Meaning of Allah's Saaq i.e. Shin mentioned in Qur'an

اللہ کی ساق (پنڈلی) کا ذکر

Article Bottom

اللہ کی ساق (پنڈلی) کا ذکر

سلفیوں کا ماننا ہے کہ قرآن مجید میں جس پنڈلی کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے اللہ کی ظاہری پنڈلی مراد ہے۔ 

قرآن کہتا ہے: جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ ) نہ کر سکیں گے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورۃ قلم:42)

قرآن مجید میں پنڈلی کے لیے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ "ساق" ہے۔ 

محسن خان سلفی نے اپنے قرآن کے ترجمہ کے (حاشیہ) میں لکھا ہے: 

 وہ سب جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں اللہ کی صفات کے حوالے سے نازل ہوا ہے جیسے اس کا چہرہ ، آنکھیں، ہاتھ ، پنڈلیوں (ٹانگیں)، اس کا نزول، اس کا عرش پر ہونا وغیرہ ، اللہ کے رسول نے اپنی مستند احادیث میں ان صفات کو جیسے ہنسنہ، نزول کرنا وغیرہ کو اس کی حقیقی صفات کے طور  پہ بیان کیا۔ قرآن و حدیث کے علماء نے ان صفات پر یقین کیا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ " اصل " میں اللہ کی ہی صفات ہیں، بغیر کسی تاویل(ظاہری معنی سے مختلف) تشبیہ (کسی ایک شے کو دوسرے شے کی مانند قرار دینا) یا تعطیل (مکمل رد کر دینا کہ اللہ کا چہرہ، آنکھیں ہاتھ اور پنڈلیاںوغیرہ نہیں ہیں) کے

نوبل قرآن قرآن آل عمران آیت 73 کا حاشیہ۔ 

 ہم نے اللہ کے استویٰ اور نزول کے بارے میں پہلے سے اوپر تفصیل بیان کر دی ہے۔ ہاتھ، چہرہ وغیرہ کا معنی اگلے باب میں آئے گا۔ البتہ یہ دیکھیے کہ کیسے سلفی محسن خان اور ہلالی نے واحد ' پنڈلی کو جمع ' پنڈلیوں میں تبدیل کر دیا۔ 

نوٹ: پنڈلی اس آیت میں ٹانگ یا ظاہری دو پنڈلیوں کے معنی میں بیان نہیں ہوئی۔ بلکہ استعارہ کے طور پر قرآن میں لفظ ساق استعمال ہوا ہے۔ یہ اس وقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے جب اللہ خوفناک و بھیانک واقعات کو قیامت کے دن بے افشاں/عیاں کرے گا۔

 قرآن نے واحد لفظ "ساق" استعمال کیا ہے تو اگر اہل ظاہر سچے ہوتے تو وہ اس کو واحد ہی رکھتے نا کہ اس کو جمع "پنڈلیوں" میں تبدیل کر دیتے، جیسے محسن خان نے کیا۔ 

آئیے اب سورہ قلم آیت# 42کی تفسیر کی کو ملاحظہ کریں: 

امام المفسرین امام طبری اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:

يقول تعالى ذكره { يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ } قال جماعة من الصحابة والتابعين من أهل التأويل: يبدو عن أمر شديد.

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس دن پنڈلی (ساق) کھول دی جائے گی ۔ صحابہ و تابعین میں اہل تفسیر کی ایک جماعت نے یہ مانا کہ " اس کا معنی یہ ہے کہ ایک امر شدید کو عیاں کیا جائے گا " (جامع البیان سورہ قلم، آیت 42 کے تحت)

امام طبری مزید محمد بن عبید المحاربی (المتوفی 245/859) سے جو ابن المبارک (المتوفی 181/797) سے جو اسامہ بن زید (اللیثی، متوفی 153/770) جو عکرمہ (ابن عبداللہ البربری متوفی 104/723) جو ابن عباس ( 68/687) سے نقل کرتے ہیں کہ: اس آیت میں پنڈلی سے مراد " جنگ اور سنگینی حالات کا دن ہے"

 یہ سارے راوی صحیح کے راوی ہیں سوائے اسامہ بن زید کے جن کی روایت حسن ہوتی ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں