Reciting Surah Fatiha behind Imam or not?

فاتحہ خلف امام

Article Bottom

فاتحہ خلف امام

امام کے پیچھے قرآن کی پہلی سورۃ کی تلاوت کرنی ہے یا نہیں؟

 حنفی مکتبہ فکر جو سنی مسلم دنیا میں سب سے غالب مکتبہ فکر ہے، ان کا قول ہے کہ سورۃ فاتحہ (قرآن کریم کا پہلا باب)  اور قران کے کسی بھی حصے کو امام کے پیچھے قیام میں نہیں پڑھنا چاہیے۔ بے شک وہ بلند آواز میں پڑھنے والی نماز ہو یا دھیمی آواز میں پڑھنے والی۔ شیعہ کی بھی اسی طرح کی رائے ہے۔ 

مالکی مکتبہ فکر کے مطابق اجازت ہے کہ دھیمی آواز میں پڑھنے والی نماز کے دوران سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی جا سکتی ہے مگر بلند آواز میں پڑھنے والی نماز کے دوران نہیں۔ 

شافعی اور سلفیوں کی رائے یہ ہے کہ دھیمی ہو یا بلند آواز والی نماز ، ہر نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا لازم ہے۔  حنبلی فقہ کے مطابق دھیمی آواز میں پڑھنے والی نماز میں مستحب ہے کے پیچھے فاتحہ کی تلاوت کی جائے، جبکہ اونچی آواز والی نماز میں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ 

 حنفی مکتبہ فکر کی طرف سے پیش کردہ ثبوت بنیادی طور پر قرآن مجید سے ہے جس میں کہاگیا ہے:

 اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی، سورہ اعراف، آیت# 204) 

یہ آیت واضح ہے کہ جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اسے دھیان سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔ 

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ وَأَبُو خَالِدٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ عَنِ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَعَلَّكُمْ تُقِرُّونَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ قَالَ: أَلا تَفْقَهُونَ؟ مالكم لَا تَعْقِلُونَ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے (نماز پڑھنے والوں) سے کہا: میرے خیال میں تم (امام کے پیچھے) تلاوت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ابن مسعود نے کہا۔ کیا تم نہیں سمجھتے ، کیا تم اپنے حواس کو استعمال نہیں کرتے؟ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے تو ، پھر خاموش رہو "کہ تم پر رحم کیا جائے"(7:204)

[تفسیرالقرآن العظیم ازابن ابی حاتم ، (1/1646)، حدیث : 8730  مکتبہ مصطفی الباز ، مکہ مکرمہ۔ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں]

 امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ مفسرین کے قائد مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے صحابہ اور تابعین سے بہت سی روایات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ ان سب کی تصحیح کریں یا ان کا صحیح ہونا ثابت کریں کیونکہ ان روایات کے بہت مختلف طرق ہیں۔ ان کے کمزور  ہونے  کا  امکان ناممکن ہے۔ [ تفسیر الطبری 7: 204 کے تحت دیکھیں]

 معروف تابعین کی طرف سے یہ دلائل موجود ہیں:

حدثنا ابن  وكيع،  قال: ثنا جرير وابن إدريس، عن لـيث، عن مـجاهد: { وَإذَا قُرِىءَ القُرآنُ فـاسْتَـمِعُوا لَهُ وأنْصِتُوا } قال: فـي الصلاة الـمكتوبة

امام مجاہد رحمہ اﷲنے فرمایا: یہ آیت "مشروع نمازوں" کے لیے نازل ہوئی ہے۔ [تفسیر الطبری 7: 204 کے تحت]

قال: ثنا الـمـحاربـي وأبو خالد، عن جويبر، عن الضحاك قال: فـي الصلاة الـمكتوبة

امام ضحاک رحمہ اﷲ نے فرمایا: یہ آیت "مشروع نمازوں" کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (اوپر دیے گئے حوالے کے مطابق) 

قال: ثنا جرير وابن فضيل، عن مغيرة، عن إبراهيـم، قال: فـي الصلاة المكتوبة.

امام ابراہیم نخعی کہتے ہیں: یہ آیت مشروع نمازوں کے لیے نازل ہوئی (اوپر دیے گئے حوالے کے مطابق) 

ابن کثیر ، جو سنیوں اور سلفیوں دونوں کے ہاں قرآن مجید کے ایک مشہور مفسر ہیں ، یہ مختلف روایات سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے ان میں سے کسی بھی روایت پر ایک بھی جرح نہیں دکھائی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر امام کے پیچھے تلاوت کرنے کے بارے میں امام شافعی کی رائے پیش کرتے ہیں ، جس کے بعد وہ کہتے ہیں:

و قال أبو حنيفة و أحمد بن حنبل: لا يجب على      المأموم قراءة أصلاً في السرية ولا  الجهرية بما ورد في الحديث من كان له إمام فقراءته قراءة له "وهذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده عن جابر مرفوعاً، وهو في موطأ مالك عن وهب بن كيسان عن جابر موقوفاً، وهذا أصح

ترجمہ: امام ابو حنیفہ (رحمہ اللہ) اور امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کہتے ہیں مقتدی کا (سورہ فاتحہ) کی تلاوت کرنا لازم نہیں ہے " چاہے خاموش یا بلند نماز میں ہو" کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جس کا بھی کوئی امام ہے تو اس کی تلاوت تمہاری تلاوت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنے مسند میں جابر (رضی اللہ عنہ) سے مرفوع کے طور پر بیان کیا ہے اور موطا امام مالک میں وہب بن کیسان سے جنہوں نے جابر (رضی اللہ عنہ) سے موقوف کے طور پر بیان کیا۔ (ابن کثیر نے کہا) یہ زیادہ صحیح ہے [تفسیر القرآن العظیم از حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر ، 7: 204 کے تحت]

سلفیوں کے شیخ الاسلام یعنی ابن تیمیہ نے کہا: 

وَقَدْ اسْتَفَاضَ عَنْ السَّلَفِ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي الْخُطْبَةِ وَذَكَرَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ الْإِجْمَاعَ عَلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ

ترجمہ: سلف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت نماز میں تلاوت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اور بعض نے کہا کہ یہ خطبے کے متعلق ہے۔ امام احمد بن حنبل نے "اجماع" نقل کیا ہے کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔  [ابن تیمیہ الفتاویٰ (23/269)]

نیز امام ابن قدامہ کی کتاب المغنی میں انہوں نے بھی نقل کیا ہے کہ امام احمد نے کہا: لوگوں کا اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے (المغنی 1/601)۔

 اس کے حق میں بہت ساری احادیث ہیں۔ مثال کے طور پر امام نسائی رحمہ اﷲ اس مسئلے پر پورا باب مختص کرتے ہیں:
 
باب تأويل قوله عز وجل: وإذا قرىء القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون

ترجمہ: اللہ کے ارشاد کی تشریح : {اور جب قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو پھر اسے سنو اور خاموش رہو ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے

اس باب کے تحت انہوں نے درج ذیل حدیث کا ذکر کیا:

أَخْبَرَني الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِـي صَالِحٍ عَنْ أَبِـي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلّم: «إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ، لہٰذا جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ [سمع اللہ لمن حمدہ] کہے تو تم [اللھم ربنا لک الحمد] کہو ۔‘‘ (سنن نسائی 922۔ اس کی سلفی دار السلام نے تصحیح کی ہے)

امام نسائی رحمہ اللہ نے نماز کے سلسلے میں اس آیت کی تشریح کی اور جب امام نماز میں تلاوت کرنا شروع کردے تو خاموش رہنے کے بارے میں حدیث نقل کی۔ 

حنفیہ کے نزدیک یہ حدیث تمام نمازوں کے بارے ہے اور ہمیں خاموش رہنے کی ہدایت کرتی ہے چاہے امام بلند آواز میں یا خاموشی کے ساتھ پڑھے جانے والی نماز میں قرآن کی تلاوت کرے۔

سلفی غیر مقلد اگلی آیت (7:205) استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فاتحہ دل میں تلاوت کرنی چاہئے۔ آیت میں ارشاد ہے:

اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آوازکے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی)

تفسیر القرآن العظیم میں اس آیت کے متعلق ابن کثیر کہتے ہیں:

وقد كان هذا قبل أن تفرض الصلوات الخمس ليلة الإسراء، وهذه الآية مكية

ترجمہ؛ یہ آیت (اسراء) کی رات سے پہلے کی ہے جب پانچوں نمازوں کو واجب نہیں کیا گیا تھا۔ یہ مکی آیت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر 7:205 کے تحت) 

جبکہ یہ ثابت ہے کہ آیت نمبر 204 نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اسراء و معراج کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ نیز آیت 205 میں صبح و شام یاد رکھنے کو کہا گیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری نمازوں میں دل سے تلاوت نہیں کرنی چاہئے؟ لہٰذا یہ آیت عام ذکر کی بات کر رہی ہے جو نمازوں کے علاوہ کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس کو نہیں مانتے تو اس طرح قرآن متصادم ہو جائے گا (نعوذباللہ) جو کہ نا ممکن ہے۔

صحیح مسلم میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرو۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر801) 

صحیح مسلم میں یہ بھی درج ہے :

عطاء بن یسار نے ( اپنے شاگرد ابن قسیط کو ) بتایا کہ انھوں نے امام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں حضرت زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا ؟ انھوں نے کہا : امام کے ساتھ کچھ نہ پڑھے اور کہا : انھوں ( زید رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے رسول اللہﷺ کے سامنے ( والنجم اذا ھویٰ ) پڑھی تو آپ نے سجدہ نہ کیا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1192) 

موطا امام مالک کی ایک حدیث کے مطابق: 

یحییٰ نے مجھ سے مالک کے ذریعے انہوں نے ابو نعیم وہب بن کیسان سے جس نے جابر بن عبد اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ، "جو شخص کوئی رکعت ام القرآن کی تلاوت کیے بغیر پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے جب وہ امام کے پیچھے ہو"  (موطا امام مالک کتاب نمبر 3 : حدیث نمبر 40) 

نوٹ: امام طحاوی نے اس حدیث کو شرح معانی الآثار (1/447) میں مرفوع (رسول اللہ تک) نقل کیا ہے۔ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں سوائے یحییٰ ابن سلام کے جس پر جرح مبہم کی گئی ہے۔ مگر انہوں نے امام مالک کا قول نقل کیا جنہوں نے اس کو موقوف کہا۔ لیکن جب مرفوع روایت موجود ہے تو اسے بھی لیا جا سکتا ہے، دوسری بات یہ کہ جابر (رضی اللہ عنہ) جو صحابی رسول ہیں ، وہ اپنی طرف سے یہ بات نہیں کر سکتے تو یہ مرفوع کے حکم میں ہی شامل ہو گی۔ 

امام ابن الترکمانی نے ایک اور مرفوع روایت نقل کی ہے جس میں یحییٰ بن سلام نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: 

ذكر البيهقي في الخلافيات انه روى عن اسمعيل بن موسى السدي أيضا عن مالك مرفوعا و اسمعيل صدوق وقال النسائي ليس به بأس

ترجمہ: امام بیہقی نے اپنی الخلافیات میں نقل کیا جس میں انہوں نے اسمعیل بن موسی السدی سے اور انہوں نے امام مالک سے مرفوعاً نقل کیا۔ اور اسمعیل ثقہ ہیں، امام نسائی نے کہا: اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (الجوھر النقی 2/160) 

عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ۔ سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔(سنن ابی داوود حدیث نمبر 822۔ حدیث صحیح ہے) 

 اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عبادہ بن الصامت کی باقی احادیث جس میں صرف فاتحہ کا ذکر ہے ان کو اس حدیث سے سمجھنا چاہیے جس میں فاتحہ کے بعد دوسری آیات کی تلاوت کا بھی ذکر موجود ہے۔ لہٰذا وہ حدیثیں جنھیں شافعی اور سلفی استعمال کرتے ہیں وہ اصل میں امام اور تنہا نماز پڑھنے والوں کے لیے ہیں۔ 

عن أبي موسى قال علمنا رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إذا قمتم إلى الصلاة فليؤمكم أحدكم وإذا قرأ الإمام فأنصتوا

ترجمہ: ابو موسی اشعری کہتے ہیں کہ نبی ﷺ ہمیں سکھایا کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوں تو ہم میں سے ایک امامت کرے اور جب امام تلاوت شروع کرے تو اسے خاموشی سے سنیں۔ (مسند امام احمد 4/415 حدیث نمبر 19738) 

شیخ شعیب الارناؤوط اس حدیث کے بعد کہتے ہیں: 

إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين غير علي بن عبد الله: وهو المديني فمن رجال البخاري

ترجمہ:  اس کی سند صحیح ہے۔ اس کے سارے کے سارے راوی ثقہ ہیں اور بخاری اور مسلم کے راوی ہیں سوائے علی بن عبداللہ المدینی کے جو بخاری کے راوی ہیں۔ 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏"‏مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ ‏"‏ 

ترجمہ: رسول الله ﷺنے فرمایا: جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔ (سنن ابن ماجہ 850، اس کو سلفی دار السلام والوں نے ضعیف 
کہا جو غلط ہے) 

امام طحاوی (رحمہ اﷲ) نے اسے شرح معانی الآثار میں مختلف طرق سے روایت کیا۔ لہٰذا یہ حدیث ضعیف نہیں ہو سکتی۔ (شرح معانی الآثار 1/217 حدیث نمبر 1192 - 1197)

امام محمد بن حسن الشیبانی (رحمہ اللہ) نے اسے موطا امام محمد میں بالکل صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 117۔

ناصر الدین البانی جو سلفیوں کے ہاں مانے جانے والے محدث ہیں۔ انہوں نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔ انہوں نے اسے صحیح لغیرہ اپنے آڈیو بیان میں کہا جو youtube پر موجود ہے جسے كان له إمام فقراءة الإمام له قراءۃ " ٹائپ کرنے پر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

البانی صاحب نے کہا اس کے کئی طرق (لڑیاں) ہیں جو اس روایت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں ایک مرسل صحیح حدیث بھی موجود ہے۔ 

شیخ شعیب الارنا ؤوط نے اس حدیث کے بارے میں کہا: 

وهو حديث حسن روي عن جماعة من الصحابة منهم جابر بن عبد الله

ترجمہ: یہ حدیث حسن ہے اور اس کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے جس میں جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بھی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل تحقیق شیخ شعیب 2/240 حدیث نمبر 7268) 

ایک اور روایت ، جس میں چپ رہنے کے الفاظ ہیں چاہے بلند آواز میں نماز پڑھ رہے ہوں یا خاموشی سے:
 
حدّثنا وَكِيع عن الضحاك بن عُثمان عن عَبدِ الله بن يَزيد عن ابن ثوبان عن زَيد بن ثَابت قال: لا يقرأ خلف الإمام إن جهر ولا إن خافت.

ترجمہ: زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے کہا: امام کے پیچھے (کوئی) تلاوت نہیں چاہے وہ بلند آواز والی نماز میں ہو یا خاموشی سے پڑھے جانے والی نماز (مصنف ابن ابی شیبہ 1/413)

اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں سوائے ضحاک بن عثمان کے جس پر جرح ہے مگر وہ جرح مبہم ہے۔

ضحاک بن عثمان کو جمہور نے ثقہ کہا ہے اس بناء پر اس سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے۔ 

حدثنا يونس قال ثنا بن وهب قال أخبرني حيوة بن شريح عن بكر بن عمرو عن عبيد الله بن مقسم أنه سأل عبد الله بن عمر وزيد بن ثابت وجابر بن عبد الله فقالوا لا تقرؤوا خلف الإمام في شيء من الصلوات

ترجمہ: عبید اللہ بن مقسم نے عبدللہ ابن عمر، زید ابن ثابت اور جابر بن عبداللہ سے پوچھا اور انہوں نے کہا :امام کے پیچھے نماز میں کچھ نہ پڑھو(شرح معانی الآثار امام طحاوی1/219حدیث نمبر 1211) ۔ 

 امام الحافظ النیموی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا۔ (آثار السنن حدیث 368 صفحہ 139) 

دّثنا الفضل عن زُهير عن الوليد بن قيس قال: سألت سويد بن غفلة: أقرأ خلف الإمام في الظهر والعصر؟ فقال:لا 

ترجمہ : ولید بن قیس نے سوید بن غفلہ سے پوچھا: کیا امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی نماز میں قرآت کرنی چاہیے جس پر انہوں نے جواب دیا : نہیں ! (مصنف ابن ابی شیبہ 1/413)۔

 ظفر احمد عثمانی دیوبندی نے اس کی سند کو صحیح کہا اور یہ ثابت کیا کہ سوید بن غفلہ صحابی ہیں۔ (اعلاء السنن 4/102 , 103)

حدّثنا محمد بن سُليمان الأصبهاني عن عَبدِ الرحمٰن الأصبهاني عن ابن أبي ليلى عن عليّ قال: من قرأ خلف الإمام فقد أخطأ الفطرة 

ترجمہ: حضرت علی نے فرمایا جس نے بھی امام کے پیچھے قرآت کی تو وہ فطرت پر نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/413)۔ یہ روایت ابن ابی لیلیٰ کی وجہ سے ضعیف ہے مگر یہ صرف صحیح روایت کی موافقت میں دکھائی گئی ہے۔ 

حدّثنا أبو بكرة، قال: ثنا أَبو داود قال: ثنا خديج بن معاوية، عن أَبي إسحاق ، عن علقمة، عن ابن مسعود قال: ليت الذي يقرأ خلف الإمام مُلِىءَ فوه تراباً

ترجمہ: علقمہ نے ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی جنہوں نے کہا: اس شخص کا چہرہ خاک آلود ہو جو امام کے پیچھے قرآت کرے۔ (شرح معانی الآثار امام طحاوی 1/219)۔ 

 امام الحافظ النیموی نے اس کی سند کو حسن کہا۔ 
(آثار السنن حدیث 370 صفحہ 140)

جب یہ بات کثیر صحابہ سے ثابت ہو چکی کہ کسی بھی نماز میں قرآت کرنا جائز نہیں تو پھر یہ حکم حتمی طور پر قائم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات رسول اللہ علیہ السلام سے بھی ثابت ہے کیوںکہ اتنے کثیر صحابہ خود سے یہ نہیں کہہ سکتے۔ 

اس کے علاوہ اور بھی کئی ثبوت پیش کیے جاتے ہیں حنفیوں کی جانب سے لیکن ان کو جمع کرنا اس کتاب کے احاطے میں ممکن نہیں۔ 

مالکی مکتبہ فکر کے دلائل موطا امام مالک سے ملتے ہیں اور ایک اور حدیث ہے جو یوں ہے: 

عبدللہ ابن عمر سے جب امام کے پیچھے تلاوت کرنے کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب تم امام کے نماز کے لیے کھڑے ہو تو امام کی قرآت تمہارے لیے کافی ہے اور جب تم خود اکیلے نماز پڑھو تو قرآت تم پر لازم ہے۔ نافع نے مزید کہا : عبدللہ ابن عمر امام کے پیچھے قرآت نہیں کرتے تھے۔ 

یحییٰ نے کہا کہ انہوں نے مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ: ہمارے نزدیک یہ ہے کہ شخص امام کے پیچھے قرآت کرتا ہے جب امام بلند آواز میں تلاوت نہیں کرتا اور وہ شخص امام کے پیچھے قرات نہیں کرے گا جب امام بلند آواز میں تلاوت کرے۔  (موطا امام مالک کتاب 3 حدیث 45)

ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : رسول اللہ نے ایک نماز پڑھی جس میں انہوں نے بلند آواز سے قرات کی، پھر فرمایا: کیا تم میں کسی نے میرے ساتھ قرآت کی؟ ایک شخص نے کہا : ہاں یا رسول اللہ ، جس پر انہوں نے فرمایا: میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا چیز میری قرآن کی تلاوت سے توجہ پھیر رہی ہے۔ سو لوگوں نے اس نماز میں بلند آواز میں قرآت کرنا چھوڑ دیا جس میں وہ رسول اللہ کو بلند آواز میں قرآت کرتا سنتے تھے" (سنن نسائی جلد 2 کتاب 11 حدیث نمبر 920 )۔ اس کو سلفی دار السلام نے صحیح کہا ہے۔ 

شافعی اور سلفی مکتبہ فکر مندرجہ ذیل ثبوت کی پیروی کرتے ہیں: 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی (صحیح بخاری 756) 

اس کے علاوہ اور بھی احادیث موجود ہیں جو یہ استعمال کرتے ہیں مگر یہ والی حدیث ان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ لوگ اس حدیث کے معنی عمومی طور پر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ امام کے پیچھے ہر نماز میں قرآت کرنا ضروری ہے۔

حنفی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف امام اور ان کے لیے ہے جو خود سے اکیلے نماز پڑھتے ہیں جیسے باقی روایات سے ثابت ہوتا ہے جو اس روایت کو سمجھاتی ہیں۔
 
سلفی ایک اور حدیث کو ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس میں ہے کہ: 

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہو گئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: ”مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورۃ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے“۔ (جامع ترمذی حدیث 311 جس کو سلفی دار السلام نے صحیح کہا جو غلط ہے)۔ 

یہ حدیث ضعیف ہے کیوں کہ ابن اسحاق  پر شدید جرح ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس کو دجال کہا اور اس پر سخت جرح کی گئی ہے۔ (تھذیب التھذیب ابن حجر عسقلانی جلد 9 حرف ' م ' کے نیچے راویان"
 
سلفی سنن نسائی سے ایک ضعیف روایت مطابعت میں پیش کرتے ہیں جس میں نافع بن محمود" راوی موجود ہے ( سنن نسائی جلد 2 کتاب 11 حدیث 921) جس کو سلفی دار السلام نے صحیح کہا ہے جو کہ غلط ہے۔ البتہ البانی صاحب نے اسے نسائی اور ابو داؤد کی تخریج میں ضعیف کہا ہے۔ 

جمہور محدثین نے نافع بن محمود کو مجہول کہا ہے۔ کچھ نے اس پر جرح کی ہے کہ اس کی روایت میں خرابی ہوتی ہے۔ (سنن بیہقی جواھر النقی 2/165 طبع دارالفکر) (میزان الاعتدال الذهبی 7/7 راوی نمبر 9002 طبع دارالکتب العلمیه) ( التمہید لابن عبدالبر 11/46 ) وغیرہ۔ 

شافعی، سلفی کچھ موقوف حدیث استعمال کرتے ہیں (جیسے کہ ابو ہریرہ سے صحیح مسلم : 775) اور انس (رضی اللہ عنہ) مرفوع روایت کہ شخص کو چاہیے کہ وہ دل میں سورۃ فاتحہ کی قرآت کرے (مسند ابو یعلیٰ 2805)۔ اگرچہ یہ روایات قران کے خلاف جاتی ہیں (7:204) اور لفظ قرآت کا معنی ہے صرف زبان سے تلاوت کرنا۔ (تو دل میں پڑھنے کو قرآت کہنا عقلی طور پر غلط ہوگا)۔ اس کے علاوہ موخر الذکر حدیث میں دو مدلسین موجود ہیں (ایوب سختیانی اور ابو قلابہ) اور یہ دونوں ' عن ' سے روایت کر رہے ہیں۔ 

الذھبی میزان الاعتدال میں ابو قلابہ کے بارے میں کہتے ہے : یہ ثقہ ہے مگر یہ ان لوگوں سے تدلیس کرتا ہے جن سے یہ ملا ہے اور جن سے نہیں ملا۔ اس کے علاوہ ایک اور صحیفہ اس راوی سے مروی ہے جس میں اس نے تدلیس کی ہے ۔(میزان الاعتدال 4/115 اردو طبع مکتبہ رحمانیہ) 

اس حدیث میں اضطراب بھی موجود ہے۔ کافی احادیث اس پر ختم ہوتی ہیں: 

ایسا نہ کرو ( یعنی امام کے پیچھے قرآت) اور ایسے الفاظ کہ " الفاتحہ کو دل میں پڑھو" موجود نہیں۔ (شرح معانی الآثار امام طحاوی 1/218 نمبر 1201 دار الکتب العلمیہ)۔ 

اس وجہ سے حافظ النیموی نے کہا کہ امام البیہقی نے اس روایت کو ناقص قرار دیا ہے کیوں کہ اس کی سند محفوظ نہیں ہے۔ ( امام النیموی آثار السنن حدیث 355 صفحہ 134-135 عربی اور اردو طبع شبیر برادرز اردو بازار لاہور پاکستان)۔

سب سے بڑھ کر، یہ رائے چاروں مکاتب فکر کی ہے سلفیوں سمیت کہ جو شخص رکوع کے دوران شامل ہوا اس نے نماز پا لی۔ جب رکوع میں نماز میں شامل ہونے سے آپ کی نماز باطل نہیں ہوتی تو پھر امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرآت کیسے ضروری ہو سکتی ہے چاہے بلند آواز میں ہو یا خاموشی سے؟ ایک حدیث ہے: 

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ( نماز پڑھنے کے لیے ) گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ ( صحیح بخاری 783)۔ 

سلفی یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے انہیں دوبارہ کرنے سے منع فرما دیا تو یہ بار بار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم اسے غور سے پڑھیں تو نبی (ﷺ) نے یہ بغیر شامل ہوئے رکوع میں جانے کے لیے فرمایا نہ کہ رکوع میں رکعت میں شامل ہونے کے لیے۔ نبی (ﷺ) نے ان کی نماز کو صحیح کہا، اگر فاتحہ کی تلاوت کرنا واجب ہوتا تو نبی ان کا رکوع میں شامل ہونے کو غلط قرار دیتے۔ 

اس کے علاوہ اور بھی موقوف روایات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ رکوع میں نماز میں شامل ہونے سے نماز ہو جاتی ہے۔

 ایک صحیح روایت میں آیا ہے کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : جو شخص امام کے ساتھ نہ شامل ہو جب وہ رکوع میں ہو تو اس شخص کی وہ رکعت نہیں ہوئی۔ (اس کو البیہقی نے روایت کیا اور البانی نے صحیح کہا (ارواء الغلیل 2/262)۔
 
ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ شامل ہو جائے جب وہ رکوع میں ہو اور اس کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع میں چلا جائے تو اس کی رکعت ہوگئی۔ (اسے البیہقی نے روایت کیا اور البانی نے صحیح کہا ارواء الغلیل 2/263 )۔

اسی طرح کی روایات ابو بکر ، زید بن ثابت ، اور عبدللہ ابن زبیر سے آئی ہیں۔ (ارواء الغلیل 2/264 سلفی ویب سائٹ :islamqa.info/en/45494]

شیعہ کا یہ موقف ہے کہ امام فاتحہ پڑھے اور مقتدی خاموش رہے۔ آیت اللہ سیستانی کے مطابق فجر ، مغرب اور عشاء کی نماز میں قرآت کریں اگر امام کی آواز سنائی نہ دے۔ البتہ ظہر اور عصر کی نماز میں مقتدی نہیں پڑھے۔ یہ نظریہ حنفی مکتبہ فکر کے بہت قریب ہے۔ 

آج کل کے ممتاز شیعہ فقیہ آیت اللہ علی السیستانی نے کہا: 

 اگر مقتدی امام کی سورۃ الحمد اور سورۃ فجر، مغرب اور عشاء کی پہلی اور دوسری رکعت میں سن لیں تو ان کو خود قرآت نہیں کرنی چاہیے، یہاں تک کہ وہ الفاظ کے بیچ فرق بھی نہ کر پا رہا ہوں۔ اور اگر وہ امام کی آواز نہ سنین تو یہ مستحب ہے کہ وہ سورۃ الحمد اور سورۃ خاموشی سے پڑھے۔   اگر وہ غلطی سے بلند آواز میں پڑھ لے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ (السیستانی کتاب توضیع المسائل ) 

مفاہمت: یہ سارے نظریات قوى دلائل پر مبنی ہیں۔ لہٰذا ان سب کی عزت کرنی چاہیے۔ مصنف کے مطابق، حنفی نظریہ سب سے مضبوط ہے جو قران اور صحیح احادیث کے مطابق ہے۔ شیعہ نظریہ بھی حنفی نظریہ کے قریب تر ہے۔ مالکی نظریہ بھی کافی قوی ہے کہ قرآت اس وقت کی جائے جب بلند آواز والی نماز نہ ہو اور اس وقت نہ کی جائے جب بلند آواز والی نماز پڑھی جا رہی ہو۔ البتہ اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ ان ممالک میں جہاں پر کوئی ایک مکتبہ فکر اکثریت میں موجود ہو تو ہمیں اسی مکتبہ فکر کی پیروی کرنی چاہیے۔ تاکہ کوئی تنازع یا اختلاف پیدا نہ ہو۔ مثال کے طور پر پاکستان اور بھارت وغیرہ میں حنفی مکتبہ فکر اکثریت میں ہے تو اُسی کے مطابق چلنا چاہیے۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں