Saying Aameen silently or loudly in prayer?

نماز میں آمین بلند آواز یا دھیمے سے پڑھنا؟

Article Bottom

نماز میں آمین بلند آواز یا دھیمے سے پڑھنا؟

آمین بلند آواز میں یا خاموشی (پست آواز)
سے کہنا؟

اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر نماز میں آمین کہنے پر متفق ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں جبکہ شیعہ نماز میں آمین کہنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ اہل سنت مکاتب فکر میں اس پر مزید اختلاف یہ ہے کہ آیا آمین بلند آواز میں کہنا ہے یا خاموشی سے؟

حنفی اور مالکی مکتبہ فکر کا یہ ماننا ہے کہ آمین خاموشی سے كہنی چاہیے ہے جس کے لیے وہ کئی ثبوت پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا ثبوت جو وہ پیش کرتے ہیں وہ قرآن سے ہے، جس میں ہے کہ: 

اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں (کنز الایمان 7:55). 

آمین ایک دعا ہے، لہٰذا قران سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ دعا گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ سے کرنی چاہیے۔ اسی لیے اسے نماز میں بھی آہستہ کہنا چاہیے ہے۔ یہ قرآن سے ایک بڑا ثبوت ہے۔ 

حنفی اور مالکی جو حدیث پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک ہے: 

حدثنا أبو داود قال حدثنا شعبة قال أخبرني سلمة ابن  كهيل قال سمعت حجرا أبا العنبس قال سمعت علقمة ابن وائل يحدث عن وائل وقد سمعت من وائل انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قرأ {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}  قال آمين خفض بهاصوته 

ترجمہ: وائل ابن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی اور جب رسول اللہ نے "غيرالمغضوب عليهم ولا الضالين" کہا، تو انہوں نے آمین خاموشی سے کہی۔۔۔۔ (مسند ابو داؤد الطیالسی (1/576) سنن ترمذی 2/65 مسند احمد بن حنبل 5/412 : 18863) وغیرہ۔ 

اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ 

امام بدرالدین عینی نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

حديث صحيح الإسناد

ترجمہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری 6/47)

امام الحاکم نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا: 

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه

ترجمہ: یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے مگر انہوں نے اسے نقل نہیں کیا۔ (مستدرک حاکم 2/253 حدیث 2913،  امام ذھبی نے موافقت کی)

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ،  عَنْ يُونُسَ،عَنِ  الْحَسَنِ، قَالَ قَالَ سَمُرَةُ حَفِظْتُ سَكْتَتَيْنِ فِي الصَّلاَةِ سَكْتَةً إِذَا كَبَّرَ الإِمَامُ حَتَّى يَقْرَأَ وَسَكْتَةً إِذَا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ عِنْدَ الرُّكُوعِ قَالَ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ قَالَ فَكَتَبُوا فِي ذَلِكَ إِلَى الْمَدِينَةِ إِلَى أُبَىٍّ فَصَدَّقَ سَمُرَةَ

ترجمہ: سمرہ بن جندب اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے آپس میں ( سکتہ کا ) ذکر کیا تو سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد رکھے ہیں: ایک سکتہ اس وقت جب آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور دوسرا سکتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کی قرآت سے فارغ ہوتے، ان دونوں سکتوں کو سمرہ نے یاد رکھا، لیکن عمران بن حصین نے اس کا انکار کیا تو دونوں نے اس کے متعلق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے ان دونوں کے خط کے جواب میں لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے ( ٹھیک ) یاد رکھا ہے۔ (سنن ابی داؤد 779، اس کو ناصر الدین البانی نے ضعیف کہا ہے لیکن دار السلام کی تحکیم میں اس کو صحیح کہا ہے (سنن ابو داؤد، حدیث : 777)

اس حدیث نے ثابت کیا ہے کہ جب تک امام تلاوت شروع نہ کرے تب تک خاموش رہنا چاہئے ہے اور تب بھی خاموش رہنا چاہیے ہے جب امام سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ مکمل کرلے۔ 

پہلی خاموشی اس لیے اختیار کی گئی تاکہ ثناء کو خاموشی(دھیمے) سے پڑھا جائے اور دوسری اس لیے تاکہ آمین خاموشی سے کہا جائے
۔ 
صحیح بخاری میں ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام «آمين» کہے تو تم بھی «آمين» کہو۔ کیونکہ جس کی «آمين» ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «آمين» کہتے تھے۔ (صحیح بخاری 780)۔ 

اگرچہ امام بخاری نے حدیث سے پہلے باب " امام کا بلند آواز مین آمین کہنا" بنایا ہے مگر اصل میں یہ حدیث خاموشی سے آمین کہنے کو ثابت کرتی ہے " چونکہ ہم فرشتوں کو سن نہیں سکتے، لہٰذا ان کی آمین بھی خاموشی سے ہی ہوتی ہے" 

عن أَبي وائل، قال: كان عمر وعلي رضي الله عنهما لايجهران «بسم الله الرحمن الرحيم» ولا بالتعوّذ، ولا بالتأمين

ترجمہ: ابو وائل روایت کرتے ہیں کہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور علی (رضی اللہ عنہ) نہ بسم اللہ ، نہ اعوذ باللہ ، اور نہ ہی آمین بلند آواز میں کہتے تھے. (شرح معانی الآثار 1/204، حافظ النیموی الحنفی نے آثار السنن صفحہ 144 میں اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا )

وروى أبو حمزة عن إبراهيم , عن علقمة , والأسود , عن عبد الله قال: « ثلاث يخفيهن الإمام: الاستعاذة, وبسم الله الرحمن الرحيم, وآمين» 

ترجمہ: ابن مسعود سے روایت ہے کہ امام کو تین مواقع پر خاموشی اختیار کرنی چاہیے ہے۔ 1 جب وہ اعوذ باللہ پڑھے، 2 جب بسم اللہ پڑھے 3 جب آمین کہے۔ (الانصاف امام ابن عبد البر ،قاضی شوکانی  
نے بھی نیل الاوطار 2/203 میں)
 
عبد الرزاق عن معمّر والثوري عن منصور عن إبراهيم أنه كان يسر آمين

ترجمہ: ابراہیم النخعی آمین خاموشی سے کہا کرتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 2/87 حافظ النیموی اس کی سند کوصحیح کہا ( آثار السنن صفحہ 145)

دوسری طرف شافعی، حنبلی اور سلفی یہ ثبوت پیش کرتے ہیں: 

وائل بن حجر نے کہا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «غيرالمغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھ کر، آمین کہتے سنا، اور اس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی (یعنی بلند کی ) ۔ ( جامع ترمذی 248) 

حنفی اس کے مقابلے میں کہتے ہیں کہ آواز کھینچنے کا ضروری نہیں یہی مطلب ہو کہ آواز بلند کی۔ دوسری بات یہ کہ یہاں سفیان ثوری 'عن' سے روایت کر رہا ہیں اور سلفی وہ حدیث نہیں مانتے جس میں سفیان 'عن' سے روایت کریں۔ شافعی اور سلفی پھر سنن ابی داؤد سے ایک دوسری حدیث پیش کرتے ہیں جس کے الفاظ مختلف ہیں اور ہیں کہ :" آواز بلند کی"۔ (سنن ابی داؤد 932)۔ مگر اس حدیث میں بھی سفیان 'عن' سے روایت کر رہے ہیں تو یہ حدیث سلفیوں کے مطابق صحیح نہیں ہو سکتی۔ دوسرا یہ کہ الفاظ میں اس طرح کے تضاد سے یہ حدیث مضطرب ہو جاتی ہے۔ (حافظ النیموی نے اس حدیث کو مضطرب کہا، آثار السنن صفحہ 142)

شافعی اور سلفی پھر بخاری کے باب کے عنوان سے پیش کرتے ہیں جو ہے: 

وَقَالَ عَطَاءٌ آمِينَ دُعَاءٌ أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ وَمَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً 

ترجمہ: عطاءنے کہا آمین دعا ہے اور ابن زبیر اور وہ جو اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے آمین (اونچا) کہا کہ پوری مسجد گونج اٹھی۔ (صحیح بخاری)

یہ روایت بغیر کسی سند کے بخاری میں روایت کی گئی ہے مگر مصنف عبد الرزاق میں اس کی سند موجود ہے جو ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شافعی اور سلفی کے پاس ایک اور حدیث ہے جو وہ پیش کرتے ہیں: 

وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی۔ (سنن ابی داؤد 933، البانی نے حسن کہا) 

دوسری طرف شیعہ کا یہ ماننا ہے کہ آمین نماز میں  بدعت اور حرام ہے۔ اس کے بارے میں ان کی کتابوں میں روایات موجود ہیں مگر میں ایسی کوئی روایت سنی کتب میں ڈھونڈنے سے قاصر رہا۔
 
امام الصادق نے فرمایا: جب بھی تم جماعت کے ساتھ نماز میں ہو اور امام حمد مکمل کرلے تو آمین نہ کہو بلکہ کہو " الحمدللہ رب العالمین" (الطوسی التہذیب 2/74). 

شیعہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ نماز میں آمین کہنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ آمین کہنا یہود و نصاری سے لیا گیا ہے جیسے وہ اپنی دعا و مناجات کے بعد آمین کہتے ہیں۔ 

مفاہمت: حنفی اور مالکی نظریہ اس مسئلہ پرسب سے زیادہ مضبوط ہے، کیوںکہ آمین دعا ہے اور قران میں ہے کہ دعا آہستہ اور چپکے سے کرو۔ دوسرا یہ کہ آمین خموشی سے کہنے پر زیادہ احادیث ہیں۔ شافعی، حنبلی اور سلفی کے پاس بھی ثبوت موجود ہیں سو ان کا بھی احترام کرنا چاہیے ہے۔ شیعہ اس مسئلے پر سختی اختیار کرتے ہیں اور انکو جمہور مسلمانوں کی نمازوں کو فقط آمین کہنے پر باطل نہیں کہنا چاہیے ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں