Hadith of Qirtaas (Pen and Paper)

حدیث قرطاس پر مضمون

Article Bottom

حدیث قرطاس پر مضمون



حدیث قرطاس اور کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصیت لکھنے سے منع کر دیا تھا ؟

شیعہ حضرات، سنی مصادر سے کچھ احادیث استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) علی رضى اللہ عنہ کے بارے میں وصیت لکھنا چاہتے تھے یعنی وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد علی رضى اللہ عنہ خلیفہ ہوں مگر عمر رضى اللہ عنہ نے ان کو یہ کرنے سے روک دیا۔ 

صحیح بخاری سے ایسی ایک روایت یہ ہے: 

ابن عباس کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے ) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں ( ہدایت کے لیے ) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے ( وہ چیز جو ) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔ (صحیح بخاری 114) 

مشہور اتحادِ اُمت کے قائل عالم مولانا اسحاق جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اتحاد امت پر درس دیتے تھے۔ مصنف نے ان کو بارہا کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ عمر رضى اللہ عنہ کی غلطی تھی۔ نعوذ باللہ

البتہ اور احادیث بھی موجود ہیں جن میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ عمر رضى اللہ عنہ نے ایسا کہا، البتہ جو باقی اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ایسا کہا، دوسرا یہ کہ رسول اللہ نے زبانی طور پر اپنی وصیت کو واضح کر دیا تھا اور اس میں مولا علی کی خلافت کا کوئی ذکر نہیں tha حدیث یہ ہے:

 ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا  جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم ( میرے بعد اس پر چلتے رہو تو ) کبھی گمراہ نہ ہو سکو اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے ) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ‘ اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا ( ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔ اور یعقوب بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے جزیرہ عرب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہا مکہ ‘ مدینہ ‘ یمامہ اور یمن ( کا نام جزیرہ عرب ) ہے۔ اور یعقوب نے کہا کہ عرج سے تہامہ شروع ہوتا ہے ( عرج مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک منزل کا نام ہے ) ۔ (صحیح بخاری 3053) 

اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ عمر نے وہ الفاظ کہے البتہ یہ ذکر ہے کہ باقی لوگ جو وہاں موجود تھے (جن میں اہل بیت بھی ہو سکتے ہیں) انہوں نے ایسا کہا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ نے زبانی طور پر تین چیزوں کا ذکر کرکے اپنی وصیت کو واضح کردیا تھا۔ 

صحیح بخاری کی ایک اور کتاب ، کتاب الجزیہ میں بھی عمر کا ذکر نہیں۔  # 3168
  
بخاری کی ایک اور روایت جو کتاب المغازی میں ہے اس میں بھی عمر کا کوئی ذکر نہیں۔ # 4431 

ایک حدیث جس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ سیدنا علی وصیت کا لکھا جانا نہیں چاہتے تھے۔ حدیث یہ یے:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: اے ابوالحسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کیسی گزاری؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہا ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ عباس رضی اللہ عنہ نے پکڑ کر کہا۔ کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے نہیں ہو۔ ( واللہ ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پا جائیں گے۔ میں بنی عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں، اس لیے ہمارے ساتھ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ تاکہ پوچھا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی تو ہم عرض کریں گے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کی درخواست کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار  کر  دیا   تو   پھر  لوگ  ہمیں  کبھی نہیں دیں گے میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو۔ (صحیح بخاری 6266)

مسند احمد میں جناب مولا علی سے خود یہ حدیث موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کے نبی کریم علیہ السلام مولا علی رضى اللہ عنہ کے لیے کوئی وصیت نہیں لکھنا چاہتے تھے۔ حدیث میں ہے:

سیدنا علی نے فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ کاغذ لاؤ تاکہ میں کچھ لکھوا دوں جس سے میرے بعد اُمت گمراہ نہیں ہو گی۔ حضرت علی نے کہا کہ میری غیر موجودگی میں آپ کہیں وفات نہ پاجائیں تونے کہا میں اُس کو یاد کر لیتا ہوں تو نبی کریمﷺ نے فرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں نماز ،زکوۃ اور غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا۔(مسند احمدرقم الحدیث693 حکم الحدیث :احمد شاکر المصری نے اس روایت کو حسن کہا ہے)

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ سیدنا علی کو یقین نہیں تھا کہ خلافت کس کو دی جائے گی نہ ہی وہ چاہتے تھے کہ ایسا کچھ لکھا جائے۔ اگر خلافت حاصل کرنے کا حق اللہ نے اہلبیت کو دیا ہوتا تو علی قلم اور کاغذ لانے سے انکار نہ کرتے۔ 

شیعہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سنی کتب ہیں اور وہ ان کو حجت کے طور پر نہیں لیں گے۔ تو پھر مندرجہ ذیل دلائل شیعہ مصادر سے ہیں۔ 

بڑے شیعہ عالم امام الطائفہ الطوسی متوفی 407 ہجری نے تلخیص الشافی 2/372 میں کہا:

 سیدنا علی سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بعد وصی نہیں بنائیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں کیونکہ نبی نے بھی کوئی وصی نہیں بنایا تھا۔ اگر اللہ نے چاہا تو وہ بہترین لوگوں کو جمع فرما دے گا جیسا اس نے نبی کے بعد جمع فرما دیا تھا۔ 

ایک اور روایت (2/372) میں فرمایا جب ابن ملجم نے علی رضى اللہ عنہ پر حملہ کیا اور آپ زخمی ہوگئے تو ان سے کہا گیا کہ اے امیر المؤمنین کسی کو خلیفہ نامزد کر دیں تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ 

اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر امامت منصوص من اللہ تھی تو کیا علی رضى اللہ عنہ نے معاذ اللہ، اللہ کی حدود کو توڑ دیا ؟ 

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ نے خلافت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ اور یہ بھی کہ سیدنا علی کا ماننا تھا کہ پہلے تین خلفاء کی خلافت پر بہترین لوگ جمع ہوئے تھے۔ 

نہج البلاغہ کا خط نمبر 6 بہت اہم ہے جس میں ہے کہ: 

جن لوگوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے، اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو،اسے ردّ کرنے کا اختیار نہیں، اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔ وہ اگر کسی پر اتفاق کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے۔ اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں، کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے۔ (نہج البلاغہ خط # 6)

صحابہ کو کاغذ اور قلم والے معاملے میں ملزم نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیوںکہ جیسا حدیث میں ذکر ہے رسول اللہ سخت بیمار تھے اور وہ چاہتے تھے کہ نبی آرام فرمائیں۔ 

حدیث میں ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ علی رضى اللہ عنہ کے بارے میں وصیت لکھنا چاہتے تھے بلکہ رسول اللہ کچھ اور لکھنا چاہتے تھے جیسا کہ اوپر حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ نے تین احکامات دیے۔ 

عمر رضى اللہ عنہ بلکہ صحابہ بشمول علی رضى اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ قران ہمارے پاس موجود ہے۔ اس وجہ سے ان پر الزام نہیں لگ سکتا کیوںکہ قرآن میں ہے کہ: 

۔۔۔۔۔۔۔۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ۔(سورہ مائدہ آیت # 3) 

مفاہمت: یہ بات ثابت نہیں کے نبی کریم علیہ السلام مولا علی رضى اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت لکھنا چاہتے تھے۔ اور ایک حدیث میں تین زبانی احکامات کا ذکر ہے جس میں سے کوئی بھی خلافت کے بارے میں نہیں ہے۔ عمر رضى اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے علی رضى اللہ عنہ کو غدیر خم کے دن اپنا مولا مانا اگر وہ علی کے بارے میں کچھ چھپانا چاہتے تو علی کو اپنا مولا نہ مانتے۔ 

ایک حدیث دونوں شیعہ اور سنی مانتے ہیں کہ سیدنا علی نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ کا نام محمد بن عبداللہ لکھنے سے انکار کیا تھا۔ تو کیا اب ہم یہ کہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور ان کو مورود الزام ٹھہرائیں؟ مصنف خود سنی ہے اور وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ علی رضى اللہ عنہ کو یہاں غلطی پر مانے کیوںکہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ سے محبت تھی اور وہ انکو سچا نبی مانتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ کا نام محمد بن عبداللہ لکھنے انکار رسول اللہ کی بے پناہ محبت کے سبب کیا۔ اسی طرح حدیث قرطاس میں صحابہ نے بھی انکار محبت میں ہی کیا تھا کیوںکہ وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ بیمار ہیں اور آرام فرمائیں۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں