Did Sayyiduna Umar (ra) burn the house of Sayyidah Fatima (ra) and killed her?

کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا اور انہیں شہید کیا؟

Article Bottom

کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا اور انہیں شہید کیا؟


کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کا دروازہ جلایا جو ان پر گرا جس کی وجہ سے بعد میں ان کی اور ان کے پیٹ میں بچے کی موت واقع ہوئی؟

یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کچھ شیعہ اہل سنت کو اس چیز کا الزام دیتے ہیں کہ دوسرے خلیفہ نے یہ بہت بڑا جرم کیا کہ انہوں نے سیدہ فاطمہ کے دروازے کو جلایا، جو ان کے اوپر گرا جس کی وجہ سے ان کی اور ان کے پیٹ میں بچے کی موت واقع ہوئی۔ (معاذ اللہ)۔

ہم اس گھڑی ہوئی روایت کے تاریخی پس منظر کی طرف آتے ہیں مگر ، منطقی طور پر بھی ایسا ہونا ممکن نہیں۔ 

ا)  سیدنا علی سب سے زیادہ شجاع والے تھے۔ وہ کفار کے لشکر سے اکیلے جا کر لڑتے تھے۔ انہوں نے در خیبر اپنے ہاتھوں سے اکھاڑا۔ ان کا نام حیدر اور اسد اللہ ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا بہادر شخص یہ برداشت کر گیا ہو اور عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ نہیں کی ہو؟ یہ یاد رکھیے کہ امام حسین اپنے اہل و عیال کو لیکر لعنتی اور ظالم یزید کے خلاف کھڑے ہوئے، حالاںکہ دشمن تعداد میں زیادہ تھے۔ 

ب)  اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو یہ ہم تک تواتر ( وہ روایت جس کے راوی اتنے زیادہ ہوں کہ اس میں شک نہ رہے) سے آتا۔ تاریخ کی کتب میں جو گڑھی ہوئی کہانیاں موجود ہیں ان کے علاوہ یہ واقعہ ہمیں کسی حدیث کی کتاب میں تواتر سے نہیں ملتا۔ 

وہ پہلا شخص جس نے شیعہ کتب میں یہ روایت کی اور وہ پہلی کتاب جس میں یہ روایت موجود ہے وہ سلیم ابن قیس الامری الحلالی کی کتاب " السقیفہ " ہے۔ 

اس کی سند یوں ہے: ابان بن ابی عیاش سلیم ابن قیس روایت کرتا ہے جس میں سلیم نے کہا ہاں: میں ابن عباس کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ، اور کچھ شیعان علی بھی وہاں موجود تھے جب ہمیں خبر ملی کہ عمر لکڑیوں کے ساتھ آئے اور فاطمہ کے گھر کو آگ لگا دی۔ 

سلیمان بن قیس اور اس کی کتاب کی حقیقت مند رجہ ذیل ہے: 

شیعہ کے بڑے علماء نے خود اس کتاب کو رد کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو اس لیے رد کیا ہے کیوںکہ یہ وہ پہلی کتاب ہے جس میں قرآن کی تحریف کا ذکر ہے۔ 
شیعہ کے بڑے حدیث کے استاد شیخ ابن مطہر الحلی نے کتاب الرجال لکھی جو رجال الحلی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے صفحہ 206 پر انہوں نے لکھا :
 
ابان بن ابی عیاش روایات میں سخت ضعیف تھا اور ہمارے علماء اس کتاب کو گڑھا ہوا سمجھتے ہیں جس کو سلیم ابن قیس سے منسوب کیا جاتا یے۔ 

ایک اور شیعہ عالم محمد بن علی ، جامع الرواۃ 1/9 میں کہتے ہیں: 

ابان بن ابی عیاش ضعیف ہے، اس کے کہنے کی طرف نہیں جانا چاہیے، ہمارے اصحاب اس کتاب کو موضوع (گڑھی ہوئی) مانتے ہیں اور اس کو سلیم ابن قیس سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ 

شیعہ رجال کے ایک اور بڑے عالم امام مامقانی اپنی تنقیح المقال 2/25 میں کہتے ہیں: 

سلیم ابن قیس خود ہمارے اصحاب میں جانا نہیں جاتا، یہ کتاب السقیفہ یقینا ایک گڑھی ہوئی کتاب ہے، پھر انہوں نے کہا کہ جو کچھ اس کتاب میں ہے وہ "أدلة كافية للدلالة على وضعه" ہے

ایک اور بڑے شیعہ عالم شیخ مفید اپنی تصحیح اعتقاد الامامیہ صفحہ 149-150 میں کہتے ہیں: 

یہ کتاب مکمل طور پرقابل اعتبار نہیں ہے۔ دینی لوگ اس کتاب اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس سے دور رہیں۔ 

سنی علماء نے بھی ابان بن ابی عیاش کو کذاب اور منکر الحدیث کہا ہے، دیکھیے ابن حجر کی تہذیب التہذیب۔ لہٰذا دونوں سنی اور شیعہ ابان بن ابی عیاش کو رد کرنے میں متفق ہیں۔ 

شیعہ عالم حسین کاشف اپنی جنّة المأوى صفحہ 135 پر کہتے ہیں: 

کسی مسلمان کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ ایسا واقعہ ہوا ہو یہ واقعہ سچا ہو۔ نہ ہی عقل نہ ہی شعور یہ ماننے کو تیار ہے کہ علی کی موجودگی میں ایسا ہوا ہو۔ 

 ایک اور روایت ہے جو ال المدائنی کے طریق سے ملتی ہے جس نے مسلمہ بن محارب الزیادی الکوفی سے جس نے سلیمان التیمی سے جس نے ابن عون سے روایت کیا۔

مسلمہ بن محارب حدیث میں مجہول الحال ہے۔ 

اس بات پر غور کیا جائے کہ سلیمان بن عون 73 ہجری میں پیدا ہوا جبکہ یہ واقعہ11 ہجری کا ہے۔ وہ کیسے اس واقعہ کو نقل کر سکتا ہے جب وہ 62 سال بعد پیدا ہوا ہے؟ لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔ 

یہ بھی کہ ابن عون 66 ہجری میں پیدا ہوا۔ 

یہ روایت محمد بن حمید الراضی کے طریق سے بھی آتی ہے۔ تہذیب الکمال 25/102-107 میں ہے : محمد بن حمید الرازی کذاب ہے۔ 

شیعہ ، سنی کتب سے تین حوالے دیتے ہیں۔

1۔  علامہ مسعودی بروج الذھب میں۔
2۔  علامہ شہرستانی الملل والنحل میں۔ 
3۔  علامہ صفدی الوافی والوافیات میں۔ 

مسعودی کی کتاب مروج الذھب سنی کتاب نہیں ہے بلکہ مسعودی شیعہ تھا۔ انکا نام علی بن حسین المسعودی ہے۔ ان کا ذکر شیعہ کتب میں ہے۔

بحر العلوم کی کتاب فوائد الرجالیہ 4/150 میں : شیعہ علی بن حسین المسعودی، صاحب مروج الذھب کا ذکر ہے۔

الحلی نے خلاصۃ الاقوال :146 میں مسعودی کو شیعہ کہا اور کہا کہ انہوں نے بہت سے کتب شیعہ عقائد پر لکھیں۔ 

علامہ شہرستانی پر الزامات:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شہرستانی کا اصل فرقہ معلوم نہیں ، ویکیپیڈیا کے مطابق وہ اسماعیلی شیعہ تھا۔ 
نوٹ: ویکیپیڈیا مصنف کے نزدیک مستند ماخذ نہیں ہے، لیکن سوانح پر اس کی جانچ پڑتال کے بعد حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ 

اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ سنی تھا تو پھر شہرستانی نے الملل والنحل میں باب باندھا " الفراق الباطلہ " (باطل فرقے) جس میں اس نے متعزلہ پر باب باندھا ہے، اور اس میں معتزلہ کے تین فرقوں کا ذکر کیا ہے۔ نظامیہ فرقے کی تفصیلات میں اس نے ان کے غلط عقائد کا ذکر کیا اور اس میں اس واقعہ کو بھی شامل کیا۔ یعنی اس نے اس کو نظامیہ کے غلط عقیدے میں شمار کیا۔ 

الصفدی کی کتاب الوافی الوافیات 2/227 میں:

 پھر سے نظام المعتزلی الرافضی کے باب میں اس کے غلط عقائد کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔
 
شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الامامہ والسیاسہ سنی عالم ابن قتیبہ نے لکھی ہے جبکہ یہ ان کی کتاب نہیں۔ 

ابن ندیم نے مختلف علماء کی کتابوں کی فہرست بنائی ہے۔ جلد 1 صفحہ 115 میں انہوں نے ابن قتیبہ کی کتابوں کا ذکر کیا ہے جس میں امامہ والسیاسہ کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ علامہ زرکلی نے بھی امامہ والسیاسہ کو ابن قتیبہ کی کتابوں میں ذکر نہیں کیا۔ 

الامامہ والسیاسہ کے مجہول مصنف نے یہ ذکر کیا کہ ابن قتیبہ دمشق گئے جبکہ وہ کبھی دمشق نہیں گئے۔
 
کئی شیعہ کتب اس پر تفصیلی بات کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ کا وصال کیسے ہوا: شیخ صدوق متوفی 381 ہجری کی کتاب علل الشرائع شائع نجف عراق باب 148 صفحہ 184-185 : پر کہیں یہ ذکر نہیں کہ عمر رض نے فاطمہ رض کا گھر جلایا ، انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ فاطمہ رض کا موت تک خلفاء سے اختلاف تھا اور ناراضگی تھی مگر اس واقع کا ذکر نہیں کیا۔ 

مفاہمت: وہ روایات جو سیدہ فاطمہ کے گھر کو جلانے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ گڑھی ہوئی اور جھوٹی ہیں۔ یہ شیعہ رجالی علماء کے نزدیک بھی جھوٹ ہیں۔ کسی کو نہیں چاہیے کہ وہ ایسی فضولیات عوام الناس میں پھیلائے تاکہ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد قائم رہے۔ مصنف شیعہ مصادر جیسے الکافی سے کئی ایسی روایات نقل کر سکتا ہے جن میں قرآن کی تحریف کا ذکر ہے مگر شیعہ انہیں ضعیف یا موضوع کہیں گے۔ اسی طرح احراق در والی روایات کو اہل سنت کی طرف منسوب کرنا  دجل سے کم نہیں کیوںکہ یہ بھی ویسے ہی گڑھی ہوئی ہیں جیسے شیعہ کتب میں کچھ روایات گڑھی ہوئی ہیں۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں