Building Shrines over Graves & Recitation of Quran there

انبیاء یا اولیاء کی قبور پر مزار بنانا

Article Bottom

انبیاء یا اولیاء کی قبور پر مزار بنانا

 دہشت گرد تنظیم جیسے داعش انبیاء اور اولیاء کے مزارات کو تباہ کرتی ہیں۔ (انہوں نے نبی یونس علیہ السلام کا مزار تباہ کیا عراق میں). 

وہ محمد بن عبدالوہاب النجدی التمیمی الخارجی سے یہ نظریہ لیتے ہیں۔ اور کئی احادیث کی غلط تشریح بھی کرتے ہیں۔

تنظیمیں جیسے داعش صرف مزارات کو تباہ نہیں کرتے بلکہ ثقافتی اور چارٹس/پلیکارڈز وغیرہ کو بھی شرک کہہ کر تباہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق محمد (ﷺ) کا نام اللہ کے نام کے ساتھ لکھنا شرک ہے۔ 

وہ اپنا یہ بے ہودہ نظریہ بڑے سلفی عالم کے فتوے سے لیتے ہیں ہیں: 

ابن عثیمین نے فتاوی ارکان اسلام میں لکھا: 

ترجمہ: کیا لفظ اللہ اور رسول آمنے سامنے لکھ سکتے ہیں؟ 

سوال: ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ دیواروں، چارٹس، کتب، یا قرآن کے کچھ نسخوں وغیرہ میں لفظ اللہ ایک طرف اور دوسری طرف محمد لکھا ہوتا ہے۔ کیا ان الفاظ کو ایسے لکھنا جائز ہے؟

ابن عثیمین کا جواب: ان ناموں کو اس طرح لکھنا صحیح نہیں، "کیونکہ اس طرح سے رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ کے برابر لایا جاتا ہے" اگر کوئی ان دو الفاظ کو اس طرح لکھے ہوئے دیکھ لے اور اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ یہ کس نے لکھا ہے، " تو وہ ان کو برابر سمجھے گا" لہٰذا رسول اللہ کے نام کو مٹانا واجب ہوگا. اب جو اللہ کا پاک نام بچ گیا تو صوفی اس کو ذکر میں استعمال کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے " اللہ ، اللہ، اللہ" لہٰذا "اللہ کے نام بھی مٹا دیا جائے گا". اسی وجہ سے وہ دیواروں یا چارٹس وغیرہ پر نہیں لکھنا چاہیے ۔اللہ اور محمد کے الفاظ۔ (حوالہ: صالح العثیمین فتاوی ارکان اسلام صفحہ 179 شائع کردہ سلفی دار السلام اردو والا نسخہ)

 یہ نقلی عالم یہ گھٹیا فتوی دیتے ہوئے پہلا کلمہ بھول گیا۔ جو ہے: 

لا اِلَهَ اِ لّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ 

اور مہر نبوّت بھی بھول گیا جس میں اللہ رسول محمد ساتھ لکھا ہوا ہے۔ 

 ایمان کی پہلی گواہی میں جس کے ذریعے غیر مسلم اسلام میں داخل ہوتا ہے، اس میں نامِ "محمد" اللہ کے نام کے بالکل ساتھ لکھا ہوا ہے اور ان کے بیچ "و" موجود نہیں۔ 

انہی فتوؤں کی وجہ سے جہاں کہیں سلفیوں کو طاقت حاصل ہوتی ہے وہ صرف تباہی مچاتے ہیں جیسے داعش اور اس کی طرح کی تنظیمیں۔ اسلام دشمن ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہتے ہوں گے: ہم نے برطانیہ کی مدد سے مسلمانوں میں ایک فرقہ بنایا اس کام کو کرنے کے لئے جس میں ہم صدیوں سے ناکام رہے۔ (یعنی مسلم دنیا میں انارکی پھیلانا اور اسلامی میراث کو تباہ کرنا)۔ 

اگر روکا نہ گیا تو شیطان کی آخری کوشش کعبہ (جس میں مقام ابراہیم بھی ہے، جہاں ان کے نقش قدم پر مزار تعمیر ہے جو قرآن کی نص سے ثابت ہے) کو تباہ کرنے کی ہے۔ ہمیں 1979 کا وہ واقعہ یاد کرنا چاہیے جب جہیمان العتیبی ایک مشہور سلفی شدت پسند ، جس کو سلفی علماء کی حمایت حاصل تھی ، اس نے کعبہ پر حملہ کیا۔ پاکستان کو ایس ایس جی 
کمانڈوز کو بھیجنا پڑا تاکہ ان وحشیوں کو مقدس جگہ سے نکالا جائے۔ سلفیوں کے ارادے تھے کہ وہ دیگر شعائر اللہ کو اور رسول اللہ کے مزار اقدس کو تباہ کرے جس کا ذکر کئی سلفی کتب میں موجود ہے کے نبی کریم کا مزار سب سے بڑا بت ہے (نعوذباللہ)

قبروں پر عمارت بنانا اور ادھر قرآن کی تلاوت کرنا۔ 
  
موجودہ دور کے کچھ لوگوں کا یہ غلط عقیدہ ہے کہ اگر کوئی صالحین (رسول اللہ سمیت) کی قبور پر جائے اور ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے یا ان کے نشان (قبر) کے ذریعے برکت طلب کرے تو یہ عمل شرک یا بدعت ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ عمل صحابہ نے نہیں کیا، اور یہ بھی کہ قبروں پر عمارت کھڑی کرنا شریعت میں جائز نہیں رسول اللہ کی قبر سمیت، اور اس پر جو سبز گنبد ہے وہ سب بدعت ہے۔ (سلفیوں کے سب سے بڑے عالم البانی کی تعلیمات یہی ہیں)۔ 

آئیے اب اس پر قرآن و حدیث کی روشنی میں جو حکم لگتا ہے اس کو سمجھتے ہیں۔

 قرآن کہتا ہے: 

وَكَذَلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لاَ رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا

ترجمہ: اور اس طرح ہم نے ان (کے حال) پر ان لوگوں کو (جو چند صدیاں بعد کے تھے) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ (بھی) کہ  قیامت  کے آنے میں کوئی  شک  نہیں ہے۔ جب وہ ( بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے ( جب اصحابِ کہف وفات پاگئے ) تو انہوں نے کہا کہ ان ( کے  غار  ) پر ایک عمارت ( بطور یادگار ) بنا دو ، ان کا رب ان ( کے حال ) سے خوب واقف ہے ، ان ( ایمان والوں ) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں) 

 ۔ (ڈاکٹر طاہر القادری، سورہ کہف :21).
 
تفسیر الکبیر میں امام فخر الدین رازی کہتے ہیں: 

أن بعضهم قال: الأولى أن يسد باب الكهف لئلا يدخل عليهم أحد ولا يقف على أحوالهم إنسان. وقال آخرون: بل الأولى أن يبني على باب الكهف مسجد وهذا القول يدل على أن أولئك الأقوام كانوا عارفين بالله معترفين بالعبادة والصلاة

 ترجمہ: کچھ لوگوں نے کہا کہ گھر کا دروازہ بند کر دینا چاہیے تاکہ کوئی اس کے اندر داخل نہ ہوسکے اور  غار والوں کے احوال چھپے رہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ دروازے پر مسجد تعمیر کر دینا بہتر ہے۔ یہ کہنا ثابت کرتا ہے کہ وہ لوگ عارفین تھے جو (ایک اللہ کی) عبادت پر اور صلاة پر یقین رکھتے تھے۔(تفسیر الکبیر جلد 5 صفحہ 475)

امام فخر الدین رازی نے یہ بھی کہا: 

ثم قال تعالى: {قَالَ ٱلَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰۤ أَمْرِهِمْ} قيل المرادبه   الملك المسلم ، وقيل :أولياء أصحاب
 الكهف، وقيل: رؤساء البلد: {لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا} نعبد الله فيه ونستبقي آثار أصحاب الكهف بسبب ذلك المسجد۔

ترجمہ: اور جب اللہ نے کہا (جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا) یہ مسلم حاکم کی طرف اشارہ کرتا ہے یا اصحاب کہف کہ دوستوں (یعنی ایمان والے) کی طرف یا پھر بستی کے حاکموں کی طرف۔ (ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے) تاکہ ہم اس میں اللہ کی عبادت کر سکیں اور اصحاب کہف کے تبرکات اس مسجد کے ذریعے محفوظ کر لیں. (تفسیر الکبیر 5/475)

لہٰذا وہ جو مزارات کو تباہ کرتے ہیں اور اللہ کے ولیوں کی طرف نفرت دکھاتے ہیں وہ قرآن کی واضح آیت کی مخالفت کر رہے ہیں ، جبکہ قرآن واضح طور پر تجویز کر رہا ہے کہ اولیاء کی قبروں اور ان کی نشانیوں کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ قرآن کی نص ہے اور اس کو کوئی حدیث تک منسوخ نہیں کر سکتی، ساری احادیث جو شدت پسند غلط طور پر استعمال کرتے ہیں ان کی تاویل کی جائے گی (یعنی عام لوگوں کی قبروں پر عمارت نہیں بنانی چاہیے اگر وہ بھی بن جائے ایک بار تو اسے بھی توڑا نہیں جا سکتا). مگر انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر عمارت بنائی جا سکتی ہے، جیسا ہم مدینہ المنورہ میں رسول اللہ علیہ السلام، ابوبکر اور عمر رضى اللہ عنہما کی قبروں کو دیکھتے ہیں جو صحابہ سے قبروں پر مزار بنانے کا واضح ثبوت ہے۔ 

امام جلال الدین سیوطی اور المحلی قرآن کی سب سے مختصر اور آسانی سے سمجھنے والی تفسیر ' الجلالین میں لکھتے ہیں: 

يَتَنَـٰزَعُونَ} أي المؤمنون والكفار {بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْۖ} أمرالفتية   في البناء حولهم {فَقَالُوۤا} أي الكفار {ٱبْنُوا عَلَيْهِم} أي حولهم {بُنْيَـٰنًاۖ} يسترهم {رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْۚ قَالَ ٱلَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰۤ أَمْرِهِمْ} أمر الفتية وهم المؤمنون {لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم} حولهم {مَّسْجِدًا} يصلى فيه، وفعل ذلك على باب الكهف. 

 ترجمہ:مومن اور کافر آپس میں جھگڑنے لگے غار کے ارد گرد عمارت بنانے کے متعلق. کافروں نے کہا کہ ہم اس کے ارد گرد عمارت بنائیں گے جو ان کو چھپا لے (بقول کفار اصحابِ کہف ہمارے مذہب پر ہیں۔) اللہ ان کی مراد کو بہتر جانتا ہے۔وہ لوگ جو سرداری میں غالب تھے انہوں نے نوجوانوں کے متعلق کہا کہ وہ ہمارے مذہب پر یعنی مومن ہین تو ہم اس کے گرد مسجد بنائیں گے تاکہ اس میں نماز پڑھی جائے اور انہوں نے اصحابِ کہف کے دروازے پر یہی کیا۔

۔(تفسیر الجلالین، تحت سورہ کہف آیت # 21)

امام نسفی تفسیر النسفی میں لکھتے ہیں:

قَالَ ٱلَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰۤ أَمْرِهِمْ} من المسلمين وملكهم وكانوا أولى بهم وبالبناء عليهم {لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم} على باب الكهف {مَّسْجِدًا} يصلي فيه المسلمون ويتبركون

ترجمہ: ( جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا) یہ مسلمان اور حاکم ہیں جنہوں نے ان کے پاس تعمیر کرنے کا کہا یعنی غار کے سرہانے مسجد تعمیر کرنے کا تاکہ "مسلمان اس میں عبادت کر سکیں اور برکت حاصل کر سکیں" (تفسیر النسفی جلد 3 صفحہ 18). 

امام شہاب الدین خفاجی لکھتے ہیں: 

مسجد ايدل على جوازا لبناء على قبور الصلحاء ونحوهم كمااشار الي فى الكشاف وجواز الصلوة فى ذلك البناء

ترجمہ: (غار پر مسجد بنانا) " صالحین کی قبروں پر تعمیر کرنے کی اجازت دیتی ہے" جیسا کہ تفسیر الکشاف میں ذکر ہے اور اس عمارت کے اندر عبادت کرنے کی اجازت ہے۔(امام خفاجی عنایۃ القاضی جلد 6 صفحہ 87 ، شایع کردہ دار الصادر بیروت لبنان)

امام ابو حیان الاندلسی کہتے ہیں: 

وروي أن التي دعت إلى البنيان كانت كافرة أرادت بناء بيعة أو مصنع لكفرهم فمانعهم المؤمنون وبنوا عليهم مسجداً

ترجمہ: وہ شخص جس نے ان پر ایک عمارت بنانے کا کہا وہ کافر عورت تھی اس نے اس پر کلیسہ بنانے کا کہا جہاں کفر کے اعمال کیے جا سکیں، البتہ مومنین نے اسے روک لیا اور اس کے اوپر مسجد بنا لی۔(تفسیر بحر المحیط جلد 7 صفحہ 158)

علامہ ابن جوزی جو بہت سخت عالم ہیں اور سلفی ان کی بہت عزت کرتے ہیں وہ اپنی تفسیر زاد المسیر میں لکھتے ہیں: 

قال ابن قتيبة: يعني المُطاعين والرؤساء، قال المفسرون:وهم الملك وأصحابه المؤمنون اتخذوا عليهم مسجداً

ترجمہ: ابن خطاب نے کہا: مفسرین نے کہا: وہ لوگ جنہوں نے ان کے اوپر مسجد بنائی وہ (مسلمان) بادشاہ اور مومنین ساتھی تھے۔(تفسیر زاد المسیر جلد 5 صفحہ 124)

امام محمد بن حسن الشیبانی لکھتے ہیں:

محمد قال :اخبرنا ابو حنيفة قال حدثنا سالم الافطس قال: ما من نبي الا ويحرب من قومة الي الكعبة يعبد رحبا وان حولحا لقبر ثلاث ماة نبي

ترجمہ: امام محمد نے کہا: ابو حنیفہ نے ہمیں بتایا کہ: سالم الافطس نے ہم سے روایت کیا کہ: کوئی ایسا نبی نہیں جو اپنے لوگوں سے دور ہوکر کعبہ کی طرف نہ آیا ہو اللہ کی عبادت کے لیے اور اس کے ارد گرد 300 انبیاء کی قبریں ہیں۔ (کتاب الآثار امام الشیبانی شائع کردہ مطبع تراث لندن صفحہ 150). 

وہ یہ بھی کہتے ہیں: 

محمد قال: اخبرنا ابو حنيفة  قال حدثنا عطاء بن الساءب قال :قبر حود وصالح وثعيب عليحم السلام في المسجد الحرام

ترجمہ: امام محمد نے کہا، امام ابوحنیفہ نے ہمیں بتایا کہ عطاء بن السائب نے ہم سے روایت کیا کہ: نبی صالح، ہود اور شعیب کی قبور مسجد الحرام میں ہیں۔ (اوپر دیئے گئے حوالے کے مطابق)

اب واضح حدیث نبوی دیکھتے ہیں:

وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏‏"‏في مسجد الخيف قبر سبعون نبياً "‏‏.‏رواه البزار و رجاله ثقات‏.‏

 ترجمہ: ابن عمر نے رسول اللہ سے روایت کیا جنہوں نے کہا: مسجد الخیف میں ستر انبیاء کی قبر موجود ہیں۔ امام ہیثمی نے کہا اسے بزار نے روایت کیا اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد امام ہیثمی جلد 3 باب فی مسجد الخیف حدیث : 5769)

في مسجد الخيف قبر سبعون نبيا الراوي: عبدالله بن عمر- خلاصة الدرجة: إسناده صحيح - المحدث: ابن حجرالعسقلاني - المصدر: مختصر البزار - الصفحة أو الرقم: 1/476

ترجمہ: مسجد الخیف میں 70 انبیاء کی قبر ہے۔ حکم: شیخ الاسلام امام ابن حجرعسقلانی نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔(مختصر البزار 1/476)

یہ ثبوت قرآن اور حدیث کی نصوص سے ثابت کرتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مزار بنانا ایک عملِ صالح ہے۔ شدت پسند مسلمانوں کی خاصی تعداد کو مشرک کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مزارات بت ہیں، اور یہ کہ انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسمار کردینا چاہیے۔ انہوں نے یہ گھناؤنا عمل صحابہ کی قبروں کے ساتھ کیا جو جنت البقیع اور معلی میں دفن ہیں۔ مگر مسلمانوں کے دباؤ کے باعث وہ یہ کام رسول اللہ علیہ السلام کی مقدس قبر اور ابوبکر و عمر رضى اللہ عنہم کی قبر کے ساتھ نہیں کر سکے۔ 

دوسری نصِ قرآنی۔ 

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَابَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ: اور (  یاد  کرو ) جب ہم نے اس  گھر  ( خانہ  کعبہ  ) کو لوگوں کے لئے  رجوع  ( اور اجتماع ) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا ، اور (  حکم  دیا کہ ) ابراہیم ( علیہ السلام ) کے کھڑے ہونے کی  جگہ  کو مقامِ نماز بنا لو ، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل ( علیھما السلام ) کو تاکید فرمائی کہ میرے  گھر  کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے  پاک  (  صاف  ) کر دو 

 (ڈاکٹر طاہر القادری، سورہ البقرہ ، آیت # 125) 

 
قرآن ایک اور جگہ کہتا ہے :

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ: جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں ، مقام ابراہیم ہے ، اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے اللہ تعالٰی نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس  گھر  کا حج فرض کر دیا ہے ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالٰی ( اس سے بلکہ ) تمام  دنیا  سے بے پرواہ ہے ۔ ( سورۃ آل عمران:97 )

اللہ اپنے پیاروں کی جگہ کو اتنا پسند کرتا ہے کہ ان "نامزد مقامات پر عبادت کرنے کو" حج کے ارکان کا حصہ بنا دیا۔ اگر اس میں شرک کا کوئی خطرہ ہوتا، یعنی اگر لوگ انبیاء کی قبر یا ان کے نقش قدم کو "اللہ کے سوا معبود کے طور پر لینے لگتے تو اللہ قرآن مجید میں ان کے لیے اپنی غیر محدود عزت ظاہر نہ کرتا۔ 
قرآن عظیم دراصل ان مقامات کو 'شعائر اللہ کہتا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے قرآن سورۃ البقرہ:158)۔ اور بے شک انبیاء اور اولیاء کی قبریں شعائر اللہ میں آتی ہیں۔ جو شخص قبروں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ پر اللہ کی طرف سے جنگ مسلط کرتا ہے جس کی تصدیق صحیح بخاری حدیث قدسی میں ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ (صحیح بخاری 6502)

مخالفین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ مزارات کو تباہ کر کے اللہ کے خلاف یہ جنگ جیت رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ دہشت گردوں کی ظالمانہ اور وحشیانہ فطرت اور ان کے نظریہ کو بے نقاب کرکے دنیا میں اہلسنت کی صحیح تعلیمات کو عام کر رہا ہے۔ اہل سنت پوری دنیا کے انتہا پسندوں کو ان کی گھناؤنی حرکتوں کے بعد انکی تردید کر رہے ہیں اور الحمد اللہ یہ فتح باری تعالیٰ ہے (ربِ عظیم کی فتح) جس کا اندازہ شدت پسند نہیں لگا پا رہے۔ اللہ بہترین تدبیر کرنے والاہے لہٰذا وہ صالحین سے نفرت کرنے والوں کو اجازت اور مہلت دیتا ہے یعنی ان کی زمین میں انارکی پھیلانے میں ، مگر اصل میں ان پر اللہ کی لعنت ہے جیسا قران میں آتا ہے کہ: 

اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورۃ الرعد:25)

لہٰذا ایسے لوگوں کو زمین پر فساد برپا کرنے اور مقدس مقامات کو تباہ کرنے پرلعنت ملتی ہے ، وہ یہ سوچتے ہیں یا فرض کرتے ہیں گویا وہ حق پر ہیں لیکن حقیقت میں جیسے بخاری کی حدیث خوارج کے حوالے سے ثابت کرتی ہے کہ وہ حقیقت میں گمراہی پرہیں۔

امام احمد صاوی نے امام جلال الدین سیوطی کی تفسیر جلالین پر اپنی عمدہ تشریح میں، اس آیت کے بارے کہا: 

یاد رکھو!شیطان تمھا را دشمن ہے تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں (الفاطر:6) 

وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم كما هو مشاهد الآن في نظائرهم، وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شىء ألا انهم هم الكاذبون، استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون، نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم

ترجمہ: یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت خارجیوں کے حوالے سے نازل ہوئی۔ جس نے قرآن و سنت کی تفسیر کو تبدیل کیا ، جس کی بناء پر اس نے مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان کے املاک پر قبضہ کرنے کو جائز قرار 
دیا۔ جیسا کہ اب ان کے جدید ہم منصبوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یعنی ، حجاز میں ایک فرقہ جسے "وہابیہ" کہا جاتا ہے (فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية) جو سمجھتے ہیں کہ وہ کسی راہ پر گامزن ہیں ، یقیناً وہ جھوٹوں میں سے ہیں۔ ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہ شیطانی لشکر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ شیطانی لشکر ہی خسارے والا ہے" (المجادلہ:19)۔  ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ (حاشیہ الصاوی علی الجلالین 3/255)

سلفیوں نے اس عبارت کو ایک نسخے میں تحریف کرتے ہوئے نکل دیا ہے۔ 

ثبوت 1 (قبر کی شکل کے بارے میں) 

چلیں قبر کی شکل کے مسئلے کو دیکھیں: 

ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو اونچی اور کوہان نما ہے۔
(صحیح بخاری 1390انگریزی ترجمہ محسن خان)

لہٰذا سلفیوں کا قبروں کو توڑنا یا بالکل چپٹا کرنا ، مصادر کی غلط تاویل و تشریح پر مبنی ہے۔ 

عظیم حنفی محدث ، امام محمد ابن حسن شیبانی اس عنوان کے ساتھ ایک مکمل باب مختص کرتے ہیں:

قبر پر ایک ٹیلا بنانا اور جپسم (کھڑیا مٹی) سے پلستر کرنا"

اس کے نیچے وہ ایک حدیث لاتے ہیں: 

ابوحنیفہ نے ہمیں حماد سے خبر دی کہ ابراہیم نے کہا: کسی نے مجھے اطلاع دی کہ اس نے رسول اللہ (ﷺ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر اور حضرت عمررضی اللہ عنہ  کی قبر پر ٹیلا بنے ہوئے دیکھا جو زمین سے واضح  اوپر تھا اُس پر سفید مٹی کے ٹکڑے واضح اوپر تھے۔ 

امام محمد نے کہا: ہم (احناف) اس پر موقف رکھتے ہیں ، قبر کو نمایاں ٹیلے کے ساتھ نشان زد کیا جاتا ، لیکن یہ چکور شکل میں نہیں بنانا چاہیے اور یہ "ابوحنیفہ کا فیصلہ ہے"(کتاب الاثار صفحہ 145 شائع کردہ مطبع تراث)
بی

انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ تمام قبریں چپٹا یا مسمار کرنی چاہیے (وہ صحیح مسلم : 2115 جیسی احادیث کا غلط استعمال کرتے ہیں ، حالانکہ کہیں بھی ایسی احادیث قبروں کو ختم کرنے کا حکم نہیں دیتیں، بلکہ ان کو صرف اوپر سے سیدھا کرنے کا کہتی ہیں اور مشرکین کی بنائی ہوئی تصاویر یعنی بتوں یا تصاویر کو ختم کرنے کا کہتی ہیں). یہ براہ راست سنت کی مخالفت میں ہے جیسا کہ میں نے متعدد احادیث سے ثابت کیا ہے۔ وہ حدیث جس کا وہ غلط استعمال کرتے ہیں مشرکین کی قبروں کو چپٹا کرنے کا کہتی ہے ناکہ مومنین کی، اور چپٹا کرنے کا مطلب انھیں اوپر سے مستطیل یا سیدھا بنانا ہے نہ کہ ان کو تباہ کرنا یا زمین بوس کرنا۔ رسول اللہ ، ابو بکر اور عمر کی قبریں ٹیلے کی شکل میں بننا ثابت ہیں نہ کہ چپٹا۔

امام محمد نے اگلے صفحے میں قبروں کو پلستر نہ کرنے کے بارے میں بات کی ہے ، لیکن یاد رہے کہ ان قبروں سے مراد انبیاء اور اولیاء کی قبریں نہیں ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ہم کچھ ایسی تصاویر دکھانا چاہیں گے کہ مشرکین/عیسائیوں کی قبریں وہ خود چپٹی رکھتے ہیں۔ (لہٰذا اسلامی طرز عمل ان کے متضاد ہے یعنی ہماری قبریں فلیٹ/چپٹی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اس کے ٹیلا نمایاں ہونا چاہیے اور اونچی ہونی چاہیے ہیں) تاہم وہ ان کے اوپر مریم ، عیسیٰ وغیرہ کے مجسمے بناتے ہیں جو ممنوع ہے۔ 

ضروری تصاویر جن سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی قبور میں فرق واضح ہوتاہے
 

 
اوپر والی تصاویر دیکھیں:

الف) اوپر والی پہلی تصویر میں عیسائیوں کی قبور بالکل زمین سے چپٹی ہوئی ہیں جیسا کہ سلفی مسلمانوں کی قبروں کے بارے میں کہتے ہیں(وہ احادیث جو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کو کہتی ہیں اس وجہ سے مسلمانوں کی قبور اُبھری ہوئی ہوں اور ان کے عین اوپر بت نہ بنائیں جائیں۔

ب) دوسری تصویر میں واضح ہے کہ عیسائی اپنی قبور کے عین اوپر بت بناتے ہیں جب کے مسلمان مزارات قبر کے اوپر والے حصے کے عین اوپر نہیں بناتے۔
 
اب دوسری طرف مندرجہ ذیل تصویر اسلام کے سب سے مقدس مقام کی ہے یہ  عمارت رسول اﷲﷺ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سید عمر رضی اللہ عنہ کی قبور کے اوپر شروع سے ہے۔
 
اب ہم حتمی طور پر سلفی نقطہ نظر کا رد کرتے ہیں اس معاملے میں کے آیا قبور کو پکا کیا جائے یا ان پر مکتب لگایا جائے یا ان پر بیٹھا جائے۔سلفی اس بات سے پہچانے جاتے ہیں کہ وہ حدیث کے مصادر میں تحریف کرتے ہیں یا سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں۔ آپ ان کو کبھی نہیں دیکھیں گے کہ وہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ دیکھائیں جو انہوں نے ایسی حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا۔ دوسری طرف ہمارا سنی اسلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ لوگوں کے سامنے بات مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کی جائے۔

سلفی ایسی حدیث کا غلط استعمال کرتے ہیں جس میں ہے کہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںکہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں، ان پر لکھا جائے اور ان پر عمارت بنائی جائے اور انہیں روندا جائے۔(جامع ترمذی حدیث نمبر1052)

امام حاکم ایسی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

هذه الأسانيد صحيحة وليس العمل عليها فإن أئمة المسلمين من الشرق إلى الغرب مكتوب على قبورهم وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف

ترجمہ: یہ اسانید صحیح ہیں لیکن ان پر مشرق سے مغرب تک کے مسلمان علماء کا عمل نہیں ہے۔قبور پر تحتی لگانا خلف نے سلف سے لیا ہے۔(مستدرک حاکم، # 1370)

سو کثیر علماء کاعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ان احادیث کا وہ مطلب نہیں جو سلفی لیتے ہیں یاد رکھیئے کے یہ عظیم علماء حدیث کو سلفیوں سے بہتر جانتے تھے۔

 قبر کو پختہ کرنے کا مطلب اندر سے پختہ کرنا ہے یا ان کے عین اوپر بت بنانا یا عمارت بنانا ہے۔اگر ہم یہ نہیں مانیں گے تو قرآن و سنت میں تضاد آجائے گا۔

انبیاء کی قبروں کو پختہ بنانا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم حدیث سے ثابت ہوتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ۔میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں۔(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 23476)

امام حاکم نے بھی اس حدیث کو نقل کیا اور اس کی سند کو صحیح کہا۔ امام ذہبی نے بھی اس کو صحیح کہا۔(مستدرک مع تلخیص #8571)

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی قبر باہر سے پختہ تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو صحابی ،جابر حکمران مروان بن حکم کے خلاف پتھر کا لفظ استعمال نہ کرتا۔اس حدیث سے صحابی اور جابر حاکم کے عقیدہ میں فرق واضح ہوتا ہے۔(ایسے ہی ہمارے مقدس مقامات کا سلفیوں کے قبضے میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کے وہ سچے ہیں۔) یاد رکھیے مکہ اور مدینہ بہت دفعہ ظالم حکمرانوں کے تحت رہا ہے جیسے یزید اور مروان وغیرہ۔ 

اب آتے ہیں ایک اور مسئلہ کی طرف جس کو سلفی غلط استعمال کرتے ہیں یعنی قبور پر بیٹھنا۔اس بارے میں موطا امام مالک کی عظیم حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عام طور پر قبروں پر بیٹھنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ممانیت ہے ان پر قضائے حاجت کرنے کی یا ان کو تکلیف دینے کی۔لفظ علیٰ کو سلفی غلط استعمال کرتے ہیں۔

امام مالک اس پر پورا باب باندھتے ہیں جس کے الفاظ ہیں :

باب الوقوف للجنائز والجلوس على المقابر

ترجمہ:جنازوں پر رکنا اور قبور پر بیٹھنا۔

اس باب میں دوسری روایت یہ کہتی ہے۔

وحدثني عن مالك أنه بلغه أن علي بن أبي طالب كان يتوسد القبور ويضطجع عليها قال مالك وإنما نهي عن القعود على القبور فيما نرى للمذاهب

ترجمہ: مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا کہ علی ابن ابی طالب قبروں پر سر رکھ کر ان پر لیٹتے تھے۔ مالک نے کہا کہ جہاں تک ہم سمجھ سکتے ہیں صرف قضائے حاجت کے لیے قبروں پر
 بیٹھنا حرام ہے۔ (موطا امام مالک، 16 ویں کتاب، باب # 11، حدیث # 34)

یاد رکھیں امام مالک کی موطا بہت سے اہل علم کے مطابق صحیح بخاری سے بھی اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔

 قرآن نے سورۃ البقرہ میں فرمایا:

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ

ترجمہ :وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس سے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔ (سورۃ البقرہ:26)

چنانچہ جب لوگ قرآن پڑھنے کے بعد بھی گمراہ ہو سکتے ہیں (جیسے خوارج اور ان کے ہمنوا ہیں) تو اسی طرح حدیث بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کرتی ہے جو علماء کی سرپرستی کے بغیر حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امام سفیان بن عیینہ (علیہ رحمہ) اور ابن وہب (علیہ رحمہ) عظیم سلف نے خوبصورتی سے کہا:

وقال ابن عيينة " الحديث مضلة إلا للفقهاء "
قال عبد الله بن وهب:"الحديث مضلة إلا للعلماء

ترجمہ: ابن عیینہ (علیہ رحمہ) نے کہا: حدیث گمراہی ہے سوائے فقہا کے۔ ابن وہب (علیہ رحمہ) نے کہا : حدیث گمراہی ہے سوائے علماء کے۔ [دوسرا قول ترتیب المدارک، قاضی عیاض سے لیا گیا ہے، صفحہ نمبر 28]

نیز ایک دفعہ امام ابو حنیفہ سے کہا گیا کہ ’’فلاں مسجد میں ایک حلقہ ہے جو فقہ پر بحث کرتا ہے (یعنی ’’دین کے باریک نکات کی تفہیم‘‘)۔ پوچھا کیا ان کا  کوئی اُستاد ہے؟ انہوں نے کہا نہیں امام صاحب نے کہا کہ وہ کبھی نہیں سمجھیں گے۔ (امام ابن مفلح الاداب الشریعۃ جلد 3 ، صفحہ374)

اب سلفیوں کی حالت کاتصور کریں جب ان کے معروف محدث ۔ ۔ البانی کو  حدیث روایت کرنے اور درجہ بندی کرنے کی اجازت نہیں ملی تو عام سلفی کیسے احادیث کو سمجھے بغیر فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔

 بخاری کی دو احادیث جن کا سلفی غلط استعمال کرتے ہیں اور ہم موطا امام مالک کی 2 احادیث ان کی شرح" میں دکھایں گے۔ یہ ان کے کمزور موقف کی مکمل تردید کریں گی۔

سلفی بخاری کی احادیث کا غلط استعمال کرتے ہیں جیسےگی۔

حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر، کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اس کے ساتھ "وہ ان کے لیے تنبیہ کر رہے تھے۔" (اسے بخاری 1330، مسلم، 529) نے روایت کیا ہے۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے ایک چرچ کا ذکر کیا جسے انہوں نے ایتھوپیا میں دیکھا تھا اور چرچ میں تصویریں تھیں۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان میں سے کوئی نیک آدمی مر جائے تو اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔اس میں ان تصویروں رکھتے ہیں۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کی بدترین مخلوق ہوں گے۔ (صحیح بخاری رقم:387)

 ان احادیث کا غلط استعمال کرکے انتہا پسند اپنی جہالت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ  جاننے کا دعویٰ  کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے قرآن سے نص کو دکھایا ہے جو قبروں پر تعمیر کی اجازت دیتی ہے، اس لیے کوئی بھی حدیث جو قرآن سے متصادم ہو اسے رد یا اس کی تاویل کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ایسی احادیث یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ کہ مسلمان۔ تیسرا یہ کہ روشن سورج کی طرح واضح ہو جائے گا کہ ان احادیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی پوجا کی جاتی ہے، چوتھی بات یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے قبروں پر تصویریں بنوائیں اور اوپر تصویریں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عیسائی کس طرح مجسمے بناتے ہیں۔ قبروں کے عین اوپر اور یہ واقعی ہمارے اہل سنت کے نزدیک حرام ہے۔ پانچویں، وہ قبروں کے اوپر عبادت گاہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء کی قبروں سے ملحقہ مساجد ان کے بالکل اوپر نہیں بنائی جاتیں، نماز کی جگہ ہمیشہ الگ ہوتی ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شاندار فتح الباری میں بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہود و نصاریٰ اپنے انبیاء کی قبروں کو تعظیم کے لیے سجدہ کرتے تھے اور نماز کے وقت ان کی طرف توجہ کرتے تھے، قبریں بت بن گئیں اس وجہ سے مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا البتہ اگر کوئی نیک شخص کے قریب مسجد بنائے اس سے تبرک حاصل کرنے کے لیے تو وہ اس ممانعت کے حکم میں نہیں آئے گا۔(ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، ج 3، ص 208)

آئیے یہاں موطا امام مالک کی دو اہم حدیثیں دیکھتے ہیں۔

حدیث نمبر 1 موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے۔
(موطا مالک، کتاب #16، حدیث # 27)

  مجھے یحییٰ نے مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن فوت ہوئے اور منگل کے دن آپ کی تدفین ہوئی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرداً فرداً نماز پڑھی اور ان کی امامت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ آ پ کو منبرکےقریب دفن کیا جائے گا اور بعض نے کہا کہ آپ کو البقیع میں دفن کیا جائے گا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی نبی کو اس جگہ کے علاوہ  دفن نہیں کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ چنانچہ وہاں آ پ کے لیے ایک قبر کھودی گئی، جب وہ غسل ہونے لگےتو انہوں نے آپ (ﷺ) کی قمیض اتارنے کی خواہش کی لیکن  پھر سب نے ایک آواز سنی کہ آپ کی قمیص نہ اتاری جائے، اس لیے انہوں نے آ پ کی قمیض نہیں اتاری اور اس کے سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا تھا۔

نوٹ: صحابہ کا منبر کا تذکرہ کرنا اور پھر آخر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حدیث کی روشنی میں یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہیں دفن کرنا ہے جہاں آپ کا انتقال ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے نبی اور متقی لوگوں کو تعمیر شدہ مکان (مزار) میں دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

 اس حدیث سے متعدد نکات ثابت ہوتے ہیں جن میں اعلیٰ درجے کے صحابہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست ثبوت بھی شامل ہے کہ مزارات بنانا شریعت میں مشروع ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رسمی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی جہاں امام نماز پڑھاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء سے افضل طریقے سے زندہ ہیں اسی لیے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ آئیے اب دوسری صریح حدیث دیکھتے ہیں جس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی پوجا نہیں کی جائے گی۔

حدیث نمبر 2

کتاب 9، حدیث 88 (موطا امام مالک)

مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، زید بن اسلم سے، وہ عطاء بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا جس کی عبادت کی جاتی ہو۔ جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر نبی کریمﷺ سخت غصہ تھے۔

یہ حدیث سلفیوں کے نقطہ نظر کی مکمل تردید کرتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " مستجاب الدعوۃ (جن کی دعا بالکل قبول ہوتی ہے)" ہیں، انتہا پسند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض میں اس حد تک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں  دعا قبول نہیں ہوئی (نعوذ باللہ) انہیں ایک مرفوع صحیح حدیث دکھانے کا چیلنج دیا جاتا ہےکہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوکہ ان کی قبر کے متعلق ان کی دعا اللہ نے قبول نہیں کی۔

شدت پسند امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف میں یہ حدیث وارد ہے:

‏ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ

اے اللہ تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے اور ان کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔(جامع ترمذی، کتاب 46،حدیث 3842)

 یہ حدیث امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کی بڑی فضیلت ثابت کرتی ہے۔  اور نبی کریم مستجاب الدعوۃ تھے؛ ایسے ہی سلفیوں کو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قبر سے متعلق دعا قبول ہوئی اور اسکو کبھی بھی بت کی طرح نہیں پوجا جا سکتا۔

امام ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ نے اسے روایت کرنے کے بعد فرمایا:

ولا شك أن دعاءه صلى الله عليه وسلم مستجاب

 ترجمہ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بالکل قبول ہوتی ہے"

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انتہا پسند جتنی بھی من پسند تشریحات دیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر قائم رہیں گے۔

عظیم حنفی عالم ۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ اپنی شاندار مرقات شرح مشقاۃ میں لکھتے ہیں:

ترجمہ: ابتدائی مسلمانوں (سلف) نے مشہور اساتذہ اور علماء کی قبروں پر تعمیر کرنے کو مباح (یعنی اجازت) سمجھا ہے تاکہ لوگ ان کی زیارت کر سکیں اور وہاں (آسانی سے) بیٹھ سکیں۔ (مرقاۃ شرح المشکوۃ جلد 4 صفحہ 69]

عظیم عالم اور صوفی امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

میرے استاد علی (علیہ الرحمہ) اور بھائی افضل الدین (علیہ الرحمہ) منع کرتے تھے کہ عام لوگوں کی قبروں پر گنبد بنائے جائیں، میت کو تابوت میں ڈالا جائے اور ان کی قبروں پر چادریں چڑھائی جائیں۔ وہ کہتے تھے کہ گنبدوں اور چادروں کے مستحق صرف انبیاء اور اولیاء ہی ہوتے ہیں، جب کہ ہمیں لوگوں کے قدموں میں اور ان کے راستوں میں دفن ہونا چاہیے ۔(الانوار القدسیہ صفحہ نمبر 593)

اس سے پہلے کہ سلفی صوفی امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام دیکھ کر چیخیں، تو ہم یہ دیکھتے ہیں کے بڑے علماء نے ان کے بارے میں کیا کہا:

 شيخنا العارف عبد الوهاب الشعراني

ترجمہ: میرے شیخ، عارف (اللہ کے جاننے والے) عبد الوہاب شعرانی [المناوی فیض القدیر(2/78)]

اگر سلفی امام المناوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی انکار کرتے ہیں۔ تو آئیے مزید تعدیل دیکھتے ہیں امام شعرانی رحمہ اللہ پر۔

 ایک اور عظیم عالم نے کہ ان کے بارے کہا ہے کہ 

وقد أباح السلف البناء على قبر المشايخ والعلماء المشهورين ليزورهم الناس ويستريحوا بالجلوس فيه

ترجمہ: ولی اللہ الربانی، سیدی عبد الوہاب الشعرانی [ابن عماد الحنبلی، شذرات الذہب میں 637 ہجری کے لوگوں کی سوانح کے تحت]

یہ مندرجہ ذیل حدیث سمجھنا بہت ضروری ہے جو قبروں کی زیارت کے آداب کے سلسلے میں صحابہ کا عقیدہ ہمارے سامنے پیش کرے گی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

أخبرنا أحمد بن جعفر القطيعي ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة أنبأ هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قالت : كنت أدخل بيتي الذي فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم و أني واضع ثوبي و أقول إنما هو زوجي و أبي فلما دفن عمر معهم فو الله ما دخلت إلا و أنا مشدودة علي ثيابي حياء من عمر رضي الله عنه

ترجمہ: میں جب بھی اس گھر میں داخل ہوئی جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میرے والد (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) مدفون ہیں، میں یہ سوچ کر اپنی چادر (سر سے) اتار دیتی تھی کہ یہ صرف میرے والد اور شوہر ہیں، تاہم اللہ کی قسم! جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ دفن ہوئے تو میں کبھی بھی بغیر چادر کے اندر نہیں گئی۔
یہ ہے عمر رضی اللہ عنہ سےحیاءکی وجہ سے [مسند احمد بن حنبل، جلد نمبر 6، صفحہ نمبر 202، حدیث نمبر 25701]

نوٹ: سب سے پہلے اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف انبیاء کی بلکہ دوسرے صالحین کی بھی قبروں پر تعمیر کی جا سکتی ہے۔ واضح طور پر دیکھیں کہ حدیث میں لفظ  بیت استعمال ہوا ہے  جسکا مطلب ہے گھر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قبریں ایک تعمیر شدہ گھر کے اندر baib

دوم: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی قبر کی زیارت کے لیے جاتیں تو پورا  پردہ کر کے جاتی تھیں۔ صحابہ کے عقیدہ پر یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اہل قبور ان کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

حدیث کے صریح الفاظ کو دیکھیں یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا "حیا از عمر" کی وجہ سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیتی تھیں۔

ہم جانتے ہیں کہ سلفیوں کی عام عادت ہے کہ وہ ہر اس صحیح حدیث کو رد کر دیتے ہیں جو ان کے نظریے کے خلاف ہو، وہ اکثر اپنے نکات کو درست ثابت کرنے کے لیے البانی کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن اس حدیث پر وہ اپنے سرکردہ امام یعنی البانی کا حوالہ بھی نہیں دے سکتے کیونکہ یہ حدیث اتنی مستند ہے کہ البانی کو بھی اس حدیث کو رد کرنے اور   اسے ضعیف قرار دینے کا کوئی طریقہ / راستہ  نہیں ملا۔  (و اکثر اُن صحیح احادیث کا انکار کے دیتے تھے جو ان کے عقائد یہ نظریات کے خلاف ہو)۔

امام نورالدین (ہیثمی علیہ الرحمہ) نے اس حدیث کے بعد فرمایا:

 رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح

ترجمہ: اسے امام احمد (علیہ رحمہ) نے روایت کیا ہے اور "اس روایت کے تمام راوی صحیح کےہیں" [مجمع الزوائد (9/40)، حدیث # 12704]

امام حاکم (علیہ رحمہ) نے اسے روایت کرنے کے بعد فرمایا

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين

ترجمہ:یہ حدیث دونوں شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔(مستدرک الحاکم ،حدیث #4458)

ناصر الدین البانی نے اپنی تخریج میں مشکوٰۃ المصابیح (#1712) میں اسے صحیح کہا ہے۔

اب آتے ہیں قبروں کی زیارت اور قرآن خوانی یا وہاں ذکر کرنے کے مسئلے کی طرف۔ انبیاء اور اولیاء کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کے بارے میں صحیح بخاری میں اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا براہ راست نص سےحکم بھی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں موسیٰ کی قبر سرخ ریت کی پہاڑی کے پاس راستے میں دکھاتا۔ (صحیح بخاری، رسم :1339)

یہ حدیث ایک بار پھر نص (حتمی دلیل) ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کی قبروں کی زیارت کرنا پسند کرتے تھے جو قبرستانوں سے الگ تھیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے اس کا تذکرہ مثبت انداز میں کیا ہے۔

امام ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صالحین کی قبروں سے برکت حاصل کرنے کے لیے ان کی زیارت کرنا مستحب ہے، کیونکہ جو فائدہ ان سے ان کی زندگی میں حاصل ہوتاہے وہی ان کی وفات کے بعد بھی ملتا ہے۔ علماء ومحققین کا یہ معمول رہا ہے کہ صالحین کی قبروں کے پاس دعائیں مانگیں اور اللہ سے ان کے وسیلے سے التجا کریں، جس کو کچھ حاجت ہو وہ (صالحین کی قبروں) پر جا کر وسیلہ بنائے۔ یہ استدلال نہ کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مساجد یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی، اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ سفر نہ کرنے کا حکم دیا۔ عظیم امام ابو حامد الغزالی (علیہ رحمہ) نے اپنی احیاء العلوم کے باب "آداب السفر" میں ذکر کیا ہے کہ سفر عبادت کے لیے کیا جائے جیسا کہ حج یا جہاد، اس کے بعد فرمایا: اس میں انبیاء کی قبروں کی زیارت بھی شامل ہے۔ صحابہ کرام، تابعین بشمول تمام علماء اور اولیاء۔ ہر وہ شخص جس کی زندگی میں برکت حاصل کرنے کے لیے زیارت جائز ہو وہ مرنے کے بعد بھی جائز ہے۔ [المدخل، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 216]

امام ابن قدامہ (علیہ رحمہ) نے فرمایا:

ويستحب زيارة قبر النبي لما روى الدارقطني بإسناده عن ابن عمر قال: قال رسول الله : «من حج فزار قبري بعد وفاتي فكأنما زارني في حياتي» وفي رواية، «من زار قبري وجبت له شفاعتي

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنا مستحب ہے جیسا کہ دارقطنی نے اپنی سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری وفات کے بعد حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس طرح ہے گویا اس نے میری زندگی میں مجھ سے ملاقات کی ہو۔ اور انہوں نے (ایک اور حدیث) بھی بیان کی ہے کہ جو شخص میری قبر کی زیارت کرتا ہے اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے [امام ابن قدامہ المغنی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 381] 

امام البھوتی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا کہا ہے۔ یہ بات انہوں نے اپنی کشاف القناع [جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 290] میں کہی۔

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاندار الشفاء میں فرمایا:

في حكم زيارة قبره صلى الله عليه وسلم، وفضيلة من زاره وسلم عليه و زيارة قبره صلى الله عليه وسلم سنة من سنن المسلمين مجمع عليها، وفضيلة مرغب فيها: روى عن ابن عمر

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کا حکم اور اس کی زیارت کرنے والے کی فضیلت اور سلام بھیجنے کا بیان۔

معلوم ہو کہ قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تمام مسلمانوں کے لیے مسنون ہے اور اس پر ان کے لیے "اجماع" ہے، اس کی ایسی فضیلت ہے کہ اسے ہم پر لازم کیا گیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آتا ہے۔ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے](الشفا جلد 2 صفحہ 53)

نوٹ: شیخ الاسلام تقی الدین السبکی رحمۃ اللہ علیہ نے زیارت والی احادیث پر ایک پوری کتاب " شفاء السقام فی زیارت خیر الانعام " لکھی ہے۔ 

اس حدیث کو متعدد علماءنے مستند کہاہے جیسے:

وقد صحح هذا الحديث ابن السكن وعبد الحق وتقي الدين السبكي

ترجمہ: اس حدیث کو ابن السکن (علیہ رحمہ)، عبدالحق (علیہ رحمہ) اور تقی الدین السبکی (علیہ رحمہ) نے صحیح" قرار دیا ہے (نیل الاوطار 5:164)

شیخ الاسلام الحافظ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ
اپنی کتاب الاذکار میں کہتے ہیں:

اعلم أنه ينبغي لكل من حجّ أن يتوجه إلى زيارة رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم، سواء كان ذلك طريقه أو لم يكن، فإن زيارته صلى اللّه عليه وسلم من أهمّ القربات وأربح المساعي وأفضل الطلبات، فإذا توجَّه للزيارة أكثرَ من الصلاة عليه صلى اللّه عليه وسلم في طريقه، فإذا وقعَ بصرُه على أشجار المدينة وحَرمِها وما يَعرفُ بها زاد من الصلاة والتسليم عليه صلى اللّه عليه وسلم، وسألَ اللّه تعالى أن ينفعَه بزيارته صلى اللّه عليه وسلم، وأن يُسعدَه بها في الدارين، وليقلْ‏:‏ اللَّهُمَّ افْتَحْ عَليَّ أبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَارْزُقْنِي في زِيارَةِ قَبْرِ نَبِيِّكَ صلى اللّه عليه وسلم ما رزقْتَهُ أوْلِياءَكَ وأهْلَ طَاعَتِكَ واغْفِرْ لي وارْحمنِي يا خَيْرَ مَسْؤُول

باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت اور وہاں ذکر کرنے کا باب۔

سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حج کرنے والے ہر شخص کو  چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے نکلے، "خواہ وہ راستے میں ہو یا نہ ہو" کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنا اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے،کوششوں کا سب سے زیادہ اجر اور بہترین مقاصد میں سے ہے۔ جب کوئی زیارت کے لیے نکلے تو راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام پڑھے۔ اور جب کسی کی نظر مدینہ کے درختوں اور اس کے مقدس مقامات اور نشانات پر پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ایک ایک کر کے سب کی زیارت نصیب فرمائے۔  (اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کرے اور سلامتی عطا فرمائے)اور آپ کے ذریعے/وسیلے سے دنیا اور آخرت کی سعادت عطا فرمائے۔ اور یہ کہے کہ اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے ذریعے عطا فرما، جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے۔ جو تیری اطاعت کرتے ہیں، مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، یہ سب سے بہتر ین سوال ہے۔"

ابن قیم الجوزیہ

(ابن قیم الجوزیہ سلفیوں کے اعلیٰ درجے کے عالم ہیں، انہوں نے اپنے استاد ابن تیمیہ کے نظریات کی پرجوش حمایت، دفاع اور وکالت کی جس کی وجہ سے وہ ان کے بہترین شاگرد کے طور پر مشہور ہیں)۔ آپ نے کتاب الروح کے شروع میں ہی فرمایا:

 المسألة الأولى وهي هل تعرف الأموات زيارة الأحياء وسلامهم أم لا قال ابن عبد البر ثبت عن النبي أنه قال : ما من مسلم يمر على قبر  أخيه  كان يعرفه في الدنيا   فيسلم عليه إلا ردالله عليه روحه حتى يرد عليه السلام                فهذا نص في أنه بعينه ويرد عليه السلام وفي الصحيحين عنه من وجوه متعددة أنه أمر بقتلى بدر فألقوا في قليب ثم جاء حتى وقف عليهم وناداهم بأسمائهم يا فلان ابن فلان ويا فلان ابن فلان هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا فإني وجدت ما وعدني ربى حقا فقال له عمر يا رسول الله ما تخاطب من أقوام قد جيفوا فقال والذي بعثنى بالحق ما أنتم بأسمع لما أقول منهم ولكنهم لا يستطيعون جوابا وثبت عنه صلى الله وآله وسلم أن الميت يسمع قرع نعال المشيعين له إذا انصرفوا عنه وقد شرع النبي لأمته إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه فيقول السلام عليكم دار قوم مؤمنين وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل ولولا ذلك لكان هذا الخطاب بمنزلة خطاب المعدوم والجماد والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به

ترجمہ: "پہلا معاملہ": کیا مردے ان کی زیارت کرنے والوں کو پہچانتے ہیں اور ان کا سلام بھی سنتے ہیں یا نہیں؟

ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اپنے بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتاہے جسے وہ دنیا میں جانتا تھا اور اس پر سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو روح عطا فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ سلام کا واپس جواب دیتا ہے۔ چنانچہ ثابت ہے کہ میت آنے والے کو پہچانتی ہے اور سلام کا جواب بھی دیتی ہے۔ صحیحین (یعنی بخاری و مسلم) میں متعدد سندوں کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سےبدر میں مرنے والوں  کے لیے کنواں کھودا گیا۔ ، جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب کھڑے ہوئے اور انہیں پکارا: یا فلان ابن فلان (یعنی اے فلاں کے بیٹے) و یا فلاں ابن فلان، کیا تم نے وہ چیز نہیں پائی جس کا تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ کیا آپ درست ہیں؟ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے اپنے رب کے وعدوں کو (بالکل) صحیح پایا ہے عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور کہا: اللہ کے رسول، وہ آپ کی بات کیسے سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں؟ جبکہ وہ مر چکے ہیں  اور ان کی لاشیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔میں ان سے کیا کہہ رہا ہوں، یہاں تک کہ آپ ان سے زیادہ واضح طور پر نہیں سن سکتے، لیکن ان میں جواب دینے کی طاقت نہیں ہے۔ [ متفق علیہ]

(اگلا صفحہ نمبر 54): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس آتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آواز بھی سنتا ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو میت کو (براہ راست) سلام کرنا سکھایا ہے یعنی اے مومنین آپ پر سلام ہو۔ اس قسم کا خطاب صرف اس شخص سے کیا جاتا ہے جو آپ کو سن سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے ورنہ یہ خطاب ایسا ہوتا جیسے کسی ایسے شخص سے مخاطب ہو جو موجود نہ ہو اور نہ سن سکتا ہو (جو یقیناً غلط ہے)۔ سلف کی طرف سے یہ تواتر (یعنی یقینی طور پر جانا جاتا ہے)" کے طور پر آیا ہے کہ مردے ان کی زیارت کرنے والوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے آنے پر خوش بھی ہوتے ہیں۔ - [کتاب الروح صفحہ نمبر 53-54 (اس کے بعد ابن قیم نے بہت سے سلف کے اقوال قبروں میں ہمارے سننے کی دلیل کے طور پر نقل کیے ہیں)]

   أيضا ما جرى عليه عمل الناس قديما وإلى الآن
من تلقين الميت في قبره ولولا أنه يسمع ذلك وينتفع به لم يكن فيه فائدة وكان عبثا وقد سئل عنه الإمام أحمد رحمه الله فاستحسنه واحتج عليه بالعمل ويروى فيه حديث ضعيف ذكره الطبرانى في معجمه من حديث أبى أمامة قال قال رسول الله إذا مات أحدكم فسويتم عليه التراب فليقم أحدكم على رأس قبره ثم يقول يا فلان ابن فلانة فإنه يسمع ولايجيب ثم ليقل يا فلان ابن فلانة الثانية فإنه يستوي قاعدا ثم ليقل يا فلان ابن فلانة يقول أرشدنا رحمك الله ولكنكم لاتسمعون فيقول أذكر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله وان محمد رسول الله وأنك رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا وبالقرآن إماما فان منكرا ونكيرا يتأخر كل واحد منهما ويقول انطلق بنا ما يقعدنا عند هذا وقد لقن حجته ويكون الله ورسوله حجيجه دونهما

 ترجمہ: پرانے زمانے سے لے کر آج تک لوگوں کی قبروں پر میت کو تلقین کرنے کا رواج چلا آرہا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میت ہماری سنتا بھی ہے اور نصیحت بھی سمجھتا  ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو (تلقین) بے فائدہ ہوتی۔امام احمد (علیہ رحمہ) سے اس کے بارے میں پوچھا گیا اور انہوں نے (مسلمانوں کی اکثریت) کے عمل کو حجت (یعنی دلیل) کے طور پر لے کر (تلقین) کو مستحسن سمجھا۔ معجم الکبیر طبرانی میں اس بارے میں ابوامامہ سے ایک ضعیف حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس کے اور اس کی والدہ کے نام کے ساتھ پکارو اور اس کے سر پر کھڑے ہو کر اس کی قبر میں مٹی ڈالو۔ اس لیے کہ وہ ہمیں سنتا ہے اور ہم اسے نہیں سن سکتے، پھر دوسری بار پکارنے پر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا ہے، اور تیسری بار وہ جواب دے گا جو تم نہیں سنو گے۔ اس کے بعد آپ یہ کہیں: اللہ آپ پر رحم کرے، ہماری تلقین سے فائدہ اٹھائیں، پھر اسے وہ توحید اور رسالت یاد دلائیں جس پر وہ فوت ہوئے تھے، یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو اپنے ذہن میں رکھنا اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے دین، اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت اور قرآن کی ہدایت پر راضی.. یہ سن کر منکر و نکیر ایک طرف ہو گئے اور اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ واپس آجائیں کیونکہ قریب کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ شخص اس لیے کہ اسے (تمام ضروری) چیزیں یاد دلائی گئی ہیں اور اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں۔
ابن القیم نے کہا

وقد ذكر عن جماعة من السلف أنهم أوصوا أن يقرأ عند قبورهم   وقت الدفن قال عبد الحق يروى أن عبد الله بن عمر أمر أن يقرأ عند قبره سورة البقرة وممن رأى ذلك المعلى بن عبد الرحمن وكان الامام أحمد ينكر ذلك أولا حيث لم يبلغه فيه أثر ثم رجع عن ذلك وقال الخلال في الجامع كتاب القراءة عند القبور اخبرنا العباس بن محمد الدوري حدثنا يحيى بن معين حدثنا مبشر الحلبي حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن أبيه قال قال أبي إذا أنامت فضعنى في اللحد وقل بسم الله وعلى سنة رسول الله وسن على التراب سنا واقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة فإني سمعت عبد الله بن عمر يقول ذلك مع قال عباس الدوري سألت أحمد بن حنبل قلت تحفظ في القراءة على القبر شيئا فقال لا وسألت يحيى ابن معين فحدثني بهذا الحديث قال الخلال وأخبرني الحسن بن أحمدالوراق حدثنی علی بن موسى الحداد وكان صدوقا قال كنت أحمد بن حنبل ومحمد بن قدامة الجوهرى في جنازة فلما دفن الميت جلس رجل ضرير يقرأ عند القبر فقال له أحمد يا هذا إن القراءة عند القبر بدعة فلما خرجنا من المقابر قال محمد بن قدامة لأحمد بن حنبل يا أبا عبد الله ما تقول في مبشر الحلبي قال ثقة قال كتبت عنه شيئا قال نعم فأخبرني مبشر عن عبد الرحمن بن العلاء اللجلاج عن     أبيه أنه أوصى إذا دفن أن يقرأ عند رأسه بفاتحة    البقرة و خاتمتها وقال سمعت ابن عمر  يوصي بذلك فقال له أحمد فارجع وقال للرجل يقرأوقال الحسن بن الصباح الزعفراني سألت الشافعی عن القراءة عند القبر فقال لا باس بہا۔ 

 ترجمہ: سلف کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ انہوں نے دفن کرتے وقت اپنی قبروں پر (قرآن) پڑھنے کی تلقین کی۔ عبدالحق نے نقل کیا ہے کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے (دوسروں کو) اپنی قبر پر سورہ بقرہ پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے شروع میں اس سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس وقت ان کے پاس دلیل نہیں پہنچی تھی، تاہم بعد میں انہوں نے اتفاق کیا۔ علاء بن لجلاج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے نصیحت کی کہ جب انہیں دفن کیا جائے تو بسمہ اللہ علی سنۃ رسول ﷲ ﷺ پڑھو اور پھر مٹی ڈالو، اس کے بعد پہلو پر کھڑے ہو کر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات پڑھو۔ کیونکہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ (نوٹ: یہ حدیث مرفوع کے طور پر بھی مروی ہے یعنی امام طبرانی کے الکبیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد 3:44 میں اس کے تمام راویوں کو ثقہ کہا ہے)...

عباس الدوری (علیہ رحمہ) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ کیا قبروں پر تلاوت (قرآن) کی کوئی روایت ہے؟   (امام  احمد) نے   فرمایا نہیں!  تاہم جب یحییٰ بن معین (علیہ 
رحمہ) سے پوچھا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ امام احمد (علیہ رحمہ) اور ابن قدامہ (علیہ رحمہ) کے ساتھ جنازے میں شریک تھے۔ تدفین کے بعد ایک نابینا شخص نے قبر پر قرآن پڑھنا شروع کیا تو امام احمد نے فرمایا: قبر کے پاس (قرآن) پڑھنا بدعت ہے، لیکن جب ہم قبرستان سے نکلے تو ابن قدامہ (علیہ رحمہ) نے امام احمد (علیہ رحمہ) سے پوچھا کہ آپ کا مبشر حلبی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کیا  موقف ہے؟ امام احمد نے کہا کہ وہ ثقہ ہے (ابن قدامہ) نے کہا: کیا آ پ نے ان کی روایتیں لی ہیں؟ امام احمد نے اس پر "ہاں" کہا، ابن قدامہ نے کہا: مبشر نے عبدالرحمٰن بن علاء بن لجلاج رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ... (اور انہوں نے وہی روایت ذکر کی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے) یہ سن کر امام احمد نے نابینا کو واپس بلانے کو کہا تاکہ وہ قبر پر تلاوت کرے

حوالہ: ابن قیم کتاب الروح، صفحہ نمبر 64-65، دار ابن کثیر نے شائع کیا، دمشق، شام۔

وذكر الخلال عن الشعبي قال كانت الأنصار إذا مات لهم الميت اختلفوا إلى قبره يقرءون عنده القرآن۔

الشعبی نے کہا: اگر انصار  میں سے کوئی مر جاتا تو اس کی قبر پر جاتے اور وہاں قرآن پڑھتے۔(کتاب الروح، ابن قیم ،صفحہ 18)

وقال الحسن بن الصباح الزعفراني سألت الشافعي عن القراءة عند القبر فقال لا بأس 

زعفرانی کہتے ہیں: میں نے شافعی سے قبر کے پاس قرآن پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔(کتاب الروح، ابن قیم،صفحہ 18)

مفاہمت: انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مزارات بنانا قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ انبیاء اور اولیاء سے ان کی قبروں سے شفاعت حاصل کرنا بھی ثابت ہے، حتیٰ کہ استغاثہ بھی شفاعت کی ایک صورت ہے قبر والوں سے دعا کبھی نہیں مانگنی چاہیے ۔ مدد کرنے والا قادر و فاعل ہر حال میں اللہ ہی ہے۔ قبروں پر سجدہ کرنا، درگاہوں پر دھمال کرنا، مرد و زن کا اختلاط، کاغذات اندر پھینکنا یا گرہیں باندھنا شرعاً ممنوع ہیں اور یہ نہیں ہونا چاہیے۔

نوٹ: اگر کوئی جاہل قبر کو سجدہ بھی کرے تو اسے فوراً مشرک نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی نیت معلوم ہونی چاہیے۔ قرآن کے مطابق تعظیمی سجدہ انبیاء کو ہوا ہے جسے فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیا دیکھئے قرآن سورۃ بقرہ:34، اور حضرت یوسف علیہ السلام کے گھر والوں نے ان کو کیا دیکھئے ۔ (سورہ یوسف: 4، اور، 100)

البتہ عظیم سنی عالم امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے کے مطابق جن پر سلفی اس سلسلے میں شرک کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں، انہوں نے قرآن اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قبر کو چھونا نہیں چاہیے، نہ بوسہ دینا چاہیے، اور تعظیم کے طور پر سجدہ بھی۔ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حرام ہے (لیکن شرک نہیں)  (فتاویٰ رضویہ ج 10 صفحہ 765 تا 769، ج 4 صفحہ7)

نوٹ: اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ نے عبادت والے سجدہ کو شرک و کفر لکھا ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں