Face, hands, foot, and eyes of Allah?

اللہ کا چہرہ، ہاتھ، پیر، آنکھیں؟

Article Bottom

اللہ کا چہرہ، ہاتھ، پیر، آنکھیں؟

آئیے سلفیوں کے عقیدے کو دیکھتے ہیں۔ صالح منجد جو سلفیوں کا بہت بڑا عالم ہے، islamqa ویب سائٹ پر کہتا ہے: 

رسول اللہ کے الفاظ "آدم کو اس کی شکل میں تخلیق کیا گیا" کا معنی یہ ہے کہ کہ اللہ نے آدم کو اپنی شکل میں تخلیق کیا یا جیسے اس کا چہرہ ، آنکھیں، ہاتھ اور پیر ہیں ویسے ہی آدم کا چہرہ، آنکھیں ہاتھ اور پیر تھے۔۔۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں بالکل ایک جیسی ہوں۔ "کچھ مشابہت ہے مگر بالکل ایک جیسی نہیں ہیں۔ بالکل ایسے ہی جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہو گا اس کو چاند سے تشبیہ دی گئی ہے" مگر وہ دونوں ایک جیسے نہیں۔ اہلسنت والجماعت کے نقطہ نظر کو ثابت کرتا ہے جو کہتے ہیں اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت نہیں دی جا سکتی بغیر کسی تحریف یا غلط تشریح ، یا اس کی تخلیق کے ساتھ اس کا کسی طرح موازنہ کیا جائے۔ 
دیکھیے شرح العقیدہ الواسطیہ شیخ محمد بن عثیمین 1/107 ۔ (islamqa.info/en/20652)

یہاں سلفی پھر سے تجسیم کی طرف گئے ہیں خاص طور پر جب انہوں نے کہا یہاں کچھ مشابہت ہے" یہ اللہ تعالیٰ کا اس کی مخلوق کے ساتھ موازنہ کرنا ہے اور یہ ایک عظیم بدعت اور گناہ ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا:

ﻓﻤﻌﻨﻰ اﻟﺨﺒﺮ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺑﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺧﻠﻖ اﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﻰ ﺻﻮﺭﺗﻪ» : ﺇﺑﺎﻧﺔ ﻓﻀﻞ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﻰ ﺳﺎﺋﺮ اﻟﺨﻠﻖ، ﻭاﻟﻬﺎء ﺭاﺟﻌﺔ ﺇﻟﻰ ﺁﺩﻡ، ﻭاﻟﻔﺎﺋﺪﺓ ﻣﻦ ﺭﺟﻮﻉ اﻟﻬﺎء ﺇﻟﻰ ﺁﺩﻡ ﺩﻭﻥ ﺇﺿﺎﻓﺘﻬﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﺒﺎﺭﺉ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ - ﺟﻞ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻦ ﺃﻥ ﻳﺸﺒﻪ ﺑﺸﻲء ﻣﻦ اﻟﻤﺨﻠﻮﻗﻴﻦ 

نبی کریم علیہ السلام کی حدیث کے اللہ نے آدم کو اپنی صورت میں بنایا، میں آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت کا بیان ہے۔ اﻟﻬﺎء کی ضمیر آدم کی طرف راجح ہے (یعنی آدم کو اللہ نے آدم کی ہی صورت میں بنایا) اﻟﻬﺎء کی ضمیر کو آدم کی طرف لوٹانے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ اس سے بلند ہے کے اسے مخلوق سے تشبیہہ دی جائے۔ (پھر امام ابن حبان تفصیلی بیان کرتے ہیں کے کیسے ضمیر آدم کی طرف  ہے۔ اور آدم کو 60 ہاتھ لمبا بنایا گیا (صحیح ابن حبان تحت حدیث # 6162)

ابن جوزی اس حدیث "اللہ نے آدم کو اپنی شکل میں پیدا کیا" کی شرح یوں بیان کرتے ہیں: 

علماء کی اس مسئلے پر دو رائے ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کی تفصیل کے معاملے میں چپ رہا جائے اور دوسری یہ کہ اس کے معنی پر بحث کی جائے۔ دوسری رائے کے حامی ضمیر ھ پر اختلاف کرتے ہیں کہ یہ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ (دفع شبه التشبيه بأكف التنزيه ( اللہ کی صفات) ). 

ابن جوذی مزید کہتے ہیں کہ ھ کی ضمیر آدم اور اس کی اولاد کی طرف لوٹتی ہے۔ ابن جوزی تیسری رائے کو تفصیلا بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کی طرف بھی ضمیر لوٹائی جائے تو اس کا معنی ضمیر شخصی کے ذریعے اعزاز عطاء کرنے کے ہیں۔ جیسے اللہ نے فرمایا: " میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو ۔" (سورہ بقرہ:125)

اب ان آیات اور احادیث کو دیکھتے ہیں جن کا سلفی ظاہری معنی لیتے ہیں۔

قران کہتا ہے: 

كُلُّ شَىْءٍ هَالِكٌ إِلاَّوَجْهَهُ

ہر چیز فانی ہے ، سوا اس کی ذات کے (کنزالایمان ،قصص :88)

اور بھی آیات ہیں جو لفظ "وجھ" کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 

امام بخاری مندرجہ بالا آیت میں لفظ وجھ کی یوں تاویل کرتے ہیں:
 
إِلاَّ مُلْكَهُ

یعنی: اللہ کی مملکت/سلطنت۔ 

(امام بخاری اپنی صحیح میں باب کتاب التفسیر جلد 3 صفحہ 171) 

اگر اس آیت کو ظاہری معنوں میں لیا جائے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر چیز بشمول اللہ کے فنا ہو جائے گی سوائے اللہ کے چہرے کے؟ اسی لئے ان آیات کو ظاہری معنوں میں نہیں لیا جا سکتا، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور وجود کے علاوہ ہر چیز فنا ہو جائے گی۔ 

سلفی کہتے ہیں کہ امام بخاری کی یہ تشریح کچھ نسخوں میں موجود نہیں۔ شائع شدہ صحیح بخاری کو دیکھنے کے بعد مجھے یہ کافی نسخوں میں ملی ہے۔ 

چہرہ، ہاتھ ،آنکھیں وغیرہ کے بارے میں تمام آیات جن کو سلفی ظاہری معنوں میں لیتے ہیں یہ ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کو تفسیر القرطبی آل عمران، آیت # 7 کے تحت دیکھاجائے۔ 

وہ کہتے ہیں: 

قال شيخنا أبو العباس رحمة الله عليه: متبِعو المتشابه لا يخلو أن يتبعوه ويجمعوه طلباً للتشكيك في القرآن وإضلالِ العوامّ، كما فعلته الزنادقة والقرامِطة الطاعنون في القرآن؛ أو طلباً لاعتقاد ظواهر المتشابه، كما فعلته المجسِّمة الذِين جمعوا ما في الكتاب والسنة مما ظاهره الجِسمية حتى ٱعتقدوا أن البارىء تعالى جسم مجسم وصورة مصوّرة ذات وجه وعين ويد وجنب ورجل وأصبع، تعالى الله عن ذلكٰ؛ أو يتبعوه على جهة إبداء تأويلاتها وإيضاح معانيها، أو كما فعل صبِيغ حين أكثر على عمر فيه السؤال

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا "پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے" 

ہمارے شیخ ابو العباس نے کہا ہے متشابہ کی پیروی کرنے والے اس سے خالی نہیں ہوتے کہ وہ اس کی پیروی کریں اور اسے جمع کرتے رہیں قرآن کریم میں تشکیک تلاش کرنے کے لئے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جیسا کہ زنادقہ اور قرآن کریم میں طعنہ زنی کرنے والے قرامطہ نے کیا۔ یا وہ متشابہ کے بارے ظواہر کے مطابق اعتقاد رکھنے کی طلب میں ایسا کرتے ہیں جیسا کہ ان مجسمہ نے کیا جنہوں نے قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ سے ان آیات و روایات کو جمع کیا جن کا ظاہر جسمیت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعتقاد رکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک جسم مجسم ہے صورت مصورہ ہے، اس کا چہرہ، آنکھ، ہاتھ پہلو، پاؤں اور انگلیاں سبھی اعضاء ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان سے مبرا اور بلند ہے یا وہ متشابہ کی پیروی کرتے ہیں ان کی تاویلات کو ظاہر کرنے کے لئے اور ان کے معنی کی وضاحت کرنے کے لئے یا جیسا کہ صبیغ نے کیا جس وقت اس نے عمر سے کثرت میں اس بارے میں سوال کئے۔(تفسیر القرطبی سورۃ آل عمران آیت # 7 کے تحت)

قرآن میں آیات ہیں جو استعاری طور پر اللہ کے ہاتھوں کا ذکر کرتی ہیں۔ یہاں ہم دو دکھائیں گے: 

 جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔۔۔۔۔۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورہ فتح آیت # 10)

سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا مگر اللہ نے اسے اپنے ہاتھ کے طور پر ذکر کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ "اللہ کا ہاتھ" اصل میں اس کے نبی اور نبی کے صحابہ کی حمایت کے طور پر ذکر ہوا ہے۔ 

قران کہتا ہے : 

اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں( مولانا محمد جوناگڑھی المائدہ آیت # 64)

تفسیر الجلالین میں اللہ کے دونوں ہاتھوں کو " اس کی صفت سخاوت کے طور پر بیان کیا ہے۔ (الجلالین المائدہ:64کے تحت)

سلفی اللہ کی طرف ظاہری ہاتھوں کو منسوب کرنے کے لئے مندرجہ آیت استعمال کرتے ہیں: 

 ( اللہ تعالیٰ نے ) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے( مولانا محمد جوناگڑھی ،ص:75)

امام ابو لیث السمرقندی (متوفی 375 ھ) جو قدیم مفسر اور عالم ہیں انہوں نے ہاتھوں کی یوں تفسیر کی: 

أي بقوتي، قوة العلم، وقوة القدرة

ترجمہ: یعنی میری قوتیں، قوت علم اور قوت قدرت
( السمرقندی نے تفسیر بحر العلوم میں)
 
اللہ کے پیر سے متعلق جو مندرجہ ذیل حدیث میں ذکر ہے: 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جہنم برابر یہی کہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور ہے کیا کچھ اور ہے؟ آخر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی بس بس میں بھر گئی، تیری عزت کی قسم! اور اس کا بعض حصہ بعض کو کھانے لگے گا۔“ اس روایت کو شعبہ نے قتادہ سے نقل کیا۔ (صحیح بخاری 6661)

اس حدیث کو ظاہری معنوں میں نہیں لیا جا سکتا وگرنہ یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا پاؤں دوزخ کے اندر یا اس کے اوپر آتا ہے۔ (نعوذ باللہ)

لفظ قدم سے مراد متقدمین ہیں یعنی وہ پہلے کے لوگ جن کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے تیار رکھا گیا تھا۔ لفظ رجل (ظاہری پیر) جو دوسری احادیث میں آیا ہے شاذ ہے۔ 

امام حسن بصری اللہ کے قدم کو یوں بیان کرتے ہیں "

وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے پہلے بھیجا تھا جو بہت برے لوگوں میں سے تھے ، جنہیں جہنم کے مکینوں میں سے قرار دیا" ابن جوزی کی تفہیم بھی یہی ہے۔ (البیہقی الاسماء و الصفات صفحہ 352) ۔ 

ایک بڑے محدث ابن حبان نے اس حدیث کو یوں بیان کیا ہے:

لأن العرب تطلق في لغتها اسم القدم على الموضع قال الله جل وعلا لهم قدم صدق عند ربهم يريد موضع صدق لا أن الله جل وعلا يضع قدمه في النار جل ربنا وتعالى عن مثل هذا وأشباهه 

ترجمہ: عرب کبھی کبھار اپنی زبان میں لفظ قدم کو موضع کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے کہا " کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ(قدم) ملے گا۔ اس کا معنی ہے حق کا مرتبہ۔ " یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا پیر دوزخ میں رکھے گا اللہ تعالیٰ کی ذات ان سے اور ان جیسی چیزوں سے بالاتر و مبرا ہے" (صحیح ابن حبان 1/502 حدیث نمبر 268 کے تحت). (اردو میں 1/426 شائع کردہ شبیر برادرز)۔ 

نوٹ کیجئے گا کہ ابن حبان نے باب کا عنوان یہ رکھا: 

ذكر خبر شنع به أهل البدع على أئمتنا حيث حرموا التوفيق لإدراك معناه

ترجمہ: اس روایت کا تذکرہ جس کی وجہ سے اہل بدعت ہمارے علماء پر الزام لگاتے ہیں "حالانکہ اہل بدعت اس کے معنی اور مفہوم کا احاطہ نہ کر سکے۔"

قرآن استعاری طور پر کئی جگہ فرماتا ہے مثال کے طور پر مشرکین کے بارے میں کہتا ہے کے وہ: بہرے گونگے اندھے ہیں ۔ پس وہ نہیں لوٹتے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی بقرہ:18)

یہاں انہیں گونگا بہرا اور اندھا کہا گیا حالانکہ وہ اصل میں ایسے نہیں تھے۔ 

مفاہمت: ان سب معاملات پر تفصیل سے لکھنے کے بعد ہم اہل سنت یہ مانتے ہیں کہ کچھ علماء جیسے ابو یعلی، الدارمی، الذھبی، ابن خزیمہ اور کچھ علماء جو یہ مانتے ہیں کہ اللہ نے ظاہری معنوں میں استویٰ کیا اور یہ بھی کے ہاتھ، آنکھیں، پیر ، وغیرہ کو بھی ظاہری معنوں میں لینا چاہیے۔ ایسے کئی علماء کا امام ابن جوزی نے اپنی کتاب دفع شبہ التشبیہ میں بھرپور رد کیا۔ یہ یاد رکھیے کہ ابن جوزی حنبلی تھے اور انہوں نے فقہ حنبلی کو اس عقیدہ تجسیم سے محفوظ رکھا۔ دوسری طرف ذھبی کے مخلوط نظریات تھے۔ انہوں نے اپنی شروع کی زندگی میں کتاب لکھی جس میں انہوں نے مجسمہ کی وکالت کی، تاہم ان کی بعد کی زندگی میں انہوں نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں ظاہری معنی لینے کا کئی مقامات پر رد کیا۔ بہرحال ان کا امام ابن سبکی اور دیگر علماء رد کر چکے ہیں۔

امام ابن سبکی لکھتے ہیں: امام ذہبی اپنی معلومات علم اور تقوی کے ہوتے ہوئے اہل سنت کے خلاف تعصب ظاہر کرتے ہیں اور اس نظریے میں ان کی پیروی کرنے کی اجازت نہیں۔ ۔۔۔۔ اور نہ ہی ہمارے شیخ کا بھروسہ کیا جائے جب وہ کسی حنبلی کی تعریف کریں اور اشعری کی ملامت کریں۔ (ابن السبکی قائدہ (صفحہ 37-32 ، 60-59). طبقات الشافعیہ الکبریٰ (16-2:13) ، السخاوی اعلان صفحہ 75 ) ۔

انہوں نے اس کو مجسمہ کا ایک بہت بڑا مبلغ بھی کہا۔ 
(طبقات الشافعیہ الکبری (3:354-352)

ذھبی ابن تیمیہ کے شاگرد تھے جو سلفیوں کے نزدیک ایک بہت بڑا عالم ہے۔ یہاں ہم ابن تیمیہ کا آیات کا ظاہری معنی لینے سے رجوع نقل کرتے ہیں ، اور ان کا اشعری ہونا بھی۔

امام ابن حجرعسقلانی نے کہا:

ولم يزل ابن تيمية في الجب إلى أن شفع فيه مهنا أمير آل فضل فأخرج في ربيع الأول في الثالث وعشرين منه وأحضر إلى القلعة ووقع البحث مع بعض الفقهاء فكتب عليه محضر بأنه قال أنا أشعري ثم وجد خطه بما نصه الذي اعتقد أن القرآن معنى قائم بذات الله وهو صفة من صفات ذاته القديمة وهو غير مخلوق وليس بحرف ولا صوت وأن قوله الرحمن على العرش استوى ليس على ظاهره ولا أعلم كنه المراد به بل لا يعلمه إلا الله والقول في النزول كالقول في الاستواء وكتبه أحمد بن تيمية ثم أشهدوا عليه أنه تاب مماينا في ذلك مختارا وذلك في خامس عشرى ربيع الأول سنة 707 وشهد عليه بذلك جمع جم من العلماء وغيرهم 

ترجمہ: ابن تیمیہ کو جیل میں رکھا گیا یہاں تک کہ آل الفضل کے امیر مھنا نے اس کی سفارش کی۔ ربیع الاول کی 23 تاریخ کو ابن تیمیہ کو قلعے میں لایا گیا جہاں   اس  نے  کچھ  فقہاء  سے  بحث کی، پھر ایک رپورٹ 
لکھی گئی کہ "ابن تیمیہ نے اشعری ہونے کا اقرار کیا"۔ اس کی لکھائی اس سے لفظ بلفظ ملتی ہے جو اس نے لکھا یعنی " میں مانتا ہوں کہ قرآن ایک معنی ہے جو اللہ کی ذات میں موجود ہے اور یہ اللہ کی ذات کی پیش ازلی صفات میں سے ایک صفت ہے اور یہ غیر مخلوق ہے ، اور یہ کسی حرف یا آواز پر مشتمل نہیں، اور اس کا کہنا کہ " جو رحمٰن ہے ، عرش پر قائم ہوا " کو اس کے ظاہری معنوں میں نہیں لیا جائے گا اور میں اس کے معنی نہیں جانتا، صرف اللہ ہی جانتا ہے، اور اس کے نزول کے بارے میں بھی وہی بولا جائے گا جو اس کے استویٰ کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ 

یہ احمد ابن تیمیہ نے لکھا تھا اور انہوں نے اس کی گواہی دی کہ اس نے ان سب امور سے اپنی مرضی سے توبہ کر لی تھی جو مندرجہ بالا کے متصادم تھے۔ یہ واقعہ 25 ربیع الاول 707 ہجری میں ہوا اور اس کو بہت سے علماء نے دیکھا.(ابن حجر عسقلانی الدرالکامنہ , 1/47)

اگرچہ ابن تیمیہ کی توبہ تواتر سے ثابت نہیں اور اس کے شاگرد جیسے ابن قیم نے اس کی مجسمیت پر مبنی تعلیمات کو جاری رکھا، مگر پھر بھی اوپر دیا گیا حوالہ سلفیوں کے خلاف بہت بڑا ثبوت ہے کہ وہ عقیدہ میں ابن تیمیہ کی اندھی تقلید کرنا چھوڑ دیں۔ 
اس سب کے بعد سب سے مضبوط نقطہ نظر یہ ہے کہ ان آیات اور احادیث کے مطلب میں جائے بغیر ان کو ویسے ہی جانے دیا جائے جیسے وہ آئی ہیں۔ سلف اور خلف کے کئی علماء نے استعاری تشریحات بھی کی ہیں جیسے ہم نے اوپر تفصیل سے بتایا ہے۔ جیسے اوپر بتایا گیا ہے کہ کچھ علماء نے ظاہری معنی بھی لیے ہیں، اسی لیے سلفیوں کی جاھل عوام الناس کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں