Knowledge of Unseen (In the light of Quran and Sunnah)

علم غیب (قرآن و سنت کی روشنی میں)

Article Bottom

علم غیب (قرآن و سنت کی روشنی میں)

 یہ مسئلہ اہل سنت، سلفیوں اور دیوبندیوں کے درمیان گرما گرم بحث پر مبنی ہے۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا بے پناہ علم دیا گیا ہے۔ تاہم ان کا عقیدہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا علم "عطا شدہ" "جزوی" اور "غیر مستقل" ہے جبکہ اللہ کا علم "ذاتی" "مکمل" اور "مستقل "ہے۔

 دوسری طرف سلفی اور دیوبند اس سلسلے میں  بالکل متضاد بیانات دیتے ہیں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب بالکل نہیں تھا، لیکن جب دلائل سامنے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جو کچھ وہ غیب کے بارے میں جانتے تھے، وہ صرف ان کی طرف وحی تھا۔

اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب کو وحی سے جانتے تھے نہ کہ خود سے، اس لیے یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔

اہل سنت جو دلائل نقل کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

قرآن کہتا ہے: اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھائی کہ وہ یقین کے ساتھ ایمان والوں میں سے ہیں۔ [سورہ انعام: 75]

اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر (علیہ رحمہ) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

فإنه تعالى جلا له الأمر سره وعلانيته، فلم يخف عليه شيء من أعمال الخلائق

ترجمہ: اللہ نے پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کو (ابراہیم علیہ السلام) پر ظاہر کیا اور مخلوق کے اعمال میں سے کچھ مخفی نہ رہا۔[تفسیر ابن کثیر]

 امام طبری (علیہ رحمہ) اس آیت کی تفسیر یوں کرتے ہیں:

حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، عن القاسم بن أبي بزة، عن مجاهد، قوله: وكذلك نرى إبراهيم ملكوت السموات والأرض قال: فرجت له السموات فنظر إلى ما فيهن حتى انتهى بصره إلى العرش وفرجت له الأرضون السبع .فنظر ما فيهن

ترجمہ: مجاہد (علیہ رحمہ) نے کہا: ابراہیم (علیہ السلام) نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کو دیکھا اور انہوں نے "ان سب چیزوں کو دیکھا جو ان کے درمیان ہے، اس حد تک کہ انہوں نے عرش کو دیکھا، سات زمینوں اور تمام چیزوں کو بھی دیکھا ۔جو ان کے درمیان میں ہیں۔(تفسیر الطبری)

قرآن نے موسیٰ اور خضر کے درمیان ہونے والے حیرت انگیز واقعہ کا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دوستوں کو علم غیب دیا گیا ہے۔ سورہ کہف (18)، آیت 60-82 سے مکمل واقعہ پڑھیں۔ میں یہاں اہم آیات کا ذکر کروں گا:

فوجدا عبدا من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علما

اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جس پر ہم نے اپنی رحمت نازل کی تھی اور جسے ہم نے اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا (ترجمہ ابوالاعلیٰ مودودی: سورۃ کہف:65)

پھر قرآن نے اس تفصیلی اور خوبصورت واقعہ کا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خضر علیہ السلام کوغیب کا علم دیا گیا تھا۔

سورہ کہف:71 میں ذکر ہے کہ خضر علیہ السلام نے اس کشتی میں سراخ کیا جس پر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چڑھے موسیٰ علیہ السلام  نے خضر علیہ السلام  سے اس کے بارے سوال کیا تو خضر علیہ السلام  نے آیت:79 میں جواب دیا کہ یہ کشتی ان غریب لوگوں کی تھی جو سمندر پر کام کرتے تھے ظالم بادشاہ ہر اچھی کشتی کو چھین لیتا تھا۔

سورہ کہف:74 میں ذکر ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ایک بچے کو قتل کرتے ہیں تو موسیٰ علیہ السلام  ان سے دوبارہ سوال کرتے ہیں انہوں نے ایک پاک بچے کو کیوں قتل کیا خضر علیہ السلام  آیت :80 میں وجہ بتاتے ہیں کہ بچے کے والدین مومن ہیں جبکہ بچہ بڑا ہو کر اپنے کفر سے ان کو اپنی طرف مائل کرے گا۔ (یعنی بچہ بڑا ہو کر کافر بن جائے گا)

سورہ کہف:77  میں ذکر ہے کہ وہ ایک بستی کے پاس  آئے جہاں کے لوگوں نے انہیں کھانا نہیں دیا لیکن پھر بھی خضر علیہ السلام نے ان کی ایک گری ہوئی دیوار کو درست کر دیا۔ دوبارہ موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے تو خضر علیہ السلام نے آیت:82 میں وجہ بتائی کہ یہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے خزانہ تھا۔

یہ اقتسابات قرآن سے ثابت کرتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کو علم غیب دیا گیا تھا اس پر اختلاف ہے کہ یہ ولی یا نبی ہیں جمہور کا موقف یہ ہے کہ وہ ولی تھے۔ اب وہ لوگ جو انبیاء علیہ السلام  کے علم غیب کا انکار کرتے ہیں ان کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اللہ عزوجل علم غیب کوا پنے اولیاء کرام کو بھی دیتا ہے چہ جائے کہ انبیاء علیہم السلام کی ذات مقدسہ کو

اس اگلی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنے رسولوں میں سے چن لیتا ہے جنہیں وہ غیب کا علم عطا کرنا چاہے۔

ترجمہ: جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑدے گا جب تک کہ  پاک  اور  ناپاک  کو  الگ  الگ نہ کردے ، اور نہ اللہ تعالٰی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے  آگاہ  کر دے ، بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لیتا ہے ، اس لئے تم اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ، اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے ۔(سورہ آل عمران آیت # 179)

قرآن کہتا ہے: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ سوائے اس  پیغمبر  کے جسے وہ  پسند  کر لے لیکن اس کے بھی آگے  پیچھے  پہرے دار  مقرر  کر دیتا ہے ۔ (سورہ جن، آیات 26 تا 27)

قرآن کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ علم غیب انبیاء کو دیا گیا تھا، جیسے قرآن کہتا ہے:

۔۔۔اللہ تعالٰی نے تجھ پر  کتاب  و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا (سورہ نساء آیت # 113)

  
تفسیر الجلالین میں اس کی یوں تفسیر کی گئی ہے:

 {وعلمك ما لم تكن تعلم } من الأحكام والغيب

ترجمہ: (اور تمہیں وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے۔)احکام اور غیب کی باتیں

امام خازن (علیہ رحمہ) اس کی وضاحت کرتے ہیں:

 { وعلمك ما لم تكن تعلم } يعني من أحكام الشرع وأمور الدين وقيل علمك من علم الغيب ما لم تكن تعلم وقيل معناه وعلمك من خفيات الأمور وأطلعك على ضمائر القلوب وعلمك من أحوال المنافقين وكيدهم ما لم تكن تعلم

ترجمہ: {اور تمہیں وہ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے} یعنی شریعت اور دین کے احکام اور اسے غیب کا علم کہا جاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جو دلوں میں تھا اور آپ کو منافقوں کی چالیں اور چالاکیاں بتائیں جن سے آپ واقف نہیں تھے۔

امام بغوی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہیں:

 وعلمك ما لم تكن تعلم من الأحكام، وقيل: من علم الغيب

ترجمہ: {اور تمہیں وہ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے} یہ احکام ہیں اور کہا جاتا ہے یہ علم غیب ہے۔

امام اسماعیل الحقی رحمہ اللہ نے روح البیان میں اس کی وضاحت کی ہے۔

{ وعلمك } بالوحي من الغيب وخفيات الامور { ما لم تكن تعلم } ذلك الى وقت التعليم

ترجمہ: اور اللہ نے تمہیں وحی کے ذریعے غیب اور پوشیدہ امور سکھائے اور اس وقت تک آپ نہیں جانتے تھے جب تک اللہ نے آپ کو نہیں سکھایا تھا۔

قرآن اپنی بہترین تفسیر ہونے کے ناطے کہتا ہے: 

ایک دن ہم تمام لوگوں میں سے ان کے خلاف ان میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے۔ہم آپ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے آپ پر ہر چیز کی وضاحت کرنے والی کتاب نازل کی ہے، مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ (سورہ النحل:89)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے قرآن کو اچھی طرح جانتے تھے اور قرآن کی مذکورہ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر چیز کی وضاحت کرتا ہے لہٰذا نبی کریم علیہ السلام کو كلی علم نوازا گیا۔ 

 قرآن سورۃ التکویر: 24 میں کہتا ہے:

وما هو على الغيب بضنين

اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم الغیب سکھانے میں بخیل نہیں ہیں۔

قرآن میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ علم غیب انبیاء اور دیگر کو عطا کیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں احادیث کی طرف:

حدیث نمبر 1

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کی کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو ، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا ، جب میں ان میں کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے (حوالہ صحیح بخاری 6604)

یہ حدیث واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ نبی اکرمﷺ مخلوق کے شروع ہونے سے لے کر آخر تک علم رکھتے ہیں۔

حدیث2:

سیدنا ابن الخطاب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے ممبر پہ کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا کہ ابتداء خلق کے بارے خبر دی (اور ہر چیز کے بارے میں کلام کیا) یہاں تک کہ جنت والے اپنے مقامات میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ  جائیں  گے   (وہاں   تک   ساری  تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔(صحیح بخاری:3192)

یہ حدیث بھی نبی کریم علیہ السلام کا وسیع علم غيب ثابت کرتی ہے۔ نبی کریم کو شروع سے لے کر قیامت تک کے احوال معلوم تھے۔ 

حدیث 3:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  نے خبر دی کہ نبی کریمﷺ سورج ڈھلنے کے ساتھ باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر سلام پھیر نے کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور اور آپ علیہ السلام  نے فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے آج مجھ سے جو بھی سوال کرو گے میں اس کا جواب دوںگا جب تک میں اپنی جگہ پر ہوں انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پہ لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور حضور علیہ السلام بار بار وہی فرماتے مجھ سے سوال  پوچھو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک اور بندہ کھڑا ہوا میری جگہ کہاں ہے (جنت یا جہنم میں) یا رسول اللہ! حضور علیہ السلام  نے فرمایا جہنم میں پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہﷺ آپ نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں بیان کیا کہ آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھو آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل  بیٹھ کر فرمایا ہم اللہ عزوجل سے رب کی حیثیت سے اسلام سے دین کی حیثیت سے محمد ﷺ سے رسول کی حیثیت سے راضی اور خوش ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلام کہے تو حضور علیہ السلام خاموش ہو گئے پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ابھی مجھ پر جنت اور دوذخ اس دیوار کی چوڑائی کے برابر میرے سامنے کی گئی تھی جب میں نماز پڑھ رہا تھا آج کی طرح میں نے خیر و شر کو نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری:7294)

حدیث نمبر 4

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ابو بکر، عمر اور عثمان کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے۔ پہاڑ   ان  کے  ساتھ  ہل  گیا۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاوں سے ٹھوکر مار کر فرمایا تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں سے زیادہ کوئی نہیں۔ (صحیح بُخاری # 3675)

اس حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر اور عثمان رضى اللہ عنہم کی شہادت کا پہلے سے علم تھا۔

حدیث نمبر 5

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے جعفر بن ابو طالب اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر پہلے ہی صحابہ کرام کو سنا دی تھی اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(حوالہ:صحیح بخاری3630)

 اس زمانے میں ٹیلی فون، ٹیلی ویژن یا ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی، اس لیے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب دیا گیا تھا۔

جامع ترمذی میں تین صحیح احادیث ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلی علم غیب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

حدیث نمبر 6، 7 اور 8

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا رب میرے پاس بہترین صورت میں آیا" - راوی نے کہا:میں نے سوچا کہ شاید خواب میں اور مجھ سے پوچھا کہ مجلس اعلیٰ کیا ہے (المالا) میں نے کہا میں نہیں جانتا تو انہوں نے اپنا دستِ قُدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنے باطن میں محسوس کیا اور میں جان گیا جو مشرق اور مغرب کے درمیان تھا۔

الترمذی نے روایت کی ہے (کتاب 47، حدیث3233 تا 3235): دو ابن عباس کے طرق سے ہیں جس میں سے پہلی والی میں ہے کے میں جان گیا کہ آسمانوں اور زمین میں کیا ہے۔  اور دوسری میں مشرق اور مغرب کا ذکر ہے۔

اور معاذ رضى اللہ عنہ والے طرق جس میں مزید صراحت کے ساتھ ذکر ہے:

فتجلى لي كل شيء وعرفت

 تب مجھ پر سب کچھ روشن ہو گیا اور میں نے سب کچھ پہچان لیا! 

امام ترمذی نے اس حدیث کے بعد فرمایا:

قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. سألت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث فقال هذا حديث حسن صحيح

ترجمہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔
 
 ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں اپنے استاد امام بخاری سے سوال کرنے کا ذکر کیا ہو۔ وہ اس حدیث میں اس کی مضبوطی سے تصدیق کرتے ہے۔

ان احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیب کا بے پناہ علم اس حد تک ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرق سے مغرب تک تمام چیزوں اور ، زمین و آسمان کی ہر چیزکو جانتےتھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر چیز روشن تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر چیز کو پہچانتے تھے۔

حدیث نمبر 9

ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور احد کے شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور کہا، "میں آپ کے پیش رو کے طور پر آپ کے لیے راہ ہموار کروں گا" اور آپ پر گواہ ہوں گا" اللہ کی قسم! میں نے ابھی اپنا حوض (کوثر) دیکھا ہے اور مجھے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ (یا زمین کی کنجیاں) اللہ کی قسم! میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میری موت کے بعد تم اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرو گے، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم دنیاوی چیزوں کے لیے راغب ہو گئے (یعنی آخرت سے غافل ہو جاؤ گے۔ )(صحیح بخاری:1344)

یہ حدیث بلا شبہ ثابت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو "زمین کے خزانوں کی تمام کنجیاں" دی گئی ہیں۔

آئیے ایک حدیث دیکھتے ہیں جو واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دور اندیشی اور مستقبل کے علم کو ثابت کرتی ہے۔

حدیث نمبر 10

حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے صرف چوری کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مار ڈالو“۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس نے صرف (کچھ) چوری کی ہے، آپ نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اس نے دوبارہ چوری کی، اس کا پاؤں کاٹ دیاگیا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں چوری کی۔ ، یہاں تک کہ اس کے چاروں ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے، پھر اس نے پانچویں مرتبہ چوری کی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں بہتر جانتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اسے قتل کر دو۔ پھر آ پ نے اسے قتل کرنے کے لیے قریش کے چند نوجوانوں کے حوالے کر دیا، جن میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو قیادت کے عہدے پر رہنا پسند کرتے تھے۔ انہوںنے کہا: ”مجھے ان کا ذمہ دار بنا دو،“ تو انہوں نے اسے  مقرر کر دیا اور جب وہ اسے مارتا تو وہ بھی اسے مارتے، یہاں تک کہ  اسے قتل کر دیا۔ [سنن نسائی حدیث 4980۔ اس حدیث کو دارالسلام والوں نےصحیح قرار دیا ہے]

اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب کا دیا جانا واضح طور پر ثابت ہے۔ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا کیونکہ پہلے سے آپ جانتے تھے کہ وہ مزید چوریاں کرتا رہے گا۔

حدیث نمبر 11 اور 12

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم الغیب کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "عباس سے ان کی رہائی کے بدلے میں فدیہ لیا جب وہ بدر کی لڑائی کے بعد پکڑے گئے تھے، تو انہوں نے کہا، تم نے مجھے ساری زندگی قریش کا فقیر بنا دیا ہے!" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ تم قریش کے فقیر کیسے ہو سکتے ہو جب تم نے ام الفضل کے پاس سونے کی ڈلییاں جمع کرائیں اور ان سے کہا کہ اگر میں مارا گیا تو میں تمہیں عمر بھرکے لئے امیر چھوڑ کر جاؤں  گا؟ اس پرعباس نے کہا کہ یہ بات میرے اور اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (روایت ابن عباس سے ابونعیم دلائل النبویہ صفحہ 476 تا 477، حدیث # 409، 410)

 اس کی دو حسن اسناد ہیں۔۔۔۔  دیکھیے ابن حجر، فتح الباری (ج، 7صفحہ، 322)

قال ما ذاك عندي يارسول الله قال: «فأين المال الذي دفنته أنت وأم الفضل فقلت لها إن أصبت في سفري هذا ، فهذا المال الذي دفنته لبني الفضل وعبد الله وقثم» قال: والله يارسول الله إني لأعلم أنك رسول الله إن هذا لشيء ما علمه أحد غيري وغير أم الفضل فاحسب

ابن کثیر نے ایک اور روایت کا ذکر کیا ہے جس میں عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: میرے پاس فدیہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا وہ رقم کہاں دفن ہے جس کا تم نے ام الفضل کو کہا تھا کہ اگر میرے سفر کے دوران مجھے کچھ ہو جائے تو اس رقم کو میرے دونوں بیٹوں الفضل اور قثم کے لیے استعمال کرنا۔۔عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اپ اللہ کے رسول ہیں! اس کو اور کوئی نہیں جانتا سوائے میرے اور ام الفضل کے۔(ابن کثر نے تفسیر ابن کثیر میں سورہ انفال :70کے تحت)

حدیث نمبر 13

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا چہرہ قبلہ کی طرف ہے، (نماز میں) اللہ کی قسم مجھ سے نہ تمہارا خشوع چھپتا ہے نہ رکوع میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تُم کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ (صحیح بخاری:418)

حدیث نمبر 14

نبی کریم ﷺ کی بعض بیویوں نے آپ سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ سے کون جا کر ملے گی تو آپ نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہو گا ۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کر دیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں ۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی ۔ اور سودہ رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم ﷺ سے جا کر ملیں ‘ صدقہ کرنا آپ کو بہت محبوب تھا ۔(صحیح بخاری:1420)

نوٹ: یہاں امام بخاری سے تسامح ہوا ہے۔ زینب بنت جحش کی بجائے حضرت سودہ کا وصال لکھ دیا

۔
بالکل ایسا ہی ہوا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے معلوم تھا کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں میں سے کون پہلے وفات پائے گی۔ 

حدیث نمبر 15

نبي يرى ما لا يرى الناس حوله ويتلو  كتاب الله في كل مشهد وإن قال في يوم الغد مقالة غائب فتصديقها في اليوم أو في

حسان بن ثابت صحابی کہتے ہیں: وہ نبی جو اپنے ارد گرد وہ سب دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے اور وہ ہر مجلس میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کسی دن کے بارے ایسی بات کہی جسے انہوں نے ابھی تک نہ دیکھا ہو تو جو انہوں نے کہا ہو اس کی کل یا اگلے دن تصدیق ہو جاتی ہے [امام حاکم نے روایت کیا ہے (حدیث نمبر 4274) جہاں امام حاکم نےاسے "صحیح" قرار دیا اور ذہبی نے بھی اس پر اتفاق کیا۔

حدیث نمبر 16

حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمام برائیوں کے سرداروں کے بارے میں بتایا جو قیامت تک ظاہر ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کی تعداد 300 سے زیادہ ہوگی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کے نام، ان کے باپ کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام بھی بتائے" [سنن ابی داؤد 4243]

حدیث نمبر 17

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں موجود تھا ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آ گئے ، جب وہ حضور ﷺ کے قریب ہوئے تو آپ نے فرمایا : اے عثمان ! تجھے قتل کیا جائے گا ، اس وقت تو سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہا ہو گا اور تیرا خون اس آیت فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ( البقرہ : 138 ) [مستدرک حاکم # 4555]

یہ شاندار حدیث نبی کریم علیہ السلام کا کمال علم غيب ثابت کرتی ہے۔ نبی کریم کو پہلے سے ہی معلوم تھا سیدنا عثمان کا خون کس آیت پر گرے گا۔ سبحان اللہ!

حدیث نمبر 18

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت 30 سال رہے گی اور اس کے بعد ملوکیت (یعنی بادشاہت) ہو گی (ترمذی نمبر 2226) (قاضی عیاض) نے فرمایا: یہ بھی اس طرح پورا ہوا جب امام حسن رضی اللہ عنہ تک خلافت قائم رہی۔ پھر بادشاہت کا آغاز امیر معاویہ کی حکومت سے ہوا۔ [شفاء، باب "غیب کی عطا اور مستقبل میں ہونے والی چیزوں کابیان"]

حدیث نمبر 19

امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا یہ بیٹا سید ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔[صحیح بخاری 5.22]

 بلکل ایسا ہوا  اور امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے گروہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صلح کرائی۔ 

 قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کم از کم پچاس احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کی دلیل کے طور پر ذکر کی ہیں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کا وسیع ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔

 کتاب الشفاء، جلد نمبر 1، صفحات: 206-212 کی طرف رجوع کریں۔

آخر میں، ہم اس سے تفصیلی اقتباس کا ذکر کرنا چاہیں گے۔۔۔

الشفاء سب سے بہترین کتاب جو سیرت پر لکھی گئی۔ 

اس میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ نے عنوان کے ساتھ ایک باب بنایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب عطا ہونا اور مستقبل میں ہونے والی چیزوں کا بیان 

قاضی عیاض نے کہا: اس موضوع پر احادیث ایک وسیع سمندر کی مانند ہیں جس کی گہرائی کا پتہ نہیں چل سکتا اور جس کا پانی ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے معجزات کا ایک پہلو ہے جو "یقینی طور پر معلوم ہے" ہمارے پاس بہت سی احادیث ہیں جو (ہم تک متعدد طرق سے پہنچی ہیں) جو ثابت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب دیا گیا ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے (منبر) پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں چھوڑا مگر اس کی وضاحت فرما دی کہ قیامت تک کیا ہو گا، جس نے اسے یاد کیا اس نے یاد رکھا اور جس نے اسے یادنہ کیا۔ بھول گیا اسے بھول گیا۔[قاضی عیاض کا الشفاء، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر206]

اگلے صفحات پر قاضی عیاض (علیہ رحمہ) نے ایسی احادیث کا تذکرہ کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کو ثابت کرتی ہیں۔

اب ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا بے پناہ علم تھا۔ آپ نے تخلیق کی ابتدا سے لے کر آخر تک ہر چیز کا ذکر کیا۔ آ پ جانتے تھے کہ مشرق سے مغرب تک کیا ہے، آسمان اور زمین میں کیا ہے، اور ہر چیز آپ پر روشن تھی۔

تاہم قرآن اور احادیث میں کچھ ایسی آیات ہیں جنہیں سلفی اور دیوبندیوں نے انبیاء علیہم السلام کو دیے گئے علم غیب کی تردید کے لیے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ نقل کرتے ہیں:

 کہہ دو کہ میں اپنے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو بہت زیادہ مال حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں خبردار کرنے والا اور ایمان والوں کے لیے بشارت دینے والاکے علاوہ کچھ نہیں (سورۃ الاعراف آیت # 188)

یہ آیت خود کہتی ہے "سوائے اس کے جو اللہ نے چاہا" اور پھر نبی سے کہا جاتا ہے کہ وہ کہے کہ وہ غیب نہیں جانتے۔ اگر اس آیت کو ظاہری طور پر لیا جائے تو بہت سی آیات اور احادیث جو ہم نے اوپر پیش کی ہیں تو ان میں تضاد ہو گا، جو کے ناممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن اور صحیح احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "ذاتی اور مستقل بذات علم کی نفی کی ہے لیکن اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم کی نہیں۔
ابن کثیر اس آیت کے تحت کہتے ہیں: لیکن وہ صرف وہی جانتا ہے جو اللہ اسے بتاتا ہے [تفسیر ابن کثیر زیر 7:188]

تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اللہ کی عطا سے جانتے ہیں، خود سے نہیں، یعنی وہ صرف وہ جانتے ہیں جو کہ اللہ انہیں عطا کیا۔ 

اس سلسلے میں اہل سنت، سلفی اور دیوبندیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اتنا علم تھا جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔ پھر مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کتنا عطا فرمایا؟

مخالف جماعتیں مسلسل علم کی مقدار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جبکہ سنی اسے جامع ثابت کرتے ہیں۔

مخالفین یہ بھی نقل کرتے ہیں:

کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور وہ نہیں جانتے کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔(سورۃ النمل:65)

یہ آیت بھی اللہ کے ذاتی علم کی بات کر رہی ہے اور اس میں انبیاء علیہم السلام کو علم غیب کی نفی نہیں ہے۔ اگر یہ قبول نہ کیا گیا تو قرآن دیگر آیات سے متصادم ہو جائے گا جیسا کہ ہم نے اوپر دکھایا ہے جیسے: سورہ آل عمران # 179، سورہ انعام آیت # 75، سورہ جن آیات # 26 تا 27، سورہ نساء آیت # 113, سورہ تکویر آیت # 24،  سورہ نحل آیت # 89، سورہ کہف 65 تا 82. اور بہت سی احادیث جو اوپر دکھائی گئی ہیں۔

وہ دوسری آیات بھی استعمال کرتے ہیں جیسے سورۃ انعام: 59 اور وہ احادیث بھی استعمال کرتے ہیں جو نبی کو بعض معاملات کے بارے میں نہ جاننے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ وہ تمام  اس وقت تک کی ہیں جب ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع نہیں کیا گیا تھا، البتہ بخاری، ترمذی اور دیگر احادیث جو اوپر دکھائی گئی ہیں، ان سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا جامع علم دیا گیا ہے۔

پھر 5 چیزیں ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

 بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی  بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی ( بھی ) نہیں جانتا کہ کل کیا ( کچھ ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔۔۔[سورۃ لقمان:34]

اس آیت میں پانچ امور کا ذکر ہے جو یہ ہیں:

1۔  قیامت کب آئے گی؟
2۔  بارش کب ہوگی؟ 
3۔  رحم میں کیا ہے؟
4۔  کل کوئی کیا کمائے گا؟
5. کوئی کہاں مرے گا؟

ہم نے اوپر بہت سی احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم تھا۔ بخاری میں صحیح احادیث کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء تخلیق سے لے کر لوگوں کے جنت یا جہنم میں داخل ہونے تک ہر چیز کی خبر دی۔

اب ان 5 امور کے بارے میں خاص طور پر احادیث زیر بحث آئیں گی۔ ترتیب بدل دی جائے گی، لیکن یاد رہے کہ اگر ان پانچوں میں سے کوئی ایک بھی انبیاء یا اولیاء کے لیے ثابت ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت ان پانچ امور میں سے کسی کے علم کی نفی نہیں کرتی جو انبیاء و صالحین کو دیے گئے ہیں اور نہ ہی اسے کہا جا سکتا ہے یہ شرک یا بدعت ہیں۔ 

1۔  کہاں مرے گا؟

نبیﷺ نے فرمایا:

هذا مصرع فلان قال ويضع يده على الأرض ها هنا وها هنا قال أما ماطأحدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم

ترجمہ: یہ وہ جگہ ہے جہاں فلاں فلاں کو قتل کیا جائے گا۔ آ پ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا (کہا) ادھر ادھر۔ (اور) ان میں سے کوئی بھی اس جگہ سے ہٹ کر نہیں گرا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا تھا۔( صحیح مسلم حدیث نمبر 4394)۔

 اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جنگ بدر میں کفار کی موت کے مقامات کا واضح علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اگر قرآن میں مذکور 5 غیوب میں سے کوئی ایک بھی انبیاء/ اولیاء کے لیے قائم کر دیا جائے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ یقین کرنا نہ شرک ہے اور نہ بدعت ہے کہ اللہ تعالیٰ پانچ چھپی ہوئی چیزوں کا بھی علم دے سکتا ہے۔

2۔  رحم میں کیا ہے؟

جدید سائنس کے مطابق الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے رحم میں بچے کی جنس معلوم کی جا سکتی ہے۔ سلفی پھر تاویل کی طرف دوڑتے ہیں کہ آیت میں رحم میں بچے کی جنس کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ بچہ کیا بنے گا؟ یاد رہے کہ قرآن مطلق طور پر اس کے بارے میں بات کر رہا ہے یعنی بچے کی جنس کا علم شامل ہے۔
آئیے اس سلسلے میں درج ذیل احادیث کو دیکھتے ہیں۔

ام فضل نے کہا: یا رسول اللہ! گویا میں نے (خواب میں) آپ کا ایک عضو اپنے گھر میں دیکھا۔ فرمایا: تم نے جو دیکھا وہ اچھا ہے۔ فاطمہ ایک لڑکے کو جنم دیں گی اور آپ اسے دودھ پلائیں گی۔ فاطمہ نے حسین یا حسن کو جنم دیا اور میں نے انہیں قثم کے دودھ سے دودھ پلایا۔ وہ کہتی ہیں: میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئی اور انہوں نے  اپنی گود میں بٹھایا، بچے نے پیشاب کیا، تو میں نے ان کے کندھے پر مارا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے میرے بیٹے کو تکلیف پہنچائی، اللہ تعالی تجھ پر رحم فرما۔" [سنن ابن ماجہ، حدیث 3923۔ سلفی دار السلام میں اسے "صحیح" قرار دیا گیا ہے]

سلفی اور دیوبندیوں کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب کی تعبیر جانتے تھے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صحیح پیشین گوئی کی تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا"عضو" کا ذکر ہے اور اس سے لڑکا یا لڑکی دونوں مراد ہو سکتے ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر بتایا کہ یہ لڑکا ہو گا۔

اگر سلفی اور دیوبندی اب بھی ضد پر ہیں تو موطا امام مالک کی ایک طویل حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لڑکی کی پیدائش کا پہلے سے علم تھا۔

کتاب نمبر 36، حدیث 40: (موطا امام مالک)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الغابہ میں اپنے مال میں سے بیس اوسق کھجور کے درخت دیئےتھے، جب وہ فوت ہو رہے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میری بچی موت کے بعداس بات سے بڑھ کر اور کوئی ترجیح نہیں ہے کہ، میری موت کے بعدکوئی تم سے زیادہ امیر ہو اور اس سے زیادہ مشکل کوئی بات نہیں ہے کہ میرے مرنے کے بعد تم غریب ہو ۔ میں نے تمہیں کھجور کے درخت دیئےہیں۔ جس کی پیداوار بیس وسق ہے، اگر آپ انہیں کاٹ کر لے لیتے- تو وہ آپ کا ہوتا لیکن آج وہ وارثوں کی ملکیت ہیں اور آپ کے دو بھائی اور آپ کی دو بہنیں ہیں، لہٰذا اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کر دیں۔ عائشہ نے آگے کہا، "میں نے کہا، 'میرے ابا! اللہ کی قسم، اگر زیادہ بھی ہوتا تو میں اسے چھوڑ دیتی، لیکن صرف اسماء بنت ابوبکر ہی میری بہن ہے، میری دوسری بہن کون ہے؟ ابوبکر نے جواب دیا کہ خارجہ کے رحم میں کیا ہے؟ (خارجہ انصار میں سے ابوبکر کے 'بھائی کی بیوی تھیں۔) میرا خیال ہے کہ یہ لڑکی ہونے والی ہے۔

3۔ کل کیا کمائے گا یا کل کیا ہوگا۔

اوپر بہت سی احادیث آچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف یہ کہ کل کیا ہونے والا  ہے بلکہ قیامت تک کی ہر چیز کا بھی علم تھا۔ قرآن ثابت کرتا ہے کہ انبیاء مستقبل کے بارے میں جانتے تھے۔

قرآن کہتا ہے: یوسف نے کہا : تم سات سال تک مسلسل غلہ زمین میں اگاؤ گے۔ اس دوران جو فصل کاٹو، اس کو اس کی بالیوں ہی میں رہنے  دینا، البتہ تھوڑا سا غلہ جو تمہارے کھانے کے  کام  آئے، (وہ نکال لیا کرو۔) پھر اس کے بعد تم پر سات  سال  ایسے آئیں گے جو بڑے  سخت  ہوں گے ، اور جو کچھ ذخیرہ تم نے ان سالوں کے واسطے جمع کر رکھا ہوگا ، اس کو کھا جائیں گے ، ہاں البتہ  تھوڑا  سا حصہ جو تم محفوظ کرسکو گے ، (صرف وہ  بچ  جائے گا) [سورہ یوسف:47 تا 48]

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بتا  دیا تھا کہ اگلے 14 سالوں میں کیا ہونے والا ہے۔

 قرآن یہ بھی کہتا ہے: اے میرے قید خانے کے دو ساتھیو! جہاں تک تم میں سے ایک کا تعلق ہے تو وہ اپنے مالک کو شراب پلائے گا۔ اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا، تاکہ پرندے اس کے سر کو کھائیں، جس معاملے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔(سورۃ  یوسف:41)

واضح طور پر یوسف علیہ السلام آنے والے دنوں کےبارے میں  بتا رہے ہیں کہ لوگ ان دنوں میں کیا کریں گے۔

اس کے علاوہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کل کے بارے میں پہلے سے علم تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ میں کل ایسے شخص (یعنی علی رضى اللہ عنہ) کو جھنڈا دوں گا جسے خیبر میں فتح ملے گی اور جھنڈا حضرت علی کو دیا گیا۔

سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن فرمایا: ”میں کل جھنڈا کسی ایسے شخص کو دوں گا جسے اللہ فتح عطا کرے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے۔ ("صحیح بخاری3009)

اس سے پہلے صحابی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے عقیدہ کے بارے میں ایک حدیث پیش کی جا چکی ہے، انہوں نے کہا:

حسان بن ثابت صحابی کہتے ہیں: وہ نبی جو اپنے ارد گرد وہ سب دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے اور وہ ہر مجلس میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کسی دن کے بارے ایسی بات کہی جسے انہوں نے ابھی تک نہ دیکھا ہو تو جو انہوں نے کہا ہو اس کی کل یا اگلے دن تصدیق ہو جاتی ہے۔

4۔  اس بات کا علم کہ قیامت کب آئے گا۔

ایسی بہت سی احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی بہت سی نشانیوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتایا ہے یعنی امام مہدی کا ظہور، دجال کا آنا اور ایک بڑا دھواں ظاہر ہوگا، یاجوج ماجوج کی تفصیلات، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن اور وقت کا بھی ذکر کیا، صرف ایک چیز کا ذکر نہیں کیا وہ سال ہے! علماء نے وضاحت کی ہے کہ آپ ﷺ نے سال کا ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ قرآن سے متصادم ہوگا جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

یقین رکھو کہ  قیامت کی گھڑی آنے والی ہے۔ میں اس (کے وقت) کو خفیہ رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ ملے (مفتی تقی عثمانی، سورۃ طحہ: 15)

لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کے بارے میں بتایا ہوتا تو ایسا قرآن سے متصادم ہوتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم عطا نہیں کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بائبل ثابت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اس وقت کا علم نہیں تھا۔ مرقس کی کتاب کہتی ہے:

لیکن اُس دن یا گھڑی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے، نہ بیٹا، بلکہ صرف باپ۔ [مرقس 13:32]

ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے برتر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کی تعلیم دینا عیسائیت کے مقابلے میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام ہی افضل ہے اور ہمارے نبی بھی۔

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے بارے میں ہردقیق بات کی تفصیلات جانتے تھے اور یہ ماننا غلط نہیں ہے کہ آپ کو بتایا گیا تھا کہ یہ کب واقع ہوگی۔ یاد رکھیں کہ یہ قطعی عقیدہ میں سے نہیں ہے، اگر کوئی اس بات کا انکار کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم تھا تو ایسا شخص نہ گمراہ  ہوگا چہ جائیکہ کافر۔ کیونکہ بہت سے علماء نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔

اب وہ احادیث  دیکھتے ہیں جو واضح اشارے دیتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت کا علم تھا۔

قیامت کے دن کی حدیث:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن وہ جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن انہیں وہاں سے نکال دیا گیا، اور قیامت جمعہ کے دن کے علاوہ قائم نہیں ہو گی [جامع ترمذی:488۔ اسے سلفی دار السلام میں صحیح قرار دیا گیا ہے]

قیامت کا مہینہ اور دن۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت 10 محرم کو آئے گی [فضائل الاوقات از امام بیہقی، صفحہ نمبر 441]

  قیامت کا وقت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن عصر اور مغرب کی نمازوں کے درمیان قیامت آئے گی [الاسماء وصفات از امام بیہقی، صفحہ نمبر 383]

 اب آئیے اس سلسلے میں بہت سے علماء کی آراء پر نظر ڈالتے ہیں۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کی شرح میں کہا: 

لا يعلم متى تقوم الساعة الا اللہ الا من ارتضی من    رسول فانه من يشاء من غيبيه والولي التابع له ياخذعنه

ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی، سوائے اس کے برگزیدہ رسولوں کے، وہ اپنے غیب کو اپنے رسولوں میں سے کسی پر ظاہر کرتا ہے، لیکن جہاں تک اولیاء کا تعلق ہے تو وہ یہ غیب انبیاء سے حاصل کرتے ہیں۔ [ارشاد السارى شرح صحیح البخاری (7/186)]

امام زرقانی نے امام قسطلانی کی کتاب المواہب کی شرح میں فرمایا کہ قیامت کا علم اور یہ 5 امور جو سورہ لقمان کی آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کو ان 5 کا علم عطا فرمایا لیکن اسے خفیہ رکھنے کا حکم دیا [شرح مواہب الدونیہ، (1/265)] 

 امام الصاوی المالکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

قال العلماء الحق انه لم يخرج نبينا من الدنيا حتي اطلعه علي تلك الخمس، ولكنه أمربكتمها

ترجمہ: علمائے حق کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اس دنیا سے نہیں گئے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پانچ چیزوں سے آگاہ نہ کر دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو (اس علم کو) پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا۔ (تفسیر الصاوی جلد 3صفحہ215)

 امام فخر الدین رازی نے فرمایا:

 اللہ عالم الغیب ہے اور وہ غیب کا اپنا مخصوص علم کسی پر ظاہر نہیں کرتا، البتہ جس سے وہ راضی ہوتا ہے اسے عطا کرتا ہے، جیسا کہ انبیاء [تفسیر الکبیر، (جلد 10صفحہ 678)]

نوٹ:  اللہ کی مخصوص خوبی، یعنی۔ عالم الغیب کا اطلاق اس کے سوا کسی پر نہیں ہو سکتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا۔ امام احمد رضا (علیہ رحمہ) نے سلفیوں اور دیوبندیوں کے پروپیگنڈے کے خلاف خود کہا ہے کہ نبی کو عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا جس طرح محمد عز وجل نہیں کہا جا سکتا۔

اولیاء کے معجزات کے سلسلے میں گمراہ فرقہ معتزلہ کی تردید کرتے ہوئے امام تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا

هوا وقت وقوع القيمة بقرينة السباق ولا يبعد ان يطلع عليه بعض الرسل من الملئكة او البشر فصيح الاستثناء

ترجمہ: جس دن قیامت واقع ہو گی، تو وہ بعید نہیں کہ انسانوں اور فرشتوں میں سے رسولوں کو اس کا علم عطا کیا جائے۔ اس بنا پر اللہ کی طرف سے دی گئی استثناء صحیح ہے۔ (شرح المقاصد، دارالمعارف النعمانیہ (لاہور)، جلد 2، صفحہ 204 تا 205]

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 بعض (علماء) نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو 5 امور کا علم دیا گیا تھا، قیامت کب قائم ہوگی اور روح کے بارے میں بھی، لیکن آپ کو اسے خفیہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ [شرح الصدور، صفحہ نمبر 319، اور خصائص الکبریٰ(2/335)]

 سلفی ایک حدیث کا غلط استعمال کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ جانتے تھے قیامت کب آئے گی۔ 

اسلام، ایمان اور احسان کے بارے میں جبریل علیہ السلام کی حدیث مشہور ہے۔ جبریل علیہ السلام پوچھتے ہیں:

قال يا رسول الله متى الساعة قال " ما المسئول عنها بأعلم من السائل، ولكن سأحدثك عن أشراطها۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب قائم ہو گی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمہیں اس کی نشانیاں بیان کردیتا ہوں [صحیح بُخاری # 4777]

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی کوئی نفی نہیں ہے۔ پیغمبر صرف اس کے بارے میں اپنے علم کو جبرائیل (علیہ السلام) کے برابر قرار دیتے ہیں یعنی دونوں اسے جان سکتے تھے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واضح طور پر یہ کہتے کہ میں نہیں جانتا، یہ کہنے کے بجائے کہ جس سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ جبرئیل علیہ السلام امت کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، اس لیے ان کا "قیامت کب آئے گی" کا سوال پوچھنا بھی اسلامی علم کا حصہ ہے جسے وہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم ہے کہنا شرک یا بدعت ہوتا تو جبرائیل علیہ السلام کبھی یہ سوال نہ کرتے۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے علمائے شریعت نے تاویل کی ہے کہ اوپر کی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم نہیں تھا، تاہم ہم نے دوسرے جید علماء سے متعدد شواہد دکھائے ہیں کہ آپ کو اس کا علم دیا گیا تھا۔ اب دونوں جماعتوں کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ یاد رہے کہ ہم نے بریلوی مکتب فکر کے علماء سے ایک بھی ثبوت نہیں دکھایا۔ سلفى اور دیوبندی بریلویوں پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کب آئے گی اس کا علم تھا۔ 

5.  بارش کب ہو گی؟

موسم کی پیشین گوئی کی تازہ ترین سائنس کے مطابق بارش کا صحیح دن مقرر کرنا تقریباً 90 فیصد درست ہوتا ہے، تو یہ بات نبی کریم ﷺ کے روحانی اور آسمانی علم سے کیوں محروم رہے گی؟

 مخالفین" اس حدیث سے بھی استفادہ کرتے ہیں، یعنی جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلے کا علم نہیں تھا اور وہ وحی کا انتظار کر رہے تھے۔ (صحیح بخاری :4141)

ہم یہ مانتے ہیں کہ نبی خود چیزوں کو نہیں جانتے بلکہ انہیں اللہ کی طرف سے سکھایا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ اگر ہم حدیث کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل میں یقین تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بے گناہ ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کا انتظار کیا تاکہ قرآن کے ذریعے معاملہ قیامت تک بالکل صاف ہو جائے۔

سلفی اور دیوبند کچھ دوسری احادیث بھی استعمال کرتے ہیں، مثلاً وہ حدیث جب یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ روح کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ آپ پر وحی نازل ہوئی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نبی خود سے نہیں جانتے بلکہ اللہ کی عطا سے جانتے ہیں۔ اب روح کی حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا یا نہیں؟ مخالفین کو بہترین جواب یہ ہے کہ آپ کے ابن قیم الجوزیہ جیسے بڑے عالم نے روح پر ایک پوری کتاب لکھی اور اس میں بہت سی حیرت انگیز باتیں ثابت کیں۔ جب آپ کا عالم اس پر پوری کتاب لکھ سکتا ہے تو نبی کریم علیہ السلام کو اس کا دقیق علم کیوں نہیں ہو سکتا۔

مخالفین قرآن کی ایک آیت کا غلط استعمال کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے: وہ تم سے روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم بہت کم دیا گیا ہے۔ (سورۃ  بنی اسرائیل:85)

محسن خان/ہلالی سلفی مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت بڑی بددیانتی کی اور اس کا غلط ترجمہ کیا، وہ ترجمہ ایسے کرتے ہیں:"یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے، جس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے"... (محسن خان/ہلالی: بنی اسرائیل:85)

براہ کرم نوٹ کریں کہ محسن خان / ہلالی نے "یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے، جس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے" کو بریکٹ میں نہیں ڈالا جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے آیت کا براہ راست ترجمہ اس طرح کیا ہے۔

 آیت میں کہیں بھی ایسا نہیں کہا گیا، آیت کے اس حصے کے عربی الفاظ اور لفظ بہ لفظ ترجمہ یہ ہے:

قل الروح من أمر ربي

کہو روح میرے رب کے حکم سے ہے۔

قل مطلب: کہو
  
 الروح مطلب: روح

من  مطلب :سے

 امر مطلب: حکم 

 ربی مطلب: (میرے)رب  
 
محسن/ہلالی نے کیوں غلط ترجمہ کیا بیشک وہ مانتے ہیں کہ نبی روح کی حقیقت کو نہیں جانتے۔ انہیں تب بھی قرآن کے الفاظ میں ردوبدل کا کوئی حق نہیں تھا۔ 

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عظیم تفسیر الکبیر میں روح کے سلسلے  میں فرمائے:

أنه تعالى قال في حقه: { الرحمن۔ علم القرءان} [الرحمن:1، 2]  { وعلمك ما لم تكن تعلم وكان فضل 
الله عليك عظيماً } [النساء: 113] وقال: { وقل رب زدني علماً } [طه: 114] وقال في صفة القرآن: { ولا رطب ولا يابس إلا في كتب مبين} وكان عليه السلام يقول: " أرنا الأشياء كما هي " فمن كان هذا حاله وصفته أنها من المسائل كيف يليق به أن يقول أنا لا أعرف هذه المسألة المشهورة المذكورة بين جمهور الخلق بل المختار عندنا أنهم سألوه عن الروح وأنه صلى الله عليه وسلم أجاب عنه على أحسن الوجوه مع

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا (نبی کے بارے میں) الرحمٰن جس نے قرآن پڑھایا [سورۃ الرحمن:1تا2]، اور آپ کو وہ سکھایا جو آپ (پہلے) نہیں جانتے تھے: اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ [النساء:113] اور کہا: کہو اے میرے رب! مجھے بڑھاؤ علم میں (طہٰ 114) اور قرآن کی خاصیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: زمین کے اندھیروں میں ایک دانہ بھی نہیں اور نہ ہی کوئی تازہ یا خشک (سبز یا مرجھا ہوا) بلکہ ایک واضح ریکارڈ میں لکھا ہوا ہے۔ جو پڑھ سکتا ہے)[الانعام: 59] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مجھےچیزوں کی حقیقت دکھاؤ، تو ایسے شخص کا بیان اور صفت (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بیان سے بہت  بلند ہیں) کہ وہ  اس معاملے (یعنی روح) کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، حالانکہ یہ معاملہ مخلوقات میں سب سے زیادہ مشہور اور مروی   ہے، اور انہوں نے (یعنی یہود) روح کے متعلق جب آپ ﷺ سے دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺنے بہترین جواب دیا۔

پھر فرمایا:

فإذا كانت معرفة الله تعالى ممكنة بل حاصلة فأي مانع يمنع من معرفة الروح.

ترجمہ: جب (نبی) کے پاس اللہ کی معرفت ہے تو (یقینا) روح کی معرفت کیوں نہیں ہوگی! [تفسیر الکبیر]

امام نسفی (علیہ رحمہ) اپنی تفسیر المدارک میں فرماتے ہیں:

كان السؤال عن خلق الروح يعني أهو مخلوق أم لا. وقوله: { من أمر ربي }دلیل خلق الروح فكان هذا جواباً

ترجمہ: سوال روح کی تخلیق کے بارے میں تھا یعنی روح مخلوق ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا امر ربی(یعنی اللہ کا حکم ہے) جو اس کے تخلیق ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا یہ جواب ہوا!

امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 قلت جل منصب النبي وهو حبيب الله وسيد خلقه أن يكون غير عالمبالروح وكيف وقد من الله عليه بقوله وعلمك ما لم تكن تعلم وكان فضل الله عليك عظيما(النساء 113)

ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حبیب اللہ) اللہ کے محبوب ہیں (وسید خلقه) اور تمام مخلوقات کے سردار ہیں۔ آپﷺ کی شان اس  سے بلند ہے کہ آپ کو روح کا علم نہیں تھا کیونکہ اللہ عزوجل نے فرمایا: اور تمہیں وہ سکھا دیا جو تم نہیں جانتے تھے، اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ (النساء 113) [عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 2 صفحہ نمبر 200]

سب سے بڑھ کر قرآن کہتا ہے: اور اللہ تعالٰی ہی کے  پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالٰی کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا  زمین  کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی  خشک  چیز گرتی ہے مگر یہ سب  کتاب  مبین میں ہیں۔ [سورۃ  الانعام:59]

کتاب مبین سے مراد قرآن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے قرآن کے کامل عارف ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گہرائی کے ساتھ مکمل علم کو بطور مخلوق جانتے ہیں۔

انبیاء کا درجہ بہت بلند ہے جبکہ اولیاء اللہ کے بارے میں بھی ایک صحیح حدیث ہے:

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی فراست سے بچو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ پھر تلاوت فرمائی: یقیناً اس میں ہیں دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں (15:75)۔ [جامع ترمذی، حدیث نمبر3127۔ سلفی دارالسلام کی تحقیق میں غلط طور پر ضعیف قرار دیا گیا]

یہ حدیث دوسرے صحابہ سے سند کے ساتھ آئی ہے۔ اس لیے ترمذی میں موجود کو ضعیف قرار دینا سلفیوں کی جہالت ہے۔ انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ یہ صحیح لغیرہ ہے (دوسری احادیث کی وجہ سے مستند ہے)۔ آئیے مختلف صحابی کی ایک اور حدیث دیکھتے ہیں:

وعن أبي أمامة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اتقوا فراسة المؤمن فانه ينظر بنور الله» رواه الطبراني، وإسناده حسن

ترجمہ: ابی امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے، امام ہیثمی نے کہا: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور یہ سند حسن ہے: " [مجمع الزواد (10/473، حدیث نمبر 17940)]

اب احادیث کے مطابق اولیاء اکرام کی یہ حالت ہے۔
 پھر انبیاء کی دور اندیشی اور علم کا تصور کریں!

سلفی اور دیوبندیوں نے کچھ دوسری احادیث بھی استعمال کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض امور کا علم نہیں تھا۔ ان سب کا جواب ایک ہی ہے کہ نبی کو خود معلوم نہیں تھا بلکہ اللہ نے سکھایا تھا۔ ہم اہل سنت نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انبیاء کو علم خود ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ انبیاء کے علم میں تخفیف کرنے والے جو سب سے بڑی دلیل لاتے ہیں وہ یہ ہے:

 عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں اور تم میں سے کچھ آدمی میرے پاس لائے جائیں گے، پھر جب میں انہیں پانی دینے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھ سے دور لے جائے جائیں گے۔ جس پرمیں کہوں گا کہ" اے رب "میرے ساتھی! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے جانے کے بعد انہوں نے کیا کیا، تمہارے بعد دین میں نئی چیزیں داخل کیں۔ [صحیح بخاری 7049]

نبی کے علم میں تخفیف ثابت کرنے کے لیے مخالفین کہتے ہیں، دیکھو دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کچھ لوگوں نے کیا کیا کو نبی کریم کو معلوم نہیں تھا۔ اب اس حدیث کو شیعہ اور سلفی/دیوبندیوں نے غلط استعمال کیا ہے۔ انتہا پسند شیعہ کہتے ہیں کہ بہت سے صحابہ کرام مرتد ہو گئے جیسا کہ اوپر دی گئی حدیث کے بعض طرق میں کہا گیا ہے کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد مرتد ہو گئے معاذ اللہ۔ دوسری طرف سلفی/دیوبندیوں کا کہنا ہے کہ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے اعمال سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے (حالانکہ آپ نے توسل کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیے جانے والے اعمال کے بارے میں صحیح حدیث پڑھی ہے)۔

پہلا جواب یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو ظاہر پر لیا جائے تو اس میں صحابہ شامل ہیں۔ لیکن ہمیں صحابہ کو ان احادیث سے بچانا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہی کیونکہ ایک حدیث میں صحابہ کے بجائے لفظ "امت" کا ذکر ہے [دیکھئے صحیح مسلم نمبر 5684]، اس لیے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب ہے۔ اب آتے ہیں نبی کے علم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں، تو یاد رکھیں کہ لفظ "تم نہیں جانتے" کے بارے میں بھی اضطراب ہے کیونکہ ایک حدیث میں یہ جملہ بالکل نہیں کہا گیا ہے [صحیح مسلم حدیث نمبر 482] جب کہ بعض دوسرے طرق میں ہے "کیا تم جانتے ہو؟ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ کچھ احادیث میں ہے کہ یہ اللہ عزوجل نے کہا (جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے) جبکہ بعض احادیث میں ہے کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ۔ لہٰذا یہ حدیث سنگین مضطرب ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا اور صحابہ کے خلاف بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے بڑھ کر یہ حدیث علم الغیب کے خلاف کیسے دلیل ہو سکتی ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان احادیث کے ذریعے پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ حوض کو ثر پر کیا ہوگا۔ لہٰذا یہ احادیث ثابت کرتی ہیں کہ حضور علیہ السلام پہلے سے جانتے تھے۔ عقل کی بات ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا علم نہیں تھا تو وہ یہ حدیث پہلے سے کیسے بیان کر رہے تھے؟

اگر فرض کر لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے (حالانکہ حدیث خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل کے بارے میں پہلے سے کچھ بتا رہے ہیں) تو آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے:

جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے، جن کے چہرے کالے ہوں گے ان سے کہا جائے گا: کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ پھر کفر کا عذاب چکھو (یوسف علی:سورۃ آل عمران:106)

لہٰذا قرآن سے ثابت ہے کہ مخصوص نشانیاں ہوں گی جن سے لوگ پہچانے جائیں گے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احوال کا علم نہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

قرآن کہتا ہے: (کیونکہ) گنہگار ان کے نشانوں سے پہچانے جائیں گے اور ان کی پیشانی اور پاؤں پکڑے جائیں گے (یوسف علی:سورۃ  الرحمن:41)

قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا، اس لیے وہ نیک اور گناہگار کا فرق بخوبی جان لیں گے-

قرآن کہتا ہے: اور دوسرے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے، ان پر سیاہی چھا جائےگی، یہ اللہ کے منکر اور بدکردار ہوں گے۔ (یوسف علی: سورۃ عبس:40تا42)

قرآن کہتا ہے: جس دن صور پھونکا جائے گا، اس دن ہم گنہگار، خبیث آنکھوں والے (دہشت کے ساتھ) جمع کریں گے۔ (یوسف علی:سورۃ طلحہ102)

بہت سی احادیث ہیں جن سے مومنین اور منکرین کی نشانیاں ثابت ہیں، تو نبی کیسے نہیں جان  سکتے  کہ  وہ  فاسق  کون  تھے ؟ درحقیقت  نبی  انہیں  کچھ  امید  دلانے  کے لیے بلائیں گے لیکن پھر ان کی امید کو مکمل طور پرچکنا چور کرنے کے لیے انہیں پیچھے ہٹا دیں گے۔

مخالفین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بھی استعمال کرتے ہیں کہ:

مسروق نے کہا : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ابوعائشہ ! (یہ مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کوئی بات کہی ، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، میں نے پوچھا : وہ باتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔ انہوں نے کہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو (یہ بات سنتے ہی) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین ! مجھے (بات کرنے کا) موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا :’’ بے شک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا ‘‘ (اسی طرح) ’’ اور آپ ﷺ نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے دیکھا ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :’’ وہ یقیناً جبریل علیہ السلام ہیں ، میں انہیں اس شکل میں ، جس میں پیدا کیے گئے ، دو دفعہ کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا : ایک دفعہ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا ، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا ‘‘ پھر ام المومنین نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا :’’ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ‘‘ اور کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اور کسی بشر میں طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی پیغام لانے والے (فرشتے) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بلاشبہ وہ بہت بلند اور دانا ہے ۔‘‘

 (ام المومنین نے) فرمایا : جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اے رسول ! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہ پہنچایا (فریضہ رسالت ادا نہ کیا) ‘‘
 (اور) انہوں نے فرمایا : اور جو شخص یہ کہے کہ آپ اس بات کی خبر دے دیتے ہیں کہ کل کیا ہو گا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ (اے نبی !) فرما دیجیے ! کوئی ایک بھی جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، غیب نہیں جانتا ، سوائے اللہ کے ۔‘‘ (صحیح مسلم # 439)

یہ سب سے مضبوط دلیل ہے جسے مخالفین نبی کریم علیہ السلام کے علم غيب کی نفی پر استعمال کرتے ہیں۔ آپ اللہ کو دیکھنے کے باب میں پڑھیں گے کہ یہ قرآن، مرفوع احادیث اور بہت سے صحابہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی اللہ کو دیکھا ہے۔ یاد رہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بہت چھوٹی تھیں جب اسراء والمعراج واقع ہوئی۔ یہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں ہوا تھا جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا  ، اس لیے  جب  یہ  واقعہ پیش آیا تو ان کی عمر تقریباً چار سال تھی۔ ہمیں دوسرے صحابہ کی پیروی کرنی پڑے گی جو بالغ تھے اور مرفوع حدیث کی بھی۔ اس پر اللہ کا دیدار کے باب میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

قرآن سے کسی چیز کو چھپانے یا اسے مکمل طور پر نہ پہنچانے کے حوالے سے تو یقیناً ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ نبیﷺ نے مکمل قرآن پہنچایا اور حرام حلال کو بھی واضح کیا، دین کے تمام احکام سکھائے۔ حالانکہ امت کے پاس نبی کے علم کے برابر نہیں ہے اس لیے علم غیب کی کثرت تو صرف نبی کو سکھائی گئی تھی، آپ نے اس میں سے بہت کچھ بتایا لیکن سب کچھ  نہیں۔ آئیے اس کو درج ذیل حدیث سے سمجھتے ہیں:

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکارو اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم لوگ زیادہ روتے اور کم ہنستے۔۔  ۔۔(صحیح بخاری حدیث 6631)

 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بے شک نبیﷺ نے پورا قرآن پہنچا دیا اور حرام و حلال کو بھی واضح کر دیا، لیکن اس کے باوجود بہت زیادہ علم ہے جو صرف نبی کے پاس ہے اور دوسروں کو اس کا علم نہیں۔ حدیث کو غور سے پڑھیں، نبیﷺ نے نہ صرف صحابہ بلکہ پوری امت کو مخاطب کیا۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ پوری امت کے پاس علم اس طرح نہیں ہے جیسا کہ نبی کے پاس ہے، وہ گہرائی کا علم رکھتے ہیں اور مکمل عارف ہیں، جب کہ یہ بات کسی اور کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی اور نہ ہی پوری امت مجموعی طور پر نبی سے زیادہ جان سکتی ہے۔  تیسرا یہ کہ نہ جانے کل کیا ہونے والا ہے، اس سلسلے میں ہم اوپر بہت سی احادیث پیش کر چکے ہیں کہ یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی عطا سے مستقبل کا علم تھا۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف نبی کریم کا اللہ کے بتائیے بغیر خود اپنے طور پر مستقبل کا علم رکھنے کا انکار کیا لیکن  اللہ کی عطا سے نہیں ۔ اگر ہم اس کو نہیں مانیں گے تو قرآن و سنت میں تضاد ہو گا(جو کہ ناممکن ہے)۔

 کافی آیات اور احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل کا علم رکھتے تھے اور غیب کا علم رکھتے تھے۔

یہ حدیث بذات خود ثابت کرتی ہے کہ بہت سے صحابہ کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول اللہﷺ اللّٰہ کو دیکھ چکے ہیں اور غیب کا علم بھی رکھتے تھے ورنہ سیدہ عائشہ ایسا نہ کہتیں۔ سماع الموتی کے باب میں آپ نے اس بات کے ثبوت پڑھے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے وسیع علم کے باوجود اسے رد کرنا غلط تھا، اس کے علاوہ علماء نے لکھا ہے کہ ہمیں مرفوع احادیث اور دوسرے صحابہ کے ساتھ جانا چاہیے جو آپ کے ساتھ موجود تھے۔ جنہوں نے نبی کو یہ کہتے
ہوئے سنا کہ مردے تم سے بہتر سنتے ہیں!

سیدہ عائشہ کا سماع الموتیٰ والے مسئلے پر رجوع بھی ثابت ہے جیسے ہم نے پہلے ثابت کیا۔ سیدہ کبھی کبھار خود سے تاویل کر دیتی تھیں جبکہ کچھ معاملات میں دیگر صحابہ ان سے اختلاف رکھتے تھے۔ 

بڑی بات یہ ہے کہ سیدہ عائشہ خود ایسی حدیث کی راوی ہیں جس سے نبی کریم علیہِ السلام کا علم غيب ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ اس حدیث کی راوی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے: نبی کریم علیہ السلام نے سیدہ فاطمہ رضى اللہ عنہا کے بارے کہا تم میری اولاد میں سے سب سے پہلے والی ہو گی جو مجھے ملے گی (یعنی میرے بعد میری آل میں سے سب سے پہلے فوت ہو گی) دیکھیے صحیح بُخاری # 4433

تو ہمیں یہ یقین رکھنا ہو گا کہ سیدہ عائشہ نے صرف ذاتی علم غيب کی نفی کی ہے عطائی کی نہیں۔ وگرنہ معاذ اللہ قرآن اور سنت میں تضاد لازم آئے گا جو ناممکن ہے۔ 

مفاہمت:  مسلمان گروہ اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کے جو کچھ غيب کا علم انبیاء کو ہوتا ہے وہ اللہ کی وحی کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ کی نسبت سے بعض  غيب ہوتا ہے۔ نبی کریم اور انبیاء وغیرہ خود سے نہیں جانتے بلکہ اللہ عطا کرتا ہے۔ نبی کریم کے علم غيب کا کلی ہونا مخلوق کی نسبت سے ہے۔

یہ ایسا ہے کہ ایک کمرہ بذات خود کُل ہے لیکن یہ گھر کا حصہ ہے، گھر خود کُل ہے لیکن قصبہ کا حصہ ہے۔ قصبہ بذات خود کل ہے لیکن شہر کا حصہ ہے۔ شہر بذات خود کل ہے لیکن یہ ملک کا حصہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اللہ کا علم کا کسی سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ حتیٰ کہ انبیاء سے بھی نہیں۔ ایک عظیم سنی عالم امام احمد رضا خان رحمۃ نے کہا کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم سمندر کے ایک قطرے کے برابر بھی نہیں کہ جو چڑیا کی چونچ پہ لگے ہو (الدولۃ المکیہ) اللہ کا علم پوری مخلوقات کی ہرشے جاننے کو ہے (جس میں کہکشائیں اور کائناتیں شامل ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہیں)۔

آخر میں ہم دیوبندیوں اور سلفیوں کی اس غلط منطق کی تردید کرنا چاہیں گے جو کہتے ہیں کہ جب انبیاء علیہم السلام کو علم غیب دے دیا جاتا ہے تو اس پر غیب کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اسے ظاہر کر دیا  گیا ہے۔ یہ منطق بالکل لغو ہے کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی عالم الغیب ہونے سے محروم ہو جائے گا (نعوذ باللہ) کیونکہ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور ہر چیز اس پر ظاہر ہے۔

 اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ "عالم الغیب" کا ٹائٹل صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اہل سنت اس بات کو نہیں مانتے کہ پیغمبر عالم الغیب ہیں، البتہ ہم اس کو صحیح مانتے ہیں کہ
نبی کو علم غیب عطا کیا گیا ہے۔



مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں