Doing Rafa Yadain in prayer?

مسئلہ رفع يدين

Article Bottom

مسئلہ رفع يدين

دو سب سے قدیم سنی مکتبہ فکر حنفی اور مالکی کا یہ نظریہ ہے کہ صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھانا (رفع یدین) کرنا چاہیے۔ جبکہ شافعی، حنبلی اور سلفیوں کا یہ نظریہ ہے کہ نماز کے شروع میں اور رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) چاہیے ہیں۔ 

شیعہ کا یہ نظریہ ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) چاہیے ہیں اور دونوں سجدوں کے درمیان بھی۔ 

نوٹ: سلفی اس بات پر زور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ امام مالک رفع یدین کرتے تھے رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت بھی جیسا انہوں نے اپنی موطا میں حدیث نقل کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث نقل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ محدث کا وہی عمل بھی ہو۔ اس طرح کئی محدیثین کی مثال موجود ہے جنہوں نے ایک حدیث نقل کی اپنی کتاب میں، مگر ان کا عمل کسی اور حدیث کے مطابق تھا جس کو انہوں نے لیا۔ 

مالکی فقہ کی مشہور کتاب المدونة الكبرى میں امام مالک سے ثابت ہے کہ رفع الیدین صرف نماز کے شروع میں کرنا چاہیے۔ المدونة امام مالک کی تصدیق شدہ مالکی فقہ کی کتاب ہے۔ سلفی محقق زبیر علی زئی نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کتاب کو غیر ثابت شدہ قرار دیا ہے۔ حاجی خلیفہ نے کہا: المدونة ایک بہت عظیم کتاب ہے امام مالک کے مذھب کی ( کشف الظنون 2/1655) (سیر اعلام النبلاء الذھبی 14/205) 

اسی وجہ سے امام ابن عبداکبر نے کہا: 

واختلف العلماء في رفع اليدين في الصلاة فروى ابن القاسم وغيره عن مالك أنه كان يرى رفع اليدين في الصلاة ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام وحدها وتعلق بهذه الرواية عن مالك أكثر المالكيين

 ترجمہ: علماء نے رفع یدین کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔ ابن القاسم وغیرہ نے امام مالک سے نقل کیا کہ وہ نماز میں رفع یدین کو ضعیف مانتے تھے سوائے پہلی تکبیر ۔۔۔۔۔جمہور مالکی اس روایت پر عمل کرتے ہیں (التمہید لابن عبدالبر 9/212) 

امام قرطبی المالکی (رحمہ اللہ) نے بھی کہا: 

يرفع المصلي يديه حين يفتتح الصلاة، ولا يرفع فيما سوى ذلك. هذا قول سفيان الثوريّ وأصحاب الرأي.قلت: وهو المشهور من مذهب مالك

ترجمہ: ہاتھوں کو صرف نماز کے شروع میں اٹھانا چاہیے اس کے علاوہ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھانے چاہیے ہیں۔ یہ کہنا ہے سفیان الثوری کا اور باقی اہل رائے کا۔ 
امام قرطبی نے کہا: یہ ہی بات امام مالک کے مذھب میں مشہور ہے۔ ( تفسیر القرطبی 20/218 سورۃ کوثر کی تفسیر میں)۔ 

امام قرطبی نے امام ابن القاسم کا قول بھی نقل کیا جو اوپر موجود ہے۔ 

یہ باب وسیع اور تفصیلی ہوگا کیوںکہ یہ معاملہ سلفی اور حنفیوں کے مابین بہت شدت کے ساتھ بحث شدہ رہتا ہے۔ 

قرآن میں ہے کہ : 

جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورہ مومنون آیت # 2) 

تفسیر ابن عباس میں اس آیت کے بارے ہے کہ: پھر اللہ تعالیٰ نے مومنین کی نشانیوں کا ذکر کیا (جو عاجزی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں) یہ دائیں طرف مڑتے ہیں نہ بائیں طرف اور نہ ہی نماز کے دوران ہاتھوں کو اٹھاتے ہیں ( تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس) 

اگرچہ تنویر المقیاس کو مسلمان بڑے پیمانے پر استعمال اور قبول کرتے ہیں مگر سلفی مکتبہ فکر اس کو مستند نہیں مانتا۔ سلفی اس کے راویوں پر تنقید کرتے ہیں جنہوں نے اسے نقل کیا ہے۔ البتہ ان راویوں کو حدیث نقل کرنے میں مستند نہیں مانا جا سکتا لیکن تفسیر نقل کرنے کے باب میں قبول ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر حفص کی عاصم سے قرآت کی 95 فیصد مسلمان پیروی کرتے ہیں۔ مگر حفص پر احادیث کی روایت کرنے پر شدید جرح ثابت ہے۔ 

امام السمرقندی (رحمہ اللہ) نے کہا: 

وقال الحسن البصري: أي: خائفون وروي عنه أنه قال خاشعون  الذين  لا  رفعون  أيديهم  في  الصلاة  إلا في التكبيرة الأولى

ترجمہ: امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: خشوع کے معنی ہیں " پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین (ہاتھ اٹھانا) نہ کرنا" (تفسیر السمرقندی 2/408, 23:2) 

حنفی اور مالکی مکاتب فکر کے دلائل صرف مذکورہ آیت کی اس تشریح پر مبنی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت دلائل موجود ہیں۔

آئیے اب مستند احادیث سے سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلی مضبوط دلیل یہ حدیث ہے: 

حدثنا هنّاد حدثنا وكيعٌ ، عن سفيانَ ، عن عاصمِ بن كُلَيْبٍ ، عن عبدِ الرحمنِ بن الأسودِ عن عَلْقَمَةَ قال: قال عبدُ الله بنُ مسعودٍ ،: ألا أُصلي بكمْ صلاةَ رسولِ الله، فصلى ، فلم يرفعْ يَديْهِ إلاَّ في أول مرةقال: وفي البابِ عن البراءِ بن عازبٍ.قال أبو عيسى: حديثُ ابن مسعود حديث حسنٌ.وبه يقولُ غيرُ واحدٍ من أهلِ العلمِ من أصحاب النبي والتابعين، وهو قولُ سُفيانَ وأهلِ الكوفةِ.

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۔۔
 
  امام ترمذی کہتے ہیں: ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ (جامع ترمذی 257، اس کو سلفی دار السلام کی زبیر علی زئی صاحب کی تحکیم والے نسخے میں ضعیف کہا گیا، جو کہ غلط ہے)

 اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ سلفیوں کے ہاں مشہور امام احمد شاکر کے پاس جامع ترمذی کا نسخہ تھا جس میں امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔ (جامع ترمذی تحقیق احمد شاکر نسخہ دار الکتب مصر)

اس قلمی نسخے کے شروع میں سلفی احمد شاکر نے خود کہا کہ یہ نسخہ مضبوط ہے اور صداقت پر زیادہ محیط ہے اور خطاء کا کم سے کم امکان ہے (صفحہ نمبر 17) 

 امام بدرالدین عینی (رحمہ اللہ) نے بھی ' حسن صحیح نقل کیا ہے جامع ترمذی سے (شرح سنن ابی داؤد 3/341)

 لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ کافی صحیح نسخے ' حسن صحیح کہتے ہیں بجائے صرف ' حسن کے۔ 

اس روایت کو مرفوع روایت مانا جائے گا کیونکہ ابن مسعود نبی (ﷺ) کی نماز سکھا رہے تھے۔ 

 ابن حزم ظاہری (جو سلفیوں کے نزدیک بلند مقام رکھتے ہیں) نے کہا : یہ خبرصحیح ہے۔ (المحلی 4/88)۔

 یہ یاد رکھیں کہ ابن حزم نے صرف سند کو صحیح نہیں کہا بلکہ اصول میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے۔ 

شیخ احمد محمد شاکر جن کو سلفی کافی عزت دیتے ہیں نے بھی ابن مسعود کی حدیث توصحیح کہا اپنی جامع ترمذی کی تحقیق میں، اور یہ واضح کیا کہ اس میں کوئی چھپا ہوا نقص نہیں، جیسا کہ کچھ شروع کے محدثین نے اس میں علت ظاہر کی۔ انہوں نے اس کی ابن حزم کے مطابق بھی صحیح مانا جب وہ ان کی کتاب المحلی پر تحقیق کر رہے تھے۔ (4/88 مسائل نمبر 442) 

ناصر الدین البانی جو سلفیوں کے جانے مانے محدث تھے۔ انہوں نے بھی اس حدیث کی اپنی تحقیق میں دو مقامات پر صحیح کہا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح 1/254 فوٹ نوٹ 3 ) اور صحیح سنن ابی داؤد 1/143 : 683 )  

البانی صاحب نے مزید یہ کہہ کر واضح کیا:

والحق انه حديث صحيح وإسناده  صحيح  على  شرط   مسلم ولم نجد لمن اعله حجة يصلح التعلق بها ورد الحديث من اجلها۔

ترجمہ: حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اسے معلول قرار دیا ان کے پاس اس پرکوئی ثبوت نہیں جس سے وہ اس حدیث کی نفی کر سکیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح تحقیق ناصر الدین البانی جلد 1 صفحہ 254 حدیث نمبر 809 فٹ نوٹ 3) 

سلفی عالم محمد محیی الدین عبد الحامد نے اس روایت کو اپنی سنن ابی داؤد کی تحقیق میں مستند قرار دیا (1/258 طبع دار الفکر بیروت لبنان) 

حسین سلیم اسد (ایک اور سلفیوں کے نزدیک مستند شخصیت) مسند ابو یعلی کی تحقیق (3/220) میں اس کی تصحیح کی اور ابن حزم کا بھی قول نقل کیا جس میں انہوں نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حسین سلیم اسد صاحب نے یہ بھی کہا کہ ابن مسعود کی حدیث میں کوئی علت نہیں ہے۔(3/221) 
 
عادل ابن یوسف اور احمد ابن فرید نے اپنی مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق میں اسے مستند قرار دیا۔ (1/219 نمبر 323) ۔ اور انہوں نے احمد شاکر کا نظریہ بھی نقل کیا جیسا اوپر ہم درج کر چکے ہیں۔ 

20 سے زائد علماء جن میں سلفی شامل ہیں جنہوں نے اس روایت کو مستند قرار دیا ہے۔ 

سلفی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے، انہوں نے عن سے روایت کیا ہے اور جب وہ عن سے روایت کریں تو روایت قبول نہیں کی جاتی۔
 
آئیے دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی بڑی سلفی شخصیت ، یحییٰ گوندلوی نے سفیان ثورى کی تدلیس کے بارے میں کیا کہا ہے:
 
سفيان الثورى الام المشهور الفقيه العابد الحافظ الكبير وصفه النسائي وغير بالتدليس وقال البخارى ما اقل تدليسه

ترجمہ: سفیان ثوری ایک مشہور امام، فقیہ، عابد اور حافظ الکبیر تھے۔ امام نسائی اور وغیرہ نے انہیں مدلس کہا ہے اور امام بخاری نے کہا کہ یہ "بہت کم تدلیس کرتے تھے۔"

ابن حجر عسقلانی نے مدلسین کو 5 طبقات میں تقسیم کیا ہے اور سفیان ثوری کو دوسرے طبقے میں شامل کیا ہے۔ اور انہوں نے دوسرے طبقے کے بارے میں خود واضح کرتے ہوئے کہا کہ مدلسین کا دوسرا طبقہ محدثین کے نزدیک قابل قبول ہے کیوںکہ ان کی حدیث کو صحیح کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے کیوںکہ وہ تدلیس بہت کم کیا کرتے تھے مثال کے طور پر سفیان ثوری۔ اس طبقے میں راویان نے ثقہ راویوں سے تدلیس کی ہے ، راویان جیسے امام ابن عیینہ نے کی۔
 
اس اصولی بحث جو امام ابن حجر نے کی سے واضح ہے کہ سفیان ثوری مدلس تھا مگر اس کی تدلیس نقصان دہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ حدیث کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ حدیث رد نہیں کی جا سکتی۔ (یحییٰ گوندلوی آمین بالجہر صفحہ نمبر 25-26) 

سلفی دعویٰ کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن مسعود کا یہ عمل صرف سفیان ثوری کے واسطے سے ملا ہے، مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے. آئیے دوسرے طرق دیکھتے ہیں: 

حدّثنا  وكيع  عن  مسعر  عن  أبي  معشر  عن  إبراهيم  عن  عبد الله  أنه  كان يرفع  يديه  في أوّل ما يستفتح ثم لا يرفعهما.

ترجمہ: ابراہیم النخعی نے روایت کیا کہ عبداللہ ابن مسعود صرف نماز کے شروع میں ہاتھ بلند کرتے تھے اور اس کے بعد نہیں کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/267) 

امام ابراہیم النخعی کی مرسلات قبول ہوتی ہیں۔ 

حدّثنا وكيع وأبو أسامة عن شعبة عن أبي إسحاق قال: كان أصحاب عبد الله وأصحاب عليّ لا يرفعون أيديهم إلا في افتتاح الصلاة قال وكيع: ثم لا يعودون.

ترجمہ: امام ابی اسحاق نے کہا : عبدللہ ابن مسعود اور علی کے اصحاب رفع یدین نہیں کرتے تھے سوائے پہلی تکبیر کے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/267)

ابن الترکمانی نے کہا: یہ ایک صحیح سند ہے (جواھر النقی 2/115) 

اس کے علاوہ اور بھی مبہم جروحات ہیں جو سلفی ابن مسعود کی حدیث پر کرتے ہیں، جیسے کہ امام ابی داؤد نے روایت نقل کرنے کے بعد کہا کہ یہ ایک طویل روایت کا خلاصہ ہے اور ان الفاظ کے ساتھ درست نہیں ہے (ابو داؤد 748) 

یہ بات واضح رہے کہ ابو داؤد کے کچھ نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں مثال کے طور پر جامع الازہر کا قلمی نسخہ ، جبکہ کئی اور نسخوں میں کبھی یہ بریکٹس میں ملتا ہے کبھی بریکٹس کے بغیر، اس کے لیے ابو داؤد کے اس قول میں اضطراب بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ابو داؤد کا یہ قول مستند نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک جرح مبہم ہے کیوںکہ ابو داؤد نے نہ تو مکمل روایت نقل کی اور اس کی صحیح نہ ہونے کی وجہ بتائی ۔ جرح مبہم کبھی بھی قبول نہیں کی جاتی۔ 

سلفی امام ترمذی سے بھی نقل کرتے ہیں جنہوں نے عبدللہ ابن مبارک کا قول نقل کیا جس میں انہوں نے کہا: 

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ   النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ

ترجمہ : رفع يدين والی احادیث ثابت ہیں اور انہوں نے زہری ، سالم اور اس کے والد (ابن عمر) سے احادیث ذکر کیں۔ البتہ ابن مسعود کی رسول اللہ سے روایت جس میں انہوں نے سوائے پہلی بار کے ہاتھ نہیں اٹھائے ثابت نہیں۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 256 کے نیچے) 

یہ ممکن نہیں کہ ابن مبارک (رحمہ اللہ) جنہوں نے خود ابن مسعود سے حدیث نقل کی ہے خود کہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے. اگر وہ اس روایت کو غیر مستند مانتے ہوتے تو وہ خود اس کے راویوں میں موجود نہ ہوتے۔ (سنن نسائی کتاب نماز کا آغاز باب ترک کرنا (رفع یدین) حدیث نمبر 1026)۔

امام ترمذی کے قول میں ابن مبارک ایک اور روایت کی بات کر رہے ہیں جو نبی (ﷺ) سے نقل ہوئی ہے نہ کے ابن مسعود کے عمل والی حدیث جو ہم نے دکھائی ہے۔

 ابن مسعود کی حدیث پر کوئی ایک بھی جرح مفسر نہیں ہے۔ صرف علماء کا یہ کہہ دینا کہ یہ مستند نہیں ہے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا کیوںکہ یہ جرح مبہم ہے۔ 

اسکے علاوہ اور بھی مستند احادیث ہیں جو حنفی استعمال کرتے ہیں :

وروى أبو بكر النهشلي عن عاصم بن كليب عن أبيه عن علي رضي الله عنه أنه كان يرفع يديه في التكبيرة الأولى من الصلاة ثم لا يرفع في شيء منها 

ترجمہ: علی (رضی اللہ عنہ) کے متعلق یہ ملتا ہے کہ وہ صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ # 2442)۔

 امام بدرالدین عینی نے اس حدیث کے بارے میں کہا:

 وإسناد حديث عاصم بن کلیب صحيح علیٰ شرط مسلم

 ترجمہ: عاصم بن کلیب کی حدیث کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 271 طبع دار الفکر بیروت لبنان) 

امام طحاوی جو اسلام کے بہت بڑے عالم ہیں، انہوں نے کہا : 

لأنه زاد على ما روى غيره فإن عليا لم يكن ليرى النبي صلى الله عليه و سلم يرفع ثم يترك هو الرفع بعده إلا وقد ثبت عنده نسخ الرفع فحديث علي رضي الله عنه إذا صح ففيه أكثر الحجة لقول من لا يرى الرفع وأما حديث بن عمر رضي الله عنهما فإنه قد روى عنه ما ذكرنا عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم ثم روى عنه من فعله بعد النبي صلى الله عليه و سلم خلاف ذلك

ترجمہ: یہ ممکن نہیں کہ علی رضى اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا ہو ہاتھ اٹھاتے ہوئے اور پھر اس کو ترک کر دیا ہو، یہ صرف تب ممکن ہے اگر وہ اس کو منسوخ مانتے ہوں، علی رضى اللہ عنہ کی حدیث کا صحیح ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاتھ اٹھانا (رفع یدین) منسوخ ہوچکا ہے رکوع میں جانے اور اٹھنے کے دوران۔ جہاں تک تعلق ہے ابن عمر والی روایت کا تو بے شک اس میں یہ ذکر موجود ہے نبی کے حوالے سے (ہاتھ اٹھانے کا) ، پر اس کے مقابلے میں ابن عمر سے ہی تضاد نقل ہوا ہے رسول اللہ کی وفات کے بعد۔ 

ابن عمر والی حدیث میں ہے کہ: 

حدثنا بن أبي داود قال ثنا أحمد بن يونس قال ثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال صليت خلف بن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة فهذا بن عمر قد رأى النبي صلى الله عليه و سلم يرفع ثم قد ترك هو الرفع بعد النبي صلى الله عليه و سلم فلا يكون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قد رأى النبي صلى الله عليه و سلم فعله وقامت الحجة عليه بذلك فإن قال قائل هذا حديث منكر قيل له وما دلك على ذلك فلن تجد إلى ذلك سبيلا فإن قال فإن طاوسا قد ذكر أنه رأى بن عمر يفعل ما يوافق ما روى عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم من ذلك قيل لهم فقد ذكر ذلك طاوس وقد خالفه مجاهد فقد يجوز أن يكون بن عمر فعل ما رآه طاوس يفعله قبل أن نقوم عنده الحجة بنسخه ثم قامت عنده الحجة بنسخه فتركه وفعل ما ذكره عنه مجاهد.... فعبد الله أقدم صحبة لرسول الله صلى الله عليه و سلم وأفهم بأفعاله من وائل قد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يحب أن يليه المهاجرون ليحفظوا عنه 

ترجمہ: مجاہد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن عمر رضى اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی اور ان کو صرف شروع میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ ابن عمر نے نبی (علیہ السلام) کو رکوع میں جاتے اور واپس آتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھا تھا مگر انہوں نے خود یہ عمل کرنا چھوڑ دیا۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب یہ عمل منسوخ ہو چکا ہو۔ یہ وہ ثبوت ہے جو ابن عمر کے پچھلے قول کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق اگر کوئی اس کی سند کو منکر کہے تو اس سے ثبوت پیش کرنے کا کہا جائے گا کیونکہ واضح طور پر اس کو یہ سمجھ ہی نہیں آیا۔ اگر طاؤس نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی (علیہ السلام) کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے یہ کہا جائے گا کہ بے شک طاؤس نے یہ بات بیان کی ہے مگر مجاہد نے اس کے مقابلے میں اس کے متضاد روایت بیان کی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ممکن ہے کہ جو طاؤس نے ابن عمر کو کرتے ہوئے دیکھا وہ صرف ایک خاص وقت تک کے لیے تھا جس میں وہ عمل منسوخ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا جب وہ عمل منسوخ ہوگیا تو ابن عمر نے وہ کرنا چھوڑ دیا اور مجاہد نے ابن عمر کا منسوخ ہونے کے بعد والا عمل نقل کیا۔ عبدللہ ابن مسعود رسول اللہ کے قریبی صحابیوں میں سے تھے اور انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارا ہے، عبدللہ ابن مسعود رسول اللہ کو وائل ابن حجر سے زیادہ سمجھتے تھے۔ رسول اللہ (علیہ السلام) مہاجرین کو اپنے زیادہ قریب رکھتے تھے۔

حوالہ: شرح معانی الآثار جلد نمبر 1 صفحہ 224-226 

سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) والی حدیث کتاب علل الدارقطنی میں مرفوع ثابت ہے۔ یہ ہے حدیث: 

رَوی عَبد الرَّحِيمِ بن سُلَيمان عَنه عَن عاصِمِ بنِ كُلَيبٍ،  عَن أَبِيہ عَن عَلِيٍّ عَنِ  النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلم  (أَنَّهُ  كان يَرفَعُ يَدَيهِ فِي أَوَّلِ الصَّلاَةِ ثُمّ لايَعُودُ).(اسناد صحیح ورواتہ ثقاۃ)

ترجمہ: عبدالرحیم بن سلیمان ، ابوبکر النہشلی سے روایت کرتے ہیں وہ عاصم بن کلیب سے وہ اپنے والد سے وہ سیدنا علی سے جو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھاتے تھے "اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے"۔ (کتاب علل دارقطنی 4/106)  بریکٹس میں نے لگائے ہیں مگر دارقطنی نے یہی بات کی ہے۔ یہ سند مستند ہے اور سارے راوی ثقہ ہیں۔
 
اگرچہ اس کے بعد امام دارقطنی نے کہا ہے کہ یہ عبد الرحیم بن سلیمان کا وہم اور یہ مرفوع نہیں ہے موقوف روایت ہے۔ تو یاد رکھیں یہ جرح مبہم ہے اور اصول حدیث کے مطابق اگر کوئی حدیث مرفوع ثابت ہو جائے بمع سندِ صحیح تو اس کو لے لیا جائے گا۔ 

الاسود سے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے سیدنا عمر کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے نماز کے دوران ہاتھ نہیں اٹھائے سوائے شروع کے۔ عبدالملک نے کہا میں نے شعبی ، ابراہیم، ابو اسحاق کو دیکھا پر وہ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے شروع کے (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1 صفحہ 268) 

ملا علی قاری نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

وروى الطحاوي ثم البيهقي من حديث الحسن بن عياش بسند صحيح

ترجمہ: امام طحاوی اور امام بیہقی نے حسن بن عیاش سے صحیح سند سے حدیث نقل کی ہے (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 523)
 
علامہ ابن الترکمانی نے کہا: 

وهذا السند ايضا صحيح على شرط مسلم

ترجمہ: یہ سند بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ 

الہدایہ کے مصنف امام مرغینانی نے بدایۃ المبتدی میں اس کو مستند قرار دیا (جلد 1 صفحہ 318 ، نماز کی کتاب) 

ایک اور ثبوت جو حنفی پیش کرتے ہیں :

حدثنا أبو بكرة قال ثنا مؤمل قال ثنا سفيان قال ثنا يزيدبن أبي زياد عن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا كبر لافتتاح الصلاة رفع يديه حتى يكون إبهاماه قريبا من شحمتي أذنيه ثم لا يعود 

براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نماز شروع کرتے تھے تو اپنے ہاتھ کانوں تک لے کر جاتے تھے، مگر اس کے بعد نہیں۔ (شرح معانی الآثار امام طحاوی 1/224 : 1245)

اس میں دو راوی ایسے ہیں جن میں مسئلہ ہے 

1- مومل بن اسماعیل
 2- یزید بن ابی زیاد۔ 

مومل بن اسماعیل کو سلفیوں کے ہاں ثقہ مانا جاتا ہے کیوںکہ وہ ہاتھوں کو سینے پر باندھنے والی حدیث کے راوی ہیں۔ مگر حنفی اور علماءِ جرح و تعدیل ان کو ثقہ نہیں مانتے (یہ اگلے باب " ہاتھ باندھنے اور ڈھیلا چھوڑ دینے" میں ثابت کیا جائے گا)۔ یزید بن ابی زیاد پر بھی جرح موجود ہے۔ 

یہ روایت ان دونوں راویوں کے علاوہ بھی نقل ہوئی ہے سو اس کی سند مستند مانی جائے گی۔ سلفی محقق شیخ احمد شاکر نے کہا : 

والحق انه، قال ابن شاهين فى الثقات قال احمد بن صلح المصرى يزيدبن ابى زياد ثقة ولا يعجبنى       قول من تكلم فيه، وقال ابن سعد فى الطبقات وكان ثقة فى نفسه.

ترجمہ: سچ یہ ہے کہ ابن شاہین نے انہیں (یزید بن ابی زیاد ) کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔ امام احمد بن صلح المصری نے کہا یہ ثقہ ہیں اور مجھے وہ قول پسند نہیں جو ان کو متنازع بنائے۔ امام ابن سعد نے انہیں اپنی طبقات میں ثقہ لکھا۔ (ترمذی تحقیق و شرح احمد شاکر جلد 1 صفحہ 195)

انہوں نے ایک اور حدیث کے بارے میں فرمایا: 

فمدار الحديث على يزيد بن ابى زياد وهو ثقة      صحيح الحديث

اس حدیث کا مدار ابن زیاد پر ہے اور وہ ثقہ ہے تو حدیث صحیح ہوئی۔ (ترمذی تحقیق و شرح جلد 2 صفحہ 409) 

اگر سلفی اس توثیق کو نہ بھی مانیں تو حنفیوں کے پاس یزید بن ابی زیاد کے علاوہ بھی احادیث ہیں۔

 امام طحاوی اس حدیث کے بعد روایت کرتے ہیں۔ 

حدثنا بن أبي داود قال ثنا عمرو بن عون قال أنا خالد      عن بن أبي ليلى عن عيسى بن عبد الرحمن عن أبيه     عن البراء بن عازب عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله
 
ترجمہ: عیسیٰ بن عبد الرحمن اپنے والد سے رویت کرتے ہیں اور وہ براء بن عاذب رضی اللہ عنہما سے اور اسی طرح انہوں نے روایت کیا نبی کریم (ﷺ) سے۔ (نوٹ: اس سند میں نہ ہی مومل ہے نہ ہی یزید بن ابی زیاد)۔

اس سند کے سارے رجال/راوی ثقہ ہیں سوائے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے جس پر جرح مفسر موجود ہے مگر کچھ محدثین نے اسے ثقہ بھی کہا ہے۔
 
 حدثنا محمد بن النعمان قال ثنا يحيى بن يحيى      قال ثنا وكيع عن بن أبي ليلي عن أخيه و عن الحكم عن      بن أبي ليلى عن البراء عن النبي صلى الله عليه و سلم مثله 

ترجمہ: محمد بن نعمان نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کیا جو براء بن عاذب سے روایت کرتے ہیں ، جنھوں نے اسی طرح روایت کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے 

[نوٹ: اب 3 مختلف اسناد ہیں یزید بن ابن زیاد کے بغیر، لہٰذا اس پر الزام ختم ہو جاتا ہے ، نیز امام ابو داؤد نے بھی ایک طرق نقل کیا ہے جس میں یزید بن ابی زیاد نہیں ہے]

بہت سی مختلف اسناد کی وجہ سے یہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ امام نووی (رحمہ اللہ) نے شافعی ہونے کے ناطے رفع یدین کرنے کا ثبوت دیا لیکن یہ قبول کیا کہ بہت سارے بڑے علماء نے براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا۔ انہوں نےکہا:

وقال أبو حنيفة والثوري وابن ابى ليلي وسائر 
اصحاب الرأى لا يعرف يديه في الصلاة الا لتكبيرة الاحرام وهى رواية عن مالك واحتج لهم بحديث البراء بن عازب

ترجمہ: امام ابو حنیفہ ، الثوری ، ابن ابی لیلیٰ اور تمام اہل رائے (یعنی حنفی علماء جن کو اصحاب الرائے کا قابل تحسین لقب دیا گیا تھا) نے کہا کہ نماز میں پہلی تکبیر کے علاوہ ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ یہ امام مالک سے بھی نقل کیا گیا ہے اور انھوں نے ثبوت حاصل کیا براء بن عازب کی حدیث سے "[المجموع (3/400)]۔

ابن رشد المالکی ، (جو اعلی درجے کے مالکی عالم تھے) نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک (رحمہ اللہ) سمیت بہت سارے علمائے کرام نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [دیکھیں البدایة المجتہد ابن رشد ، (1 / 326-328)]

لہٰذا جب بڑے علمائے کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے تو پھر اسے ضعیف نہیں کہا جاسکتا۔

اب ہم یہ ثبوت دیکھیں گے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صرف نماز کے شروع میں ہی رفع یدین کرتے تھے:

حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْحَنَّاطُ , وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عِيسَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ , قَالا : نا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ , نا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ , عَنْ حَمَّادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ , وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ 
التَّكْبِيرَةِ الأُولَى فِي افْتِتَاحِ الصَّلاةِ " قَالَ إِسْحَاقُ : بِهِ    نَأْخُذُ  فِي الصَّلاةِ كُلِّهَا, تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ وَكَانَ ضَعِيفًا 

ترجمہ: عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابوبکر ، اور عمر کے ساتھ نماز پڑھی۔ (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو)۔ انہوں نے نماز کے آغاز میں پہلی تکبیر کے سوا ہاتھ نہیں اٹھائے۔ [سنن دارقطنی (2/52 ، حدیث نمبر 1133)]

 براہ کرم نوٹ کریں کہ امام دارقطنی نے ذکر کیا کہ محمد بن جابر اس میں تنہا ہیں اور وہ "ضعیف" ہیں۔ نیچے پڑھیں کہ یہ حدیث کیوں مستند ہے اور محمد بن جابر پر جرح اس حدیث میں قبول نہیں کی جاسکتی۔سلفی علم حدیث کو نہیں سمجھتے اور محمد بن جابر (رحمہ اللہ) کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اس حدیث کے حوالے سے۔

امام ہیثمی نے مجموعی طور پر محمد بن جابر پر اپنی کتاب مجمع الزوائد میں حکم لگایا ہے جس میں ہے کہ:
 
محمد بن جابر السحيمي وفيه كلام كثير وهو صدوق في نفسه صحيح الكتاب ولكنه ساء حفظه وقبل التلقين‏.‏

ترجمہ: محمد بن جابر السحیمی، ان پر کافی کلام ہے۔ "وہ خود صدوق ہیں اور ان کی کتاب صحیح ہے "تاہم یادداشت خراب تھی اور تلقین کو قبول کرتے تھے۔ [مجمع الزوائد ، (2/397 ، حدیث : 3367 ، شائع 
کردہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان]

لہٰذا محمد بن جابر (رحمہ اللہ) صدوق ہیں اور ان کی کتاب مستند ہے۔

 آئیے اب ہم دیکھیں کہ ابن عدی جو علم رجال میں متشدد عالم تھے نے کیا کہا ہے: 

وعند إسحاق بن أبي إسرائيل عن محمد بن جابر كتاب أحاديث صالحة وكان إسحاق يفضل محمد بن جابر على جماعة شيوخ هم أفضل منه وأوثق

ترجمہ: میرے استاد نے کہا کہ اسحاق بن ابی اسرائیل(وہی راوی جو دارقطنی کی حدیث میں ہے جو اوپر دکھایا گیا) کے پاس "حدیث کی کتاب تھی جو صحیح تھی محمد بن جابر سے" اور اسحاق ، محمد بن جابر کو اساتذہ کے گروہ میں سب سے اعلیٰ مانتے تھے کیوںکہ وہ انکے نزدیک سب سے افضل اور ثقہ تھے۔ (الکامل ابن عدی 6/153)

لہٰذا دارقطنی میں روایت مستند ہوجاتی ہے کیونکہ اسحاق بن ابی اسرائیل محمد بن جابر کی مستند کتاب سے روایت کرتے تھے۔

امام ابو حاتم الرازی نے اپنے والد سے محمد بن جابر اور ابن لہیہ کے بارے میں پوچھا ، آپ نے فرمایا: دونوں ثقاہت کے درجے پر ہیں۔ اور محمد بن جابر میرے نزدیک ابن لہیہ سے زیادہ عزیز ہیں [الجرح وتعدیل امام ابو حاتم الرازی ، (2/219)]

 ان سارے ثبوتوں کی وجہ سے حنفیوں کا کہنا کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) جیسے معروف فقیہ صحابی، جو نبی (علیہ السلام) کے عمل کو قریب سے جانتے تھے ، انہی میں تین خلفائے راشدین۔ یعنی سیدنا علی رضى اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بہت سارے صحابہ سے ثابت ہے کہ رفع یدین ترک ہو چکا تھا۔ تابعین(صحابہ کے جانشین) کی طرف سے اور بھی بہت سارے شواہد موجود ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، ابراہیم نخعی ، علقمہ ، الاسود ، اور دیگر بھی نماز کے آغاز میں ہی ہاتھ اٹھاتے تھے۔ 

سلفی اکثر مبہم جروحات کا حوالہ دیتے ہیں ان احادیث پر جو حنفی پیش کرتے ہیں۔ مگر احناف جب حنفی علماء کی توثیق نقل کرتے ہیں، تو سلفی کہتے ہیں کہ وہ حنفی علماء کی توثیق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم حنفی یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم بھی غیر حنفی علماء کی جرح نہیں مانتے۔ 

اختتام پر ہم ایک واضح حدیث کا ذکر کرنا چاہیں گے کہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے رفع یدین کرنا واضح طور پر منسوخ کردیا گیا تھا اور نبی (علیہ السلام) کا آخری عمل یہ تھا کہ صرف نماز کے شروع میں ہی ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ 

حدثنى عثمان بن محمد قال: قالى لى عبيدالله بن يحيى: حدثنى عثمان بن سوادة بن عباد عن حفص بن ميسرة عن زيد بن اسلم عن عبدالله بن عمر قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة نرفع ايدينا فى بدء الصلاة وفى داخل الصلاة عند الركوع فلما هاجر النبى صلى الله عليه وسلم الى المدينة ترك رفع اليدين فى داخل الصلاة عندالركوع وثبت على رفع اليدين فى بدء الصلاة توفى.

ترجمہ: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم نبی(ﷺ) کے ساتھ تھے مکہ مکرمہ میں تو ہم نماز کے آغاز میں اور رکوع میں جاتے اور واپس آتے وقت بھی اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، تاہم جب رسول اللہ مدینہ ہجرت کر گئے تھے تو انہوں نے رفع یدین، رکوع میں جاتے ہوئے کرنا چھوڑ دیا مگر نماز کے شروع میں ہاتھ بلند کرنے میں مستحکم رہے۔ اور یہی عمل اپنی وفات تک جاری رکھا۔ (امام ابن الحارث اخبار الفقہاء والمحدثین صفحہ 214)

سلفی محقق زبیر علی زئی نے اس حدیث کو ضعیف کہنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں اور یہ کتاب مستند طور پر امام ابن حارث سے ثابت ہے۔ یہ اس کتاب کے احاطے سے باہر ہے کہ تمام راویان کی توثیق کو تفصیل سے ذکر کیا جائے۔ البتہ اگر کسی کو تفصیلی تحقیق درکار ہے تو وہ مصنف کو اس email پر کانٹیکٹ کرے: 

aamir_ibraheem@hotmail.com

صحیح مسلم میں بھی ایک حدیث ہے جسے حنفی استعمال کرتے ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ رسول اللہ نے نماز کے اندر رفع یدین کرنے سے روک دیا تھا 

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلاَةِ 

ترجمہ: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں شریر گھوڑوں کی دُموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں، نماز میں سکون اختیار کرو۔ (صحیح مسلم 968) 

سنن نسائی میں ہے کہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نماز (کے اختتام پر سلام ) میں ہاتھ اٹھا رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا :’’ انھیں کیا ہوا ہے کہ نماز میں ہاتھ اٹھا رہے ہیں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہیں؟ نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (سنن نسائی 1185) 

سلفی کہتے ہیں کہ یہ احادیث سلام کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھانے کے بارے میں ہیں۔ تاہم جس بات کو وہ نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ احادیث ان سے مختلف ہیں جن میں سلام کے دوران ہاتھ نہ اٹھانے کی بات کی گئی ہے۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ ان احادیث میں نبی “صحابہ کے پاس آئے"جبکہ دوسری حدیثوں میں نبی (علیہ السلام) نے نماز میں امامت کروائی۔ آئیے اس حدیث کو دیکھیں: 

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، انھوں نے فرمایا : ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا :’’ انھیں کیا ہوا ہے کہ ہاتھوں سے سلام کر رہے ہیں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا انھیں کافی نہیں کہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے رہیں اور ( زبان سے ) کہہ دیں : [السلام علیکم ، السلام علیکم] (سنن نسائی 1186 صحیح مسلم 866)

آئیے اب ہم ان ثبوتوں کی طرف آتے ہیں جو شافعی، حنبلی اور سلفی پیش کرتے ہیں: 

  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع الله لمن حمد کہتے تب بھی ( رفع یدین کرتے ) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے) (صحیح بخاری 739)

ایک اور ثبوت جو وہ نقل کرتے ہیں : 

حضرت مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا ، جب وہ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور انہوں نے بتایا کہ رسول اللہﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم 864)

نوٹ: مالک بن حویرث اور دوسرے صحابہ سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ ) سجدوں کے درمیان بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔ ان احادیث کو ثبوت کے طور پر دکھایا جائےگا جو شیعہ مکتبہ فکر اور سلفیوں کے معروف عالم یعنی ناصر الدین البانی نے مستند ماناہے۔ 

اور صحابی وائل ابن حجر سے وہ پیش کرتے ہیں کہ: 
ہمام نے کہا : ہمیں محمد بن جحادہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے عبد الجبار بن وائل نے حدیث سنائی ، انہوں نے علقمہ بن وائل اور ان کے آزاد کردہ غلام سے روایت کی کہ ان دونوں نے ان کے والد حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے نبیﷺ کو دیکھا ، آپ نے نماز میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ بلندکیے ، تکبیر کہی (ہمام نے بیان کیا : کانوں کے برابر بلند کیے ) پھر اپنا کپڑا اوڑھ لیا ( دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر لے گئے ) ، پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ، پھر جب رکوع کرنا چاہا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر انہیں بلند کیا ، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا ، پھر جب سمع الله لمن حمدہ کہا تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، پھر جب سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا (صحیح مسلم 896)

اس کے علاوہ کئی اور احادیث ہیں جنہیں شافعی، حنبلی اور سلفی پیش کرتے ہیں اور ضعیف احادیث پر بھی انحصار کرتے ہیں جو سیدنا علی سے مروی ہے ( سنن ابن ماجہ 864) یہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 

جمہور علماء نے عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ پر جرح کی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا یہ "مضطرب الحدیث ہے". یحییٰ ابن معین نے کہا "یہ ضعیف ہے" اور اصحابِ حدیث نے اس سے کوئی حکم نہیں پکڑا اور یہ کچھ نہیں ہے۔ عمر بن علی نے کہا "اس میں ضعف ہے" اور وہ آخری عمر میں (اس کا حافظہ) بگڑ گیا تھا۔ امام ابو حاتم نے کہا اس کی احادیث لکھی جائیں مگر ان سے نتیجہ نہ اخذ کیا جائے نہ انکو ثبوت کے طور پر لیا جائے۔ (تہذیب الکمال 184-11/183) 

 امام عبد الرحمن یعنی ابن مہدی نے کہا: وہ "حدیث میں غلطیاں" کرتے تھے اور وہ اپنی زندگی کے اختتام میں (ان کا حافظہ) بگڑ گیا۔ اور امام ابن مہدی نے اسے "ترک کر دیا" [تہذیب الکمال (11/184)]۔ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اپنی "الضعفاء" [جلد نمبر 2 ، صفحہ نمبر 340] میں ان کا تذکرہ کیا۔ 

وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی استعمال کرتے ہیں جس میں وہ ان لوگوں پر پتھر(کنکریاں) پھینکتے تھے جو رکوع میں جاتے ہوئے یا اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔[جز رفع یدین ، حدیث : 14] 

سب سے پہلے تو یہ کہ "جز رفع الیدین" میں ایک مجہول (نامعلوم) راوی ہے یعنی محمود بن اسحاق۔ لہٰذا جز رفع الیدین کو امام بخاری (رحمہ اللہ) کے کتابچے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ امام بیہقی (رحمہ اللہ) نے بھی اس روایت کو "سنن والآثار" میں نقل کیا ہے لیکن وہاں ولید بن مسلم "عن" کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور وہ چوتھے طبقے کے مدلس اور تدلیس تسویہ کرتے تھے (ملاحظہ کریں: طبقات المدلسین ابن حجر عسقلانی ، راوی : 127]۔ چوتھے طبقے کے مدلس کی تدلیس متفقہ طور پر ناقابل قبول ہوتی ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو اتنے بڑے صحابی ابن عمر تکلیف اور پریشان نہیں کرسکتے تھے۔ نماز پڑھتے ہوئے لوگوں پر پتھر پھینکنا نماز کی توہین ہے۔

 اگر یہ فرض کرلیں کہ انہوں نے ایسا فعل کیا تب بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سارے صحابہ اور تابعین ترکِ رفع یدین کرتے تھے۔ نیز مستند روایت سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ابن عمر خود صرف نماز کے آغاز میں رفع یدین کرتے تھے۔

دوسری احادیث کو اس مضمون کو اختصار کرنے کی وجہ سے نقل نہیں کیا گیا ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امام بخاری نے اس موضوع پر ایک مکمل کتابچہ لکھا ہے جہاں انہوں نے بڑے صحابہ سے یہ ثابت کیا کہ رکوع میں اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا چاہیے۔ ایک مجہول(نامعلوم) راوی کی موجودگی کی وجہ سے حنفیہ اس کتاب کو معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔

آئیے اب ان احادیث کی طرف آتے ہیں جن میں دو سجدوں کے درمیان ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے جو شیعہ کرتے ہیں اور کچھ سنی علماء نے بھی قبول کیا۔
بڑے سلفی عالم ناصر الدین البانی کہتے ہیں: 

من طرق عن قتادة عن نصر بن عاصم عنه . زاد النسائي : ( وإذارفع رأسه من السجود فعل مثل ذلك) . وسنده صحيح . وفي أخرى له بلفظ : ( أنه رأى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) رفع يديه في صلاته إذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع رأسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع اذنيه). وكذلك رواه أحمد ( 3 / 436 ، 437 ) وسنده صحيح أيضا وفي أخرى له مختصرا بلفظ : ( كان يرفع يديه حيال فروع أذنيه في الركوع والسجود ) . وكذلك رواه أبو عوانة في صحيحه ( 2 / 95 ) وقال الحافظ في ( الفتح )( 2 / 185 ) بعد أن ساقه من طريق النسائي : ( وهو أصح ما وقفت عليه من الأحاديث في الرفع في السجود ) . وله شاهد من حديث أنس بلفظ : ( أن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) كان يرفع يديه في الركوع والسجود . رواه ابن أبي شيبة ( 1 / 91 / 1 ) بإسنادصحيح

ترجمہ: اس کو قتادہ کے واسطے سے نصر بن عاصم سے کچھ اضافے کے ساتھ روایت کیا گیا ہے جیسا نسائی میں موجود ہے کہ ہاتھوں کو سجدوں کےدرمیان اٹھانا چاہیے (پھر البانی پوری حدیث نقل کرتے ہیں)۔ اسی کی طرح ایک اور روایت جو مسند احمد میں نقل ہے (437-3/436) اور اس کی سند صحیح ہے اس کو ابو عوانہ نے بھی اپنی "صحیح"میں روایت کیا ہے 2/95۔ امام حافظ عسقلانی فتح الباری میں کہتے ہیں کہ (2/185) ساری احادیث جن میں سجدوں میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے جن سے میں واقف ہوں ان سب میں سے نسائی والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔ اس کی شاہد انس (رضی اللہ عنہ) والی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی (علیہ السلام) رکوع اور سجود میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ 1/91/1) اس کی سند صحیح ہے۔ [ناصر الدین البانی ارواء الغلیل جلد 2 صفحہ(68-67)]

سنن نسائی کی سجدوں کے درمیان ہاتھ اٹھانے والی حدیث کو سلفی دار السلام کی تحقیق میں صحیح کہا گیا ہے۔ سلفی یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس حدیث کا راوی شعبہ" نہیں بلکہ "سعید" ہے جو مدلس ہے جس کی وجہ سے سند صحیح نہیں ہو سکتی۔ وہ دوسری کتابوں کا حوالہ دے کر ثابت کرتے ہیں کہ یہ سعید ہے شعبہ نہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ امام نسائی نے اس حدیث کو شعبہ اور سعید دونوں سے روایت کیا ہے۔ اس سے بالکل اگلے والی حدیث میں سعید ہے۔

شیعہ کتابوں میں ایسی روایات بھی ہیں جن میں صرف ایک بار ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے: 

وباسناده الآتي عن إسماعيل بن جابر ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) في رسالة طويلة كتبها إلى أصحابه ـ إلى أن قال : ـ دعوا رفع أيديكم في الصلاة إلاّ مرّةً واحدة حين يفتتح الصلاة ، فانّالناس قد شهروكم بذلك والله المستعان ولا حول ولا قوّة إلاّ بالله. 

اور اس کی سند سے اسماعیل بن جابر جس نے ابوعبداللہ(علیہ السلام) سے کہ ایک طویل خط میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو لکھا ، جہاں انہوں نے کہا: نماز میں اپنے ہاتھ اٹھانا چھوڑ دو سوائے اس وقت کے جب تم نماز شروع کرو گے ، کیونکہ لوگوں نے تمہیں مشہور کردیا ہے اور اللہ وہ ہے جس کی مدد مانگی جائے اور کسی کے پاس قوت نہیں سوائے اللہ کے۔ [اوپر دیے گئے حوالہ کہ مطابق ، حدیث : 7258]

تاہم شیعہ مراجع  کے مطابق ہر تکبیر کہنے پر ہاتھ اٹھانے چاہئے ہیں اور یہ ایک روایتی عمل ہے شیعہ میں۔

مفاہمت: تمام مکاتب فکر کی عزت کرنی چاہیے۔ البتہ حنفی موقف سب سے مضبوط ہے۔ 

سلفیوں نے اس طرح کے اختلافات کے سبب حنفیوں کی نماز کو غلط قرار دینے میں سراسر غلطی کی ہے۔ کچھ سلفی اس سلسلے میں انتہائی سخت ہیں اور یہ دعوی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رکوع میں اور اس سے اٹھنے کے وقت رفع یدین نہ کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ جو ان کا بدترین قول ہے۔ 

 یہاں تک کہ شافعی علماء کو بھی ماننا پڑا کہ رفع یدین صرف شروع کی تکبیر میں واجب ہے آگے نہیں۔ [ملاحظہ کریں فتح الباری 2/456 ، دارالفکر ، بیروت ، لبنان کے ذریعہ اشاعت کردہ)]



مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں