Infallibility of Qur'an

قرآن کی عصمت

Article Bottom

قرآن کی عصمت

کچھ شیعہ کو کچھ سنی غلط فہمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ مکمل قرآن میں یقین نہیں رکھتے یا یہ کہ وہ مانتے ہیں کہ قرآن میں تحریف یا تبدیلی کی گئی ہے۔ اس موضوع پر تحقیق کے بعد ، یہ نتیجہ اخذ کرنا محفوظ ہے کہ شیعہ قرآن میں تبدیلی یا اضافے پر یقین نہیں رکھتے۔ آج کے جمہور شیعہ کہتے ہیں کہ وہ الفاتحہ سے لے کر الناس تک پورے قرآن پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ شیعہ کا اپنے اُن ماضی اور حال کے علماء کو کافر نہ کہنا جو تحریف قرآن کے قائل تھے بہت بڑی قبیح غلطی ہے۔ جو شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل تھے یا ہیں و حتمی طور پر کافر ہیں۔ 

سب سے مشہور شیعہ ویب سائٹ al-islam.org ہے ، اس میں قرآن کی عصمت کے بارے شیعہ عقائد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے وہ بیان کرتے ہیں: ابو جعفر محمد بن علی ابن حسین بابویہ القمی ، جو "صدوق" (وفات 381 ھ) کے نام سے مشہور ہیں ، کہتے ہیں: قرآن کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ خدا کا کلام اور وحی ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو جھوٹ اور غلطی سے پاک ہے اور اسے اللہ نے نازل کیا ہے جو کہ حکمت والا ہے اور وہ اس کا نگہبان ہے۔(الاعتقادات ص ۔93) 

 نوٹ:شیعہ کے نزدیک لفظ صدوق ان کے اولین اور عظیم  علماء کے لیے استعمال ہوتاہے۔ 

وہ اپنے علماء کی مزید بہت سی احادیث اور اقوال بھی بیان کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کے شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل نہیں۔ انہوں نے ماضی اور حال کے شیعہ علماء کی طرف سے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں کی گئی ہے۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم قرآن میں منسوخ آیات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں کا ماننا ہے کہ کچھ آیات نبی پر نازل ہوئیں لیکن انہیں قرآن کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ مزید یہ کہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن موجودہ دور کے قرآن سے مختلف ترتیب میں نازل ہوا ہے۔ سورہ العلق کی ابتدائی آیات پہلے نازل ہوئی تھیں ، لیکن موجودہ قرآن میں ان کا ذکر 96 ویں سورۃ میں آیا ہے۔ نیز قرآن کی وہ آیت جس میں ذکر ہے: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور مذہب پسند کیا ہے" (المائدہ3) کو آخری آیت سمجھا جاتا ہے اگرچہ یہ پانچویں سورۃ میں موجود ہے۔

آئیے پہلے قرآن سے ایک اصول سمجھیں کہ قرآن کا محافظ خود اللہ ہے۔

 ہم نے ہی نصیحت (قرآن) نازل کیا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ [سورہ الحجر آیت # 9]

قرآن کہتا ہے: بے شک جو لوگ ان کے پاس پیغام پہنچنے کے بعد ان کا انکار کرتے ہیں۔ اور بے شک یہ ایک زبردست کتاب ہے۔باطل کو اس کی طرف راہ نہیں نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے اُتارا ہوا ہے حکمت والے سب خوبیوں سراہے کا۔[حم السجدہ 41 تا 42]

قرآن یہ بھی کہتا ہے آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور مذہب پسندکیا۔۔۔ 
[صحیح انٹرنیشنل: المائدہ: 3]

آئیے کچھ احادیث کا مطالعہ کرتے جن کا غلط استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے صحیح مسلم میں بیان ہے:

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ، اور وہ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر تشریف فرما تھے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی ، اللہ نے آپ پر جو نازل کیا اس میں رجم کی آیت بھی تھی ، ہم نے اسے پڑھا ، یاد کیا اور سمجھا ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی ، مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر ایک لمبا زمانہ گزر جائے گا تو کوئی کہنے والا کہے گا : ہم اللہ کی کتاب میں رجم ( کا حکم ) نہیں پاتے ، تو وہ لوگ ایسے فرض کو چھوڑنے سے گمراہ ہو جائیں گے جسے اللہ نے نازل کیا ہے اور بلاشبہ اللہ کی کتاب میں رجم ( کا حکم ) عورتوں اور مردوں میں سے ہر ایک پر جس نے زنا کیا ، جب وہ شادی شدہ ہو ، برحق ہے ۔ ( یہ سزا اس وقت دی جائے گی ، ) جب شہادت قائم ہو جائے یا حمل ٹھہر جائے یا ( زانی کی طرف سے ) اعتراف ہو [صحیح مسلم ، حدیث :4418]

یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کو اس کا حصہ نہیں بنایا گیا ، حالانکہ وہ ایک خاص وقت پر رسول پر نازل ہوئی تھیں۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کو جامع ترمذی کی ایک اور حدیث سے سمجھنا چاہیے ہے جہاں عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کر دیں  [جامع الترمذی، حدیث 1431۔ صحیح حدیث]

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معلوم تھا کہ سنگساری کی آیت قرآن میں شامل نہیں کی گئی۔

شیعہ ایک ایسی حدیث کا ذکر کر کے بات بدلنے کی کوشش کرتے ہیں جو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے قرآن کے آخری 2 سورتوں کو اس کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ 

اہل سنت کے مطابق یہ حدیث جھوٹ ہے چاہے وہ بخاری میں ہو یا کہیں بھی موجود ہو۔ یاد رکھیں کہ سنی ذرائع سے ذیل میں پیش کی گئی تمام احادیث "خبر احاد ہیں نہ کہ متواتر اور اس لیے اصول کے مطابق وہ قرآن اور منطق کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔

حدیث میں ہے:

زر بن حبیش بیان کرتے ہیں: میں نے ابی بن کعب سے پوچھا ، "اے ابو المنذر! تمہارے بھائی ابن مسعود نے کہا فلاں اور فلاں (یعنی دو سورہ الفلق اور سورہ الناس  قرآن میں شامل نہیں ہیں)۔ " اُبی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور میں نے انہیں (قرآن کے ایک حصے کے طور پر) پڑھا ہے۔تو اُبی نےکہا،تو ہم وہی کہتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ [صحیح بخاری4977]

امام نووی رحمہ اللہ نے کہا:

 أجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة وسائر السور المكتوبة في المصحف قرآن. وأن من جحد شيئا منه كفر. وما نقل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه

ترجمہ: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ معوذتین (قرآن کی آخری دو صورتیں) ، الفاتحہ اور دیگر ابواب قرآن کے مخطوطہ میں لکھے گئے ہیں ، جس نے اس میں سے کسی چیز کو رد کیا وہ کافر ہے۔ اس بارے میں جو ابن مسعود سے الفاتحہ اور معوذتین (الفلق اور الناس)کے بارے میں بیان کیا گیا ہے یہ جھوٹ ہے ، اور صحیح نہیں ہے "[المجموع شارح المحزاب" (3/396)]

امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ نے فرمایا:

هذا كذب على ابن مسعود وموضوع، وإنما صح عنه قراءة عاصم عن زر عنه، وفيها المعوذتان والفاتحة

یہ ابن مسعود کے بارے میں جھوٹ اور من گھڑت ہے، لیکن ان کی طرف سے مستند طور پر معوذتین اور الفاتحہ کی تلاوت عاصم نے زر سے روایت کی ہے (الاتقان فی علوم القرآن میں ابن حزم سے)

عاصم ، الکسیٰ ، حمزہ اور خلف کی قراءت ابن مسعود سے ثابت ہے کہ انہوں نے الفاتحہ اور معوذتین پڑھی اور وہ ان کے مصحف میں موجود تھیں۔

اس کے علاوہ ایک روایت میں مدلسین ہیں جو اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور دوسری میں عاصم ابن ابو نجود موجود ہیں۔

جو دوسری جگہ پر ابن مسعود کی قرات بیان کرتے ہیں جس میں الفاتحہ ، سورہ فلق اور سورہ الناس ہے۔

لہٰذ نا اگر بخاری یا حدیث کی کسی اور کتاب میں اس کا تذکرہ ہو تب بھی اسے من گھڑت اور جھوٹا سمجھا جائے۔ 

ایک اور حدیث تشویش ناک ہے جو صحیح مسلم میں ہے: 

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : قرآن میں نازل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پلانا جن کا علم ہو ، حرمت کا سبب بن جاتا ہے ، پھر انہیں پانچ بار دودھ پلانے ( کے حکم ) سے جن کا علم ہو ، منسوخ کر دیا گیا ، رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو یہ ان آیات میں تھی جن کی ( نسخ کا حکم نہ جاننے والے بعض لوگوں کی طرف سے ) قرآن میں تلاوت کی جاتی تھی۔ (صحیح مسلم :3597)

یہ حدیث دعویٰ کرتی ہے کہ قرآن کریم میں 5 بار کی چوسنے کی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک موجود تھی ۔ آج ہمیں قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ملتی ، تو ہم اس حدیث کا جواب کیسے دیں؟ پہلا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث جو قرآن سے متصادم ہو اسے صریحا رد کر دیا جائے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا دوسری بار منسوخی کے بارے میں نہیں جانتی تھیں جبکہ دوسرے صحابہ جانتےتھے اسی وجہ سے جب قرآن مرتب کیا گیا تو انہوں نے اسے کبھی قرآن کا حصہ نہیں بنایا۔

امام نووی (علیہ رحمہ) نے اس حدیث کے بارے میں کہا:

و بضم الياء من ( يقرأ ) ومعناه أن النسخ بخمس رضعات تأخر إنزاله جدا حتى أنه صلى الله عليه وسلم توفي وبعض الناس يقرأ خمس رضعات ويجعلها قرآنا متلوا لكونه لم يبلغه النسخ لقرب عهده فلما بلغهم النسخ بعد ذلك رجعوا عن ذلك وأجمعوا على أن هذا لا يتلى

ترجمہ: حرف یا پر ایک ضمہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ بار چوسنے کی آیت کا مسوخ ہونا بہت دیر سے ہوا جب تک رسول اللہ کا وصال ہو گیا اور کچھ لوگ پانچ بار چوسنے والی آیت کو قرآن کا حصہ بنا رہے تھے اس لیے کہ انہیں اس کے منسوخ ہونے کی اطلاع نہیں دی گئی ہو گی۔ چنانچہ جب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں مطلع کیا تو اس کے بعد انہوں نے اس کی تلاوت کرنا چھوڑ دی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ اس آیت کو مزید نہیں پڑھا جانا چاہیے۔ [امام نووی ، شرح صحیح مسلم ، کتاب: الرضاء ، باب: التحریم بی خمس رضاعت]

علامہ سندھی (علیہ رحمہ) نے فرمایا:

قيل إن الخمس أيضا منسوخة تلاوة إلا أن نسخها كان في قرب وفاته صلى الله تعالى عليه وسلم فلم يبلغ بعض الناس فكانوا يقرءونه حين توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ثم تركوا تلاوته 

ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ پانچ بار چوسنے والی آیت کی تلاوت منسوخ کر دی گئی تھی اور اس کی منسوخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے قریب آئی ہے لہٰذا کچھ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔ تو وہ اس کی تلاوت کرتے تھے لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرماگئے تو انہوں نے اس کی تلاوت چھوڑ دی۔ [السندھی، شارح سنن النسائی ، کتاب: النکاح ، تفسیر حدیث نمبر۔ 3255]

شمس الحق عظیم آبادی نے کہا:

المعنى أن النسخ بخمس رضعات تأخر إنزاله جدا حتى أنه صلى الله عليه وسلم توفي وبعض الناس يقرأ خمس رضعات ويجعلها قرآنا متلوا لكونه لم يبلغه النسخ لقرب عهده فلما بلغهم النسخ بعد ذلك رجعوا عن ذلك وأجمعوا على أن هذا لا يتلى . والنسخ ثلاثة أنواع : أحدها ما نسخ حكمه وتلاوته كعشر رضعات . والثاني ما نسخت تلاوته دون حكمه كخمس رضعات 

 ترجمہ: اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ بار جوسنے والی آیت کی منسوخی بہت دیر سے نازل ہوئی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو کچھ لوگ ابھی تک پانچ بار چوسنے والی آیت کی تلاوت کر رہے تھے اور اسے تلاوت قرآن کا حصہ بنا رہے تھے۔ انہیں اس کی منسوخی کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب اس کے بعد ان کو پتا چل گیا تو انہوں نے رجوع کر لیا کہ اس آیت کی تلاوت نہیں ہونی چاہیے۔ اور منسوخی تین اقسام کی ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت دس دس بار چوسنے والی آیت کی طرح منسوخ کردی جائے۔ اور دوسرا یہ کہ اس کی تلاوت اس کے حکم کے بغیر منسوخ کر دی گئی ہے جیسا کہ پانچ بار جوسنے والی آیت ہے۔ [عون المعبود شرح السنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1765]

ایک اور حدیث جو ابن ماجہ میں پائی جاتی ہے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ قرآن کے کچھ حصے بکری نے کھا لیے (معاذ اللہ)۔ اس باطل روایت کی تصدیق سلفی دارالسلام نے کی ہے کہ ایک بھیڑ نے قرآن کی کچھ آیات کھا گئی تھی۔ یہ دار السلام والوں کی قبیح غلطی ہے کے انہوں نہیں اس روایت کو حسن کہا۔ 

حدیث میں ہے: حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : رجم کی آیت اور بڑی عمر کے لڑکے کو دس بار دودھ پلانے کے مسئلہ پر مشتمل آیت نازل ہوئی تھی ۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں ۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی ، ہم آپ ﷺ کے غسل و کفن وغیرہ میں مشغول ہو گئے ۔ ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی ۔ 

 [سنن ابن ماجہ # 1944. سلفی دارالسلام ورژن میں اسے غلطی سےحسن  قرار دیا گیا]

بکری کا قرآنی کاغذ کھانے کا اضافہ صرف راوی محمد بن اسحاق سے آتا ہے۔ کئی محدثین نے محمد بن اسحاق پر شدید جرح کی ہے۔ یہاں تک کہ امام مالک (علیہ رحمہ) نے انھیں ’’ بڑا جھوٹا (دجال) ‘‘ کہا۔ اس لیے حدیث شاذ (عجیب) اور ضعیف ہو جائے گی۔ اور محمد بن اسحاق چوتھے درجے کا مدلس بھی تھا۔ سلفی عالم صالح منجدنے بھی اس حدیث کو رد کیا ہے ۔[دیکھیں: islamqa.info/en/175355]

ایک اور حدیث کا غلط استعمال ہوتا ہے:

ابوحرب بن ابی اسود کے والد سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اہل بصری کے قاریوں کی طرف (انہیں بلانے کے لیے قاصد) بھیجا تو ان کے ہاں تین سو آدمی آگے جو قرآن پڑھ چکے تھے تو انہوں(ابوموسیٰ) نے فرمایا اہل بصری کے بہترین لوگ دوران کے قاری ہو اس کی تلاوت کرتے رہا کرو تم پر لمبی موت (کا وقفہ) نہ گزرے کر تمہارے دل سخت ہو جائیں جس طرح ان کے دل سخت ہو گئے تھے جو تم سے پہلے کہتے ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے۔ جسے ہم لمبائی اور شدت میں سورۃ براۃ تشبیہ دیا کرے تو وہ مجھے بھلا دی گئی اس کے سوا کہ اس کا یہ ٹکڑا مجھے یار رہ گیا: اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کا متلاشی اور ابن آدم کا پیٹ تومٹی کے سوا کئی شے نہیں بھرتی ہم ایک اور سورۃ پڑھا کرتے تھے جس کو ہم تسبیح والی سورتوں میں سے ایک سورت سے تشبیہ دیا کرتے تھے وہ بھی مجھے بھلا دی گئی ہاں اس میں سے مجھے یہ یاد ہے: ایمان والو! وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں وہ بطور شہادت تمہاری گردنوں میں لکھ دی جائے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم:2419)

 یہ حدیث سنگین مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ سورہ برات کی لمبائی جیسی ایک اور سورت تھی .اور ایک سورت مصباحات کی سورتوں جیسی تھی۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے پھر دو آیات تلاوت کیں ، جن میں سے پہلی قرآن میں مکمل طور پر موجود نہیں ہے اور دوسری کے آخری الفاظ قرآن میں نہیں ملتے۔ 

پہلا جواب پھر یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث جو قرآن سے متصادم ہو اسے صریحاً رد کر دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت بھی خبر واحد ہے نہ کہ "(متواتر) جبکہ قرآن تواتر سے ثابت ہے اور خبر احاد کو کبھی بھی عقائد کے مسائل کے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاتا۔

حنفی اور مالکی مکاتب کی یہ بھی رائے ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی دوسری سورتوں کا آغاز ہے۔ سلفی عالم عاصم الحکیم بھی یہی کہتے ہیں۔ معروف سلفی عالم صالح العثیمین کا کہنا ہے کہ بسم اللہ الفاتحہ کا حصہ نہیں ہے۔[مجمع فتاوی الشیخ ابن عثیمین (13/109)]

 تاہم چاروں مذاھب کا ماننا ہے کہ یہ سورہ نمل آیت : 30 کا حصہ ہے۔ شوافع کا خیال ہے کہ یہ الفاتحہ کا حصہ ہے اور سورہ توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا بھی حصہ ہے۔ وہ اس درج ذیل آیت کو بطور ثبوت استعمال کرتے ہیں:

 یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم  قرآن  بھی دے رکھا ہے۔ (سورہ حجر، آیت # 87)

 تفسیر ابن کثیر سورہ فاتحہ کے تحت پڑھیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی کی تفسیر تبیان القرآن ، جلد :1 بھی پڑھیں۔یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا تحریف کی گئی ہے کیوںکہ قرآن میں بسم اللہ کو سواے سورہ فاتحہ کے دوسری سورتوں کی آیت نمبر 1 کے طور پر لکھا نہیں گیا ہے۔ بسم اللہ صرف سورتوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے جیسا کہ یہ صحیح حدیث بیان کرتی ہے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ سورتوں کا فرق نہ پہچانتے تھے حتی کہ بسم اللہ الرحمن نازل کی جاتی یہ ابن سرح(راوی) کے الفاظ 
ہیں۔ [سنن ابوداؤد ، حدیث : 788۔ حدیث صحیح ہے اور اسے ابن کثیر نے اپنی تفسیرمیں  بسم اللہ کے تحت بھی مستند قرار دیا ہے]

اس لیے بسم اللہ صرف سورتوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ علماء کیا اختلاف رکھتے ہیں کہ آیا یہ دوسری سورتوں کے آغاز کا حصہ ہے یا نہیں۔ 

مفاہمت: مرکزی شیعہ اسکالرشپ اور ان کے بارے میں جاننے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن تبدیلی/جعل سازی یا اضافے سے پاک ہے۔ شیعہ کتب میں ایسی روایتیں ہیں جن میں تحریف کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اکثر شیعہ انہیں جعلی/کمزور سمجھتے ہیں۔ البتہ تفسیر قومی میں درج ذیل آیات کے بارے میں انتہائی مستند ، مشہور اور شیعہ مفسر قرآن نے کہا 

بیشک اللہ نے چُن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اولاد اور عمران کی آل کو سارے جہاں سے (کنزالایمان:آل عمران:33)

علی بن ابرہیم القمی ،مشہور اور متقدم شیعہ عالم/مفسر نے اس آ یت کے بارے میں کہا:

و قال العالم علیہ السلام نزل" و آل عمران و آل محمد علی العالمین " فاسقطوا آل محمد من الکتاب۔

ترجمہ: امام علیہ السلام نے فرمایا یہ آیت نازل ہوئی تھی ان الفاظ کے ساتھ کہ آل عمران اورآل محمد کو سب جہانوں پر چُن لیا لیکن آیت کا آخری حصہ آل محمد کو کتاب سے نکال دیا گیا۔(تفسیر قمی آل عمران:33 کے تحت)

نوٹ: یہاں تک کہ کچھ سنی روایات بھی ہیں کے ابن مسعود کے مصحف میں اضافی الفاظ موجود ہیں جیسا کہ صاحبِ بحر المُحیط نے ذکر کیا ہے "و قرا عبداللہ : آل محمد علی العالمین یعنی محمد کا خاندان تمام لوگوں پر"(تفسیر بحر المحیط ابو حیان الاندلسی۔۔۔203/2۔ اس کے علاؤہ تفسیر الثعلبی3:33 وغیرہ میں بھی ہے۔

یہ روایت شدید ضعیف بلکہ موضوع ہے کیونکہ نصيبى شیعہ سے مناکیر روایات نقل کرتا تھا اور ان کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا۔ اور ابو جنادا پر جھوٹے ہونے کی جرح ہے۔ 

 شیعہ محققین سے مشورہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں یہ اضافہ قرآن کی وضاحت/تفسیر کے طور پر لکھا گیا تھا اور آیت کا حصہ نہیں تھا۔ 

صحابہ کرام یاد داشت کے لئے اپنے اپنے مصاحف کے ساتھ ایسا کرتے تھے، اس لیے تمام شیعوں پر قرآن کی تحریف کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

قرآن کہتا ہے یہ اس لیے کہ وہ اللہ عزوجل کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے۔ (سورۃ محمد:9)

یہی القمی نے کہا:

عن ابی جعفر علیہ السلام قال :نزل جبرائیل علی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ بہذہ الآیۃ ھکذا ذلک بانہم کرہوا ماانزل اللہ فی عَلَي-الا انہ کشط الاسم ۔

ترجمہ: امام باقر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا جبرائیل محمد ﷺ پر اس آیت کو ایسے لے کر آئے۔ کیونکہ وہ علی کے بارے آیت نازل ہونے پر نہ خوش تھے لیکن انہوں(صحابہ) نے علی کا نام حذف کر دیا۔ (تفسیر القمی محمد:9)

شیعہ محققین کا کہنا ہے کہ یہ مثال بھی تحریف کو ثابت نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن تاویل کے ساتھ نازل ہوا تھا اور شیخ قمی اس آیت میں تاویل کے نزول کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ یہاں اعلی درجے کی شیعہ حدیث کی کتاب کی ایک مثال دیتا ہوں جس کو ان کے اسکالرز نے مستند تسلیم کیا ہے۔

 علی بن الحکم نے بیان کیا ، انہوں نے ہشام بن سالم سے روایت کیا ، انہوں نے ابی عبداللہ (علیہ السلام) سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: وہ قرآن جسے جبرائیل (علیہ السلام) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے اس میں سترہ ہزار آیات تھیں.[الشافی کاترجمہ شیعہ محدث محمد بن یعقوب الکلینی ، کتاب فضل القرآن ، باب : 14 (باب النوادیر) ظفر شمیم پبلیکیشنز ناظم آباد کراچی ، پاکستان کی طرف سے شائع کیا گیا]

معروف شیعہ حدیث کے ماہرین نے اس روایت کے بارے میں کہا: 

ملا باقر مجلسی نے کہا: یہ حدیث موثق ہے (مرآۃ العقول (12/525)

ایک اور شیعہ حدیث کے ماہر العاملی نے کہا: یہ حدیث مستند ہے ۔ [الفوائد الطوسیہ ، صفحہ : 483]

کچھ شیعہ محققین سے مشورہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتے اور مذکورہ دونوں علماء کو غلط کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الکافی کے کچھ مخطوطات میں سترہ ہزار کی جگہ سات ہزار لکھا ہے۔ اہل سنت کے مطابق قرآن میں آیات کی کل تعداد 6236 ہے۔ شیعہ محققین کا کہنا ہے کہ اضافی 467 آیات تفسیر یا تشریح تھیں جو کہ نازل ہوئیں لیکن انہیں قرآن کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

یہ شیعوں کی فحش غلطی ہے کہ وہ ان علماء کی تکفیر نہیں کرتے جو تحریف قرآن کے قائل ہیں جبکہ سنی تحریف قرآن کے قائل کو کافر کہتے ہیں۔

اسی طرح سنی کتابوں میں روایات جیسا کہ ان میں سے کچھ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے سنیوں کے خلاف شیعہ استعمال کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے ان روایات کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور ہم سنی مانتے ہیں کہ جو بھی کہتا ہے کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے وہ کافر ہے۔

ہمیں اس نتیجے پر پہنچنا چاہیے کہ کوئی کتاب چاہے بخاری ،مسلم، الکافی یا تفسیر القمی قرآن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے میں احادیث کو سنی اور شیعہ دونوں کو رد کرنا چاہیے۔ نیز اہل سنت اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تبدیلی/تحریف نہیں کی گئی۔ شیعہ کو بھی شک کا فائدہ دیا جانا چاہیے اور ان کی کتابوں میں موجود روایات کو جھوٹا سمجھا جانا چاہیے جیسا کہ آج کے اکثر شیعوں کا دعویٰ ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں