Divorce issue

مسئلہ طلاق

Article Bottom

مسئلہ طلاق

اہل سنت چاروں مکاتب فکر کی یہ رائے ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں تو وہ تین ہی مانی جائیں گی۔ 

صحیح مسلم کے سب سے بڑے شارح امام نووی نے لکھا: 

أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمدوجماهير العلماء من السلف والخلف : يقع الثلاث.وقال طاوس وبعض أهل الظاهر : لا يقع بذلك إلا واحدة

ترجمہ: اگر کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاقیں دے ، تو شافعی , مالک، ابو حنیفہ، احمد بن حنبل اور کئی سلف و خلف کے بڑے علماء نے کہا ہے کہ وہ تین طلاقیں ہی مانی جائیں گی۔ طاؤس اور کچھ اہل ظاہر نے کہا ہے کہ صرف ایک مانی جائے گی۔ (شرح صحیح مسلم امام نووی جلد 1 صفحہ 478). 

سلفی دوسری طرف کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں تو صرف ایک طلاق مانی جائے گی۔

 شیعہ دوسری طرف کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں تو کوئی طلاق نہیں مانی جائے گی اور طلاق کے مسئلے پر دو گواہان کی ضروت ہوتی ہے۔
 
 سارے ایک ہی آیت پر انحصار کرتے ہیں مگر سب اس کی تشریح الگ کرتے ہیں۔ 

 اہل سنت کے 4 مکاتب فکر کا یہ کہنا ہے کہ سورۃ بقرہ کی آیت بالکل واضح ہے اور وہ تین طلاقوں کے بیچ کسی وقفے کا ذکر نہیں کرتی۔ 

قران میں ہے کہ: 

یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔۔۔۔۔۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ بقرہ ۔آیت # 229) 

اگلی آیت میں ہے کہ: 

     پھراگر اس کو( تیسری بار ) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کومیل جول کرلینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ بقرہ ۔آیت # 230)

اہل سنت کے چار مکاتب فکر کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی وقفے کا ذکر نہیں چاہے طلاق وقفے سے دی جائے یا پھر ایک ساتھ۔ طلاق دونوں صورتوں میں ہوجائے گی۔ 

سلفی اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت پیش کرتے ہیں: 

 اے نبی! ( اپنی امت سے کہو کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت ( کے دنوں کے آغاز ) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو۔۔۔۔۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ، سورہ علاق آیت # 1)

اس آیت سے سلفی اور شیعہ دونوں یہ اخذ کرتے ہیں کہ طلاق صرف ماہواری کے بعد دی جا سکتی ہے۔

 حنفی مکتبہ فکر کا یہ ماننا ہے کہ سب سے بہتر طریقہِ طلاق یہ ہے کہ ایک مدت کے لیے ٹھہرا جائے اور ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینا بھی بدعت ہے۔ شیعہ اور سلفی کا یہ کہنا ہے کہ جب آپ اس کو بدعت مانتے ہیں تو پھر تین طلاقیں ہو کیسے جاتی ہیں؟ چار سنی مذاھب ماننے والے یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر یہ بدعت بھی ہے تب بھی تین طلاقیں مانی جائیں گی۔ 

چار مکاتب فکر کے پاس ڈھیروں دلائل موجود ہیں۔ کچھ یہ ہیں:

امام البیہقی نے ابن عباس سے اس مسئلے پر کئی روایات نقل کی ہیں۔ ہم امام بیہقی کی ساری تفصیل بمہ نقل کردہ احادیث یہاں دکھائیں گے۔ 

وہ لکھتے ہیں: 

رواه مسلم في الصحيح عن إسحاق بن إبراهيم وهذا الحديث أحد ما اختلف فيه البخاري ومسلم فأخرجه مسلم وتركه البخاري وأظنه إنما تركه لمخالفته سائر الروايات عن بن عباسعن عكرمة عن بن عباس والمطلقات يتربصن بانفسهن ثلاثة قروء إلى قوله وبعولتهن أحق بردهن الآية وذلك أن الرجل كان إذا طلق امرأته فهو أحق برجعتها وان طلقها ثلاثا فنسخ ذلك فقال الطلاق مرتان الآيةأن سعيد بن جبير أخبره أن رجلا جاء إلى بن عباس فقال طلقت امرأتي ألفا فقال تأخذ ثلاثا وتدع تسعمائة وسبعة وتسعين ورواه عمرو بن مرة عن سعيد بن جبير عن بن عباس أنه قال لرجل طلق امرأته ثلاثا حرمت عليك عن مجاهد قال قال رجل لابن عباس طلقت امرأتي مائة قال تأخذ ثلاثا وتدع سبعا وتسعينعن مجاهد قال سئل بن عباس عن رجل            طلق امرأته مائة قال عصيت ربك وبانت منك امرا ٔ تك    لم تتق الله فيجعل لك مخرجا من يتق الله يجعل له  مخرجايا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن۔

ترجمہ: مسلم کی روایت (ابن عباس سے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ، ابوبکر، عمر کی خلافت کے شروع میں تین طلاقوں کو ایک مانا جاتا تھا ، دیکھیے حدیث :3493 آن لائن) اسحاق بن ابراہیم اور طاؤس سے۔ یہ ان احادیث میں سے ہے جس میں امام بخاری اور امام مسلم نے اختلاف کیا ہے " اس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے مگر امام بخاری نے رد کیا ہے" میرے خیال میں امام بخاری نے اس لیے رد کیا ہے کیوںکہ یہ باقی ابن عباس کی احادیث کی مخالفت کرتی ہے۔ عکرمہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں : آدمی اپنی بیوی کے پاس تین طلاقوں کے بعد واپس چلا جاتا تھا، مگر یہ طریقہ اس آیت نے ختم کردیا:"یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں"۔(سورہ بقرہ # 229)

سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس سے ایک شخص نے پوچھا: میں نے اپنی بیوی کو 100 طلاقیں دی ہیں ابن عباس نے کہا: تین لے لو جو رائج ہو چکی ہیں۔ باقی 97 کو چھوڑ دو۔ 

یہ مجاہد سے بھی روایت ہوا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو 100 طلاقیں دیں۔ ابن عباس نے اس سے کہا: تم نے اپنے خدا کی نافرمانی کی اور تمہاری  بیوی  اب  تمہارے  نکاح میں نہیں رہی کیونکہ تم نے خدا کا خوف نہیں کیا اور خدا نے تمہارے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا۔ (اور کئی احادیث عطاء، عمر ابن دینار ،مالک بن حارث سے بھی آئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاؤس کی روایت میں غلطی ہے اور اس سے یہ مضطرب ہو جاتی ہے)

 (حوالہ: سنن بیہقی الکبری جلد 7 صفحہ 337)

اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث موجود ہے ، لیکن ہم صرف اس سے متعلقہ حصہ دکھائیں گے۔(صحیح بخاری - طلاق کی کتاب)

 عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر اب بھی میں اسے ( اپنی بیوی کو ) اپنے ساتھ رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے انہیں تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی دے دیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والوں کے لیے سنت طریقہ مقرر ہو گیا۔ ( صحیح بخاری 5308).
 
یہ حدیث چاروں مکاتب فکر کے مطابق ایک ہی مجلس میں دی گئیں 3 طلاقوں کو ثابت کرتی ہے اور ان کو رسول اللہ نے منعقد کیا۔ 

  امام نووی نے اس حدیث کے نیچے لکھا: شوافع نے اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی جا سکتی ہیں۔ (شرح صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 489)
امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ: 

فَطَلَّقَهَا ثَلاَثَ تطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلّم، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلّم

ترجمہ: عویمر (رضی اللہ عیہ) نے رسول اللہ کے سامنے تین طلاقیں دیں، اور رسول اللہ نے اسے رائج کر دیا۔ (سنن ابی داؤد 2246)

سنی مکاتب فکر کا یہ کہنا ہے کہ بے شک تین طلاقیں ایک ساتھ دینا گناہ ہے مگر پھر بھی وہ لاگو ہو جاتی ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ثبوت پیش کرتے ہیں: 

طَلَقْھَاثلاثاً كانَ يَحِلُّ لِي أَنْ أُرَاجِعَهَا، قالَ: «لا، كانتْ تَبِيْنُ منكُ وتكونُ معصيةً.

ترجمہ: ابن عمر نے پوچھا یا رسول اللہ کیا تین طلاقوں کے بعد میری بیوی مجھ پر حلال ہو سکتی ہے کیا میں واپس اس کے پاس جا سکتا ہوں ؟ رسول اللہ نے فرمایا "وہ تم سے الگ (مطلقہ) ہو جائے گی اور تمہارا یہ عمل گناہ شمار ہوگا" (سنن دارقطنی جلد 4 صفحہ 20)

اس حدیث میں شعیب بن رزیق راوی ہے جو مجہول ہے۔ 

ایک اور حدیث جو وہ استعمال کرتے ہیں وہ ہے: 

عن نافع قال: «كان ابن عمر يقول: من طلق امرأته ثلاثا، فقد بانت منه امرأته، وعصى ربه تعالى وخالف السنة

ترجمہ: ابن عمر نے کہا اگر کسی عورت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہیں تو وہ مطلقہ (الگ) ہو جاتی ہے اور یہ عمل گناہ ہے اور خلاف سنت ہے۔( دارقطنی 4/21)

اس حدیث میں محمد بن اسحاق ہے جو چوتھے طبقے کا مدلس ہے اور 'عن سے روایت کر رہا ہے۔ البتہ مختلف اسناد کی وجہ سے یہ روایت حسن لغیرہ کے درجے تک چلی جاتی ہے۔ 

چاروں مکاتب فکر کے مطابق چاہے تین طلاقیں ایک ساتھ دینا گناہ ہے، مگر لاگو ہو جاتی ہیں۔ چار مکاتب فکر کا یہ کہنا ہے کہ ایسی احادیث تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ثابت کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو گناہ یا خلاف سنت نہ کہا جاتا۔ 

اس کے علاوہ کئی احادیث ہیں جو چار مکاتب فکر استعمال کرتے ہیں مگر ہم نے مختصر کرنے کے باعث یہاں انہیں نقل نہیں کیا۔ البتہ اختتام پر ہم ایک بڑے سلفی عالم کو نقل کرنا چاہیں گے ، صالح منجد (islamqa ویب سائٹ کے مفتی) ۔ وہ کہتے ہیں: 

شافعی مذھب اور دیگر مذاھب کی اکثریت کے مطابق ، ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا تین علیحدہ طلاق شمار ہوتا ہے اور اٹل ہے۔ اور وہ جوڑا دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے اور وہ اسے طلاق نہ دے۔ 

(islamqa.info/en/2373) 

چلئے اب ہم ان ثبوتوں کی طرف آتے ہیں جو سلفی پیش کرتے ہیں۔ ہم نے قران کی ایک آیت دکھائی جو سلفی استعمال کرتے ہیں ، اب ہم حدیثوں کی طرف آتے ہیں: 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ( ابتدائی ) دو سالوں تک ( اکٹھی ) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی ، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار ( ضروری ) تھا ۔ اگر ہم اس ( عجلت ) کو ان پر نافذ کر دیں ( تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں ) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا ۔ ( اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے۔) (صحیح مسلم 3673)

اس حدیث سے سلفی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کیخلافت کے شروع تک تین طلاقیں ایک تصور کی جاتی تھیں۔ 

 اس کے علاوہ کئی احادیث اور ہیں جسے وہ اس مسئلہ میں استعمال کرتے ہیں مگر یہ والی ان سب میں سے  زیادہ  واضح ہے۔ ہم نے امام بیہقی کی اس حدیث کے بارے میں تفصیل پہلے ہی دکھا دی ہے اور یہ بھی کہ کیوں اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ 

شیعہ نظریہ کہ ایک بھی طلاق نہیں ہوگی اور دو گواہان کی ضرورت ہوگی، اس کے بھی ثبوت ہیں۔

قرآن میں ہے کہ: 

اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک مُنصِف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مُقّرر کرو ، اگر یہ دونوں صُلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا ، یقیناً اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔(مولانا محمد جوناگڑھی ،سورۃ النساء آیت # 35)

جیسے کہ طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ دو خاندانوں کے درمیان تعلق کو توڑ دینے کا باعث ہے اسی لیے شیعہ یہ آیت استعمال کرتے ہیں کہ دو ثالثی ہونے چاہیے ہیں طلاق کے لاگو ہونے کے لیے۔ 

یہ بات ہم اوپر احادیث سے ثابت کر چکے ہیں کہ تیں طلاقیں ایک ساتھ دینا گناہ اور بدعت ہے۔ اسی وجہ سے شیعہ کہتے ہیں کہ ایک چیز گناہ اور بدعت ہوتے ہوئے کیسے ایک طلاق بھی لاگو ہو سکتی ہے؟ 

مفاہمت: ان سب کے پاس قرآن مجید اور احادیث کے مستند ثبوت موجود ہیں۔لیکن اہلسنت چار مکاتب فکر کا موقف سب سے مضبوط ہے۔ جو بھی جس ملک میں رہتا ہے اس کو اُس ملک کے غالب مکتب فکر کی پیروی کرنی چاہئے ہے۔ آدمی زیادہ تر شدید غصے میں طلاق دیتا ہے (جو قابل قبول نہیں ہے سنی احادیث کے مطابق ، بشرطیکہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ کوئی بندہ شدید غصے کے لئے جانا جاتا ہے جس میں وہ اپنی باتوں کو بھول جاتا ہے۔ مفتی غلام سرور قادری رحمہ اللہ نے شدید غصے میں طلاق کے نا لاگو ہونے پر کتاب لکھی ہے، البتہ دیگر علماء ان سے اس بارے اختلاف کرتے ہیں)۔ لوگوں کو اس مسئلے پر اسلامی قانون کا صحیح طریقے سے مطالعہ کرنا چاہیے اور اس سے بخوبی واقف ہونا چاہئے۔ 

اس باب میں ہم اسلام میں "حلالہ" کے تصور کے بارے میں مختصر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت، اپنے سابقہ شوہر سے اس کے بعد ہی شادی کر سکتی ہے جب اس نے کسی دوسرے مرد سے شادی کرلی ہو اور اس نے اس کو طلاق دے دی ہو۔ ( ملاحظہ کیجیے قرآن سورۃ بقرہ آیت 230 اور صحیح مسلم کتاب 8 حدیث : 3357) جان بوجھ کر یا پہلے سے طے شدہ حلالہ پر احادیث میں کڑی تنقید کی گئی ہے اور اس میں شامل تمام فریقین پر احادیث میں لعنت کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث ایسی ہے جسے سب کو پڑھنا چاہیے ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلالہ کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر اللہ نے لعنت کی ہے۔(سنن ابی داؤد 2076) 

تاہم اگر جان بوجھ کر حلالہ کیا گیا تو کیا بیوی سابقہ شوہر پر جائز ہوگی؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ عمل بہت برا اور اس میں شامل تمام فریقین پر لعنت ہوگی۔ لیکن خدا نہ کرے اگر جان بوجھ کر حلالہ کیا گیا تو عورت پچھلے شوہر پر جائز ہو جائے گی کیونکہ وہ پہلے ہی ذہنی اذیت کا شکار ہو چکی ہوگی اور اسے مزید تکلیف سے نے گزرا جائے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں