Nazul (descent) of Allah

اللہ کا نزول کرنا؟

Article Bottom

اللہ کا نزول کرنا؟

سلفی لغوی/ظاہری معنی میں نزول کی احادیث پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جو ثبوت وہ پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک ہے :
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔ ;( صحیح بخاری 1145)

بڑے حدیث کے عالم امام بیہقی نے کہا: 

قال أحمد وهذا النزول المراد به والله أعلم فعلا سماه الرسول عليه السلام نزولا بلا انتقال ولا زوال او أراد به نزول ملك من ملائكته بأمره وقد ذكرناه في غير هذا الموضع مفسرا .

ترجمہ: ۔۔۔۔۔۔ امام احمد (یعنی البیہقی) نے کہا: نزول کا معنی "اللہ جانتا ہے" رسول اللہ نے بطور فعل (نا کے اللہ کی ذات کے خود کے نزول) اس کیا ذکر کیا۔ نزول بغیر انتقال و زوال کے ہے۔ یا آپ (ﷺ) کی مراد یہ ہے کہ فرشتوں میں سے فرشتہ اللہ کے حکم سے اترتا ہے۔ ہم نے (اس موقف) کو تفصیل کے ساتھ دوسری جگہ بیان کیا ہے (امام بیہقی شعب الایمان میں حدیث 3826 کے تحت)

امام نووی امام مالک سے نقل کرتے ہیں: 

تأويل مالك بن أنس وغيره معناه تنزل رحمته وأمره وملائكته، كما قال: فعل السلطان: كذا إذا فعله أتباعه بأمره. والثاني: أنه على إِلاستعارة ومعناه الإقبال على الداعين بالإجابة واللطف والله أعلم

ترجمہ: امام مالک اور دیگر نے اسکی تاویل یوں کی ہے "تمہارا رب نزول کرتا ہے" کا معنی ہے " اس کی رحمت، اس کا امر اور اس کے ملائکہ نزول کرتے ہیں" ویسے ہی جیسے کہا جائے کہ "سلطان نے یہ اور یہ کیا" جبکہ اس کے پیروکاروں نے وہ کام کیا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ایک "استعارہ" ہے جو اللہ کی ان لوگوں کی طرف توجہ کو ظاہر کرتا ہے جو دعا کرتے ہیں ، جب وہ ان کا جواب دیتا ہے اور ان پر رحم کرتا ہے ۔(شرح نووی صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 31 شائع کردہ دار الفکر بیروت لبنان)

ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:

اﻟﻨﺰﻭﻝ ﻣﺤﺎﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻷﻥ ﺣﻘﻴﻘﺘﻪ اﻟﺤﺮﻛﺔ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ اﻟﻌﻠﻮ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻔﻞ ﻭﻗﺪ ﺩﻟﺖ اﻟﺒﺮاﻫﻴﻦ اﻟﻘﺎﻃﻌﺔ ﻋﻠﻰ ﺗﻨﺰﻳﻬﻪ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﻓﻠﻴﺘﺄﻭﻝ ﺫﻟﻚ ﺑﺄﻥ اﻟﻤﺮاﺩ ﻧﺰﻭﻝ ﻣﻠﻚ اﻟﺮﺣﻤﺔ ﻭﻧﺤﻮﻩ۔۔۔

ترجمہ: ابن بطال نے کہا: اللہ کے لیے (حقیقی) نزول ناممکن (محال) ہے کیونکہ اس کی حقیقت اوپر سے نیچے کی طرف حرکت ہے، اور حتمی دلائل نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس سے بہت بلند ہے۔ لہٰذا اس کی تاویل رحمت کے فرشتے کے نزول ہونے اور اس جیسی کی جائے۔۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری۔ دار المعرفۃ بیروت، 11/129)

ابن حجر رحمہ اللہ یہ بھی نقل کرتے ہیں:

وقال ابن العربي : حكي عن المبتدعة رد هذه الأحاديث , وعن السلف إمرارها , وعن قوم تأويلها وبه أقول . فأما قوله ينزل فهو راجع إلى أفعاله لا إلى ذاته , بل ذلك عبارة عن ملكه الذي ينزل بأمره و نهيه, والنزول      كما يكون في الأجسام يكون في المعاني , فإن حملته في الحديث على الحسي فتلك صفة الملك المبعوث بذلك , وإن حملته على المعنوي بمعنى أنه لم يفعل ثم فعل فيسمى ذلك نزولا عن مرتبة إلى مرتبة , فهي عربية صحيحة انتهى . والحاصل أنه تأوله بوجهين: إما بأن المعنى ينزل أمره أو الملك بأمره , وإما بأنه استعارة بمعنى التلطف بالداعين والإجابة لهم ونحوه

ترجمہ: امام ابو بکر (ابن العربی) نے کہا: یہ روایت کیا گیا ہے کہ بدعتیوں نے ان احادیث کا رد کیا ہے۔ سلف نے ویسے ہی ان کو جانے دیا جیسے آئیں تھیں۔ اور باقیوں نے ان کی تاویل /تشریح کی ہے۔ اور میرا قول آخری والا ہے۔ جو کہا جاتا ہے "اس نے نزول کیا" اسکے افعال کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کی ذات کی طرف نہیں، بے شک یہ اس کے فرشتوں کے لئے اظہار ہے جو اس کے حکم اور اس کی ممانعت کے ساتھ اترتے ہیں. اور جس طرح نزول جسموں کی طرف منسوب ہو سکتا ہے، اسی طرح نظریات یا روحانی تصورات کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص حدیث کو جسمانی واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لے جاتا ہے ، تو نزول فرشتہ کی صفت ہوگی جس کو حکم جاری کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اگر کوئی اسے روحانی واقعہ کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ ہے کہ پہلے اس نے عمل نہیں کیا، پھراس نے عمل کیا: اسے ایک درجے سے دوسرے درجے تک نزول کہا جائے گا ، اور یہ عربی کا  بہترین معنی ہے۔  

الحاصل اس کی دو طرح سے تاویل کی جاتی ہے۔ پہلی یہ کہ اس کا امر یا اس کے فرشتے نزول کرتے ہیں دوسرا یہ کہ یہ ایک استعارہ ہے اس کا بندوں کی دعاؤں کو سننے اور اسکا جواب دینے کے واسطے۔ 

وقد حكى أبو بكر بن فورك أن بعض المشايخ ضبطه بضم أوله على حذف المفعول أي ينزل ملكا , ويقويه ما رواه النسائي من طريق الأغر عن أبي هريرة وأبي سعيد بلفظ " إن الله يمهل حتى يمضي شطر الليل , ثم يأمر مناديا يقول : هل من داع فيستجاب له " الحديث . وفي حديث عثمان بن أبي العاص " ينادي مناد هل من داع يستجاب له " الحديث . قال القرطبي : وبهذا يرتفع الإشكال , ولا يعكر عليه ما في رواية رفاعة الجهني " ينزل الله إلى السماء الدنيا فيقول : لا أسأل عن عبادي غيري " لأنه ليس في ذلك ما يدفع التأويل المذكور

ترجمہ: ابو بکر ابن فورک نے کہا: کچھ مشائخ نے اسے " یُنزل" (وہ نازل کرتا ہے) پڑھا ہے "یَنزل"( وہ نزول کرتا ہے) کی بجائے ۔ جو کہ: وہ فرشتے کو نازل کرتا ہے۔ اس کو نسائی کی الاغر میں روایت سے مطابعت ملتی ہے جو ابوہریرہ اور ابو سعید الخدری سے ہے، کہ: اللہ اس وقت تک انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ رات کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے ، پھر وہ ایک قاصد کو حکم دیتا ہے کہ وہ کہے: کیا کوئی ہے جو اس سے التجاء کرے تاکہ اس کا جواب دیا جائے؟" عثمان بن ابی العاص 
کی بھی حدیث ہے " رات کے وسط میں (آسمان کے دروازے) کھول دیئے گئے اور ایک قاصد پکارا: کیا کوئی ہے جو التجا کر رہا ہے تاکہ اسے جواب دیا جائے۔۔۔۔۔؟امام قرطبی نے کہا: اس کے ساتھ جو اشکال ہے وہ اٹھ جاتا ہے اور کوئی بھی اعتراض باقی نہیں رہتا جو رفاعة الجهني کی روایت میں ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔گویا کہ اللہ فرماتا ہے:میرے بندے سے میرے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو تاویل مذکور کو تسلیم نہ کرے (فتح الباری 3:339 دارالفکر) 

وقال البيضاوي : ولما ثبت بالقواطع أنه سبحانه منزه عن الجسمية والتحيز امتنع عليه النزول على معنى الانتقال من موضع إلى موضع أخفض منه , فالمراد نور رحمته , أي ينتقل من مقتضى صفة الجلال التي تقتضي الغضب والانتقام إلى مقتضى صفة الإكرام التي تقتضي الرأفة والرحمة

ترجمہ: امام بیضاوی فرماتے ہیں جب دلائل قطعيه سے ثابت ہو گیا کے اللہ تعالیٰ جسم اور اعضاء سے پاک ہے تو ممتنع ہے اس کا نزول کرنا آسمان سے دنیا پر۔ لیکن یہاں جو حدیث میں بیان کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال کرنا۔ اس سے مراد اللہ کی رحمت کا نور ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت کا نور منتقل ہوتا ہے صفت جلال کے تقاضے سے جو کے غضب اور انتقام ہے، صفت اکرام کی طرف جو رحمت اور مہربانی ہے۔ (اوپر دیے گئے حوالے کے مطابق) 

 اس سلسلے میں سلفیوں نے قرآن کی ایک آیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے کہا:

وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا

اور تیرا رب (خود) آ جائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آجائیں گے) ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورہ الفجر آیت # 22)

وہابی مترجم محمد جوناگڑھی نے جو "خود" کی بریکٹس ڈالیں وہ غلط ہیں۔ 

بہت بڑے سلف کےامام احمد بن حنبل نے اس آیت کی تاویل یوں کی: 

وروى البيهقي عن الحاكم عن أبي عمرو بن السماك عن حنبل أن أحمد بن حنبل تأول قول الله تعالى: (وجاء ربك) [ الفجر: 22 ] أنه جاء ثوابه.ثم قال البيهقي: وهذا إسناد لا غبار عليه

ترجمہ: امام بیہقی نے الحکم عمرو بن سماک حنبل سے روایت کیا کہ امام احمد بن حنبل نے اللہ کے ارشاد " اور تیرا رب ( خود ) آ جائے گا" کی تاویل کرتے ہوئے کہا:

 "اس کا (ثواب) آرہا ہے۔ اس کے بعد بیہقی نے کہا : اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں ہے (ابن کثیر البدایہ والنہایہ 10/360 شائغ کردہ دار دارالاحیاء، بیروت، لبنان)

نوٹ: حنبلی مکتبہ فکر میں ایسے علماء موجود تھے اور ہیں جو لغوی/ظاہری معنی لینے کی بہت وکالت کرنے والے تھے اور ہیں، جبکہ ہم اوپر دیکھ سکتے ہیں کہ خود امام احمد بن حنبل نے بھی تاویل کی ۔ امام ابن جوزی ، جو خود حنبلی تھے ، نے خود ظاہری حنابلہ کی تردید میں ایک مکمل کتاب لکھی۔

تفسیر الجلالین میں ہے:اور تمہارا رب یعنی اس کا حکم اور فرشتے آئیں گے صف در صف کھڑے ہوں گے (سورہ فجر # 22) (تفسیر الجلالین 89:22 کے تحت)
 
امام فخر الدین الرزی بیان کرتے ہیں: 

واعلم أنه ثبت بالدليل العقلي أن الحركة على الله تعالى محال

ترجمہ: یہ بات جان لینی چاہیے کہ عقلی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے لیے "حرکت کرنا" نا ممکن ہے۔ (تفسیر الکبیر سورہ فجر # 22 کے تحت)

امام قرطبی نے یوں بیان کیا کہ: 

وله تعالى: { وَجَآءَ رَبُّكَ } أي أمره وقضاؤه؛ قاله الحسن. وهو من باب حذف المضاف. وقيل: أي جاءهم الربّ بالآيات العظيمة؛ وهو كقوله تعالى: {إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ ٱلْغَمَامِ }البقرة: 210]

ترجمہ: یہاں رب سے مراد تیرے رب کا امر اور فیصلہ ہے یہی حسن بصری کا قول ہے۔۔۔۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس ان کا رب عظیم آیات لایا وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے " کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ چھائےہو ئے بادلو میں آجائے۔ (سورۃ بقرہ:210) ( تفسیر القرطبی سورہ فجر 22کے تحت)

امام قرطبی نے اس کی مزید وضاحت دی ہے جسے ہم نے مختصر رکھنے کی وجہ سے نہیں دکھایا ، تاہم ہم یہ نقل کرنا چاہیں گے جب انہوں نے کہا: 

والله جل ثناؤه لا يوصف بالتحوّل من مكان إلى مكان، وأنَّى له التحوّل والانتقال ولا مكان له ولا أوان، ولا يجري عليه وقت ولا زمان؛ لأن في جَرَيان الوقت على 
الشيء فوت الأوقات، ومن فاته شيء فهو عاجز

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے جس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صف بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس ذات کے لیے انتقال کیسے تصور کیا جا سکتا ہے نہ اس کے لیے کوئی مکان ہے نہ اس کے لیے کوئی وقت ہے نہ وقت اس پر جاری ہو سکتا ہے، نہ ہی زمان جاری ہو سکتا ہے کیوںکہ کسی شے پر وقت کا جاری ہونا اس سے اوقات کا فوت ہونا یہ اور جس سے کوئی شےفوت ہو جائے وہ عاجز ہوتا ہے۔ (القرطبی سورۃ فجر ,# 22 کے تحت)

محسن خان / ہلالی اس آیت کا غلط ترجمہ کرتے ہیں: اور آپ کا رب فرشتوں کے ساتھ صفوں میں آتا ہے [محسن / ہلالی فجر:22] 

اس آیت کا ، یہاں تک کہ لفظی عربی میں بھی اس سے کوئی ربط نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ساتھ آتا ہے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں