Mutah (Temporary marriage)

نکاح متعہ (عارضی شادی)

Article Bottom

نکاح متعہ (عارضی شادی)


اہل سنت اور رافضی شیعہ کے درمیان نکاح متعہ پر شدید اختلاف ہے۔ سنی اسے زنا سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں متعہ کے حرام ہونے پر۔ پہلے ہم سنی مصدر سے دلائل دیں گے او پھر شیعہ مصدر سے۔ 

دلیل # 1 

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۔ متفق علیہ ۔

مشکوٰۃ # 3147۔ یہ روایت صحیح بُخاری، صحیح مسلم اور دیگر کُتب میں موجود ہے۔ بلکہ امام بُخاری کی صحیح جیسی کتب سے پہلے کی کتاب موطا امام مالک میں بھی موجود ہے۔ 

دلیل # 2

سیدنا علی کے علاوہ بھی یہ روایات مرفوع نقل ہوئی ہیں۔ تو روافض کا کہنا کے اسے سیدنا عمر رض اللہ نے معاذ اللہ خود سے بعد میں حرام کر دیا تھا، باطل ثابت ہو جاتا ہے۔  

ربیع بن سبرہ جہنی نے حدیث سنائی کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! بے شک میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اور بلاشبہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے ، اس لیے جس کسی کے پاس ان عورتوں میں سے کوئی ( عورت موجود ) ہو تو وہ اس کا راستہ چھوڑ دے ، اور جو کچھ تم لوگوں نے انہیں دیا ہے اس میں سے کوئی چیز ( واپس ) مت لو ۔‘‘

صحیح مسلم # 3422

دلیل # 3

حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے غزوہ اوطاس کے موقع پر تین روز کے لیے متعہ کی اجازت دی پھر اس سے منع فرما دیا ۔ رواہ مسلم ۔
مشکوٰۃ # 3148۔ صحیح مسلم میں دیکھیے # 3418

اب حجت تمام ہو گئی کے متعہ نبی کریم علیہ السلام نے خود حرام کر دیا تھا۔ تو روافض کا سیدنا عمر رض پر الزام لگانا کے انہوں نے معاذ اللہ خود سے گڑھ کر اسے حرام کہا، یہ الزام باطل ثابت ہو جاتا ہے۔

 اس کو ایک اور طریقے سے سمجھتے ہیں۔ اہل سنت تمام 4 مذاھب کے جمہور کے مطابق ایک مجلس کی 3 طلاق 3 ہی شمار ہوتی ہیں۔ اس پر مرفوع احادیث بھی شاہد ہیں جبکہ مسلم شریف وغیرہ میں روایت ہے کے نبی کریم، سیدنا ابو بکر اور  سیدنا عمر  کے اوائل زمانے میں وہ 1 شمار ہوتی تھیں، پھر عمر رض نے 3 کو 3 لاگو کر دیا۔ جو جواب اُدھر وہی جواب ادھر اس حدیث کے بارے کے نبی کریم، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کے زمانے میں متعہ ہوتا تھا پھر عمر رض نے اس سے منع فرما دیا۔  دوسری بات عمر رض نے سختی سے منع اس لیے کیا کیونکہ کچھ صحابہ تک حرام ہونے والی روایات نہیں پہنچی تھیں۔

اب آتے ہیں سیدنا ابن عباس رض کے موقف کی طرف۔  

سیدنا ابن عباس رض کے رجوع پر پہلی دلیل:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے جنگ خیبر کے زمانہ میں منع فرمایا تھا ۔

صحیح بُخاری # 5115

یہ ممکن نہیں سیدنا ابن عبّاس رض یہ جلیل القدر صحابی اور فرد اہل بیت مولا علی رض سے سن کر رجوع نا کر سکیں۔ اب اور روایت بھی دیکھتے ہیں۔

(محمد بن علی) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فلاں (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ) سے کہہ رہے تھے: تم حیرت میں پڑے ہوئے (حقیقت سے بے خبر) شخص ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تھا۔۔۔ آگے یحییٰ بن یحییٰ کی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کردہ حدیث کی طرح ہے

صحیح مسلم # 3432

(محمد ابن حنفیہ) سے، اور انہوں نے (اپنے والد) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ عورتوں سے متعہ کرنے کے بارے میں (فتویٰ دینے میں) نرمی سے کام لیتے ہیں، انہوں نے کہا: ابن عباس! ٹھہریے! بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن اس سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا

صحیح مسلم # 3434

رافضی چالاکی سے کہتے ہیں کے ابن عباس رض نے رجوع نہیں کیا تھا اور امام ابن بطال رحمہ اللہ کو پیش کرتے ہیں۔ جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ متقدمین میں سے ہیں اور ان کا قول راجح ہو گا۔ وہ کہتے ہیں:

صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا جب انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کی خبر دی گئی۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

سنن ترمذی # 1121 کے تحت۔ 

امام ابو بکر جصاص فرماتے ہیں:

 ہم کسی صحابی سے واقف نہیں جنہوں نے متعہ کی اباحت (حلال ہونے) کا قول کیا ہو سوائے ابن عبّاس رض۔ لیکن انہوں نے بھی رجوع کر لیا جب انہیں اس کی ممانعت پر صحابہ کی تواتر اخبار (دلائل) معلوم ہوئے (احکام القرآن 3/102)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اس پر علماء کا مکمل اجماع ہے کے متعہ حرام ہے سوائے رواف ض کے۔ ابن عباس رض اس کی اباحت (جواز) کی رائے رکھتے تھے۔ لیکن یہ روایت ہے کے انہوں نے رجوع کر لیا۔ (شرح صحیح مسلم 9/181)

امام ابن همام حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

ابن عباس کا اپنے موقف سے صحابہ کے قول کی طرف رجوع کرنا صحیح ہے۔ تو اس پر اجماع ہو گیا (فتح القدیر 3/247)

امام ابن نجیم کہتے ہیں: 

جو ابن عبّاس رض سے متعہ کے جواز پر منقول ہے۔ تو ان کا اس سے رجوع صحیح (قول) سے منقول ہے۔ (بحر الرائق 3/115)

سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ (متعہ کے جواز) کے فتوے سے رجوع کر کے ہی فوت ہوئے۔(مسند أبي عوانة # 3284، دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، سند صحیح ہے)

روافض یہ روایت استعمال کرتے ہیں کے سیدنا ابن عباس رض نے فرمایا: اللہ عمر رض پر رحم کرے، متعہ کچھ نہیں لیکن اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ کی طرف سے اجازت یافتہ عمل تھا۔ اللہ نے اس کے ذریعے امت محمد صلى اللہ علیہ وسلم پر رحمت دکھائی، اگر عمر رض متعہ سے منع نا کرتے تو شقی شخص کے علاوہ کوئی زنا نہیں کرتا۔ (مصنف عبد الرزاق # 14021)

پہلی بات یہ روایت ضعیف ہے ابن جریج کے معنن کی وجہ سے۔ ابن جریج تیسرے طبقے کے مدلس تھے جن کی معنن قبول نہیں ہوتی۔ اور ابن جریج خود متعہ کے قائل تھے اور اقوال ملتے ہیں انہوں نے 90 تک عورتوں سے متعہ کیا تو یہ ان کا bias ہو سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ابن عبّاس رض سے مروی ہے اور وہ متعہ کے قائل رہے ہیں۔ لیکن بعد میں ان تک حرام ہونے کی روایت پہنچ گئی اور انہوں نے رجوع کر لیا۔ اگر بالفرض روایت نہیں پہنچی اور ابن عباس رض اپنے موقف یعنی متعہ کے جواز پر قائم رہے تو یہ ابن عبّاس رض کا اپنا کلام ہے جو مرفوع احادیث اور دیگر صحابہ کے خلاف ہے۔

 ایسی روایت سیدنا علی رض کی طرف منسوب ہے تفسیر طبری میں۔ پہلی بات وہ ضعیف ہے کیونکہ الحكم بن عتيبة نے مولا علی رض کا ادراک نہیں کیا۔ اس کے پیدا ہونے سے بہت پہلے یعنی 7 سال پہلے مولا علی رض وفات پا چکے تھے۔ تو یہ روایت منقطع ہے۔ دوسری بات، یاد رکھو یہ روایت صحیح بُخاری، صحیح مسلم وغیرہ جیسی کُتب میں بلکل صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 

شیعہ قرآن کی یہ آیت استعمال کرتے ہیں:

اور (  حرام  کی گئیں ) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں ، اللہ تعالٰی نے یہ احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں اور ان عورتوں کے سِوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے  مال  کے  مہر  سے تم ان سے  نکاح  کرنا چاہو برے  کام  سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لئے اس لئے  جن  سے تم  فائدہ  اُٹھاؤ انہیں ان کا مُقّرر کیا  ہوا   مہر  دے دو ، اور  مہر  مُقّرر ہوجانے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کر لو اس میں تم پر کوئی  گناہ  نہیں ، بیشک اللہ تعالٰی علم والا حکمت والا ہے ۔(سورہ النساء، آیت # 24)

شیعہ اس آیت میں لفظ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ پر زور دیتے ہیں۔ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ اہل سنت، زیدی شیعہ، معتزلہ، اباضی، بلکہ اسماعیلی شیعہ کو اس آیت سے متعہ سمجھ نہیں آیا اور اثنا عشریہ شیعہ کو سمجھ آ گیا؟ کیا باقی جمہور علماء جو عربی بخوبی جانتے تھے اور ہیں، ان کو یہاں متعہ کا جواز نظر نہیں آیا؟

دوسرا جواب: اس آیت میں جو عورتیں تم پر حلال ہیں تو ان سے فائدہ اٹھانے کے بعد فوراً حق مہر دے دو کی بات ہو رہی ہے۔ عارضی متعہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ دائمی نکاح کی بات ہو رہی ہے۔ 

تیسرا جواب: اس آیت کو پچھلی آیات اور بعد کی کو سیاق و سباق سے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے یہاں متعہ کی بات نہیں ہو رہی۔ 

چوتھا جواب: اثنا عشریہ کو معلوم ہے اس آیت سے متعہ ثابت نہیں ہوتا اس لیے وہ ایک ابن عبّاس رض کا اثر استعمال کرتے ہیں جس میں قرآن کی اس آیت میں معاذ اللہ اضافی الفاظ ہیں۔ شیعہ رافضی دعویٰ کرتے ہیں کے وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں۔ تو پھر شیعہ رافضی اس جیسی روایات جو متن کے لحاظ سے مستند نہیں کیوں پیش کرتے ہیں؟ اگر شیعہ کہیں کے سنی کتب میں ایسی روایات ہیں تو جواب ہو گا کے شیعہ کتب میں بھی ایسی باتیں موجود ہیں۔ اور شیعہ اپنے اُن علماء کی تکفیر نہیں کرتے جو تحریف قرآن کے قائل تھے یا ہیں۔ 

ابن عباس رض کہتے ہیں: وہ عورتیں جن کے ساتھ "ایک مدت کے لیے فائدہ حاصل کرو" ابو نضرہ نے کہا: ہم اسے اس طرح نہیں پڑھتے" ابن عباس نے جواباً کہا: اللہ کی قسم یہ یوں ہی اتاری گئی ہے۔ (مستدرک حاکم # 3192. بیشک امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا لیکن متن کے لحاظ سے یہ قبول نہیں)

جہاں تک بات ہے متعہ کے کچھ بار حلال اور حرام ہونے کی تو اس کا جواب ہے کے شراب بھی بتدریج حرام ہوئی تھی۔ پہلے حکم تھا جو قرآن میں وارد ہے:

لوگ آپ سے  شراب  اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا  گناہ  ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی  فائدہ  بھی ہوتا ہے ، لیکن ان کا  گناہ  ان کے نفع سے بہت  زیادہ  ہے۔۔۔ (سورہ البقرہ، آیت # 219)

پھر قرآن میں حکم آیا: 

اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔۔۔(سورہ النساء، آیت # 43)

پھر آخری حکم آیا: 

اے ایمان والو!  بات  یہی ہے کہ  شراب  اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیریہ سب گندی باتیں ، شیطانی  کام  ہیں ان سے بالکل  الگ  رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔ شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ  شراب  اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالٰی کی  یاد  سے اور نماز سے تم کو  باز  رکھے سو اب بھی  باز  آجاؤ۔ (سورہ مائدہ آیات # 90، 91)

دوسری بات نبی کریم علیہِ السلام مختار ہیں جو چاہیں کِسی چیز کو حلال کریں يا حرام۔ بلکہ بار بار بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ 

اب آتے ہیں شیعہ مصادر کی طرف۔ سب سے پہلی دلیل  ملاحظہ ہو:  

امام زید بن علی رحمہ اللہ اپنے آباو اجداد (یعنی  امام زین العابدین سے اور وہ امام حسین سے) وہ سیدنا علی رضى الله عنہ سے کے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام فرما دیا تھا۔ (وسائل الشیعہ۔ جلد 21، صفحہ 12)

یہ روایت شیعہ کی مشہور کتب اربعہ کی ایک کتاب تهذيب الأحكام، شیخ طوسی، جلد 7، صفحہ 251 میں بھی موجود ہے۔ 

شیعہ کہتے ہیں اس روایت میں دو عامی یعنی سنی راوی ہیں جیسے حسين بن علوان اور عمرو بن خالد جن کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ البتہ یہاں شیعہ دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل میں شیعہ کو امام زید بن علی رحمہ اللہ جو اہل بیت سے تھے اور امام زین العابدین کے بیٹے تھے، ان سے معاذ اللہ بغض ہے اور وہ انہیں گمراہ سمجھتے ہیں۔ ایک شیعہ محقق نے اس روایت کے بارے مجھے یہی کہا اور باقی اعتراض نہیں کیے۔ اثنا عشریہ شیعہ کے ہاں متعہ ضروریات مذہب میں سے ہے۔ جبکہ اہل سنت، معتزلہ، زیدی شیعہ، اباضی، یہاں تک اسماعیلی شیعہ متعہ کو حرام مانتے ہیں۔ زیدی کا حرام ماننا دلیل ہے کے یہ والی روایت زیدیہ کے ہاں مقبول ہے۔ اور اُن کے پاس دوسرے دلائل بھی ہیں۔ 

اصلاح پسند شیعہ پروفیسر، فلسفی، اور مصنف موسیٰ الموسوی اس روایت پر یقین رکھتے تھے اس لیے انہوں نے کہا: امام علی کا حرمت متعہ کو برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عہد نبوی میں حرام تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ وہ اس حکم تحریم کی مخالفت کرتے اور اس کے متعلق صحیح حکم الٰہی بیان کرتے۔ اور عمل امام شیعہ پر حجت ہے، میں نہیں سمجھ پایا کے ہمارے فقہاء شیعہ کو یہ جرات کیسے ہوتی ہے کے وہ اس کو دیوار پر مار دیتے ہیں۔۔۔(اصلاح شیعہ صفحہ 192)

اب آئیے ایک اور روایت دیکھتے ہیں۔ 

عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں میں نے ابو عبد اللہ سے متعہ کے بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: اپنے نفس کو اس سے گندہ مت کرو۔  ( مستدرك الوسائل 14/455)

اس پر راف ضی تاویل کرتے ہیں کے عبد اللہ بن سنان ایک شادی شدہ بندہ تھا اور وہ صرف جنسی تسکین کی وجہ سے متعہ کرنا چاہتا تھا اس لیے اسے امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اسے ایسے کرنے سے منع کیا۔ یہ تاویل باطل ہے کیونکہ متعہ ہوتا ہی جنسی تسکین کے لیے ہے، چاہے کوئی شادی شدہ کرے یا غیر شادی شدہ۔ دوسری بات، شیعہ فقہ میں شادی شدہ بندے کو بھی متعہ کرنے کی اجازت ہے۔ اگر متعہ ممنوع ہونے کے بعد اچھی چیز ہوتی تو امام صاحب کبھی ایسا نا کہتے۔ اور متعہ ہوتا ہی ہے مخصوص وقت میں اپنی sexual desires کو پورا کرنے کا نام۔

آیت اللہ شرف الدین موسوی لکھتے ہیں کہ متعہ زواج نہیں بلکہ زنا اور ہمارے پاس قرآن کریم اور روایات کثیرہ موجود ہیں۔ ( کتاب متنوعہ موضوعات: ص 178)

مزید لکھتے ہیں اپنی ایک دوسری کتاب میں کہ اگر متعہ زنا سے بچنے کا ضامن ہے پھر شیعہ میں یہ چیز ختم کیوں نہیں ہوئی چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ حدیث ( متعہ زنا سے بچنے کا ضامن ہے )  ہی جعلی ہے ( کتاب شکؤوں کا جواب : ص170) 

اسی طرح ایک شیعہ محقق  انور غنی الموسوی بھی نکاح متعہ کی حرمت کے قائل ہیں 

بلکہ شیعہ محقق ڈاکٹر صادق تقوی بھی حرمت متعہ کے قائل تھے اور انہوں نے اپنی تفسیر (ترجمہ و تفسیر قرآن مجید یا بزرگتر خواندنی جھان : ص 688) پر متعہ کو ایک اجتماعی برائی اور بد اخلاق عمل اور عمل فاحشہ کے ساتھ مماثل قرار دیا ہے۔

شیعوں اور سنیوں میں نکاح متعہ کے حلال و حرام پہ بحثیں چلتی ہیں،لیکن اس موضوع پر شیعہ آٰیت اللہ برقعی نے ایک پوری کتاب لکھی"اسلام میں متعہ کا حرام ہونا"،اس کتاب کو لکھنے سے پہلے ان کا ایک مقالہ شائع ہوا تھا جو متعہ از نظر اسلام کے نام سے ہے جس میں متعہ پر مدلل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ متعہ بدعت ہے، فطرت کے خلاف ہے، آیت نکاح اور سیرت آئمہ اہل بیت ع کے خلاف ہے،اور شیطانی عمل اور زنا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!اور حرام ہے۔

مصنف اختتام کرتا ہے اس بات کے ساتھ کے کوئی با حیا اثنا عشری شیعہ کبھی پسند نہیں کرے گا کے اس کی ماں جو طلاق یافتہ ہو یا جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو وہ متعہ کرے۔ یا کنواری یا طلاق یافتہ بہن، بیٹی سے کوئی متعہ کرے۔ با حیا بندہ دائمی نکاح ہی کو اپنائے گا اپنی عورتوں کے لیے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں