Sima al-Mawta and Hayat al Anbiya i.e. hearing of the dead, and life of Prophets

سماع الموتیٰ اور حیات الانبیاء

Article Bottom

سماع الموتیٰ اور حیات الانبیاء

 استغاثہ، وسیلے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔اگر انبیاء اور اولیاء کو بھی پکارا جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے ہمارے لیے دعا کریں۔ لہٰذا اصل میں کرنے والا اور مدد پہنچانے والا اور قادر صرف اور صرف اللہ ہے۔

اب یہ ضروری ہے کے وسیلے کے تصور کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔ وسیلے کے بارے آرٹیکل اِدھر دیکھیں: 


اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں اہل سنت کے دو اصولوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ 

1-  سماع الموتیٰ یعنی مردوں کا سننا۔

2- حیات الانبیاء یعنی قبور میں انبیاء کی زندگی۔ 

قرآن کہتا ہے: 

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ، لیکن تم نہیں سمجھتے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی بقرہ:154)

سلفی آیت کے آخری دو الفاظ پر شک قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی:
 
لَّا تَشْعُرُونَ

 تو حیات کو بیان کرنا ضروری ہے خاص طور پر انبیاء کی۔ عقلی طور پر کہیں تو ہمیں فرشتے نظر نہیں آتے مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ موجود نہیں؟ لہٰذا اگر ہمیں کسی چیز کا شعور نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو رد کر دیا جائے۔
 
بہت ساری احادیث اور نبی علیہ السلام کے فرمان سے ہمیں انبیاء کی قبور میں شاندار اور قطعی حیات کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ آئیے اب ہم اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی تفسیر کی طرف چلتے ہیں کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے بہتر سنتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہمارے لیے دعا کرتے ہیں جب ان سے دعا کرنے کا کہا جائے ( اور استغاثہ کے بارے میں ہمارا صرف یہی عقیدہ ہے۔ انبیاء اور صالحین سے عبادت والی دعا نہیں کی جاتی نہ ہی یہ مانا جاتا ہے کہ وہ خود قادر ہیں، جیسے سلفی ہمارے خلاف پروپگنڈا کرتے ہیں۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ لفظ دعا قرآن میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تو نبی کو ندا کے طور پر پکارنا شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہ عبادت کے تصور سے نہ ہو۔ ہم پہلے ہی قرآن سے اس بارے میں دلائل و ثبوت دکھا چکے ہیں۔
 
صحیح حدیث میں اللہ اسی لفظ کو جبرائیل کو بلانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو کیا سلفی اپنی غلط سوچ کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ لفظ دعا صرف عبادت کے طور پر ہی وہاں استعمال ہوا ہے؟ (نعوذباللہ)

الفاظ یوں ہیں: 

إن الله تعالى إذا أحب عبدًا دعا جبريل

ترجمہ: جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ جبرائیل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح مسلم 6705)

لہٰذا سلفیوں کو لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرنا چھوڑ دینا چاہئے کہ اہل سنت انبیاء اور اولیاء سے عبادت کے طور پر دعا کرتے ہیں۔

مردوں کے سننے کے موضوع پر قرآن کہتا ہے: 

اس وقت ( صالح علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم ! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی الاعراف:79) 

ابن کثیر اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: 

هذا تقريع من صالح عليه السلام لقومه، لما أهلكهم الله بمخالفتهم إياه وتمردهم على الله وإبائهم عن قبول الحق وإعراضهم عن الهدى إلى العمى، قال لهم صالح ذلك بعد هلاكهم، .تقريعاً وتوبيخاً وهم يسمعون ذلك، كما ثبت في الصحيحين أن رسول الله صلى الله عليه وسلّم لما ظهر على أهل بدر أقام هناك ثلاثاً، ثم أمر براحلته فشدت بعد ثلاث من آخر الليل فركبها ثم سار حتى وقف على القليب قليب بدر، فجعل يقول «يا أبا جهل بن هشام ياعتبة بن ربيعة ياشيبة بن ربيعة ويا فلان هل بن فلان هل وجدتم ما وعد ربكم حقاً، فإني وجدت ما وعدني ربي حقاً» فقال له عمر: يارسول الله ما تكلم من أقوام قد جيفوا ؟ فقال «والذي نفسي بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم ولكن لا يجيبون

ترجمہ:یہ سرزنش کے الفاظ تھے جو صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہے "جب اللہ نے انکو تباہ کر دیا تھا"ان کو رد کرنے اور ان کے خلاف مرتد ہونے کے جرم میں، حق کو ماننے سے انکار کرنے اور ہدایت کے اوپر گمراہی کو مقدم رکھنے کی وجہ سے۔ صالح علیہ السلام نے ان کو سرزنش کے الفاظ کہے اور ان پر نقد کیا جب وہ برباد ہو چکے تھے۔ "اور انہوں نے ان کو سنا" اسی طرح صحیحین میں یہ بات نقل ہوئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو شکست دے دی تھی جنگ بدر میں وہ اس علاقے میں تین دن تک رہے اور پھر اپنے اونٹ پر سوار ہوئے، جو ان کے لیے رات کے آخری پہر میں تیار کی گئی تھی۔ وہ چلے اور پھر بدر کے کنویں کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہوگئے جہاں کفار کی لاشیں گرائی جارہی تھی اور کہا: اے ابوجہل ابن ہشام اے عتبہ ابن ربیعہ کے شعبہ ابن ربیعہ ، کیا تم نے اس کو سچ پا لیا جس کا تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ کیونکہ میں نے وہ پا لیا جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا ( فتح کا)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:"اے اللہ کے نبی علیہ السلام آپ کیوں ان لوگوں سے بولتے ہیں جو نیست و نابود ہو چکے؟" انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو میں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ بہتر نہیںسنتے مگر وہ جواب نہیں دے سکتے۔(تفسیر ابن کثیر الاعراف # 79 کے تحت)

تفسیر ابن کثیر قرآن الروم:52 کے تحت تفصیل میں جاتی ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کی بھی تردید کرتی ہے اور ابن عمر اور باقی اصحاب کی جیسے عمر، ابو طلحہ کے موقف کو صحیح کہتی ہے۔

سیدہ عائشہ اپنی شان کے باوجود معصوم نہ ہونے پر ان روایات کے پیش نظر ابن عمر کو اس معاملے (مردوں کا سننا) میں غلط کہہ بیٹھیں۔ ہم اب ابن کثیر کی تفسیرکو نقل کریں گے جب وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے انکار کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: 

والصحيح عند العلماء رواية عبد الله بن عمر؛ لما لها من الشواهد على صحتها من وجوه كثيرة

ترجمہ: علماء کے نزدیک صحیح نظریہ کثرت شواہد کی وجہ سے عبداللہ ابن عمر کا ہے۔ (الشواهد على صحتها من وجوه كثيرة)۔ (تفسیر حافظ ابن کثیر 30:52 کے تحت)

دار الطیبی اور دار إحياء التراث العربی کے نسخوں میں مزید ہے کہ: 

من أشهر ذلك ما رواه ابن عبد البر مصححاً له عن ابن عباس مرفوعاً: " ما من أحد يمر بقبر أخيه المسلم كان يعرفه في الدنيا، فيسلم عليه، إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام ". وثبت عنه صلى الله عليه وسلم لأمته إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا هذا الخطاب،لكانوا بمنزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا، وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف بزيارة الحي له

ترجمہ: ان میں سے سب سے مشہور وہ ہے جوعلامہ ابن عبد البر نے ابن عباس سے مرفوعاً اور صحیح طور پر روایت کیا جنہوں نے کہا:" کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر کے پاس سے نہیں گزرتا جسے وہ دنیا 
میں جانتا تھا کہ جب وہ اسے سلام کرتا ہے تو اللہ اس کی روح اسے لوٹا دیتا ہے اور وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔ نبی کریم علیہ السلام کی طرف سے یہ بات قائم ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو تاکید کی کہ جب وہ قبروں کے باسیوں کو سلام کریں تو ایسے کریں کہ جیسے کسی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو سلام کرتا ہے وہ کہتا ہے: ’’سلام ہو تم پر ، اے مومنوں کے گروہ کے ٹھکانے" اور ایسے صرف اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے جو سن سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے (وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل). اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ مخاطب کرنا ایسا ہوتا جیسے کسی بے جان شے یا غیر موجود شخص کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس بات پر سلف کا اجماع ہے جیسا کہ ان سے روایات موصول ہوتی ہیں کہ مردوں کو ان کی قبر پر آنے والوں کا علم ہوتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں یہ تواتر سے ثابت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر الروم:52 کے تحت)

سلفیوں کے بڑے عالم ابن قیم نے ایک حدیث کی شرح میں کہا: 

ترجمہ: ان لوگوں کے لئے جو مردوں کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں، لفظ "زائر" استعمال کرنا کافی ہے، کیوںکہ اگر ان کو (مردوں کو) فہم نہ ہوتا تو لفظ زائر استعمال کرنا کیوں کر صحیح ہوتا ؟ اور اگر اس کو نہ معلوم ہوتا کہ اس کے لیے کون آیا ہے تو لفظ 'زائر استعمال کرنا صحیح نہ ہوتا۔(کتاب الروح ابن قیم صفحہ 14)

اس کے علاوہ بخاری اور مسلم کی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ مردے ہمیں ہم سے بھی بہتر سنتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

 نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔(صحیح بخاری 1338). 

جب ( بدر کے ) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟“ موسیٰ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا ، مگر وہ جواب نہیں دے سکتے۔ (صحیح بخاری :1379)

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا ۔ پھر آپ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکارکر فرمایا : اے ابوجہل بن ہشام !اے امیہ بن خلف !اے عتبہ بن ربیعہ !اےشیبہ بن ربیعہ !کیاتم نے وہ وعدہ سچانہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟میں نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایاہے ۔ جو اس نے میرے ساتھ کیاتھا! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنا تو عرض کی ۔ اللہ کے رسول اللہ !یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے ۔ جبکہ وہ تولاشیں بن چکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو ۔ لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹا گیا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا ۔ (صحیح مسلم :7223)

حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان میں آئے اور فرمایا : ’’اے ایمان والی قوم کے گھرانے ! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ، میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو ( بھی ) دیکھا ہوتا ..... (صحیح مسلم 584)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سلام انہیں کیا جاتا ہے جو ہمیں سنتے ہیں اور رسول اللہ نے بھی ان سے بات کی۔ 

ایک طویل حدیث ہے جس میں صحابی اختتام میں کہتے ہیں: 

  جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر ( دعا کرتے ہوئے ) ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے ( اپنی نئی منزل کے ساتھ ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوںکو کیا جواب دیتا ہوں ۔ (صحیح مسلم 321). 

یہ حدیث واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ اہل قبور صرف ہمیں سنتے ہی نہیں بلکہ ہماری موجودگی سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام اللہ کی مخلوق سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بیہوش ہو جائیں۔ (صحیح بخاری :1380)

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ مردے بولتے بھی ہیں مگر ہمیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ 

یہ حدیث بنا کسی شک کے ثابت کرتی ہے کہ مردے ہمیں سنتے ہیں اور ہماری موجودگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

آئیے اب ایک روایت کو دیکھتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء صرف ہمیں سنتے ہی نہیں بلکہ ہمیں قبر کے اندر سے جواب بھی دیتے ہیں۔ 

أخبرنا مروانُ بنُ محمدٍ عن سعيدِ بن عبدِالعزيزِ ،، قال: لما كانَ أيام الحرةِ، لم يؤدَّنْ في مسجدِ النبيِّ صلى الله عليه وسلّم ثلاثاً ولم يُقَمْ ولم يبرحْ سعيدُ بن المسيِّبِ من المسجِدِ، وكان لا يعرفُ وقتَ الصلاةِ إلاَّ بهمهمةٍ يَسْمَعُها من قبرِ النبيِّ صلى الله عليه وسلّم فذكَرَ معناهُ.

ترجمہ: سعید بن عبدالعزیز روایت کرتے ہیں کہ واقع حرہ کے دنوں میں مسجد نبوی سے تین دن تک نہ اذان دی گئی نہ کا اقامت۔ سعید ابن مسیب مسجد میں ہی رہے " ان کو نماز کے اوقات کا تب معلوم ہوتا تھا جب قبر رسول سے ہلکی سی آواز آتی تھی" (سنن دارمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 44 حدیث نمبر 94، شائع کردہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان ، مشکاۃ المصابیح میں کرامات کے بعد میں میں حدیث نمبر 5951)

امام جلال الدین السیوطی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: 

فهذه الأخبار دالة على حياة النبي صلى الله عليه وسلّم وسائر الأنبياء

ترجمہ: یہ روایت ان روایات میں سے ہے جو رسول اللہ اور دیگر تمام انبیاء کی حیات پر دلالت کرتی ہیں (الحاوی للفتاوی 2/266 شائع کردہ مکتبہ العشریہ)

یہ اگلی روایت نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے جس میں وہ رسول اللہﷺ کی قبر پر تشریف لائیں گے ان سے مخاطب ہوں گے اور رسول اللہﷺ انہیں جواب دیں گے۔ 

حدثنا أحمد بن عيسى حدثنا ابن وهب عن أبي صخر أن سعيدا المقبري أخبره أنه سمع أبا ه ريرة يقول : سمعت رسول الله ـ صلى الله عليه و سلم ـ يقول والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى بن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين وليذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال   فلا   يقبله ثم لئن قام على قبري فقال: يا 
محمد لأجيبنه

 إسناده صحيح 

ترجمہ: رسول اللہ نے کہا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابو القاسم کی جان ہے۔ " عیسی ابن مریم ایک عادل اور (عقلمند) حکمران کی طرح نزول فرمائیں گے" وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، سور کو قتل کر دیں گے اور اختلافات اور بد گمانیوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ ان کو مال پیش کیا جائے گا مگر وہ نہیں لیں گے۔ پھر وہ میری قبر کے سرہانے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے "اے محمد" اور میں انہیں جواب دوں گا۔( ابو یعلی نے اسے اپنی مسند میں صحیح سند سے نقل کیا جلد کا نمبر 11 صفحہ 462 حدیث نمبر: 6584)

سلفی عالم حسین سلیم اسد نے اپنی مسند ابو یعلیٰ کی تحقیق میں اس کی سند کو صحیح کہا۔ (اوپر دیئے گئے حوالے کے مطابق). 

امام نور الدین الہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

رواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح

ترجمہ: اسے ابو یعلی نے روایت کیا اور اس کے سارے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ (مجمع الزوائد جلد نمبر 8, صفحہ 387 حدیث : 13813) 

قارئین کرام کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اتنی زیادہ مرفوع احادیث کے ہوتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موقوف حدیث قبول نہیں کی جا سکتی۔

اور یہ سادہ سا اصول حدیث ہے جو ہر جوان اور بزرگ کو معلوم ہونا چاہیے۔
 
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ثابت کیا ہے
رواية يونس بن بكير بإسناد جيد عن عائشة مثل حديث أبي طلحة وفيه: «ما أنتم بأسمع لما أقول منهم» وأخرجه أحمد بإسناد حسن، فإن كان محفوظاً فكأنها رجعت عن الإِنكار لما ثبت عندها من رواية هؤلاء الصحابة لكونها لم تشهد القصة، قال الإِسماعيلي: كان عند عائشة من الفهم والذكاء وكثرة الرواية والغوص على غوامض العلم ما لا مزيد عليه، لكن لا سبيل إلى رد رواية الثقة إلا بنص مثله يدل على نسخه أو تخصيصه أو استحالته

ترجمہ: یونس بن بکیر نے عائشہ سے ابو طلحہ کی حدیث کے جیسی حدیث قوی سند کے ساتھ نقل کی جس میں الفاظ ہیں: تم میرے کہنے کو ان (مردہ) سے زیادہ نہیں سنتے۔ اسے امام احمد نے حسن سند کے ساتھ نقل کیا۔"اور اگر یہ محفوظ ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عائشہ نے اپنے پرانے موقف (کہ مردہ سنتے نہیں) سے رجوع کرلیا۔" جیسا کہ دوسرے صحابی سے ثابت ہے کیونکہ وہ واقعہ بدر کی شاہد نہیں تھیں(جیسے سیدنا عمر تھے)۔ اسماعیلی نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ عائشہ کے پاس پسپائی ، ذہانت ، روایات کا ایک وسیع ذخیرہ ، اور علوم میں گہری بصیرت تھی جس کی کوئی مثال نہیں۔ مگر "وہ بھی" صحیح روایات کو رد نہیں کر سکتیں (ابن عمر، عمر اور ابو طلحہ کی). جب تک ان کے پاس اسی طرح کی نص نہ موجود ہو جس سے اس کا منسوخ ہونا ثابت ہو۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری 8/34 شایع کردہ دارالفکر بیروت لبنان)

نوٹ کرنے کے لیے نقاط: 

 1-  جب بھی ایسا محسوس ہو کے صحابہ کے مابین کوئی تضاد ہے۔ تو مرفوع حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ حقیقت کو سمجھا جا سکے۔ یا پھر ہم صحابی کے اس قول کی تاویل کرتے ہیں جو نبی کے قول کے منافی ہوں۔ 

امام ابوداؤد ایک حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
اگر رسول اللہ کی کسی دو روایات میں تضاد ہو۔ تو ہم وہ لیتے ہیں جس پر صحابہ کا عمل تھا۔ (سنن ابی داؤد حدیث 1577 کے تحت)

لہٰذا ہم جمہور صحابہ کے موقف کو اپناتے ہیں جو واقعے کے وقت موجود تھے جیسے ابن عمر ،عمر، ابو طلحہ۔ 

2-  اس معاملے میں سیدہ عائشہ نے اپنے پرانے موقف سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ مسند احمد کی حسن درجے کی روایت سے ہم نے ثابت کیا تھا۔
 
قتادہ کے قول کے حوالے سے جس نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا تھا (اس وقت ) تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی بات سنا دیں ان کی توبیخ ‘ ذلت ‘ نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے۔ (صحیح بخاری 3976) 

سلفی اس قول کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ سوائے قتادہ کے قول کے اور کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا قتادہ کا اس حدیث میں ادراج قابل قبول نہیں کیونکہ تابعی کے قول کو مرفوع اور موقوف احادیث کے مقابلے میں قبول نہیں کیا جاتا۔ 

جب ایسے ثبوت دکھائے جاتے ہیں تو سلفی ان آیات کو غلط استعمال کرتے ہوئے جو کفار اور بتوں کے لئے نازل ہوئیں، انبیاء کو ان سے ملانا شروع کر دیتے ہیں، اور ان کو انبیاء تک پر لاگو کرنا شروع کر دیتے ھیں صالحین پر ایسا کرنا تو دور کی بات ہے۔

مثال کے طور پر وہ ان آیات جیسے سورۃ النمل:80، فاطر:22 کا غلط استعمال کرتے ہیں، حالانکہ دونوں آیات سے واضح طور پر ثابت ہے کہ یہ کفار کے بارے میں بات ہورہی ہے کہ" کفار اب ہدایت کے قابل نہیں "
نمل:80 خود کی وضاحت کرتی ہے: اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں ۔

سلفی اگلی آیت نقل نہیں کرتے جس میں ہے کہ: اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کر سکتے ہیں آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں پھر وہ فرمانبردار ہو جاتے ہیں ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورہ نمل:81) 

لہٰذا ، سیاق و سباق میں اللہ نے مومنین اور کفار کے درمیان تمثیلیں بیان کی ہیں۔ کفار کو اندھا اور بہرا کہا گیا حالانکہ ظاہر میں نہ تو وہ اندھے تھے نہ بہرے۔ آیت سورۃ نمل واضح کرتی ہے کہ صرف وہ سن سکتے اور ہدایت پا سکتے ہیں جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ 
اس کے علاوہ سلفی صورہ فاطر :21تا 20،کو توڑ کر اس کو غلط بیان کرتے ہیں، اگرچہ وہ اپنے سیاق و سباق میں کہتی ہیں کہ: 

اور نہ چھاؤں اور نہ دھوپ ۔ اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔ 

امام جلال الدین سیوطی اور المحلی فاطر:22 کی مشہور تفسیر الجلالین میں یوں تفسیرکرتے ہیں: 

نہ ہی زندہ اور مردے نہ ہی مومن اور کافر برابر ہو سکتے ہیں (تینوں جگہوں میں لاکی زیادتی تاکید کے لئے ہے).؛اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی ہدایت سنا دیتا ہے تو وہ اس پر لبیک کہتاہے اورآپ ان لوگوں کو سنا نہیں سکتے جو قبروں میں ہیں یعنی مردوں سے 
تشبیہ دی ہے اس لیے کہ وہ جواب نہیں دیتے ( ہدایت کو قبول نہیں کرتے)۔ 

(تفسیر الجلالین فاطر:22کے تحت)

یہ بنا کسی شک کے ثابت کرتا ہے کہ قرآن استعاری طور پر کلام کر رہا ہے اور مردہ کفار کے بارے میں بات کر رہا ہے کہ " اب ہدایت پانے کے قابل نہیں۔" 

اگر ان آیات کا غلط ظاہری معنی لے کر ہم سماع الموتیٰ کا انکار کریں تو نعوذ باللہ قرآن اور سنت کا آپسی تضاد ہو جائے گا جو کہ ناممکن ہے۔ 

ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ خوارج ابن عمر کے نزدیک بدترین مخلوق تھے کیونکہ وہ ان آیات کو مومنین پر لاگو کرتے تھے جو کفار کے لئے نازل ہوئیں۔ 

صحیح بخاری کی وہ روایت اس قابل ہے کہ اسے یہاں نقل کیا جائے جسے سلفی توڑ موڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہی حدیث رسول اللہﷺ کی حیات اور مردہ کو براہ راست مخاطب کرنا ثابت کرتی ہے جو صحابہ کا عقیدہ تھا جیسے ابوبکر۔ 

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اترتے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک رکھا ہوا تھا ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بردحبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیا گیا تھا۔ پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سو آپ وفات پا چکے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو عمر رضی اللہ عنہ اس وقت  لوگوں  سے  کچھ  باتیں  کر  رہے  تھے ۔  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا 
کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ باقی رہنے والا ہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ”اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں“ «الشاكرين» تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔ (صحیح بخاری: 1241)

اس حدیث میں نوٹ کرنے کے لیے نقاط:
 
1-  سلفی منطق کے مطابق ابو بکر رضى اللہ عنہ نے غلط عمل کیا یعنی جھک کر ایک ظاہری دنیا سے گزرے شخص کو بوسہ دیا اور وہ بھی روتے ہوئے۔ 

2- پھر انہوں نے رسول اللہ کو مخاطب کیا اس پختہ یقین کےساتھ کہ وہ سن سکتے ہیں۔ ورنہ سلفیوں کو یہ کہنا چاہیے کہ ابو بکر رضى اللہ عنہ غیر ضروری گفتگو کی (نعوذباللہ). یاد رکھئے کہ لفظ 'یا سے صرف اسے مخاطب کیا جائے گا جو سن سکتا ہو۔ 

3- حدیث کے اختتام میں ہے کہ: تم میں سے جو کوئی محمد کی" عبادت "کرتا تھا ۔۔۔۔۔ اب اگر ہم ان الفاظ کو ظاہری معنوں میں لیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ کچھ اصحاب، رسول اللہ کی عبادت کرتے تھے جس کی وجہ سے ابو بکر رضى اللہ عنہ نے انہیں تنبیہ کی۔ لہٰذا رسول اللہ صرف ان کے لئے مردہ ہے جو انہیں اللہ کا بیٹا مانتے تھے یا ان کی عبادت کرتے تھے۔ ورنہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق عطا کیا جاتا ہے۔ 

نوٹ: وہ صحابہ جو رسول اللہ کی موت کا ذکر کرتے ہیں وہ صرف ظاہری موت یا صرف کچھ دیر کے لئے موت کو" چکھنے" کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کا معنی مکمل "فنا" کا نہیں، جس کا تجربہ رسول اللہ سورہ رحمن 26 تا 27 کے مطابق ابھی کریں گے۔ دوسرا یہ کہ صحابہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ بت سن سکتے ہیں جیسے انبیاء اپنی قبور میں سنتے ہیں۔ یا بت اس طرح جواب دیتے ہیں جیسے انبیاء دیتے ہیں یا وہ اس طرح شفاعت کرتے ہیں جیسے انبیاء کرتے ہیں۔ 

سلفی قرآن کی اس آیت کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں: 

یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔(مولانا محمد جوناگڑھی سورۃ الزمر:30)

مگر وہ پچھلی آیت کو چھوڑ دیتے ہیں جس میں ہے: 

اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں ، اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا ( غلام ) ہے ، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے بات یہ ہے کہ ان میں سےاکثر لوگ سمجھتے نہیں ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورۃ الزمر:29)

جیسا کہ آیت نمبر 29 میں ذکر ہے کہ ،دو آدمیوں کی حالت مختلف ہے۔ اسی طرح نبی کی موت دوسری اموات سے مختلف ہے۔ دونوں کے حالات اور درجات میں بہت فرق ہے۔ عربی صرف و نحو کا یہ اصول ہے کہ اگر دو نکرہ کا ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہو تو دوسرے نکرہ کا معنی پہلے والے سے جدا ہوگا۔ اس آیت میں میت نکرہ ہے اور اسے نبی اور کفار دونوں پر لاگو کیا گیا ہے، لہٰذا عربی زبان کے اصولوں کے مطابق دونوں اموات کی کیفیت مختلف ہے۔ 

انبیاء کی قبور میں حیات کے متعلق صحیح احادیث کی طرف چلتے ہیں۔

ثبوت۔ 1 (حیات انبیاء پر اور ان کا موازنہ بتوں سے نہیں کیا جاسکتا جیسے سلفی بڑے پیمانے پر موازنہ کرتے ہیں اور اس طرح بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب:) مَرَرْتُ عَلَي مُوْسَي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِه

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب آیا ۔ اور ہداب کی روایت میں ہے ۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ (صحیح مسلم 6157)

اس حدیث پر صحیح شرح دینے سے پہلے ہم سلفیوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا " بت اپنی قبروں میں زندہ رہتے اور عبادت کرتے ہیں؟" اگر سلفی نہ کہتے ہیں تو ان کی ساری تاویلات جن میں وہ نبی کے وسیلے کا مشرکین کے بتوں کی عبادت کرنے سے موازنہ کرتے ہیں ، باطل ہو جاتی ہیں۔ 

اس حدیث کی شرح میں امام مناوی امام قرطبی کا قول نقل کرتے ہیں:

الحديث بظاهره يدل على أنه رآه رؤية حقيقية في اليقظة وأنه حي في قبره يصلي الصلاة التي يصليها في الحياة وذلك وذلك ممكن ولا مانع من ذلك

 ترجمہ : اس حدیث سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا (موسیٰ علیہ السلام) کو دیکھنا حقیقی تھا اور وہ جاگنے کی حالت میں تھا۔ (موسی) "قبر میں زندہ ہیں اور عبادت کرتے ہیں" جیسے زندہ عبادت کرتے  ہیں۔ یہ ممکن ہے اور اس سے اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ (فیض القدیر 663/5)

ثبوت 2 (نبی کی گواہی کے ساتھ مرفوع صحیح حدیث)

حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي حدثنا يحيى بن أبي بكير حدثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت البناني عن أنس بن مالك : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )

 إسناده صحيح 

ترجمہ: انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ (مسند ابو یعلیٰ سندہ صحیح جلد 6 صفحہ 147؛حدیث : 3425)

سلفی عالم حسین سلیم اسد نے اپنی مسند ابی یعلی کی تحقیق میں اس کی سند کو صحیح کہا۔ 

امام ہیثمی اس کو روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں: 

رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبي يعلى ثقات

ترجمہ: ابو یعلی اور بزار نے اسے روایت کیا اور ابو یعلی کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ ( مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 386 حدیث 13812). 

قال الإمام المناوي في فيض القدير : «رواه أبو يعلى عن أنس بن مالك وهو حديث صحيح

ترجمہ: امام المناوی نے فیض القدیر میں کہا: اسے ابو یعلیٰ نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ (فیض القدیر 3/184)

البانی صاحب نے امام ذہبی کا رد کیا کیونکہ امام ذہبی نے حجاج ابن اسود راوی کے بارے میں غلطی کی۔ 

ترجمہ: ذہبی نے اپنی میزان میں اس کا رد کیا اور کہا: یہ منکر ہے۔ مگر ابن حجر عسقلانی نے اپنی لسان المیزان میں ذھبی کا تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ: یہ حجاج بن ابی زیاد الاسود ہے یہ بصری ہے، اس نے ثابت ،جابر بن زید ،ابو نظرہ اور جماعت سے روایت کیا۔ اور اس سے جریر بن حازم، حماد بن سلمہ، روح بن عبادہ نے روایت کیا۔ امام احمد نے حجاج کے بارے میں کہا کہ یہ ثقہ اور صالح شخص تھا۔ یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا۔امام ابوحاتم نے کہا یہ صالح الحدیث ہے اور امام ابن حبان نے اپنی ثقات میں اس کا ذکر کیا۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ البانی 2/187 :نمبر621)

البانی صاحب نے پھر کہا: 

حجاجا هذا ثقة بلا خلاف و أن الذهبي توهم

ترجمہ: حجاج بنا کسی اختلاف کے ثقہ ہے جب کہ ذھبی کو وہم ہوا ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ 2/187 : 621)

البانی صاحب نے یہ بھی کہا: 

فقد أخرج له الحاكم في المستدرك " ( 4 / 332 ) حديثا آخر , فقال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : حجاج ثقة

ترجمہ: امام حاکم نے اس سے مستدرک میں روایت کیا (4/332). اور الذھبی نے تلخیص میں کہا : "حجاج ثقہ ہے" (اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ذھبی کو اصل میں وہم ہوا تھا جبکہ انہوں نے خود مستدرک حاکم کی تلخیص میں اس کو ثقہ کہا)۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ 2/187 : 621)

شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی نے صرف اس حدیث کی تصحیح نہیں کی بلکہ فتح الباری میں ایک اور جگہ کہا: 

واحسن من هذا الجواب ان يقال ان حياته صلى الله عليه وسلم في القبر لايعقبها موت بل يستمر حيا والأنبياء احياء في قبورهم

ترجمہ: اس حوالے سے بہتر جواب یہ ہے کہ کہا جائے کہ رسول اللہ زندہ ہیں۔ "اپنی قبر میں، اور ان کو کبھی موت نہیں آئے گی۔" پر وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ (اس وجہ سے کہ )انبیاء اپنی قبور میں زندہ رہتے ہیں (فتح الباری شرح صحیح البخاری 7/36 شائع کردہ قدیمی کتب خانہ کراچی پاکستان)

ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ: 

وقد جمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثقه أحمد و ابن حبان عن الحجاج الأسود وهو بن أبي زياد البصري وقد وثقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه وأخرجه البزار لكن وقع عنده عن حجاج الصواف وهو وهم والصواب الحجاج الأسود كما وقع التصريح به في رواية البيهقي وصححه البيهقي
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة رفعه وقال فيه وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم سنده صحيح وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى على عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته وعند أبي داود والنسائي وصححه بن خزيمة وغيره عن أوس بن أوس رفعه في فضل يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قالوا يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ومما يشكل على ما تقدم ما أخرجه أبو داود من وجه آخر عن أبي هريرة رفعه ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام ورواته ثقات

ترجمہ: امام بیہقی نے قبر میں انبیاء کی حیات پر ایک زبردست کتاب لکھی ہے۔ جس میں انہوں نے حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے حدیث نقل کی ہے کہ انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے یہ حدیث یحییٰ ابن ابی کثیر کے ذریعے نقل کی ہے اور وہ صحیح کا راوی ہے، اس نے مستلم بن سعید سے روایت کیا جو امام احمد اور ابن حبان کے نزدیک ثقہ ہے، حجاج الاسود جو ابن ابی زیاد البصری ہے جسے امام احمد اور یحییٰ ابن معین نے ثقہ کہا ہے۔ اور امام ابو یعلیٰ نے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اپنی مسند میں بھی نقل کی۔ اس کو البزار نے بھی روایت کیا مگر ان کو وہم ہوا جب انہوں نے کہا کہ راوی حجاج الصوف ہے جبکہ وہ حجاج الاسود ہے جیسا کے پہلے بتایا گیا ہے۔ اس کو امام بیہقی نے نقل کرکے صحیح کہا ۔۔۔۔۔۔۔ جب حیات انبیاء نقل (ثبوت اور احادیث) سے ثابت ہے تو یہ نظر (عقل اور قیاس) کے ذریعے مزید قوی ہوجاتا ہے جیسے شہداء کی زندگی قرآن کی نص سے ثابت ہے تو انبیاء تو شہداء سے افضل ہیں۔ 
اس کی "صحیح سند" سے شاہد ابو داؤد کی وہ حدیث ہے جس میں ابوہریرہ نبی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا "۔  کتاب الثواب میں ابو شیخ نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ " جو کوئی میری قبر پر مجھ پر سلام کرتا ہے تو میں خود اسے سنتا ہوں اور جو کوئی مجھے دور سے سلام بھیجتا ہے تو وہ مجھ تک پہنچا دیاجاتاہے۔(پھر ابن  حجر  نے  دوسری احادیث بھی دکھائی جیسے اللہ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے اور جو کوئی رسول اللہ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ ان کی روح  انہیں  لوٹا  دیتا  ہے  اور  وہ اس کا جواب  دیتے  ہیں۔ )  (فتح  الباری  جلد  نمبر 6 صفحہ نمبر 602 تا 603 قدیمی کتب خانہ کراچی پاکستان)

امام ذھبی جن کو حیات انبیاء کے حوالے سے سلفی غلط انداز میں پیش کرتے ہیں، مندرجہ ذیل جملے کو سلفی غلط انداز میں پیش کرتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ انبیاء کی زندگی صرف برزخی ( دنیا سے الگ طول و عرض جہاں روحیں مرنے کے بعد رہتی ہیں) ہے اور اس کا قبر سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ذہبی کا مکمل کلام یہ ہے جو سلفیوں کے کمزور موقف کو رد کر دیتا ہے۔ 

امام ذہبی نے حیات انبیاء کو ثابت کرنے والی احادیث کے بارے میں کہا: 

ولا تأكل الارض جسده، ولا يتغير ريحه، بل هو الآن، وما زال أطيب ريحا من المسك، وهو حي في لحده حياة مثله في البرزخ، التي هي أكمل من حياة سائر النبيين، وحياتهم بلا ريب أتم وأشرف من حياة الشهداء 

ترجمہ: زمین جسموں کو نہیں کھاتی (انبیاء کے) نہ ہی خوشبو مسخ ہوتی ہے ، لیکن یہ اب بھی خوبصورت خوشبو کے ساتھ موجود ہیں۔ " اپنی لحد میں زندہ ہیں" اور زندگی ایسی ہے جیسے برزخی ہو۔ "بلکہ یہ زندگی باقی انبیاء کی زندگیوں سے افضل اور مکمل ہے اور یہ زندگی بنا کسی شک کہ شہداء کی زندگیوں سے افضل ہے"(سیر اعلام النبلاء 9/161)

ثبوت : 3

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن چیخ ہو گی اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، 
کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اوس بن اوس کہتے ہیں: لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (وفات پاکر جسم متغیر ہو چکا ہو گا) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کر دیا ہے ۔ (سنن ابی داؤد 1047، حدیث کو البانی نے صحیح کہا)

یہ سنن ابن ماجہ میں بھی صحیح مرسل سند کے ساتھ روایت ہے : 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو، اس لیے کہ جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجے گا اس کا درود مجھ پر اس کے فارغ ہوتے ہی پیش کیا جائے گا میں نے عرض کیا: کیا وصال کے بعد بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وصال کے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے۔(سنن ابن ماجہ 1637)

نوٹ: سلفی محقق زبیر علی زئی نے اس حدیث اور اس سے پچھلی اوس ابن اوس والی حدیث کو بھی ضعیف کہہ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ حالانکہ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ بعد والی مرسل ہے کیونکہ عبادہ بن نسی ابو درداء سے روایت کر رہا ہے۔ حنفی مالکی اور جمہور محدثین وفقہاءمرسل کو قبول کرتے ہیں جیسا کہ اگلے باب میں تفصیلاً بتایا جائے گا۔

اس حدیث میں یہ ہے کہ "اللہ کے نبی زندہ ہیں اور ان کو روزی ملتی ہے" جبکہ باقی حدیث کے الفاظ ابو داؤد سے ثابت ہیں جیسے پہلے دکھایا گیا ہے۔ یہ اضافہ بھی صحیح ہے باقی صحیح احادیث کی وجہ سے جو اس باب میں دکھائی گئی ہیں۔ 

ثبوت : 4.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔(سنن ابی داؤد :2041 اس حدیث کو البانی نے حسن کہا)

امام نووی نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

رواه أبو داود بإسناد صحيح

ترجمہ: اس کو ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا۔(ریاض الصالحین 1/255 حدیث 1402). 

انہوں نے کتاب الاذکار میں بھی کہا:

وروينا فـيه أيضاً بإسناد صحيح، عن أبـي هريرة

ترجمہ: یہ ابوہریرہ سے صحیح سند سے روایت ہے(کتاب الاذکار 1/115). 

سلفیوں کا شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: 

وهو حديث جيد

ترجمہ: یہ حدیث جید (قوى) ہے۔ (مجموع الفتاوی 27/116)
 
سلفیوں کے بڑے عالم قاضی شوکانی اس کو نقل کرنے سے پہلے کہتے ہیں: 

وأصح ما ورد في ذلك ما رواه أحمد وأبو داود عن أبي هريرة مرفوعاً

ترجمہ: اس کو امام احمد اور ابو داؤد نے ابوہریرہ سے صحیح اور مرفوع سند سے روایت کیا ہے۔ (نیل الاوطار 2/265)

ابن حجر عسقلانی نے اپنی تلخیص الحبیر میں بھی اس کی تصحیح کی (تلخیص الحبیر 2/265)

 علامہ زرقانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

فقد ثبتت حياة الأنبـياء، لكن يشكل علـيه حديث أبـي هريرة رفعه: «ما من أحد يسلـم علـيّ إلا رد الله علـي 
روحي   حتـى   أرد   علـيه السلام» أخرجه أبو داود ورجاله ثقات

ترجمہ: یہ بات کہ انبیاء زندہ رہتے ہیں ابو ہریرہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی مجھے سلام کرتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ اسے ابو داود نے روایت کیا اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں (شرح الزرقانی علی موطا امام مالک 4/282)

ثبوت : 5

حدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلامَ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم:حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ،فَمَا رَأَيْتُ مِنَ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنَ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اللہ نے دنیا میں فرشتے مقرر کیے ہیں جو مجھ تک میری امت کا سلام لے کر آتے ہیں" اور رسول اللہ نے کہا: میری زندگی تمہارے لیے خیر ہے تم مجھ سے سنتے ہو اور میں تمہیں سناتا ہوں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے تمہارے اعمال مجھ تک لائے جائیں گے اور جب میں ان میں سے اچھے اعمال کو دیکھوں گا تو میں اللہ کی حمد کروں گا اور جب میں ان میں سے برے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا"۔(مسند البزار حدیث نمبر 1925 شائع کردہ مکتبہ العلوم والحکم۔ اس روایت کے صحیح ہونے کا ثبوت کتاب میں آگے آئیے گا).
 
ہم کئی احادیث نقل کر سکتے ہیں، مگر یاد رکھیئے ہم انبیاء کو قبر اور برزخ میں ایک ہی وقت میں زندہ ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ سو ہم سلفیوں کا انہی کے ابن القیم الجوزیہ ابن تیمیہ کے شاگرد سے رد کرتے ہیں جنہوں نے کہا: 

وإنما يغلط أكثر الناس في هذا الموضع حيث يعتقد أن الروح من جنس ما يعهد من الأجسام التي إذا شغلت مكاناً لم يمكن أن تكون في غيره، وهذا غلط محض، بل الروح تكون فوق السماوات في أعلى عليين، وترد إلى القبر، فترد السلام، وتعلم بالمسلِّم، وهي في مكانها هناك، وروح رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرفيق الأعلى دائماً، ويردها الله سبحانه إلى القبر، فترد السلام على من سلم عليه، وتسمع كلامه، وقد رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم موسى قائماً يصلي في قبره، ورآه في السماء السادسة، والسابعة، فإما أن تكون سريعة الحركة والانتقال كلمح البصر، وإما أن يكون المتصل منها بالقبر وفنائه بمنزلة شعاع الشمس، وحرمها في السماء

ترجمہ: بہت سے لوگ اس بارے غلط ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ روح جسم کی صنف میں ہے کہ "روح ایک ہی وقت میں ایک جگہ اور دوسری جگہ پر نہیں پائی جاسکتی (یعنی مختلف جگہوں پر)" مگر ان کا یہ تصور غلط ہے۔ "کیونکہ روح آسمان سے اوپر علین میں ہوتے ہوئے بھی اپنی قبروں میں آتی ہے اور ان کو پہچانتی اور ان کے سلام کا جواب دیتی ہے جو ان کی قبر پر آتے ہیں." رسول اللہ کی روح ہمیشہ اپنے رفیق اعلی کے ساتھ ہے اور اللہ اسے قبر میں لوٹا دیتا ہے اور وہ لوگوں کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور لوگوں کے کلام کو سنتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ نے موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتے دیکھا۔ اور پھر انہوں نے ان کو دوبارہ چھٹے یا ساتویں آسمان پر دیکھا۔ "تو روح آیا بہت تیز رفتار سے سفر کرتی ہے کہ وہ ہزاروں سال کی مسافت پلک جھپکنے میں طے کر لیتی ہے یا پھر وہ اپنی قبر اور اس کے ارد گرد سے جڑی رہتی ہے۔ آسمان میں سورج کی روشنی (شعاؤں) کی طرح (کتاب الروح ابن القیم باب : 15)

یہاں ابن قیم نے سنی چادر اوڑھی اور اس دقیق نظریہ پر صحیح تفصیل بیان کی۔
 
ثبوت :6 

انبیاء اب بھی حج کرتے ہیں جیسے زندہ ہوں

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّبِوَادِي الأَزْرَقِ فَقَالَ ‏"‏ أَىُّ وَادٍ هَذَا ‏"‏ ‏.‏ فَقَالُوا هَذَا وَادِي الأَزْرَقِ ‏. ‏ قَالَ  ‏"‏  كَأَنِّي  أَنْظُرُ  إِلَى  مُوسَى - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى ‏فَقَالَ ‏"‏ أَىُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ ‏"‏.‏ قَالُوا ثَنِيَّةُ هَرْشَى قَالَ ‏"‏ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ وَهُوَ يُلَبِّي ‏"‏ قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ فِي حَدِيثِهِ قَالَ هُشَيْمٌ يَعْنِي لِيفًا ‏.‏

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ وادی ازرق سے گزرے تو آپ نے پوچھا : ’’ یہ کون سے وادی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : یہ وادی ازرق ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں موسیٰ علیہ السلام کو وادی کے موڑ سے اترتے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے اللہ کے سامنے زاری کر رہے ہیں ۔ ‘ ‘ پھر آپ ہرشیٰ کی گھاتی پر پہنچے تو پوچھا : ’’ یہ کو ن سی گھاٹی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : یہ ہرشیٰ کی گھاٹی ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ جیسے میں یونس بن متی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو سرخ رنگ کی مضبوط بدن اونٹنی پر سوار ہیں ، ان کے جسم پر اونی جبہ ہے ، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ لبیک کہہ رہے ہیں ۔   (صحیح مسلم 420)

 اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نووی نے قاضی عیاض کو نقل کیا کہ: 

قال: فإن قيل كيف يحجون ويلبون وهم أموات وهم في الدار الآخرة وليست دار عمل؟ فاعلم أن للمشايخ وفيما ظهر لنا عن هذا أجوبة، أحدها: أنهم كالشهداء بل هم أفضل منهم، والشهداء أحياء عند ربهم فلا يبعد أن يحجوا ويصلوا كما ورد في الحديث الآخر

ترجمہ: اگر یہ بیانیہ دیا جائے کہ: " یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حج کرتے ہیں اور تلبیہ پڑھتے ہیں جب وہ مر چکے ہیں" کیونکہ وہ آخرت کی رہائش گاہ میں ہیں ، عمل کرنے کے ٹھکانے میں نہیں؟ تو یہ جان لیں کہ یہ مشائخ سے ملتا ہے جنہوں نے اس کے ہونے کے حوالے سے جواب دیا ہے: 

1-  انبیاء شہداء کی طرح ہیں بلکہ ان سے افضل ہیں اور شہداء زندہ ہیں اپنے رب کے ساتھ تو یہ ماننے میں کچھ بعید نہیں کہ انبیاء حج کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں جیسا کہ احادیث میں ملتا ہے۔(شرح صحیح مسلم امام نووی 2/184 شائع قاہرہ مصر) 

سلفی یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاضی عیاض مالکی نے اور بھی جواب ذکر کیے ہیں اس سمیت کہ یہ ایک "خواب ہو سکتا ہے" کیوں کہ مندرجہ بالا حدیث رات کے سفر (اسرا والمعراج) کے باب میں نقل ہوئی ہے۔ تاہم یہ یاد رکھیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ کے براہ راست الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے باقی اصحاب سے وادی کے بارے میں پوچھا۔ لہٰذا رسول اللہ کے رات کے سفر میں صحابہ کے ساتھ ہونے کا کوئی ذکرنہیں اسی لیے یہ خواب نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ محدثین کا اصول ہے کہ وہ سب سے زیادہ مستند ثبوت پہلے نقل کرتے ہیں۔ قاضی عیاض نے یہ ثابت کیا ہے کہ پہلا جواب اوراحادیث سے بھی ہے لہٰذا پہلا جواب سب سے زیادہ قوی اور مستند ہے۔ 

امام جلال الدین سیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے ہیں: 

ولا يمتنع رؤية ذاته الشريفة بجسده وروحه وذلك لأنه صلى الله عليه وسلّم ـ وسائر الأنبياء ـ أحياء ردت إليهم أرواحهم بعد ما قبضوا وأذن لهم بالخروج من قبورهم 
والتصرف في الملكوت العلوي والسفلي، وقد ألف البيهقي جزءاً في حياة الأنبياء، وقال في دلائل النبوة: الأنبياء أحياء عند ربهم كالشهداء؛ وقال في كتاب الإعتقاد: الأنبياء بعد ما قبضوا ردت

ترجمہ: اس سے انکار نہیں کیا جاتا ہے کہ نبی کریم کی بابرکت شخصیت کو دیکھنا ان کے جسم اور روح کے ساتھ ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہے اور باقی انبیاء کرام بھی زندہ ہیں ان کی روحیں قبض کرنے کے بعد لوٹا دی جاتی ہیں۔ انبیاء اپنی قبور سے خروج کرسکتے ہیں اور ان کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ مملکت علوی اور سفلی میں تصرف کر سکتے ہیں۔ امام بیہقی نے حیات انبیاء پر ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے۔ اور دلائل النبوۃ میں بھی ذکر کیا ہے کہ انبیاء اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں جیسے شہداء زندہ ہیں اور انہوں نے "اعتقاد" میں کہا ہے کہ: انبیاء کی جب روح قبض کر لی جاتی ہیں پھر ان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ (الحاوی للفتاوی امام جلال الدین سیوطی ص، 244 تا 245)

اسرا و المعراج کی احادیث حتمی طور پر ثابت کرتیں ہیں کہ انبیاء زندہ ہیں اور وہ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں۔ سلفی کہتے ہیں کہ امام بیہقی نے کہا ہے کہ وہ شہداء کی طرح زندہ ہیں اور کوئی ان کی زندگی کا ادراک نہیں کر سکتا۔
 
تو ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اسے امام بیہقی سے ہی بیان کریں۔ امام بیہقی اپنے چھوٹے مگر شاندار رسالے "حیات الانبیاء" میں کہتے ہیں: 

وكل ذلك صحيح لا يخالف بعضه، فقد يرى موسى عليه السلام قائما يصلي في قبره، ثم يسرى بموسى وغيره إلى بيت المقدس كما أسري بنبينا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيه ثم يعرج بهم إلى السموات كما عرج بنبينا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيها كما أخبر وحلولهم في أوقات بمواضع مختلفات جائز في العقل كما ورد به خبرالصادق، وفي كل ذلك دلالة على حياتهم، ومما يدل على ذلك

ترجمہ: یہ ساری احادیث صحیح ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ رسول اللہ نے موسی علیہ السلام کو قبر میں کھڑے اور نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، پھر موسی اور باقی انبیاء کو بیت المقدس تک لے جایا گیا جیسے ہمارے نبی کو لے جایا گیا، پھر ان انبیاء کو آسمانوں پر معراج کرائی گئی جیسے ہمارے نبی کو کرائی گئی اسی لیے ہمارے نبی نے انہیں دیکھا ایسے ہی جیسے حدیث میں ذکر ہے " اور یہ بھی کہ انبیاء کا ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر موجود ہونا ممکن ہے اور عقل کے لحاظ سے صحیح ہے، اور اس حوالے سے صادق نبی کی ایک حدیث بھی ہے اور یہ سب ان کی حیات کے بارے میں واضح دلیل ہے۔ اور یہ اس پر دلیل ہے۔ (امام بیہقی حیات الانبیاء میں حدیث نمبر 9 کے تحت) 

مسند احمد میں ایک لمبی حدیث ہے جو ثابت کرتی ہے کہ مسلمان کی روح اس کی موت کے بعد اس کی قبر میں لوٹائی جاتی ہے۔ 

مومن کی روح کے کئی آسمانوں سے گزرنے کی لمبی تفصیل کے بعد حدیث میں آتا ہے کہ: 

فيقول الله عزوجل اكتبوا كتاب عبدي في عليين 
وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم

ترجمہ: اللہ کہتا ہے کہ علیین میں اس بندے کے اعمال لکھ لو اور اس کو زمین کی طرف واپس بھیج دو کیونکہ میں نے اس کو زمین سے پیدا کیا ہے اور میں اس کو زمین کی طرف لوٹاوں گا(مسند احمد ابن حنبل 4/287)

شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کو نقل کرنے کے بعد کہا:
 
إسناده صحيح رجاله رجال الصحيح

ترجمہ: اس کی سند صحیح ہے اور راوی صحیح کے ہیں۔ 

امام ہیثمی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(مجمع الزوائد3/ 50-49)

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ مومن کی روح زمین میں واپس آتی ہے۔ یہ ہم اوپر ثابت کرچکے ہیں کہ مومن ان کو جو اس کی قبر پر آتے ہیں سنتا ہے اور ان کو جواب دیتا ہے۔ 

امام ابو عبد اللہ محمد بن ابوبکر قرطبی لکھتے ہیں:
 
ان ساری احادیث کے نتیجے سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ انبیاء کی وفات ایسے ہے گویا وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہوں حالانکہ وہ زندہ ہیں اور موجود ہیں، فرشتوں کی طرح جو زندہ ہیں اور موجود ہیں مگر انسانوں کو نظر نہیں آتے سوائے اولیاء کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کرامت عطا کی ہے۔ (التذکرہ 1؍ 264 تا 265)

یاد رکھئے کہ رسول اللہ کی بیویوں پر ان کے بعد شادی کرنا حرام قرار دے دیا گیا تھا۔ اور رسول اللہ کا کوئی روایتی/رسم و رسوم کے ساتھ جنازہ بھی نہیں ہوا۔ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ 

امام سبکی لکھتے ہیں: یہ ہمارے عقیدے میں سے ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ (طبقات الشافعیہ الکبری 6/266). 

ایک بڑے حنفی فقیہ ابن عابدین کہتے ہیں: 

الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث

ترجمہ: انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔(رسائل ابن عابدین 2/203)

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السَّخَاوِیُّ الشَّافِعِیُّ:وَنَحْنُ نُؤْمِنُ وَنُصَدِّقُ بِاَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ فِیْ قَبْرِہٖ وَاَنَّ جَسَدَہُ الشَّرِیْفَ لَا تَاکُلُہُ الْاَرْضُ، وَالْاِجْمَاعُ عَلٰی ھٰذَا۔

ترجمہ: امام الحافظ محمد بن عبد الرحمن السخاوی الشافعی کہتے ہیں: "ہم مانتے اور گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں۔ آپ کا جسم زمین نہیں کھا سکتی اور اس کے اوپر اجماع ہے" (القول البدیع صفحہ 335)

امام سیوطی اپنی طبقات میں ابن فورک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے رسول ہیں۔ اور یہ حقیقت پر مبنی ہے مجاز پر نہیں۔ امام زرقانی بیان کرتے ہیں: قبر میں حیات کا معنی یہ ہے کہ وہ اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ابن عقیل حنبلی نے کہا: رسول اللہ اپنی ازواج کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ اس حال میں صحبت کرتے ہیں جو دنیاوی معاملات سے بہتر ہے۔ ابن عقیل نے یہ قسم اٹھاتے ہوئے کہا اور یہ واضح ہے اور اس سے کچھ مانع نہیں۔ ( شرح الزرقانی علی مواہب الدنیہ امام قسطلانی جلد 8 صفحہ 358)

امام بدرالدین عینی نے کہا: 

من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم 
وأجاب أهل السنة عن ذلك

ترجمہ: معتزلہ نے قبر میں حیات کو رد کیا ہے جبکہ اہل سنت نے اس کو قبول کیا ہے۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری 8/601).
 
امام السمہودی کہتے ہیں: 

لاشك في حياته - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته وكذا سائر الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - احياء في قبورهم اكمل من حياة الشهداء التي اخبر الله تعالى بها في كتابه العزيز ’

ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ اپنی موت کے بعد زندہ ہیں اور باقی انبیاء بھی۔ اور وہ قبر میں زندہ رہتے ہیں اور یہ زندگی شہداء کی زندگی سے بہتر ہے۔ (وفاء الوفاء 4/1352)

امام عبدالوہاب الشعرانی کہتے ہیں:
 
قد صحت الأحاديث انه - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره يصلي بأذان واقامة 

ترجمہ: یہ صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور وہ اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔(المنیح المِنَّۃ صفحہ 92)

امام تاج الدین سبکی نے کہا: 

عن أنس قال قال رسول الله الأنبياء أحياء فى قبورهم يصلون . فإذا ثبت أن نبينا حى فالحى لابد من أن يكون إما عالما أو جاهلا ولا يجوز أن يكون النبي جاهلا

ترجمہ: انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کہا: انبیاء اپنی قبور میں زندہ رہتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ تو یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ زندہ ہیں۔ وہ اچھے کے لئے زندہ ہیں اور ہمارے اعمال کے بارے میں خبر رکھتے ہیں، کیونکہ جاہلیت کو نبی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ (طبقات الشافعیہ الکبری 3/411). 

انہوں نے یہ بھی کہا:

لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا

ترجمہ: رسول اللہ زندہ ہیں اور وہ جانتے ہیں اور امت کے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ہمارا درود و سلام ان تک پہنچایا جاتا ہے۔ (اوپر دئیے گئے حوالے کے مطابق 3/412)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کہا: 

يقول حياة الأنبياء متفق عليه آست ھیچ کس را دروى خلافي نيست 

ترجمہ: حیات الانبیاء کے مسئلہ پر اتفاق ہے اور اہل علم میں سے کسی نے بھی اس کا رد نہیں کیا۔ (اشِعّۃ اللمعات 1/613). 

سلفی عالم قاضی شوکانی کہتے ہیں:
 
وَ وَرَدَ النَّصّ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي حَقّ الشُّهَدَاءِ أَنَّهُمْ أَحْيَاء يُرْزَقُونَ وَأَنَّ الْحَيَاة فِيهِمْ مُتَعَلِّقَة بِالْجَسَدِ فَكَيْف 
بِالْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ . وَقَدْ ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ { أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ } رَوَاهُ الْمُنْذِرِيُّ وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ . وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : { مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمُوسَى عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ

ترجمہ: شہداء کے بارے میں اللہ کی کتاب میں واضح ثبوت کے طور پر موجود ہے کہ: وہ زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی ان کے جسموں کے ساتھ ہے۔ تو انبیاء اور رسولوں کا کیا عالم ہوگا؟ یہ حدیث سے ثابت ہے جسے المنذری نے روایت کیا اور بیہقی نے اس کو صحیح کہا۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ سے ہے کہ:معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب آیا اور میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔( نیل الاوطار الشوکانی 3/302). 

ہم نے حیات الانبیاء اور سماع الموتیٰ کو تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ 

ایک بار سماع الموتیٰ کا مسئلہ واضح ہوجائے پھر توسل اور استغاثہ 100 فیصد منطقی طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ پہلے ہی قرآن و حدیث کے مطابقت میں ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں