دینِ کا آدھا حصہ سیدہ عائشة سے لو

دینِ کا آدھا حصہ سیدہ عائشة سے لو

Article Bottom

دینِ کا آدھا حصہ سیدہ عائشة سے لو

کیا دین کا آدھا حصہ سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہا سے آیا ہے؟

ملا علی قاری رحمہ اللہ الموضوعات الکبری میں فرماتے ہیں

ﺣﺪﻳﺚ ﺧﺬﻭا ﺷﻄﺮ ﺩﻳﻨﻜﻢ ﻋﻦ اﻟﺤﻤﻴﺮاء 
ﻭﻫﻲ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺗﺼﻐﻴﺮ اﻟﺤﻤﺮاء ﺑﻤﻌﻨﻰ اﻟﺒﻴﻀﺎء ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺎﻳﺔ ﻭاﻟﺸﻄﺮ اﻟﻨﺼﻒ ﻗﺎﻝ اﻟﻌﺴﻘﻼﻧﻲ ﻻ ﺃﻋﺮﻑ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩا ﻭﻻ ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻛﺘﺐ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺇﻻ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺎﻳﺔ ﻻﺑﻦ اﻷﺛﻴﺮ ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻣﻦ ﺧﺮﺟﻪ 

ﻭﺫﻛﺮ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻋﻤﺎﺩ اﻟﺪﻳﻦ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺳﺄﻝ اﻟﻤﺰﻱ ﻭاﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻠﻢ ﻳﻌﺮﻓﺎﻩ ﻭﺫﻛﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﺑﻐﻴﺮ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﻭﺑﻐﻴﺮ ﻫﺬا اﻟﻠﻔﻆ ﻭﻟﻔﻈﻪ ﺧﺬﻭا ﺛﻠﺚ ﺩﻳﻨﻜﻢ ﻣﻦ ﺑﻴﺖ اﻟﺤﻤﻴﺮاء ﻭﺑﻴﺾ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺴﻨﺪ اﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻭﻟﻢ ﻳﺨﺮﺝ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩا ﻭﻛﺬا ﺫﻛﺮﻩ اﻟﺴﺨﺎﻭﻱ ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺴﻴﻮﻃﻲ ﻟﻢ ﺃﻗﻒ ﻋﻠﻴﻪ
ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻋﻤﺎﺩ اﻟﺪﻳﻦ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﻓﻲ ﺗﺨﺮﻳﺞ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﺨﺘﺼﺮ اﺑﻦ اﻟﺤﺎﺟﺐ ﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﻏﺮﻳﺐ ﺟﺪا ﺑﻞ ﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ ﺳﺄﻟﺖ ﻋﻨﻪ ﺷﻴﺨﻨﺎ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﻟﻤﺰﻱ ﻓﻠﻢ ﻳﻌﺮﻓﻪ ﻭﻗﺎﻝ ﻟﻢ ﺃﻗﻒ ﻟﻪ ﻋﻠﻰ ﺳﻨﺪ ﺇﻟﻰ اﻵﻥ ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻫﻮ ﻣﻦ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﻮاﻫﻴﺔ اﻟﺘﻲ ﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﻟﻬﺎ ﺇﺳﻨﺎﺩ اﻧﺘﻬﻰ ﻟﻜﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﻧﺲ ﺧﺬﻭا ﺛﻠﺚ ﺩﻳﻨﻜﻢ ﻣﻦ ﺑﻴﺖ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩا ﻗﻠﺖ ﻟﻜﻦ ﻣﻌﻨﺎﻩ ﺻﺤﻴﺢ ﻓﺈﻥ ﻋﻨﺪﻫﺎ ﻣﻦ ﺷﻄﺮ اﻟﺪﻳﻦ اﺳﺘﻨﺎﺩا ﻳﻘﺘﻀﻲ اﻋﺘﻤﺎﺩا ﻭﻗﺪ اﺷﺘﻬﺮ ﺃﻳﻀﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﻛﻠﻤﻴﻨﻲ ﻳﺎ ﺣﻤﻴﺮاء ﻟﻜﻦ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺃﺻﻞ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﻠﻤﺎء

ترجمہ: حدیث، اپنے دین کا آدھا حصہ تو صرف حمیراء یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے حاصل کر لیا کرو (کیونکہ دین کے تقریبا نصف مسائل انہی سے مروی ہیں)

حمیراء حمراء کی تصغیر ہے اور لغت کی کتاب النہایہ میں اس کا معنی صرف سرخ نہیں بلکہ سرخ و سفید بیان کیا گیا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کسی سند کا پتہ نہیں ہے اور نہ ہی ابن اثیر کی النہایہ کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں میری نظر سے یہ حدیث گزری ہے۔ لیکن ابن اثیر نے بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ اس حدیث کی تخریج کس نے کی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حافظ مزی رحمہ اللہ اور امام ذھبی رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس کے متعلق لا علمی کا اظہار کیا۔ 

امام دیلمی رحمہ اللہ نے اسے بغیر سند کے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے لیکن اس کے الفاظ یہ ہیں: اپنے دین کا ایک تہائی حصہ حمیراء کے گھر سے حاصل کرو۔ اور امام سخاوی رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے کہا میں اس سے واقف نہیں۔ حافظ ابن کثیر نے تخریج احادیث مختصر ابن حاجب میں کہا ہے کہ یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے میں نے اس حدیث کے بارے اپنے شیخ مزی سے سوال کیا لیکن وہ اسے نہ بہچان سکے اور فرمایا میں آج تک اس کی سند سے واقف نہ ہو سکا۔ امام ذھبی فرماتے ہیں یہ حدیث واہیات روایات میں سے ہے جس کی سند نہیں پہچانی جاتی لیکن مسند فردوس میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے کہ اپنے دین کا تہائی حصہ عائشہ کے گھر سے حاصل کرو۔ لیکن اس کی کوئی سند نقل نہیں۔ 

ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا معنی صحیح ہے کیونکہ سیدہ عائشہ کے پاس دین کا آدھا حصہ باعتبار استناد موجود ہے۔ اسی وجہ سے یہ حدیث مشہور ہے کہ ائے حمیراء مجھ سے بات کیا کرو۔ لیکن اس کی بھی علماء کے نزدیک کوئی اصل نہیں۔ 

الموضوعات الکبری # 185

مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں