Where to tie hands in prayer?

نماز میں ہاتھ کدھر باندھنے چاہیے؟

Article Bottom

نماز میں ہاتھ کدھر باندھنے چاہیے؟

نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہیے ہیں یا ڈھیلے(کھلے) چھوڑ دینے چاہیے ہیں؟

حنفی اور حنبلی مکاتب فکر کی رائے یہ ہے کہ ناف کے نیچے اپنے ہاتھ باندھنے چاہیے ہیں۔ شافعیوں کی رائے ہے کہ ہاتھ ناف کے اوپر لیکن سینے کے نیچے باندھنے چاہئے۔ سلفیوں کی رائے ہے کہ ہاتھوں کو بالکل سینے پر باندھنا چاہیے اور کچھ کو گردن کے قریب ہاتھ باندھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے جو ایک بدعت ہے اور کسی مستند حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ 

 مالکی فقہ اور شیعہ نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ باندھے بغیر ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دینے چاہئے۔

سینے پر ہاتھ باندھنے والی ساری احادیث ضعیف ہیں۔ 

احناف جو دلائل دیتے ہیں وہ یہ ہیں:

سیدنا علی رضى اللہ عنہ نے کہا کہ نماز کے دوران ناف کے نیجے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھنا سنت ہے۔ 

اس روایت میں مسئلہ یہ ہے کہ اس میں عبدالرحمن ابن اسحاق موجود ہے جو ضعیف ہے۔سنن ابی داؤد (758)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا( سنت ہے ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔ 

یہ حدیث بھی ضعیف ہے جیسا کہ امام ابو داؤد نے ذکر کیا۔ 

حنفی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق، وائل ابن حجر سے ایک مستند مرفوع روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود کے۔ البتہ ، سلفی اور حنفی کا اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ الفاظ 'ناف کے نیچے مستند طور پر مصنف ابن ابی شیبہ کے نسخے میں ثابت ہیں یا نہیں۔ یہ الفاظ " ناف کے نیچے" بہت سے مستند نسخوں سے ثابت ہے۔

 مصنف ابن ابی شیبہ جو شیخ محمد عوامہ کی زیر نگرانی مدینہ منورہ سے شائع ہوئی اس میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ (جلد 3 صفحہ 323-322)

اور اس کے علاوہ اور بہت سے نسخے ہیں جن میں یہ الفاظ موجود ہیں جو قدیم علماء کے پاس تھے۔
 
امام النیموی الحنفی نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ سے اسی حدیث کو اپنی کتاب آثار السنن میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے (آثار السنن صفحہ 125 ، عربی اور اردو شبیر برادرز کی شائع کردہ ، اردو بازار لاہور)۔

 حنفیوں کے عمل کا بہت سے تابعین اور علماء سے بھی ثبوت ملتا ہے؛ لہٰذا ان کے نظریے کی بنیاد مضبوط ہے۔

 ذیل میں چاروں مکاتب فکر کی رائے کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے جسے علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے بیان کیا ہے ، جو سلفیوں کے نذدیک مشہور بڑے عالم ہیں۔ 

إن الوضع يكون تحت السرة وهو أبو حنيفة وسفيان الثوري وإسحاق بن راهويه وأبو إسحاق المروزي من أصحاب الشافعي وقد عرفت أن الحديث ضعيف لا      يصلح للاستدلال . وذهب الشافعية قال النووي وبه قال الجمهور إلى أن الوضع يكون تحت صدره فوق سرته . وعن أحمد روايتان كالمذهبين , ورواية ثالثة أنه يخير بينهما ولا ترجيح وبالتخيير قال...وعن مالك روايتان إحداهمايضع تحت صدره والثانية يرسلهما ولا يضع إحداهما على الأخرى

ترجمہ: ابو حنیفہ ، سفیان ثوری ، اسحاق بن راہویہ اور ابو اسحاق المروزی جو اصحاب شافعی سے تھے کے مطابق ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہیے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا کے یہ حدیث ضعیف ہے اور استدلال کی صلاحیت نہیں رکھتی، شوافعى اسی طرف گئے ہیں۔ امام نووی نے کہا کہ (شافعی مذھب میں) جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے کے نیچے مگر ناف سے اوپر باندھنا چاہیے۔ امام احمد بن حنبل سے اس بارے دو روایات ہیں، اور ایک اور تیسری کے مطابق وہ دونوں میں سے کسی کو ترجیح نہیں دیتے (یعنی یہ اختیار آدمی کے پاس ہے کہ وہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھے یا ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے)۔ امام مالک سے بھی دو روایات نقل کی جاتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے کے نیچے باندھنا چاہیے ہے، دوسرا یہ کہ ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ دینا چاہیے ہے۔ اور کسی  ایک کو دوسرے ہاتھ پر نہیں رکھے گا۔ (العظیم آبادی عون المعبود جلد 1 صفحہ 275)

شافعی رائے یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے وہ اپنے ہاتھ ناف سے اوپر مگر سینے سے نیچے باندھے۔ جبکہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ دونوں موقف درست تھے۔ امام ترمذی نے خوبصورت طریقے سے اس کا خلاصہ کیا ہے اور کہا ہے: 

وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ ‏.‏ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ ‏.‏ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ ‏.‏ وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ

صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔ ( جامع ترمذی 252)

 امام ترمذی نے تیسرے نقطہ نظر کا تذکرہ نہیں کیا یعنی کوئی ہاتھ ڈھیلے بھی چھوڑ سکتا ہے۔ اس کے بارے میں ثبوت بعد میں دکھائے جائیں گے۔

سلفی ان ضعیف روایات پر بھی انحصار کرتے ہیں جن میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ 

پہلی ضعیف حدیث جو وہ پیش کرتے ہیں وہ ہے:

أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم ابن كليب عن أبيه عن وائل ابن حجر قال: «صليت مع رسول اللـه صلى اللـه عليه وسلّم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره

ترجمہ: وائل ابن حجر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر  رکھا۔ (ابن خزیمہ :479, سلفی عالم ناصر الدین البانی نے اپنی تخریج میں اسے ضعیف کہا۔ انہوں نے کہا کہ اس روایت کی سند مومل جو ابن اسماعیل ہے کی وجہ سے ضعیف ہے جس کا حافظہ کمزور ہے۔ مگر حدیث صحیح ہے کیوںکہ اور بھی روایات موجود ہیں جن کا مفہوم و معنی یہی ہے، اور ہاتھ کو سینے پر باندھنے کو دوسری احادیث سے حمایت ملتی ہے)

 یہ آگے البانی صاحب کا کلام درست نہیں کیونکہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی کوئی حدیث صحیح نہیں۔ 

البتہ میں اس ضمن میں سلفیوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی دیگر کمزور اور غلط تشریح کردہ روایات پر تجزیہ کروں گا۔

 شیخ شعیب الارناؤط نے بھی اس پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا: اور ہاتھوں کو سینےپر رکھنےکے بارے میں وائل بن حجر سے ابن خزیمہ(479) اور بیہقی (2/30) میں روایات ہیں۔ دونوں کی اسناد ضعیف ہیں۔ (مسند احمد حدیث 21967 پر تبصرہ)

اس حدیث میں دو نقص ہیں:

١۔  اس کا ایک راوی مومل بن اسماعیل پر جرح مفسر ہے اور یہ اکیلا ہی اس حدیث کو روایت کر رہا ہے۔

٢۔  سلفیوں کے مطابق سفیان ثوری مدلس ہیں اور ان  پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا جب وہ ”عن“ سے روایت کریں۔ سلفی سفیان ثورى کی اس روایت کو ”عن“ کے بغیر نہیں دکھا سکتے۔

سلفیوں کے بڑے عالم زبیر علی زئی سے یہ سوال پوچھا گیا: کیا صحیح ابن خزیمہ کے سارے راوی ثقہ ہیں؟

جواب: صحیح ابن خزیمہ کے وہ سارے راوی جن سے امام خزیمہ نے نقل کیا اور ان پر کوئی جرح نہیں کی تو ان کو ابن خزیمہ کے مطابق ثقہ سمجھا جائے گا، البتہ یہ ضروری نہیں کے سارے علماء اس کو مانیں۔ صحیح ابن خزیمہ کی عمومی روایات صحیح یا پھر حسن ہیں مگر کچھ روایات میری تحقیق کے مطابق ضعیف ہیں، اسی طرح اور لوگوں نے بھی کچھ روایات پر تنقید کی ہے۔ اصول حدیث اور اسماء و رجال کے مطابق جس کا ثبوت مظبوط ہو گا اسی کو ترجیح دی جائے گی۔ (فتاویٰ العلمیہ المعروف توضیح الاحکام زبیر علی زئی صفحہ 304)۔

انہوں نے یہ بھی کہا: کوئی بھی راوی جو کہ "کثیر الغلط" , "کثیر الوہم" ، "کثیر الخطاء اورسئی الحافظ ہو تو اس کی اکلوتی حدیث ضعیف ہوتی ہے (نور العنین ص63)

راوی مومل بن اسماعیل کے اوپر یہی عین جروحات ہیں۔ اسی لیے اس کی منفرد کوئی حدیث اصول حدیث کے مطابق صحیح نہیں ہوتی۔ 

ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں ان کے متعلق کہا: 

صدوق سيءالحفظ

ترجمہ: صدوق ہے مگر حافظہ خراب ہے۔ (تقریب ، 2/230).

امام ابن حجر العسقلانی نے یہ بھی واضح کرتے ہوئے کہا: 

مؤمل بن إسماعيل في حديثه عن الثوري ضعف

ترجمہ: مومل بن اسماعیل کی سفیان ثوری سے روایات میں ضعف ہوتا ہے۔ (فتح الباری 9/238)

 اس حدیث کو صرف مومل نے سفیان سے روایت کیا ہے۔ مومل بن اسماعیل پر اور بھی تنقید ہیں جیسا کہ اسے کثیر الخطاء  وغیرہ کہا جاتا ہے جو مفسر جروحات ہیں ( دیکھیے تہذیب التہذیب 6/35)

 سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ یہ حدیث وائل ابن حجر سے اور بھی کتابوں میں نقل کی گئی ہے مگر ان میں "سینے کے اوپر" جیسے الفاظ موجود نہیں
۔ 
ایک اور حدیث جو پیش کی جاتی ہے وہ ہے: 

حدثنا عبد الله حدثني أبى ثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه 
قال رأيت النبي صلى الله عليه و سلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال يضع هذه على صدره وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل

ترجمہ: قبیصہ بن ھلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دائیں اور بائیں طرف مڑتے ہوئے دیکھا اور میں نے انکو ' یہ ' سینے پر رکھتے ہوئے دیکھا. یحییٰ جو راویوں میں سے ایک راوی ہے نے اس کو ایسے بیان کیا، کہ دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر کلائی کے جوڑ کے اوپر۔ (مسند احمد 5/226)

سب سے پہلے یہ حدیث کلائی کے جوڑ پر ہاتھ باندھنے کے متعلق بیان کرتی ہے جو کہ اس حدیث کے خلاف ہے جو سلفی استعمال کرتے ہیں جن میں ہاتھوں کو بازو کے اوپر رکھنے کا کہا ہے جیسا کہ میں آپکو دکھاؤں گا۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبہم ہے اور یہ نماز کے دوران سینے پر ہاتھ باندھنے کو واضح نہیں کرتی اور یہ کہ حدیث کے آخر میں راوی کی تشریح سے نماز کے دوران سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے سلفیوں کا استدلال غلط ہے۔ 

یہ حدیث صرف دائیں اور بائیں مڑنے اور ' یہ ' سینے پر رکھنے کا ذکر کرتی ہے۔اور یہ کہ سلفی مسند احمد کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ شعیب الارناؤط کی تفصیل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

انہوں نے اس حدیث کے بارے میں کہا:

صحيح لغيره دون قوله : " يضع هذه على صدره " وهذا إسناد ضعيف لجهالة قبيصة بن هلب
 
ترجمہ: یہ صحیح لغیرہ ہے سوائے 'یہ سینے پر رکھنے ' کے الفاظ کے۔ اور یہ سند ضعیف ہے کیوں کہ قبیصہ بن ھلب مجہول ہے۔ (مسند احمد 5/226)

لہٰذا یہ حدیث ' سینے کے اوپر ' والے الفاظ کے اضافے کے ساتھ شاذ ہے۔ اس کے علاوہ " یہ سینے پر رکھنے" کے اضافی الفاظ کسی اور سند میں بیان نہیں ہوئے (دیکھیے سنن دارقطنی حدیث : 1087 ، مثلاً روایت یہی ہے مگر "سینے کے اوپر" کے الفاظ کے بغیر). 

یہ حدیث بہت سے دوسرے طرق سے روایت کی گئی ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی "یہ سینے پر رکھنے" کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
 
اسی بناء پر علم الحدیث کے ماہر امام النیموی رحمہ اللہ نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا: 

اس کی سند حسن ہے سوائے " سینے پر" کے الفاظ کے جو محفوظ نہیں ہیں۔(النیموی آثار السنن صفحہ 124 شائع کردہ شبیر برادرز لاہور پاکستان)

امام النیموی نے یہ بھی کہا کہ اس باب میں اور بھی احادیث ہیں مگر "سب ضعیف ہیں"۔  (اوپر دیے گئے حوالے کے مطابق)

بہت سے محدثین نے اس کے ایک راوی پر جرح کی ہے جو 'سماک بن حرب ہے جبکہ کئی نے اس کی تعدیل کی ہے تو یہ متنازعہ شخصیت بن جاتی ہے۔ 

روایت : 3 کا سلفیوں کی طرف سے غلط استعمال: 

لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔ (صحیح بخاری 740)

 یہ حدیث سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت نہیں کرتی۔ اس کے مطابق صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو زراعہ پر باندھنا چاہیے۔ یہ سلفیوں کی غلط فہمی کہ ایسا صرف تب ہو سکتا ہے اگر ہاتھوں کو سینے پر باندھا جائے۔ البتہ، عملی طور پر یہ تب بھی کیا جا سکتا ہے جب ہاتھوں کو سینے کے نیچے باندھا جائے، لیکن ناف سے اوپر جیسا کہ شافعی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کا ہاتھوں کو سینے پر باندھنے سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری طرف ایسی بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں جو کہ اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ ہاتھوں کو بائیں ہاتھ کی کلائی کے جوڑ پر باندھنا چاہیے۔ 
 
یہاں تک کہ حدیث نمبر 2 جو سلفی حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان کے ہاتھوں کو بازوؤں پر رکھنے کے عمل کے خلاف ہے۔ آئیے اب ہم ان احادیث کو دیکھتے جو کہ کلائی کے جوڑ پر ہاتھوں کو باندھنے پر دلالت کرتی ہیں۔ 

صحیح مسلم میں درج ہے کہ: 

ہمام نے کہا : ہمیں محمد بن جحادہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے عبد الجبار بن وائل نے حدیث سنائی ، انہوں نے علقمہ بن وائل اور ان کے آزاد کردہ غلام سے روایت کی کہ ان دونوں نے ان کے والد حضرت وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے نبیﷺ کو دیکھا ، آپ نے نماز میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، تکبیر کہی (ہمام نے بیان کیا : کانوں کے برابر بلند کیے ) پھر اپنا کپڑا اوڑھ لیا (دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر لے گئے ) ، پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ، پھر جب رکوع کرنا چاہا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر انہیں بلند کیا ، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا ، پھر جب سمع الله لمن حمدہ کہا تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، پھر جب سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا ۔ (صحیح مسلم 896)

اس کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جو ہاتھوں کو کلائی کے جوڑ پر باندھنے پر دلالت کرتی ہیں۔ (یعنی ہاتھ پر نہ کہ بازوؤں پر)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( اس کیفیت میں) دیکھا تو آپ نے ان کا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔ (سنن ابی داؤد 755 ، البانی نے حسن کہا)

سلفی ایک اور ضعیف اور مرسل روایت کو یہ ثابت کرنے کے واسطے استعمال کرتے ہیں کہ ہاتھوں کو سینے پر باندھنا چاہیے ہے۔ روایت یہ ہے کہ :
 
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، - يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ - عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ ‏.‏

ترجمہ:طاؤس رحمہ اللہ (تابعی) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔ (سنن ابی داؤد 759 جسے البانی نے غلطی کرکے صحیح کہا ہے)

سلفی مرسل کو ضعیف مانتے ہیں، البتہ وہ بڑی چالاکی سے اپنے اصولوں کو اپنے مفادات کو ثابت کرنے کے لیے بدل دیتے ہیں۔ یہ حدیث نہ صرف مرسل ہے بلکہ یہ سلیمان بن موسی راوی کی وجہ سے ضعیف بھی ہے۔ 

امام النیموی الحنفی نے اس حدیث کو ضعیف کہا۔ (آثار السنن صفحہ 124 عربی اور اردو شائع کردہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

امام ذھبی سلیمان بن موسی کے بارے میں کہتے ہیں: 

قال البخاري : سمع من عطاء ، وعمرو بن شعيب . عنده مناكير

ترجمہ: بخاری کے مطابق سلیمان بن موسیٰ نے عطاء اور عمرو بن شعیب سے سنا اور منکرات بیان کی۔

امام ابو حاتم نے کہا: 

اس نے چند احادیث روایت کی جن میں اضطراب پایا جاتا ہے۔(وفي حديث بعض الاضطراب )

امام نسائی نے کہا: 

یہ قوی نہیں ہے ( وقال النسائي : ليس بالقوى) 

(امام ذھبی نے میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 316 شائع کردہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔ امام بخاری کی جرح بھی ان کی کتاب تاریخ الکبیر میں موجود ہے جلد 4 صفحہ 38).

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھوں کو ناف سے تھوڑا سا اوپر لیکن سینے سے نیچے یا ناف کے نیچے باندھنے میں کوئی حرج نہیں (یعنی دونوں درست ہیں)۔ جبکہ سینے پر باندھنا مکروہ ہے۔ 

دیکھیے مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني۔ ص 48. 

غیر مقلدین کہتے ہیں پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ رفع يدين کرتے تھے تو احناف کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب ہم دیتے ہیں کے وہ حنبلی تھے جیسے غنیۃ الطالبین کے سلفی مترجم نے بھی خود مانا۔ خیر اسی غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے کے نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں. 1/19

 
سلفیوں کی بڑی شخصیت ابن قیم نے بدائع الفوائد میں کہا: 

ويكره أن يجعلهما على الصدر ، وذلك لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن التكفير وهو وضع اليد على الصدر 

ترجمہ: رسول اللہ کی روایت جس میں انہوں نے التکفیر (ہاتھوں کو سینے پر رکھنا) سے منع کیا اس کے مطابق سینے پر ہاتھ رکھنا مکروہ (نہ پسندیدہ) ہے۔

(ابن قیم بدائع الفوائد جلد 2 صفحہ 69 شائع کردہ مکتبہ المشکاۃ) 

سلفی کہتے ہیں کہ حنفی عورتیں اپنے ہاتھوں کو سینے پر کیوں رکھتی ہیں اگر اس کے ثبوت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں؟ 

 اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت اجماع اور قیاس پر یقین رکھتے ہیں اسی وجہ سے عورتیں ایسے طریقے سے نماز پڑھتی ہیں جن سے ان کا پردہ برقرار رہے تو وہ اپنے سینے کو اپنے ہاتھوں سے چھپاتی ہیں۔ 

مالکی حضرات اور شیعہ کا نظریہ یہ ہے کہ ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیے جائیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ احادیث بیان ہوئی ہیں جو اس نظریہ کو ثابت کرتی ہیں۔ 

حدثنا عفان قال حدثنا يزيد بن إبراهيم قال سمعت   عمرو  بن دينار  قال كان بن الزبير إذا صلى يرسل يديه

ترجمہ: عبدللہ ابن زبیر صحابی ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/391 نمبر 3971)

 اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ 

مصنف میں اور بھی کئی تابعین سے روایت موجود ہیں جیسا کہ سید التابعین سعید بن مسیب کہ وہ ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔ 

مالکی مکتبہ فکر بھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔ امام ابن حجر لکھتے ہیں:

وروى بن القاسم عن مالك الإرسال وصار إليه أكثر أصحابه

ترجمہ: ابن قاسم، امام مالک سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے کئی صحابہ ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری حدیث 707 کے تحت)

امام نووی کی شرح صحیح مسلم میں موجود ہے: 

وعن مالك رحمه الله روايتان أحد اهما يضعهما تحت صدره والثانية يرسلهما ولا يضع إحدا هما على الأخرى وهذه رواية جمهور أصحابه وهي الأشهر عندهم

ترجمہ: امام مالک سے دو روایات ملتی ہیں ، ایک یہ کہ ہاتھوں کو سینے سے نیچے باندھنا چاہیے، اور دوسری روایت یہ ہے کہ ہاتھوں کو نماز میں ڈھیلا چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ (دوسرا) والا نظریہ ان کے بہت سے اصحاب سے نقل ہوا ہے اور یہی ان میں مشہور ہے۔ (شرح صحیح مسلم 1/173) 

اس کے علاوہ بھی بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ 

مفاہمت: جیسا کہ یہ اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ البتہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر کلائی کے جوڑ پر باندھنے ،یا ڈھیلا چھوڑ دینے والی احادیث ثابت ہیں۔ بہت سے تابعین ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھا کرتے تھے، اور فقہ کے دو بڑے مکتبہ فکر کی بھی یہی رائے ہے (حنفی ، حنبلی). قران ہمیں سچائی سے جڑے رہنے کی تعلیم دیتا ہے لہٰذا مالکی اور شیعہ نظریہ بھی اس زمرے میں اتنا ہی مضبوط ہے، اس لیے ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑنا ثابت ہو جاتا ہے۔ اس سب کے بعد ، جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ ملک کے غالب مکتبہ فکر کے مطابق چلنا چاہیے تاکہ فساد و فتنہ نہ ہو۔



مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں