Can Allah be seen (Did Prophet see Allah)?

کیا اللہ کا دیدار کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے نبی علیہ السلام نے اللہ کو دیکھا؟

Article Bottom

کیا اللہ کا دیدار کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے نبی علیہ السلام نے اللہ کو دیکھا؟

اہل سنت کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات اللہ کو دیکھا۔ سلفی اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی نے صرف جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا جبکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ آخرت میں نظر آئے گا۔ دوسری طرف شیعہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کا دیدار کرنا ناممکن ہے چاہے نبی کے آسمان پر جانے ( معراج) پر یا ہم سب کا آخرت میں۔

جو ثبوت اہل سنت کی اکثریت کے حوالے سے ہیں۔
معراج کے سلسلے میں وہ درج ذیل ہیں:

قرآن نے سورہ نجم میں کافروں کو ایک چیلنج پیش کیا ہے اور پھر آیت نمبر 18 کے فورا بعد اللہ نے جھوٹے معبودوں کا ذکر کیا ہے جن کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے یعنی لات، العزہ اور منات۔ اس طرح ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو دیکھتے ہوئے ان کے سامنے اللہ کے وجود پر ایک عظیم شہادت بن گئی۔ 

[دیکھیں قرآن ، سورہ نجم 11 تا 17]

قرآن کہتا ہے:

وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ  فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَ‌أَىٰ  أَفَتُمَارُ‌ونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَ‌ىٰ 

اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔ پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا۔پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔ پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔  دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر  نے) دیکھا۔ کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں۔ اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ ( سورہ نجم : 7 تا 14) 

 بارویں آیت میں ہمارا رب العالمین پوری دنیا کو چیلنج کر رہا ہے کہ "کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں"

 اگر یہ صرف جبرائیل علیہِ السلام کو دیکھنا ہوتا تو یہ بہت بڑا چیلنج نہ ہوتا کیونکہ موسیٰ علیہِ السلام جیسے سابقہ انبیاء کو اللہ کے ساتھ براہ راست بات کرنے کا شرف حاصل تھا(دیکھیں قرآن: الاعراف: 143) 

اور ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی گئی (دیکھیں قرآن: الانعام:75) جو کہ جبرائیل کو دیکھنے سے بہت زیادہ اعلیٰ چیزیں تھیں ، اس لیے اب قرآن سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ کا دیدار بالآخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص تھا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث اور بہت سے دوسرے اس کو ثابت کرتے ہیں جس کا تذکرہ جلد کیا جائے گا۔

یہاں ہم امام ابن الجوزی (علیہ رحمہ) کی ان آیات کی تفصیلی تفسیر پیش کرتے ہیں ہے۔ وہ 8 ویں اور 9 ویں آیات کو صحیح احادیث اور اقوال کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ 

وفي المشار إليه بقوله: «ثُمَّ دنا» ثلاثة أقوال. أحدها: أنه الله عز وجل. روى البخاري ومسلم في «الصحيحين» من حديث شريك بن أبي نَمِر عن أنس بن مالك قال: دنا الجبّار ربُّ العِزَّة فتدلَّى حتى كان منه قابَ قوسين أو أدنى. وروى أبو سلمة عن ابن عباس:«ثم دنا»   قال: دنا ربُّه فتدلَّى، وهذا   اختيار مقاتل قال: دنا الرَّبُّ من محمد ليلةَ أُسْرِي به،، فكان منه قابَ قوسين أو أدنى. وقد كشفتُ هذا الوجه في كتاب «المُغْني» وبيَّنتُ أنه ليس كما يخطُر بالبال من قُرب الأجسام وقطع المسافة، لأن ذلك يختص بالأجسام، والله منزَّه عن ذلك.والثاني: أنه محمد دنا من ربِّه، قاله ابن عباس، والقرظي. والثالث: أنه جبريل. ثم في الكلام قولان. 

ترجمہ:اللہ عزوجل کے قول (نزدیک ہوا) کے بارے میں تین مشہور اقوال ہیں۔

1: یہ اللہ ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں شریک بن ابی نمرجنہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے  فرمایا جب اللہ رب العزت آیا اور قریب ہوا  یہاں تک کہ وہ دو ہاتھ یا اس سے بھی قریب ہوا (صحیح بخاری رقم الحدیث7518 صحیح مسلم رقم الحدیث 162) اور یہ ابو سلمہ سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ آیا کہ معنی ہیں کہ اللہ عزوجل قریب آیا اسرا کی رات میں اور وہ فاصلے کے بارے بات نہیں جیسا کہ جسمانی مخلوق کے بارے کہا جاتا ہے اللہ اس سے بلند ہے کہ ایسی چیز اس کی طرف منسوب کی جائے۔

2: وہ محمدﷺ تھے جو اللہ عزوجل کے قریب گئے یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور قرظی کا۔

3: یا وہ جبرائیل تھے اس پرکلام ہے (پھر امام ابن جوزی اس پر سیدہ عائشہ جیسے صحابہ کے اقوال نقل کرتے ہیں جو یہ مانتے تھے کہ نبی اکرمﷺ نے اﷲ عزوجل کونہیں دیکھا سیدہ عائشہ نے ایسا کیوں کہا اور کیسے دوسرے صحابہ نے ان سے اختلاف کیا وہ نیچے تفصیل سے بیان کیا جائے گا)۔ (امام ابن جوزی زادالمسیر فی علم التفسیر ج، 8 صفحہ، 65 تا 66)

قرآن ایک اور جگہ کہتا ہے:

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ   اَنۡظُرۡ   اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ  وَ لٰکِنِ  انۡظُرۡ  اِلَی  الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ  لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ  دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ  اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ  اِلَیۡکَ  وَ اَنَا  اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ
 
ترجمہ: اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) ہمارے  وقت  پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار !اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر آپ کو دیکھ لوں ارشاد  ہوا  کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس  پہاڑ  کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی  جگہ  پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ۔ پس جب ان کے رب نے  پہاڑ  پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ( علیہ السلام ) بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا ، بیشک آپ کی ذات منزہ ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے  پہلے  آپ پر ایمان لانے والا ہوں۔ ( سورہ اعراف آیت# 143)

 امام سیوطی فرماتے ہیں :

(تم مجھے نہیں دیکھ سکتے) یعنی تم میں مجھے دیکھنے کی صلاحیت نہیں یہاں لفظ لن ترانی استعمال ہوا ہے نہ کہ لن اراء یہ اشارہ کرتا ہے کہ اللہ کو دیکھنا ممکن ہے۔

حوالہ: تفسیر الجلالین ، صفحہ نمبر 167 ، شائع کردہ دار ابن کثیر ، دمشق۔

امام قرطبی (علیہ رحمہ) اس کی وضاحت کرتے ہیں:

وأجمعت الأمة على أن هذه التوبة ما كانت عن معصية؛ فإن الأنبياء معصومون. وأيضاً عند أهل السنة والجماعة الرؤيةُ جائزةٌ.

ترجمہ: ائمہ کا اجماع ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا توبہ کرنا گناہ کے زُمرے میں نہیں کیونکہ انبیاء معصوم ہیں اور اہلسنت کی رائے ہے کہ اللہ عزوجل کا دیدار ممکن ہے۔ (تفسیر۔القرطبی 7: 143 کے تحت)

صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث بیان کرتی ہے: 

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت پہ پچاس نمازیں فرض کیں میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آپ کے رب نے آپ کو امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے جواب دیا ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے کہا اپنے رب کی طرف واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی اس پر میں نے اپنے رب سے رجوع کیا تو اس کا ایک حصہ مجھ سے کم کر دیا آپ نے فرمایا میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا اور انہیں بتایا اپنے رب کی طرف (دوبارہ) جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہ رکھے گی میں اپنے رب کی طرف کیا تو اس نے فرمایا یہ پانچ ہیں اور یہی پچاس (کے برابر) ہیں میرے ہاں حکم بدلہ نہیں کرتا آ پ نے فرمایا میںلوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف (دوبارہ) جائیں تو میں نے کہا (بار بار سوال کرنے پر) میں اپنے رب سے شرمندہ ہوا ہوں۔[صحیح مسلم ، حدیث نمبر 415 متفق علیہ]

یہ حدیث فیصلہ کن ثابت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا کیونکہ جب بھی موسیٰ علیہ السلام ان سے کہا تھا کہ "اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ ، پیغمبر اللہ کی طرف لوٹ آئے" اور آخر میں نبی نے کہا: "میں اپنے رب سے شرمندہ ہوں۔

ایک اور حدیث کہتی ہے:

‏ عن ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏قال ‏رأى ‏ ‏محمد ‏ ‏ربه قلت أليس الله يقول ‏لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار ‏قال ويحك ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقال أريه مرتين ۔

ترجمہ: عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار» ”اس کو آنکھیں نہیں پا سکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کو پا لیتا ہے“ (الانعام: ۱۰۳)، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے، انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا (ترمذی # 3279 دار السلام والوں نے کہا یہ حسن ہے)

امام بدرالدین عینی علیہ الرحمہ بخاری کے شارح فرماتے ہیں:

روى ابن خزيمة بإسناد قوي عن أنس قال رأى محمد ربه وبه قال سائر أصحاب ابن عباس وكعب الأحبار والزهري وصاحب معمر وآخرون وحكى عبد الرزاق عن معمر عن الحسن أنه حلف أن محمدا رأى ربه وأخرج ابن خزيمة عن عروة بن الزبير إثباتها

ترجمہ:ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے قوی سند سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ایسا ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ان کے شاگردوں سے بھی جیسے کعب بن احبار علیہ الرحمہ زہری اور معمر علیہ الرحمہ۔ امام عبد الرزاق معمر سے نقل کرتے ہیں جو کہتے ہیں امام حسن بصری علیہ الرحمہ یہ  کہتے تھے میں اللہ عزوجل کی قسم کھاتا ہوں کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے (دیدار الٰہی) کو عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی ثابت کیا۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج، 19 ص، 198)

امام حسن بصری کا قسم اٹھانا کوئی معمولی چیز نہیں جو لوگ امام حسن بصری کا حدیث نقل کرنے میں ان کا مقام نہیں سمجھتے وہ بنیادی باتیں بھی نہیں سمجھتے۔

امام بدرالدین عینی نے یہ بھی وضاحت کی:

وروى الطبراني في (الأوسط) بإسناد قوي عن ابن عباس قال رأى محمد ربه مرتين ومن وجه آخر قال نظر محمد إلى ربه جعل الكلام لموسى والخلة لإبراهيم والنظر لمحمد فظهر من ذلك أن مراد ابن عباس ههنا رؤيا العين

ترجمہ: امام الطبرانی نے اپنی اوسط میں قوی سند سے ابن عباس سے نقل کیا جو کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد ﷺ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ  عزوجل سے براہ راست بات کی ابراہیم علیہ السلام کو اللہ عزوجل نے اپنا دوست بنایا اور محمد ﷺ کو دیدار کے لیے پسند کیا (یہ شرف کسی اور کو حاصل نہیں) ظاہر طور پر ابن عباس  رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج، 17 ص، 30)

امام نسائی اور امام حاکم صحیح سند سے بیان کرتے ہیں :

أخبرنا إسحاق بن إبراهيم قال أخبرنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن قتادة عن عكرمة عن بن عباس قال أتعجبون أن تكون الخلة لإبراهيم والكلام لموسى والرؤية لمحمد صلى الله عليه وسلم

ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم تعجب کرتے ہو ابراہیم علیہ السلام کی دوستی پر موسیٰ علیہ السلام کے (اللہ سے) کلام پر اور محمد ﷺ کے (اللہ عزوجل کے) دیدار پر (سنن النسائی الکبری میں عمل الیوم والیلیٰ حدیث 11539 و مستدرک الحاکم ج 1حدیث 216)

امام حاکم نے اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا یہ حدیث صحیح ہے بخاری کی شرط پر

 امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا:

ما أخرجه النسائي بإسناد صحيح وصححه الحاكم أيضا من طريق عكرمة عن بن عباس قال أتعجبون أن تكون الخلة لإبراهيم والكلام لموسى والرؤية لمحمد

ترجمہ: اس کو نسائی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا اور حاکم نے بھی صحیح کہا (اور پھر وہ یہی حدیث نقل کرتے ہیں) (فتح الباری شرح البخاری ج، 8، ص493)

امام نووی رحمہ اللہ حتمی طور پر کہتے ہیں:

فالحاصل أن الراجح عند أكثر العلماء: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ربه بعيني رأسه ليلة الإسراء لحديث ابن عباس وغيره مما تقدم . وإثبات هذا لا يأخذونه إلا بالسماع من رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا مما لا ينبغي أن يتشكك فيه

ترجمہ: ان سب دلائل کا حاصل یہ ہے کہ یہ اکثر علماء میں راجح ہے کہ نبی کریمﷺ نے اسراء کی رات میں اپنے رب کو آنکھوں سے دیکھا جیسے ابن عباس اور دوسروں سے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس کا ثبوت نبی اکرم ﷺ سے آتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (امام نووی شرح صحیح مسلم کتاب ایمان) 

امام نووی یہ بھی فرماتے ہیں:

هذا الذي قاله عبد الله رضي الله عنه هو مذهبه في الآية , وذهب الجمهور من المفسرين إلى أن المراد أنه رأى ربه سبحانه وتعالى

ترجمہ: (نبی کا اللہ عزوجل کا دیدار نہ کرنا) یہ عبداللہ ابن مسعود اور ان کے موافقین کا قول ہے لیکن جمہور مفسرین کا موقف (بشمول ابن عباس) ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ کو دیکھا (شرح صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث254کے تحت)

اس پر اور بھی بہت دلائل ہیں آئیے اب ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کی طرف آتے ہیں جنہوں نے اللہ عزوجل کے دیدار کا انکار کیا۔ 

اس کے جواب میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ نقل کرتے ہیں:

عن المروزي قلت لأحمد إنهم يقولون إن عائشة قالت 
من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية فبأي شيء يدفع قولها قال بقول النبي صلى الله عليه وسلم رأيت ربي قول النبي صلى الله عليه وسلم أكبر من قولها

ترجمہ: مروزی علیہ الرحمہ نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ جس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ عزوجل کو دیکھا تو اس نے اللہ عزوجل کی طرف ایک عظیم جھوٹ منسوب کیا، تو ہم اس کا جواب کیسے دیں؟ تو امام احمد نے جواب  دیا اس کا جواب ہم حضور علیہ السلام کے قول سے دیں گے جب انہوں نے کہا میں نے اپنے رب کو دیکھا اس لیے نبی کریم علیہِ السلام کا قول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بہت بلند ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 8 ص 494)

 امام نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا :

وإذا صحت الروايات عن ابن عباس في إثبات الرؤية وجب المصير إلى إثباتها فإنها ليست مما يدرك بالعقل , ويؤخذ بالظن , وإنما يتلقى بالسماع ولا يستجيز أحد أن يظن بابن عباس أنه تكلم في هذه المسألة بالظن والاجتهاد . وقد قال معمر بن راشد حين ذكر اختلاف عائشة وابن عباس : ما عائشة عندنا بأعلم من ابن عباس , ثم إن ابن عباس أثبت شيئا نفاه والمثبت مقدم على النافي

ترجمہ: جب یہ ابن عباس سے صحیح مروی ہے جو ثابت کرتی ہے کے نبی کریم نے اللہ عزوجل کو دیکھا۔ تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے یہ اپنے ظن سے کہا، یقینا یہ انہوں نے نبی کریم سے سننے کے بعد کہا ہو گا۔ معمر بن راشد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس کے اختلاف کے بارے فرماتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے بارے میں (مکمل)  علم نہیں رکھتی تھیں جبکہ ابن عباس رکھتے تھے سو جب اس کو ابن عباس ثابت کر رہے ہیں تو یہ ایک (اصول ہے) کہ مثبت (ثابت ہونا) نفی (انکار) پر مقدم ہے (شرح صحیح مسلم کتاب الایمان)

اس موضوع کو ختم کرنے کے لیے ہم سیرت نبی پر لکھی گئی بہترین کتاب یعنی قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ کی الشفاء شریف سے تفصیل سے اقتباس پیش کریں گے:

فصل:رؤيته لربه عز و جل و اختلاف السلف فيها
و أما رؤيته ـ صلى الله عليه و سلم لربه جل و عز ـ فاختلف السلف فيها ، فأنكرته عائشة .حدثنا أبو الحسن سراج بن عبد الملك الحافظ بقراءتي عليه ، قال حدثني أبي و أبو عبد الله بن عتاب الفقيه ، قالا : حدثنا القاضي يونس بن مغيث ، حدثنا أبو الفضل الصلقي ، حدثنا ثابت بن قاسم بن ثابت ، عن أبيه وجده ، قالا : حدثنا عبد الله بن علي ،قال: حدثنا محمود بن آدم ،حدثنا وكيع، عن ابن أبي خالد، عن عامر عن مسروق ـ أنه   قال لعائشة رضي الله عنهاـ  يا أم المؤمنين، هل رأى محمد ربه؟ فقالت: لقد قف شعري مما قلت. ثلاث من حدثك بهن فقد كذب : من حدثك أن محمد اً رأى ربه فقد كذب ، ثم قرأت : لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير ، و ذكر الحديث .
و قال جماعة بقول عائشة رضي الله عنها ، و هو المشهور عن ابن مسعود .و مثله عن أبي هريرة أنه [ ا ] : إنما رأى جبريل . و اختلف عنه . و قال بإنكار هذا و امتناع رؤيته في الدنيا جماعة من المحدثين ، و الفقهاء و المتكلمين .وعن ابن عباس رضي الله عنهما أنه رآه بعينه . وروى عطاء عنه ـ أنه رآه بقلبه .وعن أبي العالية ، عنه : رآه بفؤاده مرتين .

وذكر ابن إسحاق أن عمر أرسل إلى ابن عباس رضي الله عنهما يسأله : هل رأى محمد ربه ؟ فقال : نعم .والأشهر عنه انه رأى ربه بعينه، روي ذلك عنه من طرق ، و قال : إن الله تعالى اختص موس بالكلام ، و إبراهيم بالخلة ،و محمداً بالرؤية و حجته قوله تعالى : ما كذب الفؤاد ما رأى * أفتمارونه على ما يرى * ولقد رآه نزلة أخرى [ سورة النجم /53 ، الآية : 11 ، 13 ] .
قال الماوردي : قيل : إن الله تعالى قسم كلامه و رؤيته بين موس ، و محمد صلى الله عليه و سلم ، فر آه محمد مرتين ، و كلمه موس مرتين .وحكى أبو الفتح الرازي ، و أبو الليث السمرقدي الحكاية عن كعب .وروى عبد الله بن الحارث ، قال : اجتمع ابن عباس و كعب ، فقال ابن عباس : أما نحن بنو هاشم فنقول : إن محمد اً قد رأى ربه مرتين ، فكبر كعب حتى جاوبته الجبال وقال : إن الله قسم رؤيته و كلامه بين محمد و موس ، فكلمه موسى ، و رآه محمد بقلبه .وروى شريك عن أبي ذر رضي الله عنه في تفسير الآية ، قال : رأى النبي صلى الله عليه و سلم ربه .و حكى السمرقندي ، عن محمد بن كعب القرظي ، وربيع بن أنس ـ أن النبي صلى الله عليه و سلم سئل : هل رأيت ربك ؟ قال : رأيته بقؤادي ، و لم أره بعيني وروى مالك بن يخامر ، عن معاذ ، عن النبي صلى الله عليه و سلم ، قال : رأيت ربي ... و ذكر كلمة ، فقال : يا محمد ، فيم يختصم الملأ الأعلى الحديث .
و حكى عبد الرزاق أن الحسن كان يحلف با الله لقد رأى محمد ربه

ترجمہ: باب اللہ عزوجل کا دیدار اور اس میں سلف صالحین کا اختلاف

 حضور علیہ السلام کو اپنے رب کو دیکھنے کے بارے میں ابتدائی مسلمانوں کا اختلاف تھا سیدہ عائشہ پاک نے اس کا انکار کیا اور مسروق نے ان سے پوچھا اے ام المؤمنین کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا میرے بال تمہارے اس سوال سے کھڑے ہو گئے ہیں انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: جس نے تم سے کہا اس نے جھوٹ بولا، جس نے تم سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، جھوٹ بولا، پھر انہوں نے پڑھا:" آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں لیکن وہ (سب) بصارت کو سمجھتا ہے۔ وہ باریک بین، باخبر ہے (6:103)، بعض لوگ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات سے متفق ہیں اور یہ مشہور ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کی باتیں کہی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ جس کو آپ نے دیکھا۔ تاہم، یہ بات متنازعہ ہے۔

علمائے حدیث، فقہاء اور ماہرینِ الہٰیات کی جماعت (عظیم گروہ) اس قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس دنیا میں اللہ کو دیکھنے کی ممانعت کو مسترد کرتی ہے۔ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے کہا: آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جبکہ عطا ءنے آپ سے بیان کیا کہ میں نے اپنے دل سے دیکھا۔ ابو العالیہ نے کہا کہ میں نے اپنے دل (اور دماغ) سے دو بار دیکھا۔ ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: "ہاں" سب سے مشہور قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ ابن عباس کی طرف سے مختلف طرق سے منقول ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو براہ راست گفتگو کے لیے، ابراہیم علیہ السلام کو قریبی دوستی کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (براہ راست) بصارت کے لیے مخصوص کیا۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: "دل (اور دماغ)نے جو کچھ دیکھا اس کے بارے   میں   جھوٹ نہیں   بولا،  جو کچھ وہ دیکھتا ہے اس کے بارے میں تم اس سے کیا جھگڑو گے؟ اس نے اسے دوسری بار دیکھا (53:12-13)

الماوردی نے کہا: کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت کو تقسیم کر دیا۔ موسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ان کی کلام۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دو مرتبہ دیکھا اور دو مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کی۔

ابوالفتح رازی اور ابواللیث سمرقندی نے اسے کعب الاحبار (علیہ رحمہ) سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن حارث (علیہ رحمہ) نے کہا ہے کہ ابن عباس اور کعب نے اس بات پر اتفاق کیا۔ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے کہا: ہمارے لیے، بنو ہاشم کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دو بار دیکھا، کعب نے کہا: اللہ اکبر یہاں تک کہ پہاڑ ان کی آواز سے گونج اٹھے۔ مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی بصارت اور کلام کو محمد اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کر دیا۔

شریک بیان کرتے ہیں کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر کی تو انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا، امام سمرقندی [سلف کے] محمد بن کعب القرظی اور ربیع ابن انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ( ﷺ )نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اسے اپنے دل سے دیکھا، لیکن میں نے اسے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا.(نوٹ: یہ روایت مستند نہیں ہے اور سند پیغمبر تک نہیں پہنچتی اور اوپر نقل کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللّٰہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا)۔ مالک بن یغامر نے معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا اور اس نے مجھ سے پوچھا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجلس اعلیٰ نے کس چیز سے اختلاف کیا ہے۔ 
عبد الرزاق بن ہمام [امام بخاری کے شیخ، جو اب تک کے بہترین محدث ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل نے کہا ہے 12/700 نے بیان کیا ہے کہ حسن البصری [وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں] قسم کھاتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)  نے اپنے رب کو دیکھا۔

 اختتام اقتباس، الشفاء از قاضی عیاض، باب "اللّٰہ کو دیکھنا ۔

یہ تفصیلی وضاحت کافی حد تک اس مسئلے کا خلاصہ کرتی ہے۔ 

قیامت کے دن اللہ کو دیکھنے کے حوالے سے قرآن و سنت سے بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔

قرآن کہتا ہے: ’’بعض چہرے اس دن (روشن اور چمکتے ہوئے)اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔ [القیامۃ 75:22-23، سلفی مکتب کے صالح منجد کا ترجمہ]

ایک صحیح حدیث ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم قیامت کے دن اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس (پورے چاند کو) دیکھ رہے ہو اور تمہیں اس کے دیدار میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ [صحیح بخاری70436]

قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھا جائے گا۔

شیعہ مندرجہ ذیل آیات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کو دیکھا نہیں جا سکتا۔

قرآن کہتا ہے: کوئی بصارت اسے نہیں پکڑ سکتی، لیکن اس کی گرفت تمام بینائی پر ہے: وہ ہر چیز سے بالاتر ہے، پھر بھی ہر چیز سے واقف ہے۔ (یوسف علی:الانعام:103)

شیعہ اس آیت سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ کو ہر گز نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ کوئی بصارت اسے نہیں دیکھ سکتی۔ اہل سنت جواب دیتے ہیں:

اس آیت میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ "ادراک" ہے جس کا مطلب ہے اللہ کا مکمل ادراک یعنی احاطہ کرنا جو ظاہر ہے کہ ناممکن ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کو دیکھا نہیں جا سکتا۔

وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ایک اور آیت بھی استعمال کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے: ... اے میرے رب! مجھے (اپنے آپ کو) دکھا تاکہ میں آپ کو دیکھوں۔" اللہ نے فرمایا: "تم مجھے نہیں دیکھ سکتے... [الاعراف آیت # 123]

ان کا کہنا ہے کہ اللہ اس تصور کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ "تم مجھے نہیں دیکھ سکتے" شیعہ کا عقیدہ ہے کہ اگر اللہ کو دیکھنا ممکن ہوتا تو وہ اللہ کے لیے جسم ثابت کرتا ہے۔ اللہ کے لیے جسم کی نفی اہل سنت اور شیعہ دونوں نے کی ہے۔

مفاہمت :سب سے مضبوط رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی معراج  کے سفر میں اللہ کو دیکھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کے معراج پر زمان و مکان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چونکہ اللہ زمان و مکان سے پاک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دیدار تھا جیسا کہ اللہ چاہتا تھا۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ بصارت ہو جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ یہ ایک بینائی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل اور آنکھوں سے دیکھا۔

قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہونا بھی قرآن سے ثابت ہے۔ شیعہ جن آیات کو استعمال کرتے ہیں، یعنی الانعام:103 تو اس میں اللہ کے مکمل ادراک کی نفی ہے اور الاعراف:143 میں (لن ترانی) کا ذکر نہیں ہے، بلکہ (لن اورا) کا ذکر ہے۔ تفسیر الجلالین سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو دیکھنے کا امکان ہے۔ البتہ یہ قطعى عقائد میں نہیں آتا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اس بارے اختلاف پایا جاتا ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں