‏ ‏لتقضى اللهم شفعه في

ترجمہ:سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے:  اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں نے آپ کے وسیلے کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہو جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما ۔(سنن ابن ماجہ 1385 سلفی دار السلام نے صحیح کہا)
 
سنن ابن ماجہ میں آگے ہے کہ: 

قَالَ أَبُو إِسْحَاق:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

ترجمہ: ابواسحاق نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ 

 امام ترمذی نے نقل کیا کتاب الدعوات جلد 6 حدیث 3578 اور اسے حسن صحیح غریب کہا اور اسے دار السلام نے بھی صحیح کہا۔ 

اور کئی نے روایت کیا ہے۔ 

الفاظ کو دیکھیے: 

فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ. وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ. وَيَدْعُو بِهذَا الدُّعَاءِ

ترجمہ:اچھی طرح وضو کرو، پھردو رکعات نماز پڑھو پھر یہ دعا کرو

اس کی تفصیل: یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے اس کو وضو کرنے کا کہا اور دو رکعت نماز پڑھنے کا کہا۔ ایسی کوئی شرط موجود نہیں کہ رسول اللہ نے صرف اپنی موجودگی میں ایسا کرنے کا کہا ہو۔
سلفیوں کے بڑے عالم البانی نے ان الفاظ " وَيَدْعُو بِهذَا الدُّعَاءِ " کوغلط استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ توسل اصل میں " رسول اللہ کی خود کی دعا تھی، ان کی ذات نہیں جسے صحابی نے لیا" 

اس باطل توجیح کو حدیث کے اگلے الفاظ غلط ثابت کرتے ہیں جن میں ہے کہ: 

اللَّهُمَّ  إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هذِهِ لِتُقْضَى. اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ

ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں نے آپ کے وسیلے کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہو جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما۔(سنن ابن ماجہ: 1385) 

شروع کے حصے کو دھیان سے پڑھیے یہ البانی صاحب کو غلط ثابت کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ نے خود سے دعا نہیں مانگی بلکہ نابینا صحابی کو مانگنے کے لیے کہا۔ حدیث اور دعا کے الفاظ بالکل واضح ہیں، یعنی نابینا صحابی کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ رسول اللہ کے وسیلہ سے دعا مانگے، یہ نہیں کہ رسول اللہ نے خود کو رحمت والا نبی کہہ کر اپنا ہی وسیلہ اختیار کیا۔ ( یہ غیر منطقی بات ہے)

سلفیوں سے کہا جائے گا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ رسول اللہ خود یہ کہہ کر دعا مانگ رہے ہیں کہ "اے محمد میں آپ کے رب کی طرف آپ کے وسیلے سے رجوع کرتا ہوں." یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ خود ایک دوسرا آدمی بن کر یہ دعا کریں کہ اے محمد میں آپ کے رب کی طرف آپ کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں (يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي)” ؟
 
الفاظ " َنبِيِّ الرَّحْمَةِ " یعنی رحمت والا نبی رسول اللہ کی ذات سے وسیلہ کو ثابت کرتے ہیں۔ رسول اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ رؤف الرحیم اور رحمت اللعالمین ہیں جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ اگر یہ رسول اللہ کی ذات کے ذریعہ وسیلہ نہ ہوتا تو حدیث میں واضح الفاظ ہوتے کہ : " بدعا النبی" (رسول اللہ کی دعا کے ساتھ) بجائے " نبی الرحمه" کے الفاط۔ 

اس حدیث کے حوالے سے آئیے اب ہم محدثین اور ان کے باندھے ہوئے ابواب کے عنوان کی طرف چلتے ہیں۔
 
امام ابن ماجہ نے باب یوں باندھا: 

باب ما جاء في صلاة الحاجة

ترجمہ: باب: حاجت کے وقت کی نماز کے بارے میں۔ 

یہ باب کا عنوان مطلق (ہر دور کے لیے) ہے۔ سلفیوں سے کہا جائے گا کہ وہ محدثین سے ثابت کریں کہ جب انہوں نے حاجت کے وقت کی نماز کے بارے میں عثمان بن حنیف کی حدیث نقل کی تو  وہ صرف رسول 
اللہ کی ظاہری زندگی تک کے لئے تھی۔ 

اگر سلفی کہتے ہیں کہ ہاں اس باب کا عنوان صحیح ہے۔ تو کیا وہ یہ مانتے ہیں کہ محدثین نے اپنے ابواب کے عنوان میں ہم سے بدعت کے لیے کہا؟ کیا ان کو نہیں معلوم تھا کہ کس باب میں کون سی حدیث نقل کرنی ہے؟ 

اگر سلفی کہتے ہیں کہ محدثین حدیث کا باب باندھنے میں غلطی کر سکتے ہیں، تو یہ یاد رکھیے کہ ان میں سے کئی نے جیسے المنذری نے ترغیب وترھیب میں ، امام نووی نے کتاب الاذکار میں اسی باب میں اسے نقل کیا۔ امام نووی کی اذکار صرف مصنف کی براہ راست گواہی سے توسل کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ اذکار کی کتاب ہے اور ہر زمانے کے مسلمانوں کے لئے ہے، لہٰذا بعد والے محدثین کا وہی باب کا عنوان دہرانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان سے اس معاملے میں غلطی نہیں ہوئی۔ 

بالآخر، ہم ایک صحیح حدیث کی طرف آتے جو براہ راست رسول اللہ سے ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے صحابہ کو اور ان کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو یہ کرنے کی ہدایت کی۔ جب بھی ان کو ضرورت ہو۔ 

حدیث یہ ہے: 

حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا حماد بن سلمة، نا أبوجعفر الخطمي، عن عمارة بن خزيمة، عن عثمان بن حنيف، أن رجلاً أعمى أتى النبي فقال: إني أصبت في بصري، فادع الله لي. قال: "اذهب فتوضأ، وصل ركعتين ثم قل: اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيي محمد نبي الرحمة، يا محمد إني أستشفع بك على ربي في رد بصري، اللهم فشفعني في نفسي، وشفع نبيي 
في رد بصري، وإن كانت حاجة فافعل مثل ذلك". 

ترجمہ: مسلم بن ابراہیم سے روایت ہے اس نے کہا کہ حماد بن سلمہ نے ابو جعفر الخطمی سے انہوں نے عمارہ بن خزیمہ سے انہوں نے عثمان بن حنیف سے روایت کیا کہ: ایک نابینا شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا کہ " میں نظر کی تکلیف میں مبتلا ہوں، آپ میرے لیے دعا کریں" رسول اللہ نے فرمایا: جاؤ اچھی طرح وضو کرو پھر دو رکعت نماز پڑھو پھر کہو: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد (ﷺ) کے وسیلے کے ساتھ جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں آپ کے ذریعہ (وسیلے) سے اپنے رب کی جانب توجہ کرتا ہوں کہ میری بینائی واپس آجائے ، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما تاکہ میری بینائی واپس آجائے۔ رسول اللہ نے فرمایا: جب کبھی بھی تمہیں ضرورت ہو تو یہی کرو۔ (تاریخ ابن خزیمہ جلد 3)

حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔ یہاں پر ابن تیمیہ اور البانی نے کہا کہ حماد بن سلمہ کا اضافہ مردود ہے، یہ البانی اور ابن تیمیہ کی علم حدیث میں یتیمی کا ثبوت ہیں۔ "ثقہ مامون" راوی کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے۔

امام حماد بن سلمہ صرف ثقہ مامون نہیں بلکہ امام الحدیث ہے۔ ان کی کئی تعریفیں موجود ہیں یہاں تک کہ کچھ محدثین انہیں علم میں سفیان ثوری سے بہتر اور بڑا مانتے تھے۔ 

(ملاحظہ کیجئے تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب حماد بن سلمہ بن دینار البصری کے ترجمے میں ، اور ابن حبان کی کتاب الثقات بھی ملاحظہ فرمائیے)

ابن حبان نے حماد بن سلمہ کے حدیث میں اضافے کے بارے میں کہا: 

تفرد بها حماد ابن سلمة وهو ثقة مأمون وزيادة الألفاظ عندنا مقبولة عن الثقات إذ جائز أن يحضر جماعة شيخا في سماع شيء ثم يخفى على أحدهم بعض الشيء ويحفظه من هو مثله أو دونه

ترجمہ: حماد بن سلمہ اس کو روایت کرنے میں اکیلے ہیں اور وہ ثقہ مامون راوی ہیں اور ہمارے (محدثین) کے نزدیک ایسے راوی کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے۔ کیونکے ایسا ممکن ہے کہ ایک استاد کے ساتھ جماعت موجود ہوں اور ان میں سے کسی سے کچھ خفی رہ جائے اور اس کے مقابلے میں اس سے کم درجے کا دوسرا راوی اسے یاد کر لے۔ (کتاب الثقات جلد نمبر 8 صفحہ 1)۔

امام ابن حبان نے کیا خوبصورت تفصیل بیان کی ہے۔ اب یہ یاد رکھیے کہ 'ثقہ راوی کا اضافہ بھی قبول کیا جاتا ہے ، تو 'ثقہ مامون کا درجہ اس سے زیادہ ہے۔ 
اگر سلفی یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شاذ ہے تو انہیں متفق علیہ علماء (وہ علماء جن پر باہمی اتفاق ہو) کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا جنہوں نے اس اضافے کو شاذ کہا ہو۔ اب ہمیں صرف اس طرح رد کیا جاسکتا ہے کہ متفق علیہ علماء کا قول دکھایا جائے جنہوں نے اس حدیث کو شاذ کہا ہو۔

یہاں بات ختم نہیں ہوتی۔ البانی صاحب نے حماد بن سلمہ کے حوالے سے خود سے تعارض کیا۔ حماد بن سلمہ کے بارے میں سلسلہ احادیث صحیحہ میں کہا:
 
وخالف الجماعة حماد بن سلمة فقال :"عن هشام بن عروة عن أبي سلمة عنها مختصرا بلفظ :" قالت : سابقت النبي صلى الله عليه وسلم فسبقته"  أخرجه أحمد ( 6 / 261 ) و حماد ثقة حافظ فيحتمل أن يكون قد حفظ ما لم يحفظ

ترجمہ: حماد بن سلمہ ایک جماعت کے خلاف گئے اور کہا: ہشام بن عروہ نے ابی سلمہ سے مختصر الفاظ سے روایت کیا کہ عائشہ رضى اللہ عنہا نے کہا: میں دوڑ میں رسول اللہ سے آگے نکل گئی۔ اسے احمد نے روایت کیا (6/261) اور حماد ثقہ حافظ ہیں اور "میرے خیال میں ان کو وہ یاد ہوگا جو جماعت کو یاد نہ تھا۔" (سلسلہ احادیث صحیحہ 1/204)

اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور اس نے البانی صاحب سے ثابت کروایا کہ حماد بن سلمہ کا اضافہ صحیح ہوتا ہے۔ 

امام بیہقی نے کہا: 

الزيادةُ من الثِّقَةِمقبولةٌ

ترجمہ: ثقہ راویوں کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے۔ 
(سنن البیہقی الکبریٰ 10/297)

امام حاکم نے کہا: 

الزيادة من الثقة مقبولة

ترجمہ: ثقہ راویوں کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے (مستدرک ;الحاکم حدیث نمبر 2111)

امام حاکم نے مستدرک کے مقدمے میں خوبصورت انداز میں کہا: 

عند كافة فقهاء أهل الإسلام أن الزيادة في الأسانيد والمتون من الثقات مقبولة

ترجمہ: تمام فقہائے اسلام کے نزدیک ثقہ راوی کے متن اور اسناد میں اضافے کو قبول کیا جاتا ہے۔ 

امام بخاری نے جزء رفع یدین (کتاب ایک مجہول راوی کی وجہ سے مشکوک ہے لیکن سلفیوں کے لیے حجت ہے) میں کہا: 

لأن هذه زيادة في الفعل والزيادة مقبولة إذا ثبت

ترجمہ: یہ عمل میں اضافہ/زیادتی ہے اور "ثبت کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے۔"(جزء رفع الیدین حدیث نمبر 80 کے تحت) 

امام بخاری نے سجدوں میں رفع یدین کے اضافے کے بارے میں کہا: 

أنه لاختلاف في ذلك إنما زاد بعضهم على بعض والزيادة مقبولة من أهل العلم

ترجمہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ کچھ روایات میں دوسری روایات کے مقابلے میں اضافہ ہوتا ہے اور اہل علم کے اضافے کو قبول کیا جاتا ہے۔ ( جزء رفع الیدین حدیث نمبر 98 کے تحت). 

امام زرقانی نے کہا: 

زيادة من ثقة حافظ غير منافية فيجب قبولها

ترجمہ: ثقہ حافظ کا وہ اضافہ جس کے خلاف کوئی اور بات نہ ہو تو ضرور قبول کیا جاتا ہے۔ ( شرح موطا امام مالک 1/160). 

یہ قول سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے اور ہم نے اس کو ایک اہم وجہ سے ذکر کیا ہے، یعنی حماد بن سلمہ کا اس معاملے میں کسی نے رد نہیں کیا۔ یاد رکھئے کہ رد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی محدث ان الفاظ کے متضاد کوئی اور الفاظ نقل کرے، جیسے رسول اللہ نے بجائے یہ کہنے کے کہ: "تمہیں جب بھی ضرورت ہو یہی کیا کرو" کی جگہ انہوں نے فرمایا ہو کہ: "اس کو ضرورت کے وقت نہ کرنا مگر میری موجودگی میں۔" 

سلفیوں سے کہا جائے گا کہ عثمان بن حنیف سے ایک حدیث دکھا دیں جو حماد بن سلمہ کے اضافے کے متصادم ہو۔ لہٰذا حماد بن سلمہ کا اضافہ قبول کیا جائے گا اور اسے اصول حدیث کے مطابق شاذ نہیں کہا جا سکتا۔

امام حاکم نے یہ بھی کہا: 

والتفرد من الثقات مقبول

ترجمہ: ثقہ راوی کا تفرد (جو اکیلا نقل کرنے والا ہو) قبول کیا جاتا ہے۔ (المستدرک الصحیحین 1/91)

اگر حماد بن سلمہ روایت کرنے میں اکیلے بھی ہیں، تو بھی ان کی روایت کو قبول کیا جائے گا کیونکہ وہ ثقہ مامون، حافظ، ثبت ہیں اور اس کے علاوہ ان کی کئی تعریفیں ہیں۔ 

امام بخاری خود حماد بن سلمہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں: 

سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: لم أر أحداً مثل حماد بن سلمة ومالك بن أنس

ترجمہ: عبد الرحمن بن مہدی کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ میں نے حماد بن سلمہ اور مالک بن انس جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ الکبیر 3/22)

محدثین نے حماد بن سلمہ کو امام مالک کے برابر مانا ہے۔ 

اگر یہ تصور بھی کیا جائے کہ حماد کا اضافہ قبول نہیں تو بھی یہ ان کا ذاتی قول ہو گا۔ اور ان پر رسول اللہ پر جھوٹ باندھنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متقدمین محدثین نے توسل کو قبول کیا اور اس حدیث کو مطلق مانا صرف نبی کریم علیہِ السلام  کے زمانے تک محدود نہیں۔ 

جیسا سلفی ہمیشہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ حدیث کے حوالے سے سلف کے فہم کی پیروی کرتے ہیں، پھر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وسیلہ کی دعا پر سلف صالحین کا عمل تھا اور اسے ابن تیمیہ نے بھی ثابت کیا ہے ،

ابن تیمیہ نے کہا:
 
ورُوي في ذلك أثر عن بعض السلف، مثل ما رواه ابن أبي الدنيا في كتاب مجابي الدعاء، قال: حدثنا أبوهاشم، سمعت كثير ابن محمد ابن كثير بن رفاعة يقول: جاء رجل إلى عبد الملك بن سعيد ابن أبجر، فجس بطنه فقال: بك داء لا يبرأ. قال: ماهو؟ قال: الدُّبَيْلة. قال: فتحول الرجل فقال: الله الله، الله ربي، لا أشرك به شيئاً، اللهم إني أتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة تسليماً، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك وربي يرحمني مما بي. قال فجس بطنه فقال: قد برئت ما بك علة.قلت: فهذا الدعاء ونحوه قد روي أنه دعا به السلف، ونقل عن أحمد بن حنبل في منسك المروذي التوسل بالنبي في الدعاء، ونهى

ترجمہ: یہ کچھ سلف کے آثار میں روایت ہے۔ ابن ابی دنیا نے اسے اپنی کتاب" مجابیء الدعا "میں ابو ہاشم سے روایت کیا ، جنھوں نے کثیر ابن محمد ابن کثیر بن رافعہ سے سنا جس نے کہا: عبد الملک بن سعید کے پاس ایک آدمی آیا اور انہوں نے اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا: تمہیں ایک لاعلاج بیماری ہے جسے دبیلہ کہا جاتا ہے جو پیٹ میں ہوتی ہے اور کئی مریضوں کی جان لے لیتی ہے۔ وہ شخص دوسری طرف مڑا اور 
فریاد کی اللہ اللہ اللہ میرے مالک تیرا کوئی ساتھی نہیں میں تیری طرف توجہ کرتا ہوں اور تجھ سے محمد نبی رحمت ﷺکے وسیلے سے فریاد کرتا ہوں۔ اے محمد میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں اے میرے رب مجھے صحت یاب کر دے ، اس کے بعد عبد الملک نے اس کا پیٹ دبایا اور کہا کہ تم ٹھیک ہو چکے ہوں۔ ابن تیمیہ نے کہا یہ دعا اور اس کے جیسی دعائیں سلف نے روایت کی ہیں۔ یہ احمد بن حنبل سے بھی ثابت ہے جیسا کہ منسک المروذی میں ہے کہ: اللہ سے رسول اللہ کے وسیلہ کے ذریعہ مانگنا چاہیے۔(قاعدہ الجلیلہ فی توسل الوسیلہ صفحہ 91 :نمبر 524)

سلفیوں کے ایک اور بڑے عالم قاضی شوکانی کا رسول اللہ سے کیے جانے والے توسل پر استدلال اس باب کے آخر میں ذکر کیا جائے گا۔ 

حدیث : 3 

سلفی یہ ثبوت مانگتے ہیں کہ کیا صحابہ نے رسول اللہ کی ظاہری وفات کے بعد ان کے وسیلے سے دعا کی۔ اہل سنت اس کے جواب میں مندرجہ ذیل صحیح موقوف روایت استعمال کرتے ہیں جسے سلفی ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اب حدیث دیکھتے ہیں:
 
حدثنا طاهر بن عيسى بن قيرس المصري التميمي حدثنا أصبغ بن الفرج حدثنا عبد الله بن وهب عن شبيب بن سعيد المكي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر الخطمي المدني عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضى الله تعالى عنه في حاجة له فكان عثمان لا يلتفت إليه ولا ينظر في حاجته فلقي عثمان بن حنيف فشكا ذلك إليه فقال له عثمان بن حنيف ائت الميضأة فتوضأ ثم ائت المسجد فصلي فيه ركعتين ثم قل اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وسلم نبي الرحمة يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك ربي جل وعز فيقضي لي حاجتي وتذكر حاجتك ورح إلي حتى أروح معك فانطلق الرجل فصنع ما قال له عثمان ثم أتى باب عثمان فجاء البواب حتى أخذ بيده فأدخله عثمان بن عفان فأجلسه معه على الطنفسة وقال حاجتك فذكر حاجته فقضاها له ثم قال له ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة وقال ما كانت لك من حاجة فأتنا ثم ان الرجل خرج من عنده فلقي عثمان بن حنيف فقال له جزاك الله خيراما كان ينظر في حاجتي ولا يلتفت إلي حتى كلمته في فقال عثمان بن حنيف والله ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأتاه ضرير فشكا عليه ذهاب بصره فقال له النبي صلى الله عيه وآله وسلم أفتصبر فقال يارسول الله إنه ليس لي قائد وقد شق علي فقال له النبي صلى الله عليه وسلم إيت الميضأة فتوضأ ثم صل ركعتين ثم ادع بهذه الدعوات قال عثمان فوالله ما تفرقنا وطال بناالحديث حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضرر قط لم يروه عن روح بن القاسم إلا 

شبيب بن سعيد أبو سعيد المكي وهو ثقة

ترجمہ: اسی عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک شخص کسی شے کی ضرورت کے سلسلے میں بار بار عثمان بن عفان کے پاس آتا مگر انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ شخص عثمان بن حنیف کے پاس آیا اور ان سے اس حوالے سے شکایت کی۔ [یہ رسول اللہ اور ، ابو بکر و عمر کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے] تو عثمان بن حنیف نے کہا کہ وضو کی جگہ پر جاؤ پھر مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو اور کہو: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد علیہِ السلام کے وسیلے سے جو نبی رحمت ہیں ، اے محمد! میں نے آپ کے وسیلےسے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہو جائے ، پھر اپنی ضرورت بیان کرو۔ پھر آؤ تاکہ پھر میں تمہارے ساتھ جا سکوں (خلیفہ عثمان کے پاس). پھر وہ شخص گیا اور اس نے ویسا ہی کیا جیسا اس کو بتایا گیا تھا، پھر وہ عثمان بن عفان کے دروازے پر گیا وہاں دربان آیا اس کو اندر لے کر گیا اور عثمان بن عفان کے ساتھ بٹھایا۔ عثمان نے پوچھا "تمہیں کیا چاہیے ہے؟" پھر اس شخص نے اپنی ضرورت کا ذکر کیا اور عثمان رضى اللہ عنہ نے اسے پورا کیا۔۔۔۔۔ (حدیث کے اختتام تک) 

امام طبرانی نے روایت کرنے کے بعد کہا:
 
لم يروه عن روح بن القاسم إلا شبيب بن سعيد أبو سعيد المكي وهو ثقة

ترجمہ: یہ روح بن قاسم سے شبیب بن سعید ابو سعید المکی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور وہ ثقہ ہے۔(معجم الصغیر 1؍306تا307حدیث : 508)

یہ یاد رکھیے کہ جب کوئی محدث سارے راویوں میں سے کسی ایک راوی کو ثقہ کہے تو وہ روایت کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے۔ سلفی اس پر بعض جروحات پیش کرتے ہیں جیسے: شبیب بن سعید کے صرف بیٹے کو اس سے روایت کرنا چاہیے ، ابن وہب کی روایات منکر ہوتی ہیں، یا پھر یہ کہ اس کو صرف یونس کے طریق سے آنا چاہیے۔ یہ ساری جروحات مبہم ہیں۔ مگر پھر بھی ہم ابن وہب کے علاوہ اس کی سند کو صحیح ثابت کریں گے۔ اور احمد بن شبیب کی اپنے والد شبیب بن سعید سے روایت کرنا بھی دکھائیں گے۔

امام بیہقی اسے ابن وہب کے بغیر ایک اور صحیح سند سے روایت کرتے ہیں، سند یوں ہے: 

أخبرنا أبو علي الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن شاذان، أنبأنا عبد الله بن جعفر بن درستويه، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا أحمد بن شبيب بن سعيد، فذكره بطوله(دلائل النبوہ 6/168؛شائع کردہ دارالکتب العلمیہ )

اس سند میں ابن وہب موجود نہیں اور یہ بالکل صحیح ہے۔

 امام فسوی نے اپنی مخطوطہ میں مندرجہ بالا حدیث کو مکمل سند کے ساتھ روایت کیا ہے.(مشیخہ ابی یوسف بن سفیان الفسوی حدیث :113)

سند ہے: 

عبداللہ بن جعفر » یعقوب » احمد بن شبیب بن سعید » اپنے والد شبیب بن سعید » روح بن قاسم » ابی جعفر المدنی » ابی امامہ بن سہل بن حنیف » عثمان ابن حنیف ۔۔۔۔۔۔۔۔ (حدیث کے اختتام تک)

 یہ سند بالکل صحیح ہے اور تمام راوی ثقہ ہیں۔ لہٰذا اس میں سلفیوں کو کوئی خرابی نہیں مل سکتی کہ حدیث شبیب کا بیٹا اپنے والد سے روایت کرے اور ابن وہب کے بغیر۔ اس میں شبیب اپنے والد سے نقل کر رہے ہیں اور سند میں ابن وہب بھی نہیں۔

آئے شبیب بن سعید کی تعدیل کو تفصیل سے دیکھتے ہیں جن کو سلفى معاذ اللہ مجروح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
 
شَبِـيْبُ بنُ سَعِيْد التّمِيْمِي الحَبَطِي ، أبُو سَعِيْدٍ البَصْرِي ، وَالِدُأحْمَد بن شَبِـيْب بن سَعِيد . روى عنأبان بن تَغْلِب، وأبان بن أبـي عَيّاش، ورَوْح بن القاسم، وشُعبة بن الحَجّاج، ومحمدبن عَمْرو بن عَلَقَمة بن وَقّاص، ويحيـى بن أبـي أُنَيْسة، ويونُس بن يزيد  الأيْليّ  روى  عنه  ابنُه  أحمد  بن  شَبـيب  بن  سعيد   (خ خد س)، وزَيْد بن بهشر الحَضْرميّ، وعبد الله بن وَهْب، ويحيـى بن أيوب المِصْريّ .قال عَليّ بن المديني : ثقة ، كانَ من أصحاب يونُس بن يزيد، كان يختلفُ في تجارة إلى مِصرَ، وكتابُهُ كتابٌ صحيحٌ وقد كَتَبْتُها عن ابنه أحمد.وقال أبو زُرْعَة : لابأسَ به .وقال أبو حاتم : كان عنده كُتُب يونُس بن يزيد، وهو صالح الحديث لا بأس به .وقال النّسائي : ليسَ به بأس .وقال أبو أحمد بن عَدِي : ولشبـيب نسخة الزّهريّ عنده عن يونُس، عن الزّهريّ أحاديث مُستقيمة، وحَدّث عنه ابنُ وَهْب بأحاديث مناكير.وذكره ابنُ حِبّان في كتاب «الثّقات».روى له البخاريّ، وأبو داود في «الناسخ والمنسوخ»، و النّسائي

ترجمہ: شبیب بن سعید التمیمی الحبطی ابو سعید البصری جو احمد بن شبیب کے والد ہیں۔ انہوں نے ابان بن تغلب، عیاش، روح بن قاسم ، شعبہ بن حجاج ، محمد بن عمر علقمہ بن وقاص، یحییٰ بن ابی انیس، یونس بن یزید سے روایت کیا۔ ان سے ان کے بیٹے احمد بن شبیب بن سعید، زید بن بھشر الحضرمی، عبداللہ ابن وہب ،یحیی بن ایوب المصری نے روایت کیا۔ علی ابن مدینی نے کہا یہ ثقہ ہیں اور وہ یونس بن یزید کے ساتھیوں میں سے ہے وہ تجارت کرنے کے لئے مصر گئے اور ان کی کتاب صحیح ہے اور اس سے ان کے بیٹے احمد نے لکھا۔ (غیر مشروط تعدیل) (البانی نے اس قول میں سے لفظ ثقہ نکال کے اس کی تحریف کی دوسرا البانی نے یہ خیال کیا کہ شبیب کی حدیث صرف یونس کی کتاب سے ہونی چاہیے۔ اگرچہ یہاں ایسی کوئی شرط نہیں)۔ ابو ذرعہ نے کہا: اس میں کوئی خرابی نہیں۔ (غیر مشروط تعدیل) ابو حاتم نے کہا کہ اس کے پاس یونس بن یزید کی کتاب تھی اور وہ صالح الحدیث ہے اور اس میں کوئی خرابی نہیں۔ [نوٹ: یہ پھر سے ایک غیر مشروط تعدیل ہے اور یہاں ایسی کوئی شرط موجود نہیں کہ اس کے لئے صرف یونس کی کتاب سے روایت کرنا ضروری ہے۔ یہاں البانی اور سلفی غلطی کرتے ہیں] 

امام نسائی نے کہا اس میں کوئی خرابی نہیں. (غیر مشروط تعدیل)

امام ابو احمد بن عدی نے کہا شبیب کے پاس زہری کا نسخہ تھا جس کے اندر یونس سے روایات تھیں اس کی زہری سے احادیث ٹھیک ہوتی ہیں اور ابن وہب نے اس سے کچھ مناکیر روایت کیں۔ [یہ سلفیوں کی سب سے بڑی جرح ہے ہم نے اور اور طرق سے یہ حدیث ثابت کر دی ہے جس میں ابن وہب موجود نہیں۔ دوسرا کہ ابن عدی ، ابن وہب سے ساری احادیث کی بات نہیں کر رہے مگر کچھ کی بات کر رہے ہیں جس میں سے دو وہ خود پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ تحقیق کے بعد وہ دونوں احادیث بھی صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا ابن عدی کی جرح مبہم ہے]

ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ۔ (غیر مشروط تعدیل)

بخاری نے ،ابو داود نے ناسخ والمنسوخ میں اور نسائی نے اس سے روایت کیا۔ (تہذیب الکمال 8؍ 270 تا 271)

اس تفصیلی تعدیل کے آگے جرح مبہم کسی کام کی نہیں۔ اسی لئے ایک بڑے محدث اور عالم امام ابن یوسف الصالحی نے کہا: 

الباب الخامس في ذكر من توسل به - صلى الله عليه وسلم - بعد موته روى الطبراني والبيهقي - بإسناد متصل ورجاله ثقات - عن عثمان بن حنيف أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان في حاجة

ترجمہ: باب 5: رسول اللہ کی وفات کے بعد ان سے توسل کے بارے میں۔ امام طبرانی اور بیہقی نے ثقہ راویوں والی متصل اسناد کے ساتھ عثمان بن حنیف کی حدیث کو روایت کیا کہ: ایک شخص عثمان بن عفان کے پاس اپنی حاجت لے کر حاضر ہوا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ (حدیث کے اختتام تک)  (محمد بن یوسف الصالحی نے سبل الہدی والرشاد جلد 12 صفحہ 407)

دوسرا یہ کہ یہ حدیث امام بیہقی کے معیار کے مطابق بھی صحیح ہے جیسا کہ انہوں دلائل النبوۃ کے مقدمے میں ذکر کیا : 

ويعلم أن كل حديث أوردته فيه قد أردفته بما يشير إلى صحته أو تركته مبهماً وهو مقبول في مثل ما أخرجته وما عسى أوردته بإسناد فيه ضعف أشرت إلى ضعفه وجعلت الاعتماد على غيره

ترجمہ: آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ساری احادیث جو میں نے دلائل النبوہ میں نقل کی ہیں تو اس سے پہلے میں نے وہ حدیث نقل کی ہے جو اس کی صداقت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جب میں نے کسی حدیث کومبہم چھوڑا ہے تو وہ بھی مقبول ہے اسی طرح جیسے باقی میں نے روایت کی ہیں۔ اور میں نے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس کی سند میں کمزوری ہو مگر میں نے اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کیا اور اس کے علاوہ کسی دوسری روایت پر اعتبار کیا۔  (دلائل النبوہ 1/46)

پھر امام بیہقی نے کہا: 

وعادتي في كتبي المصنفة في الأصول والفروع الاقتصار من الأخبار على ما يصح منها دون ما لا يصح أو التمييز بين ما يصح منها ومالا يصح 

ترجمہ: میرا طریقہ یہ ہے کہ میں اصول اور فروع کی کتابوں میں سے صرف صحیح روایات پر انحصار کرتا ہوں اور میں نے ان کو رد کیا جو صحیح نہیں تھیں۔ اور میرا طریقہ صحیح کو غیر صحیح سے الگ کرنے کا ہے۔(دلائل النبوۃ 1/47). 

یہاں تک کہ امام ذہبی نے بھی دلائل النبوۃ کے بارے میں کہا: 

قال فيه الحافظ الذ هبي: عليك به فإنه كله هدى ونور

ترجمہ: اس حوالے سے (امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کے بارے میں) حافظ ذہبی نے کہا: اس میں جو سب بھی ہے وہ ہدایت اور نور ہے۔(شرح المواہب 1/120)

 برائے مہربانی یہ نوٹ کیجئے کہ امام بیہقی نے حاجت مند شخص والی حدیث پر کوئی جرح نہیں کی۔ لہٰذا انہوں نے اس کو مستند مانا۔ 

امام حاکم نے بھی مستدرک میں مرفوع اور موقوف احادیث پر حکم لگایا جب انہوں نے کہا: 

شبيب بن سعيد الحبطي عن روح بن القاسم زيادات في المتن والإسناد والقول فيه قول شبيب فإنه ثقة مأمون

ترجمہ: شبیب بن سعید الحبطی نے سند اور متن میں کچھ اضافہ کے ساتھ روح بن قاسم سے روایت کیا۔ اس میں جو فیصلہ ہے وہ شبیب کے بارے میں ہے اور وہ ثقہ مامون ہے۔ (مستدرک ، حدیث 1929)

ہم نے محدثین سے دکھا دیا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور اس کی شبیب کے بیٹے سے اور بھی صحیح اسناد ہیں جس میں وہ اپنے والد سے ابن وہب کے بغیر روایت کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس موقوف حدیث کے ضعیف ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سلفیوں کو تین متفق علیہ علماء سے دکھانا ہوگا جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا۔ البانی جیسے لوگوں کی بات کو ثبوت نہیں سمجھا جائے گا۔ 

حدیث : 4

چوتھی حدیث مالک الدار سے صحیح روایت ہے جس میں ہے: 

حدّثنا أبو معٰوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مٰلك الدار ، قال: وكان خازن عمر على الطعام، قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأُتِيَ الرجل في المنام فقيل له: ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له: عليك الكيس عليك الكيس فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلو إلاّ ما عجزت عنه

 قال حافظ ابن كثير : وهذا اسناد صحيح

ترجمہ: مالک الدار یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خزانچی کہتے ہیں: عمر ابن خطاب رضى اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں کو قحط نے جکڑ لیا۔ پھر ایک شخص رسول اللہ علیہ السلام کی قبر پر گیا اور کہا: یا رسول اللہ! اللہ سے اپنی شدید مشکل میں جکڑی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا اور آپ نے اس سے کہا: عمر کے پاس جاؤ اس کو میرا سلام دو اور اس کو بتاؤ کہ بارش تم تک آ جائے گی، عمر سے یہ کہنا کہ وہ ثابت قدم رہیں دوبارہ فرمایا ثابت قدم رہیں(چوکنا رہیں) وہ عمر کے پاس گئے اور خوشخبری دی، یہ سن کر عمر رو پڑے اور کہا: جب تک میں بالکل تھک نہ جاؤ اس وقت تک پوری کوشش/مشقت کرتا ہوں۔ 
حوالہ: المصنف ابن ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 118 حدیث 32538. 

اس کی سند کو ان علماء نے صحیح کہا:

امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 167 پر سند کو صحیح کہا۔

امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں جلد 2 صفحہ 495 پر سند کو صحیح کہا

امام قسطلانی نے المواہب الدنیا میں (4:276) وغیرہ۔
 
سلفیوں کے بڑے عالم ناصر الدین البانی نے جلد بازی سے مالک الدار رحمہ اللہ کو نامعلوم (مجہول) قرار دے دیا۔ ہم دوسرے نقاط پر بعد میں آئیں گے کہ کیا یہ حدیث تدلیس کے مسئلے کی وجہ سے ضعیف ہے یا نہیں۔ 

ناصر الدین البانی نے کہا: 

عدم التسليم بصحة هذه القصة، لأن مالك الدار غير معروف: الأول العدالة والضبط، وهذان شرطان أساسيان في كل سند صحيح كما تقرر في علم المصطلح، وقد أورده ابن أبي حاتم في "الجرح والتعديل" (4/213) ولم يذكر راوياً عنه غير أبي صالح هذا، ففيه إشعار بأنه مجهول

ترجمہ: اول تو ہم قبول نہیں کرتے کہ یہ قصہ مستند ہے کیونکہ مالک کی عدالت اور ضبط کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ اور یہ دو اصولی شرائط روایت کی صحت کے لیے ضروری ہیں، علم حدیث کے مطابق۔ ابن ابی حاتم نے اس کا الجرح و تعدیل میں ذکر کیا ہے اور ابو صالح کے علاوہ کسی کا ذکر نہیں کیا جو اس سے روایت کرتا ہو، یہ اشارہ کرتا ہے کہ یہ مجہول ہے۔

(التوسل عربی صفحہ 69 شائع کردہ مکتب الاسلامی)

یہ البانی صاحب کی طرف سے لاعلمی کا مظاہرہ ہے اور انہوں نے ابن ابی حاتم کے قول کا غلط استعمال کیا ہے۔ 

مالک الدار کے سلسلے میں بڑے محدثین کو پیش کرنے سے پہلے ہم یہ چاہیں گے کہ ہم البانی صاحب کا رد اسی کے الفاظ سے کریں جس میں اس نے مالک الدار کو معروف مانا۔ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث کو نقل کرتے وقت اس نے بڑی چالاکی سے یہ مانا : 

وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار – وكان خازن عمر

ترجمہ: ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے اسے روایت کیا جو ابی صالح نے مالک الدار سے روایت کی۔ مالک الدار عمر رضى اللہ عنہ کے خازن تھے۔ 
 
خازن کا مطلب ہے خزانچی، اب اتنی بڑی شخصیت جس کو عمر رضى اللہ عنہ نے اپنا خزانچی مقرر کیا تھا، اس کو البانی کی جانب سے مجہول کہا جا رہا ہے، اور یہ کہ ابن ابی شعبہ نے خود مالک الدار کو عمر کا خزانچی کہہ کر معروف ثابت کیا۔ یہ ثبوت نمبر 1 ہے اور البانی کا اسی قول سے رد ہو گیا جو اس نے خود نقل کیا ہے۔ 

یہ دوسرا ثبوت ہے جس میں البانی نے مالک الدار کی ایک روایت کو حسن کہا۔ 

کیونکہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے تو صحیح ترغیب وترہیب میں البانی نے مالک الدار کی روایت کے بارے میں کہا: 

926(13) (حسن موقوف) وعن مالك الدار
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه...

البانی نے مالک الدار سے آنے والی روایت کو خود حسن موقوف کہا۔ (صحیح ترغیب وترہیب البانی نمبر 926, شائع کردہ مکتبہ المعارف ریاض سعودی عرب). 

زبیر علی زئی الباکستانی نے کہا: 

جب توثیق ثابت ہو جائے تو کسی کے مجہول یا مستور وغیرہ ہونے کا قول مردود ثابت ہو جاتا ہے۔ ایسے کئی راوی ہیں جن کو ابی حاتم اور دیگر نے مجہول کہا ہے مگر باقی محدثین نے ان کو ثقہ ثابت کیا ہے۔ لہٰذا ہم ان علماء کی توثیق کی پیروی کریں گے۔ دیکھیے قواعد فی علوم الحدیث صفحہ 267 [نور العینین زبیر علی زئی صفحہ 197]. 

البانی نے امام منذری کا قول نقل کیا: 

رواه الطبراني في الكبير، ورواته إلى مالك الدار ثقات مشهورون، ومالك الدار لا أعرفه

ترجمہ: یہ حدیث طبرانی نے اپنی الکبیر میں نقل کی اور مالک الدار تک سارے راوی ثقہ مشہور ہیں جبکہ میں مالک الدار کو نہیں جانتا۔(التوسل البانی صفحہ 69)

یہ پھر سے البانی کی جانب سے لاعلمی کا مظاہرہ ہے۔ امام منذری کے الفاظ کو نوٹ کیجئے انہوں نے کہا: "لا أعرفه" یعنی میں نہیں جانتا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ وہ باقیوں کے ہاں بھی مجہول ہے۔ اگر کوئی ایک محدث کسی راوی کو نہیں جانتا تو وہ مجہول نہیں ہو جاتا۔ یہ علم الحدیث کے شروع کے طالب علم کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ محدثین کو سارے راویوں کے بارے میں علم نہیں تھا۔ لہٰذا یا تو البانی اور سلفی چاہتے ہیں کہ امام منذری کو ایک ایسے شخص کے نام سے پکارا جائے جس کے پاس مکمل اور جامع علم ہے یا پھر انہیں یہ ماننا پڑے کہ البانی بالکل غلط تھے۔
 
یہ بڑے محدثین سے ثبوت ہیں کہ مالک الدار معروف تھے۔ 

ثبوت : 1

مالك بن عياض مولى عمر هو الذي يقال له مالك الدارله إدراك وسمع من أبي بكر الصديق وروى عن الشيخين     و معاذ و أبي عبيدة روى عنه أبو صالح السمان وابناه عون وعبدالله ابنا مالك وأخرج البخاري في التاريخ من طريق أبي صالح ذكوان عن مالك الدار

ترجمہ: امام ابن حجرعسقلانی نے کہا: مالک بن عیاض عمر کے غلام، ان کو مالک الدار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے نبوت کا دور پایا اور ابوبکر رضى اللہ عنہ سے روایت کیا۔ انہوں نے شیخین، معاذ، ابوعبیدہ سے روایت کیا۔ اور ان سے ابو صالح السمان اور اس کے دونوں بیٹے عون اور عبد اللہ نے روایت کیا۔ ان کی روایات ابو صالح الذکوان کے ذریعے بخاری کی تاریخ میں موجود ہیں۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر عسقلانی جلد 6 صفحہ نمبر 273 نمبر 8362)

اب، اس بات پر اختلاف ہے کے یہ صحابی تھے یا پھر عظیم تابعی اور ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔

مصنف کے نقطہ نظر میں انہوں نے نبوت کا دور پایا ہے مگر اسلام بعد میں قبول کیا اور اتنا عظیم تابعی بنا کے سیدنا عمر نے اپنا خزانچی مقرر کیا۔ یہ خود سے ایک بہت بڑی تعدیل ہے اس راوی کی۔
 
اگر وہ صحابی نہیں تھے اگرچہ مثبت (ثابت ہونا) نفی پر مقدم ہے پھر بھی ان کا ابوبکر ,عمر اور دیگر اصحاب سے ملنا ثابت ہے۔ 

ثبوت : 2. 

امام ابن سعد (سلف) نے کہا: 

مالك الدار مولى عمر بن الخطاب وقد انتموا إلى جبلان  من حمير، وروى مالك الدار عن أبي بكر الصديق وعمر، رحمهما اللـه روى عنه أبو صالح السمان ، وكان معروفا

ترجمہ: مالک الدار رحمہ اللہ عمر رضى اللہ عنہ کے آزاد کردا غلام تھے۔۔۔۔۔ انہوں نے ابو بکر صدیق رضى اللہ عنہ اور عمر رضى اللہ عنہ سے روایت کیا، اور ان سے ابو صالح السمان نے۔ مالک الدار معروف تھے۔ (طبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 12نمبر 1423)

ثبوت : 3
 
ذہبی نے ان کا نام صحابہ میں ذکر کیا: 

مالك بن عياض مولى عمر روى عن أبي بكر الصديق و عنه أبو صالح السمان

ترجمہ: مالک بن عیاض عمر کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان نے ابوبکر سے روایت کیا اور ان سے ابو صالح السمان نے روایت کیا۔ (تجرید اسماء الصحابہ الذہبی جلد 2 صفحہ 51)

ثبوت : 4

امام تقی الدین ابن فہد المکی (شاگرد امام ابن حجر)

انہوں نے بھی مالک اپالدار  کو صحابہ میں ذکر کیا۔

 مالك بن عياض مولى عمر روى عن أبي بكر الصديق و عنه أبو صالح السمان

ترجمہ: مالک بن عیاض عمر کے آزاد کردہ غلام انہوں نے ابوبکر سے روایت کیا اور ان سے ابو صالح السمان نے روایت کیا۔ (مختصر اسماء الصحابہ صفحہ نمبر 85 مکتبہ الازہر کا نسخہ)

ثبوت : 5

ابن حبان نے بھی انہیں اپنی کتاب الثقات میں درج کیا اور ان پر کوئی جرح نہیں کی جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان کو ثقہ مانا۔

انہوں نے کہا: مالک الدار، انہوں نے عمر الفاروق، ابو صالح السمان سے روایت لی اور وہ عمر بن خطاب کے آزاد کردہ غلام تھے۔ (کتاب الثقات جلد 5 صفحہ 384)

ثبوت : 6

حافظ الخلیلی کہتے ہیں: 

مالك الدار مولى عمر بن الخطاب الرعاء عنه : تابعي , قديم , متفق عليه , أثنى عليه التابعون , وليس بكثير الرواية , روى عن أبي بكر الصديق , وعمر 

ترجمہ: مالک الدار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام، یہ قدیم تابعی ہیں متفق عليه , أثنى عليه التابعون (یعنی متفق علیہ ثقہ تابعی جس کی تابعین نے تعریف کی). انہوں نے زیادہ احادیث روایت نہیں کیں، انہوں نے ابو بکر اور عمر سے روایت کیا۔ ۔۔۔۔۔۔ (پھر الخلیلی نے مالک الدار کی توسل والی روایت بھی نقل کی)۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث حافظ الخلیلی جلد 1، 313 تا 314)

اب، جب مالک الدار معروف متفق علیہ، تابعین سے تعریف شدہ، اور عمر رضى اللہ عنہ کے خزانچی ثابت ہو چکے ہیں ، تو اب ہم ان علماء کی طرف چلتے ہیں جنھوں نے اس حدیث کی سند اور متن کو مستند قرار دیا۔ (کیونکہ سلفی، متقدمین علماء سے کوئی حکم نہیں دکھا سکتے جس میں محدثین نے اس اثر کو ضعیف کہا ہو)۔ 

توثیق : 1. (مکمل سند بمع مالک الدار کی)

حافظ ابن کثیر نے مالک الدار کی توسل والی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا: 

وهذا إسناد صحيح

ترجمہ: یہ سند صحیح ہے۔ (البدایہ والنہایہ 7/106)

نوٹ: یہ مکمل سند کی توثیق ہے۔ لہٰذا سلفیوں کا یہ دعوی باطل ہے کہ سند متصل نہیں یا کوئی راوی مجہول ہے۔ 

آئیے سلفیوں کو ابن کثیر کی ایک اور توثیق سے غلط ثابت کرتے ہیں:

ابن کثیر نے جامع المسانید (1/223) - مسند الفاروق میں سند کو 'جید قوی قرار دیا۔ 

برائے مہربانی نوٹ کیجئے کہ انہوں نے اس کی سند کو جید اور قوی کہا، لہٰذا ابن کثیر کو بالکل شک نہیں تھا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند میں کوئی مسئلہ نہیں جیسا سلفی دعویٰ کرتے ہیں۔ 

سلفی یہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ سند کو صحیح کہنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس کا متن بھی صحیح ہو۔ اے سلفیو یاد رکھو یہ اصول مطلقاً صحیح نہیں۔ اگر تم اسے صحیح مانتے ہو تو ان ساری احادیث کو رد کر دو جن پر صرف اسنادہ صحیح کا حکم لگتا ہے۔ بے شک تم ایسا نہیں کر سکتے۔ یاد رکھو کہ تمہیں محدثین سے براہ راست جرح دکھانی ہوگی کہ اس حدیث کا متن صحیح نہیں۔ 

ہم سلفیوں سے پوچھتے ہیں کہ کس متقدم اور متفق علیہ محدث نے اس حدیث کے متن کو ضعیف کہا؟

توثیق : 2

ابن حجر عسقلانی نے کہا: 

وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الداري - وكان خازن عم

ترجمہ: ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے ابی صالح السمان ان کی مالک الدار سے روایت کو نقل کیا ہے۔ مالک الدار سیدنا عمر کے خزانچی تھے۔ [فتح الباری شرح صحیح البخاری (2/495)]

ابن حجر عسقلانی نے صحابہ پر لکھی کتاب اصابہ فی تمیز الصحابہ میں بھی یہ حدیث دکھائی ہے۔ انہوں نے یہ حدیث اسی راوی مالک بن عیاض ، جو مالک الدار ہے کے ترجمے میں نقل کی ہے۔ اور کہیں بھی ان پر جرح نہیں کی۔ اگر یہ بدعت یا شرک ہوتا تو اتنا بڑا محدث اس کو نقل کرنے سے گریز کرتا۔
 
ابن حجر عسقلانی کی توثیق پر البانی نے جو دعویٰ کیا، اس کی طرف آتے ہیں: 

إنه ليس نصاً في تصحيح جميع السند بل إلى أبي صالح فقط

ترجمہ: چونکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا گیا کہ روایت کی پوری سند صحیح ہے بلکہ صرف ابو صالح تک صحیح ہے۔ (التوسل صفحہ 69)

ادھر البانی نے بہت بڑا مفروضہ گھڑا کہ ابن حجر نے پوری سند کی توثیق نہیں کی۔ ابن حجر خود مالک الدار کو معروف اور عمر رضى اللہ عنہ کا خزانچی مانتے تھے اس حد تک انہوں نے مالک الدار کا ادراک ثابت کیا، لہٰذا ابن حجر نے یقیناً پوری سند کی توثیق کی۔ 

اب ہم اس روایت پر سلفیوں کی جانب سے لگائے جانے والے سب سے بڑے الزام کی طرف آتے ہیں۔ 

سلفی دعویٰ کرتے ہیں کہ: اعمش مدلس ہیں۔ ابن حجر نے ان کا دوسرے طبقے میں ذکر کیا ہے (طبقات المدلسین 2/55). مگر انہوں نے ان کو تیسرے طبقے میں بھی ذکر کیا ہے۔ (النکت علی ابن الصلاح 2/640)

جواب: یہ سلفیوں کی نام نہاد سب سے بڑی تنقید ہے۔
سلفی پہلے مانتے ہیں کہ ابن حجر نے اس کا مدلسین کے دوسرے طبقے میں ذکر کیا ہے۔ ابن حجر نے مدلسین کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو طبقے کے متعلق مدلسین کی روایت قبول ہوتی ہے اگر وہ ثقہ راوی سے روایت کریں مثال کے طور پر امام مالک، امام حسن بصری، امام سفیان ثوری، امام سفیان بن عیینہ ، اعمش وغیرہ۔ 

ابن حجر نے دوسرے طبقے میں 55 نمبر پر عمش کا ذکر کیا ہے لہٰذا سلفیوں کا الزام بے جا ہے۔

البتہ تیسرے طبقے سے مسئلہ شروع ہوتا ہےتو ابن حجر نے 'نکت میں ان کا تیسرے طبقے میں کیوں ذکر کیا؟ فرض کرتے ہیں کہ یہ ایک تضاد ہے (جو کہ نہیں ہے کیونکہ نکت میں ابن حجر صرف ان کے تیسرے طبقے کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے زیادہ تدلیس کی ہے جبکہ طبقات میں انہوں نے اعمش کو دوسرے طبقے کی مجموعی درجہ بندی میں شامل کیا) پھر بھی آئیے مزید تجزیہ دیکھتے ہیں: 

یہ امام اعمش کے بارے میں امام ذھبی کا ایک انکشافاتی جواب ہے۔ اور یہ جواب اس مخصوص سند کو بالکل مستند ثابت کرتا ہے، کیوںکہ اعمش اپنے معروف استاد ابی صالح السمان سے روایت کر رہے ہیں۔

حافظ ذھبی نے کہا: 

قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم : كإبراهيم ، وابن أبى وائل ، وأبى صالح السمان ، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال

ترجمہ: جب اعمش لفظ 'عن" سے روایت شروع کرتا ہے تو تدلیس کا امکان ہوتا ہے۔ سوائے تب جب وہ اپنے شیوخ سے نقل کرے جن سے انہوں نے کثیر تعداد  میں روایات لیں جیسے  ابراہیم ، ابو وائل، ابو صالح السمان تو پھر یہ اتصال پر محمول ہو گی۔ (میزان الاعتدال جلد 2 راوی نمبر 3517)

یہ روایت اسی ابو صالح السمان سے ہے جو اعمش کے معروف استاد ہیں اور ثقہ ہے (اعمش پر الزام کو صرف تب وقعت دی جائے گی جب وہ کسی مجہول شیخ/استاد یا ضعیف راوی سے روایت کریں، یا کسی چھوٹے شیخ سے روایت کریں) لہٰذا ان پر اپنے معروف شیوخ سے روایت کرنے میں تدلیس کا الزام دھرنا غلط ہے، جیسا کہ امام ذھبی نے کہا۔ 

الذھبی نے اعمش کا ایسے ذکر کیا: 

سليمان بن مهران، الامام شيخ الاسلام، شيخ المقرئين والمحدثين

ترجمہ: سلیمان بن مہران۔ امام ، شیخ الاسلام ، مقررین اور محدثین کا استاد۔ (سیر اعلام النبلاء 6/419)

ہم نے احادیث کی کتابیں دیکھی ہیں جن میں 'اعمش عن ابو صالح کے طریق سے کم و پیش دو ہزار(2000) سے زائد روایات ہیں اسی لیے محدث امام بوصیری نے اعمش کی ایک حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے کہا: 

 حدّثنا أحمد بن عبد الرحمن بن بار بن عبد الملك بن الوليد بن بسر بن أبي أرطأة . ثنا الوليد .حدثني شيبان ، عن الأعمش ، عن أبي صالح ، عن ابن عباس ، عن النبي قال: «إذا استنفرتم فانفروا». (289) هذا إسناد صحيح رجاله ثقات وشيبان هو ابن عبد الرحمن والوليد هو ابن مسلم صرح بالتحديث فزالت تهمة تدليسه.

ترجمہ: یہ حدیث صحیح ہے اور راوی ثقہ ہیں۔ شیبان ابن عبدالرحمن ہے، اور ولید ابن مسلم ہے۔ اس نے صریح تحدیث کے ساتھ روایت کیا ہے اور یہ اس پر سے تدلیس کا الزام ہٹا دیتا ہے۔ (مصباح الزجاجہ امام بوصیری : 986)

نوٹ: امام بوصیری نے یہ صرف ولید کے بارے میں کہا مگر اعمش عن ابی صالح کے بارے میں نہیں اگرچہ اعمش بھی مدلس ہیں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ اعمش کا ابو صالح سے سماع محدثین کے نزدیک یقینی طور پر ثابت ہے اور وہ ان سے تدلیس نہیں کرتے۔ 

اصولوں سے لاعلم سلفی ،عظیم ابو معاویہ محمد بن خازم کو ناقابل قبول مدلسین کے طبقے میں لانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ 

ان کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ حدثنا کے الفاظ ابو معاویہ سے روایت ہیں۔ ثبوت یہ ہے: 

الخلیلی حدیث روایت کرتے ہیں: 

حدثنا أبو خيثمة , حدثنا محمد بن خازم الضرير , حدثناالأعمش , عن أبي صالح , عن مالك الدار ، قال : أصاب الناس قحط في زمان عمر بن الخطاب , فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا نبي الله , استسق الله لأمتك فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام فقال : " ائت عمر, فأقرئه السلام , وقل له : إنكم مسقون , فعليك بالكيس الكيس " . قال : فبكى عمر , وقال : يا رب , ما آلو إلاما عجزت عنه يقال : إن أبا صالح سمع مالك الدار هذاالحديث
 حدثنا ابو خیثمہ، حدثنا محمد بن خازم الضریر » حدثنا الاعمش ۔۔۔۔۔۔ آخر میں۔ امام خلیلی کہتے ہیں: ابو صالح نے اس حدیث میں مالک الدار سے سماع کیا (یعنی اس سے سنا)۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث حافظ الخلیلی 1/313تا 314)

اس سے ثابت ہوتا ہے: 

1) ابو معاویہ نے براہ راست سننے کے صیغہ سے روایت کیا یعنی حدثنا 

2) یہاں تک کہ ابو صالح السمان ان کا بھی مالک الدار سے براہ راست سننا ثابت ہے۔ 

دوسرا یہ کہ امام ابن حجر عسقلانی نے ابو معاویہ کو دوسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے (دیکھیے طبقات المدلسین راوی نمبر 61) اور ایسے مدلسین کی روایات قبول ہوتی ہے اگر وہ ثقہ راوی سے روایت کریں۔ 

حدیث : 5

حدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلامَ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم:حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ،فَمَا رَأَيْتُ مِنَ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنَ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ وَهَذَا الْحَدِيثُ لاَ نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللهِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الإِسْنَادِ.

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں: اللہ نے دنیا میں فرشتے مقرر کیے ہیں جو مجھ تک میری امت کا سلام لے کر آتے ہیں" اور رسول اللہ نے کہا: میری زندگی تمہارے لیے خیر ہے تم مجھ سے سنتے ہو اور میں تمہیں سناتا ہوں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے تمہارے اعمال مجھ تک لائے جائیں گے اور جب میں ان میں سے اچھے اعمال کو دیکھوں گا تو میں اللہ کی حمد کروں گا اور جب میں ان میں سے برے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا"۔

البزار نے کہا: ہم نہیں جانتے کہ عبداللہ ابن مسعود سے آخری حصہ سوائے اس کے کسی نے نقل کیا ہے۔ (مسند البزار حدیث 1925 شائع کردہ مکتبہ العلوم والحکام)

یہ حدیث بالکل مستند ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ رسول اللہ ہمارے اعمال پر شاہد ہیں اور ہمارے لئے دعا کرتے ہیں،( لہٰذا اس عقیدے کے ساتھ استغاثہ کرنا یہ وسیلہ پکڑنا کہ رسول اللہ ہمارے لیے دعا کریں گے احادیث سے ثابت ہے) ہم راوی "عبدالمجید بن عبدالعزیز" پر غلط الزامات سے نمٹیں گے، مگر پہلے اس حدیث کی توثیق کو دیکھتے ہیں۔
 
توثیق : 1

امام نور الدین الہیثمی نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا:
 
رواه البزار ورجاله رجال الصحيح‏.‏

ترجمہ: اسے البزار نے روایت کیا اور سارے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ (مجمع الزوائد 9/24)

توثیق : 2

وقال الحافظ السيوطي في الخصائص الكبرى ( 2 / 281 ) سنده صحيح

ترجمہ: حافظ سیوطی نے خصائص الکبریٰ میں کہا: اس کی سند صحیح ہے۔(خصاص الکبری 2/281).
 
امام سیوطی نے اس کی سند کی "مناھل الصفاء" میں بھی توثیق کی (صفحہ31 نمبر 8)

توثیق : 3

ایک عظیم محدث اور بڑی شخصیت امام الحافظ العراقی نے کہا: 

وروى أبو بكر البزار في مسنده بإسناد جيد

ترجمہ: ابو بکر البزار نے اسے اپنی مسند میں جید سند کے ساتھ روایت کیا۔ 

(طرح التثریب للعراقی 3/275 شائع کردہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان). 

توثیق : 4

امام ابن جوزی نے بھی اسے اپنی شاندار کتاب وفا باحوال المصطفی میں روایت کیا۔ (صفحہ 826 حدیث نمبر 1564 شائع کردہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

نوٹ: جرح و تعدیل پر سخت ترین عالم امام ابن جوزی نے کتاب کے شروع میں کہا: میں نے اس کتاب میں صحیح احادیث کو باطل احادیث سے نہیں ملایا۔ 

سلفی اس حدیث کا یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں: 

1-  سفیان ثوری مدلس ہیں اور وہ عن سے روایت کر ر ہے ہیں۔ 

2-  عبدالمجید ابن ابی رواد مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔

3-  عبدالمجید جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں۔ 

ہمارا جواب: ان ساری جروحات کا اس حدیث کی توثیق پر کوئی اثر نہیں، کیونکہ اس کی توثیق کئی محدثین نے کی ہے جیسا ہم اوپر دکھا چکے ہیں۔ ہم سفیان ثوری کی تدلیس پر فقہ کے سیکشن، رفع یدین کے باب میں تفصیلاً لکھ چکے ہیں۔ 

ہم سلفیوں سے کہتے ہیں کہ وہ متفق علیہ علماء کو نقل کریں جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہو، یاد رکھئے العراقی نے اپنی بعد میں لکھی گئی کتب طرح التثریب میں اس حدیث کی توثیق کی ہے یہاں تک کہ احیاء علوم الدین الغزالی کی تخریج میں بھی وہ اس کے ضعیف ہونے کی طرف نہیں گئے جبکہ سلفی ان کا غلط حوالہ دیتے ہیں۔ یہ امام عراقی کا مکمل قول ہے:

أخرجه البزار من حديث عبد الله بن مسعود ورجاله رجال الصحيح، إلا أن عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي داود وإن أخرج له مسلم ووثقه ابن معين والنسائي فقد ضعفه كثيرون، ورواه الحارث ابن أبي أسامة في مسنده من حديث أنس بنحوه بإسناد ضعيف.

ترجمہ: البزار نے عبداللہ بن مسعود کی حدیث سے روایت کیا اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں، سوائے عبد المجید بن عبد العزیز بن ابی داود کے۔ امام مسلم نے ان سے روایت کیا ہے جبکہ ابن معین اور امام نسائی نے اسے ثقہ کہا، دوسری طرف کئی نے انہیں ضعیف کہا۔ حارث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں انس کی حدیث کے طور پر روایت کیا اور یہ ضعیف ہے۔ [ نوٹ: انس والی روایت کو حافظ عراقی نے ضعیف کہا ، عبداللہ بن مسعود والی کو نہیں [4/128]۔

اگر ہم دھیان سے پڑھیں تو حافظ عراقی نے انس رضى اللہ عنہ والی حدیث کو ضعیف کہا عبداللہ ابن مسعود رضى اللہ عنہ والی کو نہیں۔ 

ہم پہلے ہی اس کی توثیق کئی محدثین سے دکھا چکے ہیں۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کے ایک محدث کو سفیان کی تدلیس کے بارے میں معلوم نہیں تھا (جبکہ ایسا ہے نہیں، کیونکہ انہیں معلوم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کے ان کی ثقہ راوی سے تدلیس سے روایت پر اثر نہیں ہوتا) تو باقی جن کو معلوم تھا اور وہ ان کی توثیق کرتے ہیں، اس سے کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ اس روایت کی سند اور متن میں کوئی خرابی نہیں۔ 

آگے بڑھنے سے پہلے، ہم اس حدیث پر ایک معتبر شاہد دکھانا چاہیں گے جس کے بعد اس کی توثیق پر کوئی شک باقی نہیں رہے گا۔ 

حدثنا سليمان بن حرب قال: ثنا حماد بن زيد قال: ثناغالب القطان ، عن بكر بن عبد الله المزني ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم، فإذا أنا مت كانت وفاتي خيرا لكم، تعرض علي أعمالكم فإن رأيت خيرا حمدت الله، وإن رأيت غير ذلك استغفرت الله لكم»

ترجمہ: بکر بن عبداللہ المزنی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: میری زندگی تمہارے لیے خیر ہے تم مجھ سے سنتے ہو اور میں تمہیں سناتا ہوں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے تمہارے اعمال مجھ تک لائے جائیں گے اور جب میں ان میں سے اچھے اعمال کو دیکھوں گا تو میں اللہ کی حمد کروں گا اور جب میں اس کے الٹ (ان میں سے برے اعمال) دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا"۔ (فضل الصلاۃ علی النبی اسماعیل بن اسحاق حدیث : 25 البانی کے نسخے میں)

البانی نے اس حدیث کے بارے میں خود کہا: 

اسنادہ مرسل صحیح 

ترجمہ: اس کی سند مرسل صحیح ہے (اوپر دیئے گئے حوالے کے مطابق)

لہٰذا ابن مسعود کی حدیث بالکل مستند ہے اور اس کے مختلف طرق اس بات کے شاہد ہیں۔ سلفیوں کے بڑے عالم زبیر علی زئی نے بھی مانا ہے کہ یہ اصول ہے کہ اگر ضعیف حدیث کا بھی کوئی مستند شاہد مل جائے تو وہ حسن کے درجے پر آ جاتی ہے۔ ثبوت یہ ہے۔

زبیر علی زئی اپنی کتاب نور العینین صفحہ 139 میں کہتے ہیں: 

فائدہ : 3: 

اگر مدلس کی روایت معتبر متابعت سے ثابت ہو جائے تو وہ قوی ہو جاتی ہے۔

ہم ابن مسعود کی حدیث کی معتبر متابعت دکھا چکے ہیں اور اس کو البانی نے بھی مرسل صحیح مانا ہے۔ 

اب یہ نقطہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیا فقط تابعی کی مرسل قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ جمہور محدثین اور فقہاء ثقہ تابعی کی مراسیل کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ان پر جھوٹ کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم مرسل حدیث کی قبولیت پر مکمل باب پیش کرنا چاہیں گے۔

مرسل حجت ہے۔ 

تابعین کی مراسیل کے حجت ہونے کے حوالے سے مضبوط اور بھاری ثبوت یہ ہیں۔ 

محل قبوله عند الحنفية ما إذا كان مرسله من أهل القرون الثلاثة الفاضلة ، فإن كان غيرها فلا ، لحديث : « ثم يفشوا الكذب » صححه النسائي . وقال ابن جرير : أجمع التابعون بأسرهم على قبول المرسل ولم يأت عنهم إنكاره، ولا عن أحد من الأئمة بعدهم إلى         رأس المائتين ، قال ابن عبد البر : كأنه يعني أن الشافعي أول من رده ، وبالغ بعضهم فقواه على المسند ، وقال من أسند فقد أحالك ومن أرسلِ فقد تكفل لك

ترجمہ: امام جلال الدین سیوطی نے کہا: کچھ علماء نے کہا کہ قرون ثلاثہ (پہلی 3 صدیوں) سے جو بھی مرسل حدیث آئے وہ حنفی مکتبہ فکر کے محدثین اور فقہاء کے نذدیک قبول کی جاتی ہے اس کے علاوہ نہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ: پہلی تین صدیوں کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ امام ابن جریر نے کہا: "سارے تابعین کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرسل حدیث قبول کی جاتی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا رد نہیں کیا۔" 200 سال بعد بھی اس کو اماموں (جمہور) نے رد نہیں کیا۔ ابن عبدالبر نے کہا کہ امام شافعی وہ پہلے تھے جنہوں نے مرسل حدیث کو رد کیا جبکہ کئی امام تھے جنہوں نے مرسل کو مسند (مکمل سند والی روایت) سے بہتر مانا۔ انہوں نے یہ اس لیے کہا کیونکہ جب ثقہ راوی ایک مکمل سند روایت کرتا ہے تو وہ اس کی تحقیق ہم پر چھوڑ جاتا ہے، پر اگر وہ اس میں سے کسی کو نکال دے تو وہ خود اس سند کا ضامن ہوتا ہے۔ (تدریب الراوی للسیوطی جلد نمبر 1 صفحہ 198)

تو جب پہلی تین صدیوں میں اجماع ہوگیا جو رسول اللہ کے مطابق بہترین قرون تھے تو بعد میں آنے والوں کا کہنا چاہے ابن صلاح ہوں یا امام مسلم قوی نہیں رہتا۔ یہاں ہم صحیح بخاری کی پہلی تین صدیوں کے بارے میں ایک حدیث دکھانا چاہیں گے: 

قال: سمعتُ عِمرانَ بنَ حُصَين رضي الله عنهما قال:   قال النبي صلى الله عليه وسلّم : «خيرُكم  قَرْني،ثمَّ الذين يَلونَهم ، ثمَّ الذين يَلونَهم ـ قال عمرانُ: لا أدري أذَكَرَ النبي صلى الله عليه وسلّم بعد قرنِه قَرنَين أو ثلاثة ـ قال النبي صلى الله عليه وسلّم : إنَّ بعدَكم قَوماً يَخونون ولا يُؤتَمنون، ويَشْهدون ولا يُسْتَشهَدون، وينذِرون ولا يَفون، ويَظْهَرُ فيهمُ السِّمَن».

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے ........ (صحیح بخاری 3650)

ملا علی قاری نے کہا: یہ وہ تین قرون ہیں جن کے ساتھ رسول اللہ نے ہمیں جڑے رہنے کا کہا۔(شرح نجبۃ الفکر صفحہ 112)

لہٰذا امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا مرسل روایات کو ماننا ثبوت ہے کہ مرسل قبول کی جائے گی۔ یہاں تک کہ ان دو بڑے فقہاء کے آگے امام شافعی کا قول شاذ مانا جائے گا۔ یاد رکھئے کہ امام شافعی نے خود کہا کہ ہم فقہ میں امام ابوحنیفہ کے اعیال ہیں۔

امام ابن صلاح نے بھی مانا کہ حنفی اور مالکی فقہ کے مطابق مرسل قابل قبول ہوتی ہے۔ 

والاحتجاج به من مذهب مالك وأبي حنيفة وأصحابهما

ترجمہ: امام مالک، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کے مذہب میں مراسیل کو حجت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ (مقدمہ ابن صلاح مرسل روایات کے باب میں)

 علامہ سندھی نے کہا: ابن حجر کے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مالک ، حنفی مکتبہ فکر کے فقہاء اور امام احمد کا ایک قول ہے کہ "مرسل حدیث قبول کی جاتی ہے"۔ (اعلام القرآن الحاوی العشر۔ صفحہ 102)

ہم صرف ابن مسعود کی حدیث کی تصحیح کرنے کے لئے مرسل کی تفصیل میں گئے، جبکہ وہ خود مرفوع متصل ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے۔ 

حدیث : 6

 اب ہم امام دارمی کے مقرر کردہ باب کے عنوان کے ساتھ مکمل حدیث دیکھتے ہیں:

باب ما أكرم الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم بعد موته حدّثنا أبو النُعمانِ حدثنا سعيدُ بنُ زيدٍ ، حدثنا عَمْرُو بنُ مالكٍ النكريُّ ، حدثنا أبو الجوزاء أوسُ بنُ عبدِ اللّهِ قال: قحطَ أهل المدينة قَحْطاً شديداً، فشَكَوْا إلى عائشةَ فقالَتْ : انظُروا قبرَ النبيِّ صلى الله عليه وسلّم فاجعلُوا منه كواً إلى السماءِ، حتى لا يكون بَيْنَهُ وبينَ السماءِ سقْفٌ، قال: فَفَعَلُوا فمطِرْنا مطراً حتى نَبَتَ العشبُ، وسَمِنَتِ الإبِلُ حتى تَفَتَّقَتْ من الشحمِ، فسُمِّيَ عامَ الفتقِ

باب: "رسول اللہ (ﷺ) کی وفات کے بعد ان پر اللہ کا کرم"

حدیث 93: 

اہل مدینہ قحط کی شدید گرفت میں تھے اور انہوں نے اس کے بارے میں عائشہ رضى اللہ عنہا سے شکایت کی۔ عائشہ رضى اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ رسول اللہ علیہ السلام کی قبر پر جاؤ اور آسمان کی طرف ایک کھڑکی کھول دو تاکہ آسمان اور قبر میں کوئی پردہ باقی نہ رہے۔ راوی نے کہا انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر بارش ہونے لگی اتنی تیز کہ سبز و شاداب گھاس اگ گئی اور اونٹ صحت مند اور موٹے ہونے لگے کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ چربی زیادہ ہونے کی وجہ سے پھٹ پڑیں گے۔ تو اس سال کو صحت مند کا نام دے دیا گیا۔ (سنن دارمی 1/90 نمبر93)

امام ابن جوزی نے الوفا باحوال المصطفی (صفحہ818- 817)

امام سبکی نے شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام (صفحہ 128)

امام قسطلانی نے المواہب اللدنیہ اور زرقانی نے اپنی شرح میں (11:150)

اتنا خوبصورت باب باندھنے پر اللہ امام دارمی پر رحم کرے۔ سلفی ویب سائٹ islamqa کے صالح منجد نے، اس حدیث کو غلط طریقے سے ضعیف کہنے کے دوران  یہ قبول کیا کہ رسول اللہ کی ذات سے توسل جائز ہے۔

 اس نے کہا : یہ ان کے پاکیزہ جسم اور اللہ کے ہاں ان کے مقام کی برکت اور رحمت ہے" 

(islamqa.info/en/103585)

سلفی عالم اپنے قول میں رسول اللہ کی ذات کے ذریعے توسل کو قبول کر رہا ہے۔ 

واپس حدیث کی طرف آتے ہیں۔ اگر ایماندار لوگ صبر و استقامت سے اس جواب کو پڑھیں گے تو وہ یہ ضرور سمجھ جائیں گے کہ یہ اثر بالکل صحیح ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
 
آئیے اس روایت کے عظیم راوی سعید بن زید کی تعدیل کو تفصیل سے دیکھتے ہیں: 

البانی نے سعید بن زید کو ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی مگر وہ بھول گیا کہ امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے سعید بن زید کی تعریف کی ہے ، اور امام بخاری نے تو ان سے روایت بھی لی ہے، امام بخاری نے کہا: 

قال مسلم حدثنا سعيد بن زيد أبو الحسن صدوق حافظ

ترجمہ: مسلم بن ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ سعید بن زید ابو الحسن صدوق حافظ ہے۔ (تاریخ الکبیر بخاری جلد 3 صفحہ 472 دار الکتب العلمیہ)

باقی کافی محدثین نے اس راوی کے بارے میں یہ کہا: 

قال عبد الله بنُ أحمد بن حَنْبَل ،عن أبيهِ: ليس به بأس وقال عَبّاس الدّوري ، عن يحيـى بن معين: ثقة وقال ابن سعد: رُوي عنه، وكان ثقة، وقال العجلي : بصري ثقة وقال أبو زرعة: سمعت سليمان بن حرب، يقول: ثنا سعيد بن زيد وكان ثقة. وقال أبو جعفر الدارمي: ثنا حبان بن هلال، ثنا سعيد بن زيد وكان حافظاً صدوقاً۔

ترجمہ: عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے روایت کیا جنہوں نے کہا: اس میں کوئی خرابی نہیں۔ عباس الدوری نے یحییٰ بن معین سے روایت کیا جس نے کہا وہ ثقہ ہے۔ ابن سعد نے کہا: ثقہ ابو زرع نے کہا: میں نے سلیمان ابن حرب کو کہتے ہوئے سنا کہ سعید بن زید نے ہم سے روایت کیا اور وہ ثقہ ہے۔ ابو جعفر الدارمی نے کہا: حبان ابن حلال نے ہم سے روایت کیا: سعید ابن زید نے ہم سے روایت کیا اور وہ حافظ الحدیث اور صدوق تھا۔  (ابن حجر تہذیب التہذیب 2/366)

ابن حجر عسقلانی نے اس کے بارے میں خود کہا:
الحافظ أخو حَمَّادٍ

ترجمہ: وہ حافظ ہے اور حماد کا بھائی ہے۔ (لسان المیزان 7/235)

ہم یہ جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا کے مقابلے کچھ چھوٹے محدثین نے ان پر جرح کی ہے، البتہ امام بخاری ،امام مسلم اور کئی دیگر کی توثیق کے باعث اس راوی پر سے الزام رفع ہو جاتا ہے، چاہے وہ منفرد روایت بھی کرے۔

اس کے علاوہ اور کئی احادیث ہیں جو وسیلے کو ثابت کرتی ہیں مگر کتاب کو مختصر رکھنے کے باعث ان کو یہاں نقل نہیں کیا گیا۔ وہ احادیث اہل سنت علماء نے قبول کی ہیں مثال کے طور پر: 

1. آدم علیہ السلام کی رسول اللہ (ﷺ) سے توسل والی حدیث ، جو دو اسناد سے مروی ہے کہ ایک عمر سے اور دوسری میسرا الفجر سے۔ان احادیث کو امام قسطلانی نے صحیح مانا۔(شرح المواہب12/220تا222)

محمد ابن یوسف صالحی، انہوں نے میسرا والی سند کو قوی کہا اور کہا اس میں کوئی خرابی نہیں۔ (سبل الہدی الارشادجلد 1 صفحہ 86)

قاضی عیاض نے اسے "صحیح اور مشہور روایات" کے باب میں ذکر کیا۔ (الباب الثالث فيماورد من صحيح الأخبار و مشهورها)۔ 

ابن جوزی نے المیسرا والی حدیث کو مستند مانا۔ (الوفا باحوال المصطفی باب نمبر 1)

کتاب کے مقدمے میں وہ کہتے ہیں: میں نے صحیح احادیث کو باطل احادیث سے نہیں ملایا۔

 اسی کتاب میں بعد میں ابن جوزی "اس باب جس میں رسول اللہ کی باقی انبیاء پر فضیلت کا ذکر ہے میں کہتے ہیں: رسول اللہ کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آدم علیہ السلام نے رسول اللہ کی حرمت کے وسیلہ سے اللہ سے توبہ کی، جیسا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔"(الوفاء صفحہ 365)

یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے کہا: یہ دو ان صحیح احادیث (اسی موضوع کے بارے میں) کی تفسیر کی مانند ہیں۔ (فتاویٰ 2:150)

نوٹ کیجیے: سلفی کہتے ہیں کہ آدم اور حوا کی دعا قرآن میں موجود ہیں یعنی انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے (7:23) ، اور صرف یہ دعا انہوں نے کی۔ البتہ آدم (واحد) کے وسیلے کا واقعہ قرآن (2:37) میں الگ سے موجود ہے جس کے بارے میں قاضی عیاض نے کہا: "یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اس آیت کی وضاحت کرتی ہے: آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (2:37)

2.  فاطمہ بنت اسد رضى اللہ عنہا والی حدیث جس میں رسول اللہ نے کہا: " اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کو معاف فرما اور ان کا سوالات کے صحیح جواب دینے میں مدد فرما اور اپنے نبی اور سابقہ انبیاء کی وسیلے سے ان کی قبر کو کشادہ فرما"(معجم الاوسط للطبرانی جلد 1 صفحہ67/1تا68 حدیث 189) اور دیگر کئی۔ 

سلفی اس حدیث کے ایک راوی روح بن صلاح پر جرح کرتے ہیں۔ جبکہ ان کو ابن حبان نے ثقہ کہا  اور امام حاکم نے ثقہ مامون کہا، یہ تعدیل جرح مبہم پر مقدم ہو جاتی ہے۔ 

البتہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سلفی یہ حدیث نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وسیلہ رسول اللہ کی زندگی تک جائز تھا مگر اس کے بعد صحابہ نے اس کو ترک کردیا۔
 
حدثنا الحسن بن محمد قال: حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري قال: حدثني أبي ، عبد الله بن المثنى، عن   ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن أنس: أن عمر بن   الخطاب رضي الله عنه: كان إذا قحطوا استسقى 
بالعباس بن عبد المطلب. فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال فيسقون.

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی۔ (صحیح بخاری 1010)

ہم نے سلفی محسن خان کا ترجمہ استعمال نہیں کیا، کیونکہ اس نے اس حدیث کا غلط ترجمہ کیا اور لفظ وسیلہ کو حذف کردیا، حالانکہ یہ لفظ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ 

سلفی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ کی وفات کے بعد ان کا وسیلہ ترک کر دیا تھا اور صرف زندہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے (وسیلہ کے لیے)

  اہل سنت کے مطابق یہ حدیث وسیلہ کو ثابت کرتی ہے صرف رسول اللہ سے ہی نہیں بلکہ باقی نیک صالح لوگوں سے بھی۔ اس میں رسول اللہ سے وسیلے کا کوئی رد موجود نہیں۔ اس سلسلے میں ہم صحیح مسلم کی حدیث ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہیں گے۔ 

حَدَّثَنَا  زُهَيْرُ  بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ حَدَّثَنَا   عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، - وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ - عَنْ  سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ   ‏ "‏ إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ 

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تابعین میں ایک بہترین شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں ، اس کی ایک ماں ہے ( یعنی رشتہ داروں میں سے صرف ماں زندہ ہو گی ) اور اس کو ایک سفیدی ہو گی ۔ تم اس سے کہنا کہ تمہارے لئے دعا کرے ۔ (صحیح مسلم 6491)

اس حدیث کے سلسلے میں معترضین وہی منطق استعمال کریں اور کہیں کہ رسول اللہ نے صحابہ کو یہ سکھایا کہ ان کا اور صحابہ کا وسیلہ ترک کر دو جو اویس قرنی سے مقام میں افضل ہیں ، جو صحابی نہیں تھے بلکہ تابعی رسول اللہ ﷺتھے ۔ 

اتنے بڑے صحابہ جیسے ابوبکر ،عمر عثمان ، علی کی موجودگی میں اویس سے دعا کرنے کا کیوں کہا گیا؟ کیا اللہ ان ہستیوں کے علاوہ کسی اور کی زیادہ سنتا تھا؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اس حدیث سے جو نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مفضول سے بھی وسیلہ شریعت میں جائز ہے۔ یعنی انبیاء اور دیگر صالحین سے وسیلہ اللہ قبول کرتا ہے۔ 
آخر میں ہم سلفی مکتبہ فکر کے بڑے عالم قاضی شوکانی کا ایک قول نقل کرنا چاہیں گے: ہم تفصیل سے بیان کریں گے کہ کہ قاضی شوکانی نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ والی اور دیگر وسیلہ والی احادیث کو کیسے سمجھا۔ 

قوله ويتوسل إلى الله  سبحانه بأنبيائه والصالحين  أقول ومن التوسل بالأنبياء ما أخرجه الترمذي وقال حسن صحيح   غريب والنسائي وابن ماجة وابن  خزيمة  في صحيحه والحاكم وقال صحيح على شرط البخاري ومسلم من حديث عثمان بن حنيف رضي الله عنه أن أعمى أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ادع الله أن يكشف لي عن بصري قال أو أدعك فقال يا رسول الله أني قد شق علي ذهاب بصري قال فانطلق فتوضأ فصل ركعتين ثم قل اللهم أني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة الحديث وسيأتي هذا الحديث في هذا الكتاب عند ذكر صلاة الحاجة وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في الصحيح أن الصحابة استسقوابالعباس رضي الله عنه عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال عمر رضي الله عنه اللهم إنا نتوسل إليك بعم نبينا

ترجمہ: قاضی شوکانی امام ابن جزری کے قول " آدمی کو رسول اللہ اور صالحین کے وسیلے سے اللہ سے التجاء کرنی چاہیے" کی وضاحت کرتے ہیں: میں کہتا ہوں کے اللہ سے رسول اللہ اور صالحین کے وسیلے سے مانگنا (جائز ہے) جیسے ترمذی نے روایت کیا جسے انہوں نے حسن صحیح غریب کہا، امام نسائی نے، ابن ماجہ نے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں، حاکم نے جس نے کہا بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح، عثمان بن حنیف کی حدیث: ایک نابینا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے۔ (صلوۃ الحاجت کے باب میں) ، اور صالحین سے توسل کے حوالے سے صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ صحابہ عباس بن عبدالمطلب جو رسول اللہ کے چچا تھے کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے تھے۔ عمر رضى اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ ہم تیری طرف توجہ کرتے ہیں تیرے رسول کے چچا کے وسیلے سے۔ (تحفۃ الذاکرین صفحہ 48)

قاضی شوكانى نے یہ بھی کہا: 

وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الله عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل هو الله سبحانه وتعالى وأنه المعطي المانع ما شاء كان وما يشأ لم يكن

ترجمہ: اس حدیث میں اللہ کی طرف رسول اللہ کو وسیلہ تلاش کرنے کی اجازت کا ثبوت ہے۔ مگر اس عقیدے کے ساتھ کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے جو عطا کرتا ہے اور لے لیتا ہے، جو وہ چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔(تحفۃ الذاکرین صفحہ 138)

سلفیوں کے ایک اور بڑے عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے ابن الجزری کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:

 آدمی کو اللہ کی طرف انبیاء کا وسیلہ تلاش کرنا چاہیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک انبیاء کا توسل اس کا ثبوت ترمذی میں عثمان بن حنیف کی حدیث ہے، ایک نابینا شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا: (پھر بھوپالی صاحب حدیث نقل کرتے ہیں جو پہلے اسی باب میں دکھائی جا چکی ہے)۔ 

(پھر بھوپالی صاحب نے کہا): اور صالحین سے توسل کے سلسلے میں ، صحیح سے ثبوت ملتا ہے جس میں صحابہ نے عباس ابن المطلب ، رسول اللہ کے چچا کے ذریعے سے استسقاء کیا۔ عمر رضى اللہ عنہ نے کہا: اللہ ہم اب رسول اللہ کے چچا کے وسیلے سے تیرے سے التجاء کرتے ہیں۔ 

(بھوپالی صاحب نے پھر اپنے وقت کے سلفیوں کا رد کیا اور کہا): انبیاء اور صالحین سے توسل کے معاملے کو اہل علم نے اس حد تک شدید متنازعہ بنا دیا کہ "کچھ لوگوں نے دوسروں کی تکفیر کرنا شروع کر دی اور کچھ ایک دوسرے کو بدعتی اور گمراہ کہنے لگے" حالانکہ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں تھا اور نہ ہی اس میں اتنا تنازع تھا۔ کتاب " الدین الخالص" کے مصنف اور علامہ شوکانی نے اپنی کتاب " در النضید فی اخلاص التوحید" میں اس حوالے سے تحقیق مکمل کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان (انبیاء و صالحین) کے ذریعے توسل جائز ہے۔ اور کچھ روایات کے مطابق قصر (نبی تک محدود) کرنا چاہیے اور کسی اور کو اس پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، اور کوئی اضافہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ " ہمیں کوئی شک نہیں کہ کوئی جو توسل کو اللہ کے ساتھ خاص نہیں مانتا اس پر کوئی الزام نہیں" اور جو کوئی اس کے برعکس مانے اس پر بھی کوئی الزام نہیں کیونکہ اس نے وہ کیا جو جائز تھا۔ اسی طرح اچھے اعمال کا بھی وسیلہ اختیار کیا جاسکتا ہے جیسے ہم نے اس کی طرف پہلے اشارہ کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ، یہ معاملہ ایسا بھی نہیں کہ جس میں تزلزل (ایک دوسرے کو زد و کوب کرنا) سے کام لیا جائے۔ مگر جاہلیت، تعصب اور تقلید کا کوئی علاج نہیں، اور یہ اتنا زیادہ ہے کے ذکر نہیں کیا جاسکتا۔ (نزول الابرار صفحہ 38- 37 دار المعرفۃ کے نسخے میں، اور صفحہ 76- 75 دار ابن حزم کے نسخے میں)

عمر اور عباس ابن عبد المطلب والی حدیث کو اتنے بڑے سلفی عالم نے بھی اس طرح سمجھا، یوں نہیں کہ وہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ کا وسیلہ منسوخ ہوچکا ہے۔ ہم اور کئی علماء کو پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے وسیلے کا تصور مانا۔ 

مفاہمت: سنی اور شیعہ توسل کو قبول کرتے ہیں جیسا کہ قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔ سلفی بڑے عالم جیسے قاضی شوکانی، مبارکپوری، نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی توسل کو قبول کیا۔
 
صحابہ نے تو رسول اللہ کا مبارک جبہ بھی علاج کے لیے استعمال کیا ، تو ان کی مبارک ذات تو بہت بلند ہے، جسے انہوں نے اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا جیسا کہ آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ اللہ کی نظر میں انبیاء اور صالحین کا جاہ ( شان و شوکت) ایک جیسا رہتا ہے اور وہ زندگی یا موت سے بدلتا نہیں۔ 

قرآن کہتا ہے کہ:
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا

ترجمہ: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا ، اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورۃ احزاب:69)

 اگر سلفی کہیں کہ انبیاء کے جاہ سے وسیلہ اختیار نہیں کیا جاسکتا تو وہ اس آیت کا رد کر رہے ہیں اور یہ دعوی کر رہے ہیں کہ موسی اور دیگر انبیاء صرف اس وقت تک "اللہ کی نظر میں مکرم تھے جب تک وہ زندہ تھے." ہم اہل سنت کے مطابق انبیاء اور صالحین کا جاہ (شان و شوکت) اللہ کی نظر میں ہمیشہ رہتی ہے۔ 

قرآن کہتا ہے: 

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ

ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذِی عّزت ہے اور وہ میرے مُقّربِین میں سے ہے۔  (مولانا محمد جوناگڑھی ،آل عمران:45)

تمام انبیاء اور صالحین کے جاہ و جلال اللہ کی نگاہ میں ہمیشہ ایک جیسا بر قرار رہتا ہے۔ اگر وسیلہ شرک یا بدعت ہوتا تو وہ شرک اور بدعت ہی رہتا چاہے زندگی میں ہو یا آخرت میں۔ سلفیوں کے پاس شرک اور توحید کا بے ہودہ اور عجیب فہم ہے جو ان کو غلط نظریات رکھنے پر مجبور کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے مسلمانوں پر فتوے لگاتے ہیں۔ 

تمام مکاتب فکر یعنی حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی وسیلہ کو قبول کرتے ہیں۔ 

امام ابن عابدین شامی الحنفی اپنے بہترین حاشیہ علی درالمختار میں لکھتے ہیں: 

قال السبكي يحسن التوسل بالنبي إلى ربه ولم ينكره أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تيمية فابتدع ما لم يقله عالم قبله 

ترجمہ: امام سبکی نے کہا: رسول اللہ کا وسیلہ اختیار کرنا مستحب ہے، سلف و خلف میں سے کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا سوائے ابن تیمیہ ، اس نے وہ بدعت اختیار کی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ (حاشیہ ردالمختار جلد 5 صفحہ 254 شائع کردہ دار الاحیاء بیروت لبنان ، اور جلد 6 صفحہ 397 شائع کردہ دارالفکر بیروت) 

امام نووی جو بڑے شافعی فقیہ ہیں جن پر تمام اہل سنت ان کے بہترین کاموں کی وجہ سے متفق ہیں، جیسے ریاض الصالحین ،شرح صحیح مسلم ، اربعین النووی ، شرح المهذب اور دیگر کئی۔
 
وہ لکھتے ہیں:

ثم يرجع إلى موقفه الاول قبالة وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ويتوسل به في حق نفسه ويستشفع به إلى ربه سبحانه وتعالى

ترجمہ: (حاجی) کو چاہیے کہ رسول اللہ کے چہرے کی طرف (قبالة وجه رسول الله) ہو لے اور انہیں اپنا وسیلہ (ويتوسل بہ) بنا لے، اور ان کی شفاعت طلب کرے اللہ تک پہنچنے کے لیے (ويستشفع به إلى ربه )(شیخ الاسلام یحییٰ بن
(شرف النووی المجموع میں جلد 8 صفحہ 274)


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں