Sifaat of Allah and Istawa alal Arsh (or is Allah in upward direction)?

اللہ کی صفات اور استوا على العرش

Article Bottom

اللہ کی صفات اور استوا على العرش

صفاتِ الٰہی

قران کہتا ہے : 

 آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک ( ہی ) ہے ۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ۔(سورہ اخلاص)

قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ: 

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں چھپے کھلے کا جاننے والا مہربان اور رحم کرنے والا ۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ نہایت پاک سب عیبوں سے صاف امن دینے والا نگہبان غالب زورآور اور بڑائی والا پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں ۔ وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا اسی کے لئے ( نہایت ) اچھے نام ہیں ہرچیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔(مولانا محمد جوناگڑھی ،سورہ حشر آیت 22 تا 24)

یہ آیات اللہ کی کئی صفات بیان کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے 99 نام ہیں جو اس کی صفات پر مبنی ہیں اور سارے قرآن و حدیث میں مروی ہیں۔ 

قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ: 

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ، سورہ اعراف آیت # 180)

قران یہ بھی کہتا ہے کہ: 

اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔۔۔۔۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورۃ الشوریٰ آیت #11)

سورۃ اخلاص اور سورۃ الشوریٰ کی اس آیت پر مبنی ہم عقیدہ کی فہرست کو کئی ابواب میں تقسیم کریں گے۔ اہل سنت (اشعری/ماتریدی) سلفیوں سے اس بات پر اختلاف کرتے ہیں کہ کچھ آیات اور احادیث کو بالکل ظاہر پر نہیں لیا جا سکتا۔ استویٰ ، نزول، ہاتھ، پنڈلی، آنکھ، ہنسنا، اور باقی کے بارے میں آیات و احادیث کے ظاہری معنی نہیں لیے کا سکتے۔  

استویٰ علی العرش  کیا ہےاور کیا اللہ اوپر کی سمت ہے؟

ساری تعریفیں اللہ کے لیے جو عرش اور ساری مخلوقات کا مالک ہے۔ وہ سبحان ہے ، اور کوئی شئ اس کی مثال نہیں۔ اور اوپر کی سمت کا اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا جیسے مخلوق کی طرف کیا جاتا ہے۔ 

سلفیوں کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ نے حقیقی طور پر عرش پر استویٰ کیا ہے، اور اس کی اوپر کی طرف سمت ہے۔ وہ کچھ آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں اور ان کا ظاہر مطلب لیتے ہیں۔ 

جبکہ اہل سنت جو اشعری/ماتریدی ہیں، اور شیعہ بھی یہ کہتے ہیں کہ قرآن و احادیث کا اس مسئلہ میں ظاہری مطلب نہیں لیا جا سکتا۔ 

آئیے قرآنِ عظیم کی ایک آیت کو دیکھتے ہیں جو متشابہات کو ثابت کرتی ہے: 

وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ (محمد جوناگڑھی ، سورہ آل عمران آیت نمبر # 7)

استویٰ اور اس سے جڑی آیات و احادیث متشابہات میں سے ہیں۔ جن کا معنی صرف اللہ جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ ویسے موجود ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ وہ تھا ، ہے، اور ہمیشہ بغیر کسی مقام یا سمت کے ہوگا۔ عرش بعد میں خلق کیا گیا اسی لیے وہ ازل سے اللہ کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ 

ہم اہل سنت ان پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ سلف نے کہا ہے کہ ان کی تلاوت ہی ان کی تفسیر ہے (جو کے سلفی جھوٹے پروپیگنڈے کے برخلاف ہے کیونکہ ہم نے استویٰ کا انکار نہیں کیا). سب سے محفوظ طریقہ تفویض کا ہے یعنی ان متشابہات کا مطلب اللہ کے سپرد ہی کیا جائے اور خود سے اس کا کوئی مطلب نہ نکالا جائے۔ دوسرا اہل سنت کا موقف (جو صرف مجسمہ کی تردید کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی وہ جو اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں یا اس کے لیے جسمانی خصوصیات کا تعین کرتے ہیں) ان آیات اور احادیث کے بارے استعاراتی وضاحت دینا ہے۔ یہ دوسری رائے بھی اہل سنت کے بہت سارے بڑے علماء سلف سے لے کر خلف تک نے برقرار رکھی ہے۔ ان ابواب میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی جائے گی۔ 

امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم جنہوں نے عقیدہ پر عالمی شہرت یافتہ کتاب لکھی جو عقیدہ نسفی کے نام سے موجود ہے ، وہ فرماتے ہیں:

ولا جسم، ولا جوهر، ولا مصوَّر، ولا محدود، ولا معدود، ولا متبعض، ولا متجزءٍ، ولا متركب، ولا متناه، ولا يوصف بالماهية، ولا بالكيفية، ولا يتمكن في مكان، ولا يجري عليه زمان، ولا يشبهه شيء

ترجمہ: (اللہ تعالیٰ) نہ جسم ہے، نہ جوھر ہے، نہ صورت والا ہے۔ اور نہ وہ حد اور نہایت والا ہے۔ نہ گنتی کیا گیا ہے۔ نہ ٹکڑے قبول کرنے اور نہ اجزاء قبول کرنے والا ہے۔ نہ ترکیب دیا ہوا ہے اور نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ ماہیت کے ساتھ متصف نہیں اور نہ کیفیت کے ساتھ، اور مکان میں ٹھہرا نہیں، اس پر زمانہ نہیں گزرتا اور نہ اس کی کوئی مشابہت ہے۔( عقائد نسفیہ امام ابو حفص عمر بن محمد نسفی صفحہ 69-67)

امام طحاوی رحمہ اللہ جو عقیدہ کے بہت بڑے اور مستند عالم تھے۔ وہ کہتے ہیں:

وتعالى عن الحدود والغايات، والأركان والأعضاء، والأدوات، لاتحويه الجهات الست كسائر المبتدعات

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے حدود میں ہونے سے، یا اس کی کوئی انتہا ہو۔ اس کے کوئی حصے، اعضاء اور جوارح نہیں۔ نہ ہی 6 سمتیں اس کا احاطہ کر سکتی ہیں (یعنی اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، آگے ، پیچھے).جیسے سب مخلوق کو کرتی ہیں (عقیدہ طحاویہ # 38)

لہٰذا وہ جسے کسی سمت کی طرف اشارہ کیا جا سکے وہ مخلوق ہوگی خالق نہیں۔ 

امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا:

ﻭاﺳﺘﺪﻝ ﺑﻌﺾ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻓﻲ ﻧﻔﻲ اﻟﻤﻜﺎﻥ ﻋﻨﻪ ﺑﻘﻮﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺃﻧﺖ اﻟﻈﺎﻫﺮ ﻓﻠﻴﺲ ﻓﻮﻗﻚ ﺷﻲء ﻭﺃﻧﺖ اﻟﺒﺎﻃﻦ ﻓﻠﻴﺲ ﺩﻭﻧﻚ ﺷﻲء. ﻭﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻮﻗﻪ ﺷﻲء ﻭﻻ ﺩﻭﻧﻪ ﺷﻲء ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻲ ﻣﻜﺎﻥ.

ترجمہ: ہمارے بعض اصحاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مکان کی نفی پر استدلال کیا ہے: 

تو ظاہر ہے کیونکہ تیرے اوپر کوئی چیز نہیں۔
تو باطن ہے کیونکہ تیرے نیچے کوئی چیز نہیں (یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کُتب میں ہے) جب اس کے اوپر کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اس کے نیچے کوئی چیز ہے تو اس کا مکان میں ہونا ممکن نہیں۔ (اسماء و صفات، امام بیہقی 2/287)

آئیے اب ہم اس آیت کی طرف چلتے ہیں جو سلفی استعمال کرتے ہیں
قران کہتا ہے: 

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ۟ یُغشِی الَّیلَ النَّہَارَ یَطلُبُہٗ حَثِیثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمرِہٖ اَلَا لَہُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ العٰلَمِیۡنَ﴿۵۴﴾

ترجمہ: یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے  آسمان  اور  زمین  چھ  دن  میں بنائے، پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے ، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آ دبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے رام ہیں۔  یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا  کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے !

 (مفتی تقی عثمانی ، سورہ الاعراف آیت # 54)

ایک اور آیت جس کے آخر میں ایک ایسا بیان ہے جسے سلفی کبھی لفظی طور پر نہیں مانیں گے اس میں ہے کہ: 

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ اور وہ ( خوب ) جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،الحدید آیت # 4)

حافظ ابن کثیر جنہیں سلفی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس آیت کی تفصیل میں کہتے ہیں: 

فللناس في هذا المقام مقالات كثيرة جداً ليس هذا موضع بسطها وإنما نسلك في هذا المقام مذهب السلف الصالح مالك والأوزاعي والثوري والليث بن سعد والشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وغيرهم من أئمة المسلمين قديماً وحديثاً وهو إمرارها كما جاءت من غير تكييف ولا تشبيه ولا تعطيل والظاهر المتبادر إلى أذهان المشبهين منفي عن الله لا يشبهه شيء من خلقه و{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ}

صحیح ترجمہ: پھر اس نے استویٰ کیا عرش پر (جیسے اس کی شان کے لائق ہے)۔ لوگوں کی اس پر کئی آراء ہیں " اور یہ ایسا مقام نہیں جہاں اس کو مکمل طور پر پیش کیا جائے۔ " اس نقطہ پر ہم سلف کی پیروی کرتے ہیں، یعنی مالک، الاوزاعی ، سفیان ثوری ، لیث ابن سعد، الشافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، اس کے علاوہ دیگر مسلمانوں کے امام قدیم اور جدید۔ کہ اسے گزرنے دو جیسے یہ ائی ہے، بغیر کسی کیفیت (بیان) کیے۔ نہ ہی کسی مخلوق سے تشبیہ دو نہ ہی اس کا رد کرو ، مشبہین (مجسمہ)کے ذہن میں آنے والا ظاہری معانی کی اللہ کی طرف نفی ہے کیونکہ تخلیق اس سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ہے۔ (کوئی شے اس کی مثل نہیں ہے اور وہ سب سننے اور دیکھنے والا ہے)۔ (تفسیر ابن کثیر سورہ الاعراف آیت # 54 کے تحت)

بمقابلہ

سلفیوں کا تحریف شدہ ترجمہ:

(اور پھر وہ عرش پر چڑھا ) اس کے معنی پر لوگوں کی "متنازعہ" رائے تھی۔ تاہم ، ہم اس راستے پر چلتے ہیں جو ہمارے نیک سلف نے اس حوالے سے چنا تھا۔ جیسے، مالک الاوزاعی، الثوری، اللیث بن سعد، الشافعی، احمد ، اسحاق بن راہویہ، اور اسلام کے باقی علماء جو پرانے اور اب کے ہیں۔ یقینا ہم استویٰ کے ظاہری معنی کو قبول کرتے ہیں اس کے اصل ماخذ پر بحث کیے بغیر یا اس کو خلقت کی صفات سے ہم آہنگ کرنے، یا اس میں تبدیلی کرنے , یا اس کو رد کیے بغیر (کسی بھی طرح یا کسی بھی شکل میں)۔ " ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مطلب جو ان لوگوں کے ذہن  میں آتا ہے جو خالق کو  مخلوق سے ملاتے ہیں اس  کو رد کرنا چاہیے ہے کیوں کہ کوئی شے اس کی مثل نہیں۔

(انگلش تفسیر ابن کثیر شائع کردہ سلفی دار السلام سعودی عرب )  

جو سلفیوں نے رد و بدل اور تحریف کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے 

1-  ابن کثیر نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس کے مطلب پر لوگوں کی کئی "متنازعہ" آراء تھیں۔ سلفی مترجم نے "متنازعہ" لفظ کو ترجمہ میں ڈال دیا اس کو بریکٹس میں ڈالے بغیر تاکہ عوام کو الجھن میں ڈالا جا سکے کہ اصل میں ابن کثیر نے کیا لکھا ہے۔ 

2-  پھر انہوں نے چالاکی سے ابن کثیر پر جھوٹ باندھا یہ کہہ کر: "یقینا ہم استویٰ کے ظاہری معنی کو قبول کرتے ہیں" جبکہ ابن کثیر نے اصل میں کہا: " اسے گزرنے دو جیسے یہ ائی ہے، بغیر کسی کیفیت (بیان) کیے۔"

ابن کثیر نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم "ظاہری معنی" کو لیتے ہیں۔ سلفیوں نے لفظ "ظاہر" کہاں سے لیا؟ یہ تحریف ہے جو سلفیوں نے کی۔ اگر آپ اگلے حصے کو غور سے پڑھیں تو اس میں واضح معلوم ہو جائے گا کہ ابن کثیر نے " ظاہری" معنی کا رد کیا۔ 

3-  یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں:وہ مطلب جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ جبکہ ابن کثیر در اصل کہہ رہے ہیں کہ: " ظاہری/لفظی معنی" جو مجسمہ کے ذہن میں آتا ہے اس کی اللہ کی طرف نفی ہے۔ سلفیوں نے لفظ ظاہری/لفظی کو بیچ میں سے نکال دیا تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے کہ ظاہری مطلب ہی لینا ہے۔ 

کئی بار عوام ابن کثیر کا سلفی ترجمہ پڑھتی ہے اور غلط نتیجے پر پہنچ جاتی ہے۔ سلفیوں کی اسلامی کتب کی تحریف سے اللہ امت کو محفوظ رکھے۔ 

ہم ہمیشہ کے کیے "إمرارها كما جاءت من غير تكييف" کے مسئلے کو حل کرنا چاہیں گے۔ اسے گزرنے دو جیسے آئی ہے" کے سلسلے میں سلف نے کہا (سلفی کی رائے کے برخلاف):

حدثنا أبو سعيد أحمد بن محمد بن زياد قال: حدثنا أب
 حفص عمر بن مدرك القاضي قال: حدثنا الهيثم بن خارجة قال: حدثنا الوليد بن مسلم قال: سألت الأوزاعي والثوري ومالك بن أنس، والليث بن سعد : عن الأحاديث التي فيها الصفات؟ فكلهم قال: أمروها كما جاءت بلاتفسير .

ترجمہ: ولید بن مسلم نے کہا کہ اس نے الثوری ، الاوزاعی، مالک بن انس، اور لیث بن سعد سے "صفات کی حدیث" کے بارے میں پوچھا اور ان سب نے کہا: "ان کو بغیر تفسیر کیے جانے دو".  (الشریعہ امام اجری 7/104)

باقیوں نے کہا: بلا کیفیہ یعنی یہ کہے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ (اسماء و صفات امام بیہقی 1/608)

امام سفیان بن عیینہ نے کہا : قران عظیم میں جو اللہ نے اپنے آپ کو بیان کیا ہے تو  اس کی تلاوت ہی اس کی تشریح ہے۔ اس کی کوئی کیفیت نہیں ( پوچھنا کہ اس کا معنی کیا ہے) نہ ہی تشبیہ (الصفات امام دارقطنی صفحہ 70)

امام نووی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: 

فيقال مثلا نؤمن بأن الرحمن على العرش استوى ولانعلم حقيقة معنى ذلك والمراد به مع أنا نعتقد أن الله تعالى(ليس  كمثله   شئ) وانه منزه عن الحلول    وسمات الحدوث وهذه طريقة السلف أو جماهيرهم وهي أسلم إذ لا يطالب الانسان بالخوض في ذلك 
فإذا اعتقد التنزيه فلا حاجة إلى الخوض في ذلك۔

ترجمہ: یہ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے: ہم مانتے ہیں کہ رحمن نے عرش پر استویٰ کیا (جیسے اس کی شان کے لائق ہے)" ہم اس کے معنی کی حقیقت نہیں جانتے ہیں نہ ہی یہ کہ اس سے کیا مراد ہے۔ (ولا نعلم حقيقة معنى ذلك والمراد به) ۔ جبکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ کوئی شےاس کی مثل نہیں (42:11)۔ اور وہ حلول اور حدوث کی سمت سے بالا تر ہے۔ یہی سلف کا طریقہ ہے، یا کم از کم ان کے جمہور کا۔ اور یہ سب سے محفوظ بھی ہے کیوںکہ کسی کو ان معاملات کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب سب اس کی عظمت کے قائل ہیں تو پھر ان معاملات کی تحقیق میں جانے کی ضرورت نہیں۔ (المجموع میں امام نووی نے 1/25)

امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمہ (ھدی الساری) میں کہا:

قوله استوى على العرش هو من المتشابه الذي يفوض علمه إلي الله تعالى

ترجمہ: قول استوی علی العرش متشابہات میں سے ہے جس کے معنی کا علم اللہ تعالیٰ کو تفویض کیا جاتا (یعنی وہی اس کا معانی جانتا ہے)  (ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری صفحہ 103)

 بڑے محدث امام ابن حبان نے خوب کہا ہے: 

يريد به ان الخلق لا يعرفون خالقهم من حيث هم إذ كان ولا زمان ولا مكان ومن لا يعرف له زمان ولا مكان  ولا شيء معه لأنه خالقها

ترجمہ: یہ مخلوق کی صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے خالق کی اصلیت جان سکے۔ کیوںکہ اللہ تب بھی موجود تھا جب زمان و مکان نہ تھے ، نہ ہی وہ زمان و مکان یا کسی بھی تخلیق شدہ شے کے ساتھ پہچانا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ " ان سب کا خالق ہے" (امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں حدیث : 6141)

سو یہ بات نا قابل قبول ہے کہ امام ابن کثیر نے یہ کہا ہو کہ ہم "ظاہری معنی " لیتے ہیں۔ 

لفظ "منفي" جو ابن کثیر نے استعمال کیا ہے واضح طور پر ظاہری معنی کی تردید کر رہا ہے۔ 

ہم مزید وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے سلف نے ان جیسی آیات کو " گزرنے دو جیسے یہ آئی ہیں" کے بارے کیا کہا۔

بڑے مفسر امام قرطبی کے مطابق : 

وہ سورۃ آل عمران آیت 7 کے تحت کہتے ہیں:
 
اختلفوا في جواز ذلك بناء على الخلاف في جواز تأويلها. وقد عرف أنّ مذهب السلف ترك التعرّض لتأويلها مع قطعهم باستحالة ظواهرها، فيقولون أمِرّوها كما جاءت. وذهب بعضهم إلى إبداء تأويلاتها وحملِها على ما يصح حمله في اللسان عليها من غير قطع بتعيين مجمل منها. 

ترجمہ: اس کی تاویل کے جواز میں اختلاف ہے لہٰذا اسی بناء پر علماء نے اس کے جائز ہونے پر اختلاف کیا ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ سلف کا مذھب متشابہ کی تاویل کے لیے تعرض کو ترک کرنا ہے باوجود اس کے کہ  ان  کو اس  کے ظاہر  معنی   کے  محال   ہونے   کا   یقین   تھا ،پس وہ کہتے: تم اس سے گزر جاؤ جیسے وہ آئے اور بعض نے یہ کہا کہ ان کی تاویلات کا اظہار کرنا چاہئے ہے۔ اور اسے بغیر یقین کے ایسے معنی پر محمول کیا جائے جس پر لغتہ محمول کرنا صحیح ہو جیسا کہ مجمل کی تعیین کی جاتی ہے۔ (تفسیر القرطبی آلِ عمران آیت 7)

آئیے اب ہم اللہ کی طرف اوپر اشارہ کرنے کے مسئلے پر آتے ہیں۔ سلفی کچھ آیات اور احادیث کا استعمال کرتے ہیں کہ اللہ ظاہر میں اوپر کی سمت میں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ سے اوپر بیان کیے جا چکا کہ اللہ پر چھ سمتوں کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ جس میں اوپر کی سمت بھی شامل ہے۔ یہ کچھ احادیث و آیات ہیں جو سلفی استعمال کرتے ہیں۔ 

ہم پہلے وہ حدیث دکھاتے ہیں جو وہ اکثر استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان گمراہ ہوتے ہیں: 

(معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے ) کہا: میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا ں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف جانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔ میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے ( مجھے صبر کرناچاہیے تھا ) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑ جڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا آپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی ( غلط ) حرکت قرار دیا ۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟آپ نےفرمایا : اسے میرےپاس لے آؤ ۔ میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا ، آپ نےاس سے پوچھا : اللہ کہا ں ہے؟ اس نےکہا : آسمان میں ۔ آپ نےپوچھا : میں کون ہوں؟ اس نےکہا : آپ اللہ کےرسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ مومنہ ہے۔ (صحیح مسلم 1199)

1-  سب سے پہلے یہ بات کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس سند کے ساتھ عقیدے  کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ 

2-  دوسرا یہ کہ کئی قرانی آیات اور کئی اسانید کے ساتھ ایسی احادیث روایت ہوئی ہیں، جنہیں اگر ظاہری طور پر لیا جائے تو سلفیوں کے نظریے کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہاں تک کہ اگر اس حدیث کی درجہ بندی کوخبر واحد کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا ، پھر بھی حدیث کو کسی قیمت پر ظاہر پرقبول نہیں کیا جا سکتا۔ (نوٹ: اس اصول کا اطلاق دیگر آیات اور احادیث پر بھی ہوگا جس کو سلفیوں نے لفظی/ظاہری طور پر بھی لیا ہے)

3-  تیسرا یہ کہ اس حدیث کی شرح میں صحیح مسلم کے بڑے شارح، امام نووی نے تاویل کی ہے ظاہریوں کے مطابق ، اشعری تاویل کرنے کی وجہ سے اہل بدعت ہیں تو یہ فتویٰ ان کا امام نووی پر بھی لگتا ہے۔ ابن حجر عسقلانی اور باقی عظیم علماء پر بھی۔
 
( ا) حدیث کے خبر واحد ہونے کا ثبوت:
 
یہ کہ (اللہ کہاں ہے، آسمان پر) صرف معاویہ ابن الحکم سے عطاء بن یسار کے ذریعے سے ائی ہے۔ اس طرح یہ خبر واحد ہو گئی۔ یہ بنیادی اصول ہے کہ خبر واحد کو عقیدہ کے مسائل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ 

امام نووی نے کہا: 

قاله المحققون والاكثرون فانهم قالوا أحاديث الصحيحين التي ليست بمتواترة انما تفيد الظن فإنها آحاد والآحاد انما تفيد الظن على ما تقرر ولا فرق بين البخاري ومسلم وغيرهما

ترجمہ؛ کئی محققین اور علماء نے کہا ہے کہ بخاری ومسلم کی وہ احادیث جو متواتر نہیں ہیں وہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں کیوںکہ وہ احاد ہیں۔ اور خبر واحد صرف ظن کا ہی فائدہ دیتی ہیں۔ یہ اسی چیز پر مبنی ہے جس پر پہلے ہی جانا جاتا تھا اور اس پر اتفاق کیا جاتا تھا۔ یہ قاعدہ بخاری ، مسلم یا دیگر میں فرق کیے بغیر نافذ ہوتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم امام نووی جلد 1 صفحہ 20). 

(2) کا ثبوت : آیات اور صحیح احادیث جن کا ظاہری/لفظی معنی لیا جائے تو مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیتا ہے۔ 

قرآن کہتا ہے:
 
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔ 
(مولانا محمد جوناگڑھی ،سورہ ق آیت # 16)

سلفی اللہ کی قربت کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ "اپنے علم کے ذریعے" قریب ہے. اور وہ اس پر مختلف علماء کے اقوال کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ 

قران یہ بھی کہتا ہے: 

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ اور وہ ( خوب ) جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ الحدید آیت # 4)

ابن الجوزی الحنبلی نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک عظیم اصول کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: جو کوئی بھی اسکا "وہ تمہارے ساتھ ہے " (الحدید آیت4) کا یہ معنی لے "وہ علم میں تمہارے ساتھ ہے " ، اپنے مخالف کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ استویٰ کا معنی قہر" سے لے۔ (دفع شبہ التشبیہ ،ص 23)

قران کہتا ہے کہ: 

اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے ۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی،بقرہ آیت 115)

اہل ظاہر کبھی بھی اللہ کی موجودگی کو "جہاں کہیں بھی ہم مڑیں" کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے، اور وہ اس کی تاویل کریں گے۔ برائے کرم غور کیجئےکہ یہاں لفظ "وجہہ" استعمال کیا گیا ہے۔ اور وجہہ جب قرآن میں اللہ کے لیے استعمال ہوا تو وہ مکمل ہستی , موجودگی، غلبہ اور سلطنت مراد لیا جاتا ہے۔ 

قرآن کہتا ہے کہ: 

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے ۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر قیامت کے دن انہیں ان کہ اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ المجادلہ آیت # 7)

یہ آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ اللہ تین میں چوتھا ہے اور پانچ میں چھٹا ہے اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں وہ ہمارے ساتھ ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے (مسجد کی ) قبلے والی دیوار (کی سمت )میں بلغم ملا تھوک لگا ہو ا دیکھا تو اسے کھرچ دیا ، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب  وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم 1223)

 نوٹ: ابن تیمیہ نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا چاند اور سورج کے ساتھ تقابل کیا ہے، اللہ ہمارے سامنے ایسے موجود ہے جیسے چاند اور سورج ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ اللہ کا اس کی مخلوق کے ساتھ تقابل ہے۔ 

ابن تیمیہ نے العقیدہ الحمودیہ میں کہا کہ: یہ حدیث اپنے معنی میں درست ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور وہ "عبادت گزار کے روبرو ہے" حقیقت میں یہ وصف مخلوق کے لیے بھی" ثابت ہے۔ کہ اگر آدمی آسمان یا "سورج یا چاند" کی طرف نماز پڑھتا ہے تو آسمان ، سورج اور چاند "اس کے اوپر اور اس کے چہرے کے سامنے" ہوں گے۔ (شرح عقیدہ الواسطیہ صفحہ 140) 

ابن تیمیہ کی یہ ایک بے حد بیہودہ تشریح ہے کہ اس نے اللہ کا موازنہ سورج اور چاند سے کیا ہے۔ 

ابن تیمیہ سلفیوں کے ہاں متشابہات کا ظاہری معنی لینے میں، بہت بڑا عالم مانا جاتا ہے۔ یہ آخر میں ثابت کیا جائے گا کہ ابن تیمیہ نے اپنے پرانے موقف سے رجوع کیا اور ظاہری معنی لینے کا رد کیا۔

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ 

ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو «لا إله إلا الله» اور «الله اكبر» کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے۔ بیشک وہ سننے والا اور تم سے بہت قریب ہے۔ برکتوں والا ہے۔ اس کا نام اور اس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے۔(صحیح بخاری 2992)

 یہ حدیث واضح طورپر ثابت کرتی ہے کہ اللہ غیر حاضر نہیں بلکہ ہر شے سے قریب اور ہمارے ساتھ ہے۔

یاد رکھیں کہ تصورات کو ان کے مخالف سے جانا جاتا ہے ، لہٰذا غیر حاضر کے برخلاف موجود یعنی حاضر ہے۔ 

صحیح مسلم میں ہے: ذکوان نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو ۔ (صحیح مسلم 1083)

اگر اللہ صرف اوپر کی جانب ہوتا تو سب سے قریب اس کے ہوتا جو کھڑا ہوتا۔ 

صحیح بخاری میں ہے کہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا۔ میں نے جو سر اٹھایا تو قوم کے چند لوگوں کے قدم ( باہر ) نظر آئے میں نے کہا، اے اللہ کے نبی! اگر ان میں سے کسی نے بھی نیچے جھک کر دیکھ لیا تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابوبکر! خاموش رہو ہم ایسے دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔“ (صحیح بخاری 3922). 

یہ حدیث اتنا ہی واضح ہے جتنا ہو سکتی ہے ، لہٰذا سلفیوں کو بھی ان آیات اور احادیث کو لفظی طور/ظاہر پر لینا چاہئے۔ یہ نصِ قران اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ اپنے عرش پر استویٰ ہے (جیسے اس کی شان کے لائق ہے) اور ہمارے ساتھ بھی موجود ہے (جیسے اس کی شان کے لائق ہے) تاہم ہم اللہ کو عرش تک محدود نہیں کر سکتے نہ ہم اسے حاضر ناظر کہہ سکتے ہیں کیوںکہ پھر یہ اس کے لیے مکان کا تعین کردے گا اور وہ زمان و مکان کی قید میں نہیں ہے۔
 
جس کا ثبوت: امام نووی کی حدیث کی شرح میں موجود ہے: 

هذا الحديث من أحاديث الصفات, وفيها مذهبان تقدم   ذكر هما مرات في كتاب الإيمان.  أحد هما : الإيمان به من غير خوض في معناه , مع اعتقاد أن الله تعالى ليس كمثله شيء وتنزيهه عن سمات المخلوقات . والثاني تأويله بما يليق به , فمن قال بهذا قال : كان المراد امتحانها , هل  هي  موحدة  تقر بأن  الخالق   المدبر   الفعال هو الله وحده,وهو الذي إذا دعاه الداعي استقبل السماء كما إذا صلى المصلي استقبل الكعبة ؟ وليس ذلك ; لأنه منحصر في السماء كما أنه ليس منحصرا في جهة الكعبة , بل ذلك لأن السماء  قبلة  الداعين  , كما  أن   الكعبة   قبلة المصلين , أو هي من عبدة الأوثان العابدين للأوثان التي بين أيديهم , فلما قالت : في السماء , علم أنها موحدة وليست عابدة للأوثان.‏

‏ترجمہ: یہ " صفات کی احادیث" میں سے ایک ہے اور اس کے بارے میں 2 رائے پائی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے ایمان کی کتاب میں ذکر کیا گیا تھا ، پہلے ، اس پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ "اس کے مطلب پر بحث کیے   بغیر اللہ کے بارے  میں یہ یقین رکھنا کہ کوئی شے اس کی مثل نہیں۔" اور وہ اس سے بالاتر ہے کہ اس میں اپنی مخلوق کی صفات موجود ہوں۔ "دوسرا اس کی تاویلی وضاحت کی جائے گی ایک بہتر انداز میں۔ اس نظریہ کو ماننے  والے  علماء یہ  کہتے  ہیں کہ حدیث کا نقطہ اس لونڈی کو جانچنا تھا کہ کیا وہ  توحید پرست تھی؟ جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ خالق ،مدبر،فاعل(کرنے والا) ،صرف اللہ ہی ہے اور    جب کوئی دعا مانگنے والا آسمان کی جانب دیکھتا ہے تو اسی کو پکارا جاتا ہے ، اسی طرح جیسے نماز پڑھنے والے کعبہ کا سامنا کرتے ہیں، چونکہ دعا مانگنے والوں کا قبلہ آسمان ہے ، جیسے نماز پڑھنے والوں کا قبلہ کعبہ ہے۔ یا وہ عبادت گزارتھی ان بتوں کی جو اس نے اپنے سامنے رکھے تھے؟ تو جب اس نے کہا ، "آسمان میں" ، یہ واضح ہوگیا کہ وہ بت پرست نہیں تھی۔ (شرح صحیح مسلم النووی جلد 5 صفحہ 20-19 شائع کردہ دار الفکر ، بیروت،لبنان)

اسی عظیم امام نے اپنی 'مجموع شرح المہذب میں کہا ہے: 

متکلمین کا سب سے مشہور مکتبہ فکر یہ کہتا ہے کہ خدائی صفات کی وہ تاویل کرنی چاہیے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ (جلد 1 صفحہ 25 ) 

بہت بڑے حنفی امام ، ملا علی قاری نے اپنی مرقاۃ شرح مشکاۃ میں کہا : 

فقال لها أي للجارية رسول الله أين الله وفي رواية أين ربك أي أين مكان حكمه وأمره وظهور ملكه وقدرته فقالت في السماء قال القاضي هو على معنى الذي جاء أمره ونهيه من قبل السماء لم يرد به السؤال عن المكان فإنه منزه عنه كما هو منزه عن الزمان بل مراده من سؤاله إياها أن يعلم أنهاموحدة أو مشركة لأن كفار العرب كانوا يعبدون الأصنام وكان لكل قوم منهم صنم مخصوص يكون فيمابينهم يعبدونه ويعظمونه ولعل سفهاءهم وجهلتهم كانوالا يعرفون معبودا غيره فأرادأن يتعرف أنها ما تعبدفلما قالت في السماء وفي رواية   أشارت    إلى السماء فهم أنها موحدة يريد بذلك 
نفي الآلهة الأرضية التي هي الأصنام لا إثبات السماء مكانا له تعالى الله عما يقول الظالمون علوا كبيرا ولأنه لما كان مأمورا بأن يكلم الناس على قدر عقولهم ويهديهم إلى الحق على حسب فهمهم ووجدها تعتقد أن المستحق للعبودية إله يدبر الأمر من السماء إلى الأرض لا الآلهة التي يعبدها المشركون قنع منها بذلك ولم يكلفها اعتقاد ما هو صرف التوحيد وحقيقة التنزيه وقيل معناه أن أمره ونهيه ورحمته ووحيه جاءت من السماء فهو كقوله تعالى أأمنتم من في السماء تبارك قيل وقد جاء في بعض الأحاديث أن هذه الجارية كانت خرساء ولهذا جوز الشافعي الأخرس في العتق فقوله فقالت في السماء بمعنى أشارت إلى السماء كما في رواية قال شارح الوقاية وجاز الأصم أي من يكون في أذنه وقرأ أما من لم يسمع أصلا فينبغي أن لا يجوز لأنه فائت جنس المنفعة فقال من أنا فقالت أنت رسول الله فقال رسول الله أعتقها أمر إجازة رواه مالك وفي رواية مسلم قال أي معاوية كانت لي جارية ترعى غنما قبل أحد بكسر القاف وفتح الباء أي جانبه وأحد بضمتين جبل معروف في المدينة والجوانية بتشديد الواو وموضع قريب أحدفأطلعت بتشديد الطاء أي أشرفت على الغنم ذات يوم أي يوما من الأيام أو نهارا وذات زائدة  فإذا الذئب قد ذهب بشاة من غنمنا إذا للمفاجأة واللام في الذئب للعهدية الذهنية نحو قوله تعالى إذ هما في الغار التوبة وأنا رجل من بني آدم آسف بهمزة ممدودة وفتح سين أي أغضب كما يأسفون لكن أي وأردت أن أضربها ضربا شديدا على ما هو مقتضى الغضب لكن صككتها صكة أي لطمتها لطمة فأتيت رسول الله فعظم بالتشديد والفتح ذلك على أي كبر النبي ذلك الأمر أو الضرب علي وفي نسخة بالتخفيف والضم قلت وفي نسخة فقلت يا رسول الله أفلا أعتقها قال الطيبي رحمه الله فإن قلت كيف التوفيق بين الروايتين قلت الرواية الأولى متضم من هذه اللطمة إعتاقها أفيكفيني إعتاقها للأمرين جميعاوالرواية الثانية مطلقة تحتمل الأمرين والمطلق محمول على المقيد ومما يدل على أن السؤال ليس عن مجرداللطمة سؤال النبي الجارية عن إيمانها ا ه والظاهر أن الإعتاق عن اللطمة مستحب فيندرج في ضمن الإعتاق الواجب فليس من باب تداخل الكفارة كما توهم قال آتيني بها الباء للتعدية أي احضر بها إلي فأتيته بها فقال لها أين الله أي أين المعبود المستحق الموصوف بصفات الكمال قالت في السماء أي كما في الأرض والإقتصار من باب الإكتفاء قال تعالى جل 

جلاله وهو الذي في السماء إله وفي الأرض إله الزخرف وقال الله عز وجل وهو الله في السموات وفي الأرض الأنعام ويمكن أن يكون الاقتصار لدفع توهم الشركة في العبودية ردا على عبدة الأصنام الأرضية قال من أنا قالت أنت رسول الله قال اعتقها فإنها مؤمنة أي بالله وبرسوله وبما جاء من عندهما وهذا يدل على قبول الإيمان الإجمالي ونفي التكليف الإستدلالي باب اللعان في المغرب لعنه لعنا ولاعنه ملاعنة ولعانا وتلاعنوا لعن بعضهم بعضا وأصله الطرد قال النووي رحمه الله إنما سمى لعانا لأن كلا من الزوجين يبعد عن صاحبه ويحرم النكاح بينهما على التأبيد واللعان عند جمهور أصحابنا يمين وقيل شهادة وقيل يمين فيها شوب شهادة وينبغي أن يكون بحضرة الإمام أو القاضي جمع من المسلمين وهو أحد أنواع التغليظ فإنه يغلظ بالزمان والمكان والجمع قال المحقق ابن الهمام هو مصدر لاعن سماعي لا قياسي والقياس الملاعنة وكثيرا من النحاة يجعلون الفعال والمفاعلة مصدرين قياسيين لفاعل    واللعن في اللغة الطرد والإبعاد وفي الفقه اسم يجري بين الزوجين من الشهادات بالألفاظ المعلومات سمى    بذلك لوجود لفظ اللعن في الخامسة تسمية للكل    باسم الجزء ولم يسم باسم من الغضب وهو أيضا موجود فيها لأنه في كلامها وذاك في كلامه وهو أسبق والسبق من أسباب الترجيح وشرطه قيام النكاح وسببه قذفه زوجته بما يوجب الحد في الأجنبية وحكمه حرمتها بعد التلاعن وأهله من كان أهلا للشهادة فإن اللعان شهادات مؤكدات بالإيمان عندنا وأما عند الشافعي فأيمان مؤكدات بالشهادات وهو الظاهر من قول مالك وأحمد وتمام تحقيقه في شرحه للهداية

ترجمہ: اسی حدیث کے دوسرے طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ " تمہارا رب کہاں ہے؟" یعنی اللہ کے حکم ، فیصلہ، حکومت اور قدرت کے ظہور کی جگہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: "آسمان میں" . امام قاضی فرماتے ہیں کہ: یہ اس معنی میں ہے کہ وہ ذات جس کا حکم دینا اور منع کرنا آسمان کی طرف سےآتا ہے۔ رسول اللہ کا مکان کے بارے میں سوال مراد نہیں تھا کیونکہ اللہ جیسے زمان سے پاک ہے اسی طرح مکان سے بھی پاک ہے بلکہ اس سے سوال کرنے سے مراد آپ (ﷺ) کی یہ تھی کہ پتا کریں کہ یہ موحدہ ہے یا مشرکہ کیوںکہ کفار عرب بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ہر قوم کا مخصوص بت تھا جس  کی وہ عبادت اور تعظیم کرتے تھے۔ شاید ان کے جاہل اور نا سمجھ قسم کے لوگ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جانتے تھے۔ تو آپ (ﷺ) نے چاہا یہ اعتراف کرلے جس کی یہ عبادت کرتی ہے۔ پس جب اس نے کہا "آسمان میں"اورایک  روایت میں ہے کہ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ موحدہ ہے اور زمین کے الٰہ کی نفی کر رہی ہے۔ جو بت ہیں نا کہ اللہ کے لیے اسمان کو مکان ثابت کر رہی ہے۔ جس سے اللہ پاک ہے اور چوںکہ آپ (ﷺ) اس بات پر مامور تھے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کریں اور حق کی طرف ان کی رہنمائی کریں تو آپ (ﷺ) نے اس کو پایا کہ وہ عبادت کا مستحق اس ذات کو سمجھتی ہے جو آسمان سے زمین تک تمام امور کی تدبیر کرتا ہے ،نہ کہ وہ الٰہی جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں۔ تو آپ (ﷺ) نے اسی پر قناعت فرمائی اور اس کو خالص توحید اور حقیقت تنریہیہ کے اعتقاد کا مکلف نہیں بنایا۔ 

بعض کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے کہ اس کا امر و نہی، رحمت اور وحی آسمان کی طرف سے آتے ہیں، تو یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہے کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا" (مولانا محمد جوناگڑھ 16-67). اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ یہ باندی گونگی تھی اسی لیے امام شافعی نے کفارہ میں گونگے کو آزاد کرنا جائز قرار دیا ہے تو اس کا قول "آسمان میں " کا معنی ہے کہ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، جیسا دوسری روایت میں ہے۔ (ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ جلد 6 صفحہ 329-328،ترجمہ مولانا محمد ندیم ) 

سلفی قرآن کی بعض آیات کو اللہ کی طرف ظاہری سمت دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک مندرجہ ذیل ہے: 

 کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ۔ یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسادے؟ پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،الملک آیت 16-17)

سلفی ان کا ظاہر معنی لیتے ہیں۔ 

صحیح انٹر نیشنل (انگریزی ترجمہ قرآن) وہ ہے جس پر سلفی اعتماد رکھتے ہیں اس میں ہے کہ: 

کیا تم اس سے نڈر ہو گئے جس کی آسمان میں (سلطنت ) ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے جبھی وہ کانپتی رہے؟ یا تم نڈر ہو گئے ہو اس سے جس کی آسمان میں (سلطنت ہے) تم پر پتھراؤ بھیجے تو اب جانو گے کیسا تھا میرا ڈرانا۔ 

تو یہ آیت آسمان میں سلطنت کی بات کر رہی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ آسمان میں ہے۔ 

جیسا کہ قرآن خود ہی اپنی بہترین شرح کرتا ہے تو اس آیت جو باقی آیات سے سمجھنا پڑے گا، جیسے: 

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ

اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے ، پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،الانبیاء آیت22)۔

لہٰذا سورہ ملک آیات 16 تا 17 بھی وہی نقطہ ثابت کر رہی ہے یعنی "اللہ کی سلطنت" آسمانوں اور زمینوں میں، نہ اللہ کا ظاہری استویٰ۔ 

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

وَهُوَ اللَّهُ فِى السَّمَـوَتِ وَفِى الاٌّرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ 

اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔
 
یعنی آسمانوں اور زمینوں میں وہی اللہ ہے جس کی الوہیت ہے ، آسمان والے بھی اور زمین والے بھی اسی کو پکارتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اسے اللہ پکارتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اسی سے امید رکھتے ہیں سوائے ان جن و انس کے جو ایمان نہیں لائے۔ 

ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے: 

وَهُوَ الَّذِى فِى السَّمآءِ إِلَـهٌ وَفِى الاٌّرْضِ إِلَـهٌ

وُہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے 

 یعنی آسمانوں میں اور زمینوں میں رہنے والوں کا وہی رب ہے اور وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے چاہے ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ (انگلش تفسیر ابن کثیر کا سلفی ترجمہ شائع کردہ دار السلام)

دوسرا یہ کہ اللہ نے سورہ الانبیاء آیت # 22 میں کہا کہ وہ "عرش کا مالک ہے" اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرش ازل سے موجود نہیں تھا اسی لیے اللہ ظاہری طور پر عرش پر مستوی نہیں ہو سکتا کیوںکہ اللہ کا وجود ، وقت کے ساتھ جگہ نہیں بدلتا۔ 

قران میں ایک اور جگہ موجود ہے کہ: 

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ ( غیر اللہ کو ) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔(مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ الانعام آیت # 22)

اس کے علاوہ کئی آیات و احادیث موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ آسمان، زمین، عرش وغیرہ سب مخلوقات میں سے ہیں اور یہ ازل سے اللہ کے ساتھ موجود نہیں، اللہ کا وجود (غلبہ ، سلطنت) ویسا ہی ہے جیسے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ 

قرآن میں مندرجہ بالا آیت کے بعد دو آیتیں اور ہیں:
 
اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ الانعام آیت # 3)

لہٰذا "فی" جو قرآن میں ہے وہ عرش پر اللہ کے اختیار کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں وہی الہ ہے یعنی آسمانوں اور تمام خلق شدہ زمینوں/مملکتوں میں اسی کی عبادت کی جاتی ہے۔ 

اس سے پہلے کہ سلفی قرآن کی شرح، قرآن سے ہی سمجھنے میں ناکام ہو جائیں، تو پھر بہت بڑے اور متفق علیہ شارح صحیح مسلم ، امام نووی سورہ الملک آیت # 16 پر ایک اور بڑے عالم یعنی قاضی عیاض کو نقل کرتے ہیں: 

قال القاضي عياض : لا خلاف بين المسلمين قاطبة فقيههم ومحدثهم ومتكلمهم ونظارهم ومقلدهم أن الظواهر الواردة بذكر الله تعالى في السماء كقوله تعالى : { أأمنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض } ونحوه ليست على ظاهرها , بل متأولة عند جميعهم

ترجمہ: قاضی عیاض نے کہا : مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں چاہے وہ فقہاء ہوں، یا محدث ، یا کلام کے عالم یا مناظر یا عام مسلمان جو تقلید کرتے ہیں " سب کہتے ہیں کہ " فی السماء" جیسے جملوں کا لفظی/ظاہری معنیٰ نہیں لیا جاتا۔" مثال کے طور پر رب کا یہ کہنا کہ " کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا ( مَّنۡ فِی السَّمَآءِ) تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے" ایسے اور اس طرح کے جملے ظاہری /لفظی معنی میں نہیں لیے جائیں گے مگر ان کی تاویل کی جائے گی۔ (شرح صحیح مسلم امام نووی جلد 5 صفحہ 20 مکتبہ التوفیقہ , قاہرہ، مصر)

سلفیوں کو چاہیے کہ اب وہ پہلے امام نووی ، قاضی عیاض سارے فقہاء، محدثین ، علماء متکلمین ، مناظر اور تمام مسلمانوں کو ان آیات کی تاویل کرنے اور ظاہری/لفظی معنی نہ لینے پر مشرک کہیں۔ 

امام قرطبی نے اس معاملے میں کہا:

وقيل: تقديره أأمِنتم من في السماء قدرته وسلطانُه وعرشُه ومملكتُه. وخصّ السماء وإن عَمّ مُلْكُه تنبيهاً على أن الإلٰه الذي تنفذ قدرته في السماء لا من يعظّمونه في الأرض. وقيل: هو إشارة إلى الملائكة. وقيل: إلى جبريل وهو المَلَك المُوَكّل بالعذاب.

قلت: ويحتمل أن يكون المعنى: أأمنتم خالق مَن في السماء أن يخسف بكم الأرض كما خسفها بقارون

ترجمہ: یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔ کیا تم اس سے نہیں ڈرتے جس کی عظمت، سلطنت، عرش اور مملکت آسمانوں پر ہے؟ یہاں آسمانوں کو مخصوص کیا گیا ہے جبکہ سلطنت کو عام کیا گیا ہے۔ یہ خاکہ پیش کرنے کے لیے (غیر مسلموں کے لیے) کہ وہ خدا ہے "جس کی عظمت/بادشاہت آسمانوں پر ہے" یہ وہ خدا نہیں ہے جس کی عظمت کو تم زمین پر بتاتے ہو (یعنی بت، جھوٹے خدا). یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آیت فرشتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے جبرائیل مراد ہے کیونکہ جبرائیل وہ فرشتہ ہے جو سزا دینے کے لئے معمور ہے۔ 

میں (القرطبی) کہتا ہوں کہ: یہ معنی ممکن ہے کہ کیا تم اس خالق (اللہ) سے نہیں ڈرتے ؟ جس نے تمام چیزیں آسمان میں پیدا کیں اور وہ زمین کو تمہیں اسی طرح نگلنے نہیں دے گا جیسا کہ اس نے قارون کو زمین سے نگلوا دیا؟ 

پھر اختتام پر امام قرطبی کہتے ہیں کہ: 

أي عليها. ومعناه أنه مديرها ومالكها؛ كما يقال: فلان على العراق والحجاز؛ أي واليها وأميرها

ترجمہ: اس سے مراد ہے " کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوجوآسمانوں پر" ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے "فلاں فلاں عراق اور حجاز پر" یعنی وہ ان کا حاکم ہے (الجامع الاحکام القرآن 18.216) 

پھر وہ کہتے ہیں: 

ووصفه بالعلوّ والعظمة لا بالأماكن والجهات والحدودلأنهاصفات الأجسام. وإنما  ترفع الأيدي    بالدعاء إلى السماء لأن السماء مهبط الوحي، و منزل القطر، ومحل القُدس، ومعدن المطهرين من الملائكة، وإليها ترفع أعمال العباد، وفوقها عرشه وجنته؛ كما جعل الله الكعبة قِبلةً للدعاء والصلاة، ولأنه خلق الأمكنة وهو غير محتاج إليها، وكان في أزله قبل خلق المكان والزمان ولا مكان له ولا زمان. وهو الآن على ما عليه كان. 

ترجمہ: اس کی علو اور عظمت کے ساتھ صفت یہ جہات اور حدود کے اعتبار سے نہیں کیوںکہ یہ اجسام کی صفات ہیں۔ دعا کے موقع ہر ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے کیوںکہ آسمان وحی کا محبط ہے، بارش وہاں سے نازل ہوتی ہے، پاکیزگی کا محل ہے اور پاکیزہ فرشتوں کا معدن ہے ،بندوں کے اعمال اس کی طرف بلند کیے جاتے ہیں۔ آسمانوں سے اوپر اس کا عرش اور جنت ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو نماز اور دعاؤں کا قبلہ بنا دیا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ نے امکنہ کو پیدا کیا ہے ،وہ امکنہ کا محتاج نہیں وہ مکان اور زمان کے پیدا کرنے سے پہلے ازل سے تھا۔ اس کا کوئی مکان اور زمان نہیں تھا وہ اب بھی اس طرح ہے جس طرح وہ پہلے تھا ۔(تفسیر القرطبی، سورہ ملک آیت # 16)

علم کلام کے ماہر امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:
 
واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى بقوله: { ءامِنتم مَّن فِى ٱلسَّمَاء } ، والجواب عنه أن هذه الآية لا يمكن إجراؤها على ظاهرها باتفاق المسلمين

ترجمہ: یہ معلوم ہے کہ مجسمہ/مشبھہ نے اس آیت ( کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا) سے اللہ کے لیے مکان کا ثبوت اخذ کیا ہے۔ ان کا جواب مسلمانوں کے اجماع سے یہ ہے کہ اس آیت کا ظاہری معنی نہیں لیا جا سکتا۔

 پھر وہ لکھتے ہیں: 

المراد بقوله: { مَّن فِى ٱلسَّمَاء } الملك الموكل بالعذاب، وهو جبريل عليه السلام، والمعنى أن يخسف بهم الأرض بأمر الله وإذنه.

ترجمہ: "من فی السماء" کا معنی وہ "فرشتہ جس کے پاس قدرت ہے" کہ وہ اللہ کی طرف سے اس کا عذاب نازل کرے۔ وہ جبرائیل ہیں۔ اس آیت کے الفاظ جن میں آیا ہے کہ "زمین میں نہ دھنسا دے" سے مراد "اللہ کے حکم سے" ہے۔ ( امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں سورہ ملک آیت # 16 کے تحت) 

امام ابو حیان الاندلسی 67:16 کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: 

هذا مجاز، وقد قام البرهان العقلي على أن تعالى ليس بمتحيز في جهة، ومجازه أن ملكوته في السماء

ترجمہ: یہ " استعاراتی" بات ہے۔ کیوںکہ یہ بات کئی اثبات سے قائم ہو چکی ہے کہ "اللہ کے لیے مکان کی حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا" لہٰذا یہ ایک استعارہ کے طور پر ہے کہ " اللہ کی آسمانوں پر سلطنت ہے ( اس کی ظاہری موجودگی نہیں) " (امام ابو حیان الاندلسی تفسیر بحر المحیط سورہ ملک آیت # 16 کے تحت)

 امام طبری نے ایک جگہ لفظ "استویٰ" کا معنی بادشاہت اور سلطنت کیا ہے۔

اللہ نے اپنے آپ کو بادشاہت، قدرت اور سلطنت کی بلندی کے ساتھ آسمان پر بلند (علو) کیا ، نہ کہ نقل و حرکت کے ذریعے۔ (تفسیر الطبری ، سورہ بقرہ آیت # 29)

نوٹ: محسن خان اور حلالی، سلفی مترجم ہیں انہوں نے اس آیت میں لفظ استویٰ کا معنی " اوپر اٹھنا/چڑھنا " کے کیے ہیں جبکہ خود نصِ قران سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ "استوی" اس مطلب کے ساتھ آیات میں نہیں آیا۔ لہٰذا قران جو خود اپنے آپ کی سب سے بہتر شرح ہے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ استوی کے مختلف معنی ہیں اسی وجہ سے سلف اور متقدمین علماء اس کے معنی میں نہیں گئے بلکہ اس کو ویسے ہی جانے دیا جیسے یہ آیا تھا اور کوئی ظاہری/لفظی معنی نہیں لیا (جیسا ہم اوپر کئی علماء سے دکھا چکے ہیں) یا پھر استعاراتی معنی دیا جو اللہ کی شان کے لائق ہے جیسے اوپر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ 

لہٰذا اسلاف جن کا اوپر ذکر ہے نے اس کی تشریح نہیں کی بلکہ اس کو ویسے ہی جانے دیا جیسے یہ آیا تھا اور کوئی ظاہری/لفظی معنی نہیں لیا ۔ دوسری طرف حدیث کے عالم جیسے امام نووی ، ابن حجر عسقلانی ، قاضی عیاض ، مفسرین جیسے القرطبی ، امام رازی ، ابو حیان ، ابن کثیر اور دیگر سب غلط نہیں ہو سکتے۔ ان بہترین وضاحتوں کی بنیاد پر ہم اہل سنت دونوں نقطہ نظر کو کھل کر اور واضح طور پر قبول کرتے ہیں۔ 

 1۔ نقطہ نظر: ان آیات کو ویسے ہی چھوڑ دیں جیسے یہ ہیں کیفیت میں جائے بغیر، اور کوئی معنی معین کیے بغیر۔ اسے تفویض کہتے ہیں۔ یہ سلفیوں کا رد ہے جو کہتے ہیں ہم اللہ کے علو (بلندی) کی نفی یا اس کا رد کرتے ہیں۔ 
 
 2۔ نقطہ نظر: جب ضرورت ہو تو متقدمین اور متاخرین علماء سے بہترین تاویل پیش کی جائے جب ضرورت ہو۔ ہم اس دوسرے نظریے کی طرف صرف تب آتے ہیں جب سلفی اور  ان جیسوں کا اللہ کی 
صفات کے بارے میں مجسمہ جیسا غلط عقیدہ ہو۔

سلفی یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اہل سنت اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں (نعوذ باللہ) جبکہ تفویض نہ ہی نفی ہے نہ ہی تاویل نفی ہوتی ہے کیوںکہ یہ دونوں نقطہ نظر کو جمہور اہل سنت علماء نے مانا تھا اور مانتے رہیں گے۔ 

سلفی اکثر امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ایک قول استعمال کرتے ہیں کہ جس کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اللہ آسمانوں سے بالاتر ہے یا زمین پر ہے پھر ایسا شخص کافر ہے۔ (ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں 5/48).

 یہ روایت خود سلفیوں کے نزدیک ایک متروک راوی کے ذریعے آتی ہے ابو مطیع البلخی جس پر کذاب , حدیثیں گھڑنے، ضعف، مرجیعی، روایت کرنے میں متروک ہے وغیرہ جیسی جروحات ہیں۔ 

 سلفی ایک شاذ قول کا بھی استعمال کرتے ہیں جو امام مالک کی طرف منسوب ہے کہ استویٰ معلوم ہے مگر کیفیت مجہول۔ امام مالک سے مستند روایت مندرجہ ذیل ہے: 

ابن وہب سے : ہم مالک کے ساتھ تھے جب ایک آدمی نے ان سے پوچھا اے ابو عبداللہ " اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی " : یہ کیسے استویٰ ہے؟ مالک نے اپنا سر نیچے کر لیا اور انہیں بہت پسینہ آنا شروع ہوگیا پھر اپنے سر کو اٹھایا اور کہا : اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ویسے ہی جیسے اس نے خود بیان کیا ہے۔" کوئی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ "کیسے" کیسے اس پر لاگو نہیں ہوتا۔ اور تم ایک برے شخص ہو ، بدعتی ہو۔ پھر اس شخص کو باہر بھیج دیا گیا۔(البیہقی اسماء والصفات جلد2ص304-305)

امام بیہقی نے اسے قوی سند سے ابن وہب سے بیان کیا ہے ۔(فتح الباری ،جلد13 ص 406-407)

لہٰذا وہ روایات جن سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ استویٰ معلوم ہے شاذ ہو جاتی ہیں کیونکہ ان میں سے ایک روایت میں امام مالک کہتے ہیں "استوی نا معلوم ہے۔" (دیکھئے التمہید 7/151)

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امام مالک ناراض ہوئے اور انہیں بڑا پسینہ آنا شروع ہو گیا جس کا مطلب ہے کہ وہ استویٰ کے بارے میں سوال کو متشابہات میں شامل سمجھتے تھے ، نیز انہوں نے سائل کو بدعتی کہا اور اسے باہر لے جایا گیا۔ دوم یہ کہ اس حوالہ میں کہیں بھی امام مالک نے نہیں کہا کہ استویٰ کے معنی معلوم ہیں ، وہ صرف آیت کو اسی طرح گزرنے دے رہے ہیں جس طرح آئی ہے ، جس کی تفصیل ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں۔ 

امام عبد القاہر البغدادی نے کہا: ہمارے ساتھی اس مسئلے میں اختلاف رکھتے تھے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے کہا " استویٰ والی آیات متشابہات میں شامل ہے" جس کے معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ "یہ امام مالک بن انس کا قول ہے اور مدینہ کے فقہاء کا۔ (عبدالقاہر البغدادی ، اصول الدین صفحہ 113) 

تو یہ بات بغیر کسی شک کے ثابت ہوئی کہ امام مالک نے یہ نہیں کہا کہ استویٰ کے معنی معلوم ہیں ، بلکہ وہ اس کو متشابہات میں شمار کرتے تھے اور آیت کو ویسے ہی گزرنے دیتے تھے جیسے وہ آئی (یعنی تفویض)۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ اہلسنت یہ نہیں مانتے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے کیونکہ ہر جگہ میں بھی جگہیں/مکان شامل ہیں جبکہ اللہ مکان سے پاک ہے۔ لہٰذا ہم پر سلفیوں کا یہ جھوٹا الزام ہے۔

اس باب کے اختتام پر ، سلفیوں سے ایک سوال پوچھا جائے گا جس کا جواب دینے میں وہ ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ سوال یہ ہے:

اگر اللہ عرش پر ہے تو وہ تب کہاں تھا جب عرش نہیں تھا؟" 

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ ہمیشہ سے موجود ہے جبکہ کوئی تخلیق چاہے عرش ہمیشہ سے نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عرش وہاں ازل (ابدیت) سے تھا تو وہ شرک ہوگا۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں