Concept of Imamat in Sunni and Shia Islam

تصور امامت مابین سنی اور شیعہ

Article Bottom

تصور امامت مابین سنی اور شیعہ

شیعہ مکتب 12 اماموں کی معصومیت پر یقین رکھتا ہے اور اسے عقیدہ کا بنیادی حصہ بناتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ 12 آئمہ کا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء سے بلند مرتبہ ہیں۔ دوسری طرف اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صرف انبیاء ہی معصوم ہیں اورکوئی امام یا صحابی کسی بھی نبی سے بڑھ کرنہیں ہے۔
سنیوں کے نزدیک امامت کے تصور کے بارے میں شیعوں کے کچھ انتہائی غلط عقائد ہیں جو نہ صرف مقدس شریعت اسلامیہ بلکہ منطق کے مطابق بھی ناجائز ہیں۔ ان کے اس عقیدہ پر کہ ائمہ کا درجہ انبیاء سے بلند ہے، اہل سنت کی طرف سے سخت تنقید کی جاتی ہے۔ یہ اہل سنت کے نزدیک کفریہ عقیدہ ہے۔ 

مسلمانوں (بشمول شیعہ) نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے کیونکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ شیعہ بھی آئمہ کو انبیاء سے بڑا درجہ دینے کی وجہ سے قادیانیت کے باطل عقیدہ کے قریب ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ شیعہ آئمہ کو نبی/رسول نہیں مانتے۔ 

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کفر کے کچھ تصورات/عقائد انسان کو کافر نہیں بناتےاگر مسئلہ قطعیت کا نہ ہوتو۔۔۔ کوئی شخص صرف اس صورت میں کافر ہو سکتا ہے  جب وہ اللہ کی وحدانیت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار کرے یا ایمان کے باقی تین لوازم کا انکار کرے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا ہے۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا لیکن امام ضرور ہوں گے جو "اللہ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں" اور نبی کہلائے بغیر انبیاء کی صفات کے حامل ہیں۔

امامی شیعہ امامت کو اصول دین کا حصہ سمجھتے ہیں، جبکہ شیعوں کے اندر زیدی شیعہ اسے عقیدہ کا بنیادی حصہ نہیں مانتے اور اسماعیلی شیعہ صرف 6 اماموں کو مانتے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ) بعض اماموں کا انکار بنیادی عقائد کا حصہ نہیں ہے حتیٰ کہ شیعہ فرقوں میں بھی۔ امامیہ شیعہ اس مسئلے میں اپنے علاوہ سب کو کافر مانتے ہیں کیونکہ 12 آئمہ کا عقیدہ ان کے ہاں ضروریات دین کا مسئلہ ہے۔ 

یہ شیعوں کی طرف سے ناانصافی ہے جو 12 اماموں کے عقیدہ کو مانتے ہیں لیکن امام حسن رضى اللہ عنہ کی اولاد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ امام زید بن علی رضى اللہ عنہ کو بھی امامت کا حصہ نہیں مانتے حالانکہ وہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کے فرزند ہیں۔

 یہ حقیقت ہے کہ امام زید بن علی کا شیعہ اماموں سے امامت کے مسائل میں بھی اختلاف تھا۔ ان میں سے بعض نے ظالم حکمرانوں کے خلاف جہاد کیا جبکہ دیگر امام ان سے متفق نہیں تھے۔

اگر امامت عقیدہ کا بنیادی حصہ ہوتیتو قرآن نے وضاحت  کے ساتھ نہ صرف امامت کا ذکر کیا ہوتا بلکہ تمام ائمہ کے نام بھی جیسے امام باقر، جعفر وغیرہ کابھی ذکر کیا ہوتا۔ غیر نبی امام اگر انبیاء سے افضل ہے یا ان پر ایمان لانا عقیدہ کا بنیادی حصہ ہے اور اگر یہ عقیدہ لازمی ہوتا تو قرآن اسے کبھی نظر انداز نہ کرتا۔

 مثال کے طور پر انبیاء کے بارے میں قرآن کہتا ہے: یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بُلند کیا --- [البقرہ، آیت # 53 کنزالایمان]

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی ائمہ کے بارے میں انبیاء علیہم السلام سے افضل درجہ کا ذکر نہیں کیا۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لاؤ اور اس پر بھی جو ان سے پہلے نازل ہوا۔ قرآن میں کہیں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ائمہ کی الہام کی پیروی کا ذکر نہیں ہے۔

یہ کہنے کے بعد ہمیں اب یہ بھی  سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ، ختم نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے دیگر تین ستونوں پر ایمان رکھتا ہے اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ذیل میں کچھ آیات اور احادیث ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ کوئی دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار نہیں دے سکتا چاہے وہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے۔

باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم وقول الله تعالى وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين

 ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت دےکر بعد میں گمراہ کر دے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ جھٹلا دے جن سے وہ بچیں بیشک اللہ عزوجل ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ (التوبہ # 115)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو سب سے بدترین مخلوق جانتے تھے انہوں نے فرمایا کہ وہ کفار کے بارے میں نازل شدہ آیات کو مومنین پہ چسپاں کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب الملحدین باب 6 خوارج اور ملحدین کے قتل کرنے کے بیان میں)

یہ آیت اور روایت جو امام بخاری نے دیکھائی اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اکثر مسلمانوں پر تکفیر متشددین کرتے ہیں (جیسے خوارج) وہ قرآنی آیات جو کفار اور بتوں کے بارے میں نازل ہوئیں پس ان کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے  بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے (نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤگے) ،(صحیح بخاری:1344)

بالکل یہی کافی عرصہ دراز سے امت میں ہو رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ امت کے اندر شرک سے نہیں ڈرتے بلکہ فساد اور لڑائی سے ڈرتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے: اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جارہے ہو جاؤ تو اچھی طرح تحقیق کرو اور جو تمہیں سلام کرے  اسے کافر نہ کہو۔(سورۃ النساء:94)

یہ خوبصورت آیت بتاتی ہے کہ جب مسلمان جائز جہاد پر نکلتے ہیں اور کوئی سلام کرتا ہے تو ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ انہیں کافر نہ کہا جائے۔

 انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح کیے ہوئے جانور کھائے، وہ مسلمان ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت میں ہے، پس تم اللہ عزوجل کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔(صحیح بخاری :391)

شیعہ اور سنی دونوں نماز پڑھتے ہیں، ایک ہی قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں، اور ایک ہی اسلامی طریقہ کار کے مطابق جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی کافر قرار نہیں دیا جا سکتا اس جھوٹے سلفی پروپیگنڈے کے برخلاف کہ اکثرصوفی اور شیعہ کفر میں ملوث ہیں۔

عن  أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث من أصل الإيمان الكف عمن قال لا إله إلا الله ولا نكفره بذنب ولا نخرجه من الإسلام بعمل والجهادماض

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تین باتیں ایمان کی اصل ہیں: ۱۔ جو لا الہٰ الا اللہ کہے اس  ( کے قتل اور ایذاء )  سے رک جانا، اور کسی گناہ کے سبب اس کی تکفیر نہ کرنا، نہ اس کے کسی عمل سے اسلام سے اسے خارج کرنا۔ ۲- جہاد جاری رہے گا جس دن سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑے گا، کسی بھی ظالم کا ظلم، یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں کر سکتا۔ ۳- تقدیر پر ایمان لانا ۔ (سنن ابی داؤد 2532) 

اگرچہ اس حدیث میں ایک مجہول (نامعلوم) راوی "یزید بن ابی نشبہ" ہے لیکن متن صحیح ہے۔ یہ حدیث بالکل واضح ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے (اور نبی آخر الزماں پر) تو اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا "چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو"۔

اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے کہ کوئی شخص صرف اس بات کا انکار کر کے غیر مسلم بن سکتا ہے کہ جس کے ساتھ وہ پہلے اسلام میں آیا ہو جیسے کلمہ شہادت، یا ایمان کی دیگر بنیادی باتوں کا انکار کر دیا جائے جو پہلے بیان ہو چکی ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں جو ہمیں تکفیر کرنے سے منع کرتی ہیں۔

امامت کے بارے میں شیعہ جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

قرآن کہتا ہے:

جب ابراہیم  ( علیہ السلام )  کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا  اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو  فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔ (قرآن البقرہ:124 جونا گڑھی) 

شیعہ اس آیت سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو امتحان کے بعد امامت عطا فرمائی۔ جب ابراہیم علیہ السلام امتحان میں کامیاب ہوئے  صرف تب اللہ تعالیٰ نے انہیں امامت عطا فرمائی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آزمائش سے پہلے نبوت ملی، اس لیے شیعہ کہتے ہیں کہ امامت نبوت سے افضل ہے۔

ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے مزید اپنی اولاد کے لیے مانگا لیکن اللہ نے کہا کہ وہ ظالموں کو یہ نہیں دیتا، یعنی نیک اور متقی لوگ ان کی اولاد سے امامت حاصل کرسکتے ہیں (جو اہل سنت کے مطابق اور صحیح طور پر صرف انبیاء کو کہتے ہیں جن کو اللہ نے منتخب کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء ابراہیم علیہِ السلام کے نسب سے جیسے اسحاق، یعقوب، موسیٰ، عیسیٰ، اور آخر میں اسماعیل کی اولاد سے محمد کو بھیجا۔ سب پر اللہ کی سلامتی ہو۔ 

یہ واضح رہے کہ شیعہ ائمہ کو تمام انبیاء سے افضل سمجھتے ہیں، حتی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت  ابراہیم علیہ السلام سے  بھی۔  یہیں سے  وہ  پکڑے جاتے ہیں کیونکہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت اور امامت دونوں عطا کی گئی ہیں تو پھر جن کو دونوں صفات عطا کی گئی ہیں ان سے صرف امام کیسے برتر ہوسکتے ہیں؟ ایک امام کے لیے انبیاء سے افضل ہونے کے لیے اس میں نبوت اور امامت دونوں صفات کا ہونا ضروری ہے۔

اور بھی آیات ہیں جو شیعہ استعمال کرتے ہیں، جیسے:

اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا  اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ،  اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں،  اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا ۔ (قرآن المائدہ:12 محمد جونا گڑھی) 

 یہاں تک کہ شیعہ کتابوں میں ایک تشریح موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اسرائیل تھا ، اس لیے یہاں ان کے نسب سے 12 اماموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ شیعہ کی ایک مستند تفسیر کتاب یعنی تفسیر عیاشی میں لکھا ہے:

عن أبي داود عمن سمع من رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: انا عبد الله اسمى أحمد وأنا عبد الله اسمى إسرائيل

ترجمہ: ابی داؤد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: میں عبداللہ ہوں اور میرا نام احمد ہے ، میں عبداللہ ہوں "اور میرا نام اسرائیل ہے" [تفسیر عیاشی]

اہل سنت کے مطابق ان بارہ رہنماؤں سے مراد 12 لیڈر ہیں جنہیں موسیٰ علیہِ السلام نے مقرر کیا تھا۔

کچھ سنی احادیث ہیں جو شیعہ استعمال کرتے ہیں ، مثال کے طور پر:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بندوں کا ایک گروہ ہے جن انبیاء اورشہیداء بھی رشک کرتے ہیں۔

مستدرک  حاکم جلد 4 ، صفحہ نمبر 188 ، حدیث نمبر 7318 ، امام ابن حبان نے اسے اپنی صحیح جلد 2 ، حدیث نمبر 573 میں بیان کیا ہے۔

شیعہ کے نزدیک یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ غیر انبیاء ہیں جن سے انبیاء بھی رشک کرتے ہیں ، اس لیے ان کا درجہ انبیاء سے بڑھ کر ہے۔ اہل سنت جواب دیتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں تو کیا امام ان سے بھی بڑے ہوں گے؟

شیعہ ہمارے مصادر سے دیگر احادیث بھی استعمال کرتے ہیں جیسے:

وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ‏"‏ ‏.‏

ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی (مسلمان حکمران) کی بیعت نہیں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (صحیح مسلم 4793)

 شیعہ کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کی احادیث مطلق ہیں اور تمام مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد امام کی بیعت ہے جو شیعوں  کے مطابق 12 ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے بارہویں امام غیبت میں چلے گئے ہیں لیکن ان کی حکمرانی باقی ہے۔ جبکہ سنی اس حدیث کو حکمرانوں پر لاگو کرتے ہیں۔ 

مفاہمت :اگرچہ اہل سنت صحیح طور پر اس تصور کو انتہائی غلط اور کفر سمجھتے ہیں لیکن اس کی وجہ
 سے شیعہ کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ قطعى عقائد کا معاملہ نہیں ہے جس پر شیعہ کو کافر قرار دیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ لٹریچر کے مطابق ائمہ درجہ میں پیغمبروں سے زیادہ افضل نہیں ہیں۔

اصول کافی میں ہے کہ ایک امام سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ افضل ہیں یا پیغمبر؟ اپ نے جواب دیا یقیناً پیغمبر افضل ہیں۔( الکافی جلد 1 ۔صفحہ 174.حدیث 5)

المجلسی (ایک بڑا شیعہ ) نے کہا کہ یہ روایت مستند ہے۔ (مراۃ العقول جلد 2 صفحہ 277)


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں