Istighatha (Seeking help from Prophets and Awliya)

استغاثہ (انبیاء اور اولیاء سے مدد مانگنا)

Article Bottom

استغاثہ (انبیاء اور اولیاء سے مدد مانگنا)

اس مضمون پر اہل سنت اور سلفیوں کے درمیان بہت شدت سے بحث ہوتی ہے۔ سلفى اور کچھ شیعہ اسے شرک کہتے ہیں۔ جبکہ اہلسنت کے نامور علماء اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اہل سنت کا استغاثہ کے بارے میں عقیدہ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ لینے کے مترادف ہے۔

اگر ہم کبھی نبی کریم ﷺ کو بھی پکاریں تو ہمارا عقیدہ یہ نہیں کہ ہم ان سے براہ راست دعا کر رہے ہیں مگر یہ ہے کہ ہم ان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ سے ہمارے لیے دعا کریں۔ یہ موقف کبھی شرک نہیں ہو سکتا کیونکہ انبیاء اور اولیاء کو فقط وسیلہ مانا جا رہا ہے اور انہیں اللہ کے ہاں دعا کرنے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ 

دوسری طرف سلفی اس معاملے میں بہت سخت ہیں اور وہ اسے شرک اکبر سمجھتے ہیں۔ اگر یہ شرک ہو تو اس کی زد میں کئی پرانے علماء آ جائیں گے جو استغاثہ پر یقین رکھتے تھے لہٰذا اگر ہم سلفیوں کا نقطہ نظر لیں تو نعوذباللہ بہت سے علماء کو مشرک کہنا پڑے گا۔ 

  مفاہمت کا ذکر شروع میں : سلفی توحید پر اپنی غلط فہمی اور جنونی موقف کی وجہ سے کئی جائز امور کو شرک یا بدعت مانتے ہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ سلفی اور باقی مسلمانوں کے درمیان مفاہمت لائی جا سکتی ہے یہ مان کر کے سب سے بہتر یہی ہے کہ اللہ کو مدد کے لیے پکارا جائے، دوسرا یہ کہ عام عوام الناس کو استغاثہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہیں اس کے صحیح اور غلط طریقہ کار میں فرق کرنا نہیں آتا۔

آئیے اب انبیاء اور اولیاء سے استغاثہ کو سمجھتے ہیں:
 
پہلے قرآن کی روشنی میں۔

قرآن کہتا ہے: 
 
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.

 ترجمہ: ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورۃ الفاتحہ: 4)

تین بہت اہم نقطہ نظر ہیں جو قرآن عظیم کی اس آیت سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
 
1 - اللہ نے عبادت اور مدد مانگنے کے درمیان "اور" ( عربی میں و) لگا کر فرق کیا ہے سو اگر عبادت اور مدد مانگنا ایک ہی بات ہوتی تو اللہ دونوں کے درمیان "اور" لگا کر کبھی فرق نہ کرتا۔ لہٰذا استغاثہ پر الگ حکم لگایا جانا چاہیے جو اس کی نوعیت پر منحصر ہونا چاہیے۔ جبکہ غیر اللہ کی کسی بھی طرح سے عبادت یقینا شرک اور کفر ھے۔
 
2 - اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کے حقیقی مددگار کوئی نہیں سوائے اللہ کے۔ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کے کوئی شخص یا کوئی شے جیسے دوائی اللہ کے علاوہ حقیقی اور خود سے مدد پہنچاتی ہے تو ایسا شخص مشرک ہے۔ لہٰذا یہ بات دل اور دماغ میں ہر وقت رہنی چاہیے کہ اثر اور سبب ہر صورت میں اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ 

3 - یہ آیت عام ہے اور زندہ اور مردے سے مدد طلب کرنے میں فرق نہیں کرتی لہٰذا ایک جیسا حکم دونوں پر لاگو ہونا چاہیے۔ اوہ جو کہتے ہیں کہ زندہ سے مدد مانگی جا سکتی ہے مگر ان نیک لوگوں سے نہیں جو فوت ہو چکے ہیں، ان کے پاس اس تفریق کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ اس آیت کی غلط تشریح کرکے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔اگر ان کی منطق صحیح ہوتی تو پھر تو زندوں سے بھی مدد مانگنا شرک ہونا چاہیے۔ ادھر یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ کسی زندہ یا مردہ کا بت بنا کر اس کی عبادت کرنا دونوں صورتوں میں شرک ہے، جبکہ سلفی یہ کہتے ہیں کہ زندہ سے مدد مانگنا جائز ہے اور مردہ   سے   مدد   مانگنا   شرک ۔  اگر  اوروں سے مدد طلب کرنا شرک ہوتا تو یہ دونوں صورتوں میں ہی شرک ہونا چاہیے تھا۔ 

قرآن میں خود انبیاء علیہم السلام نے غیراللہ سے کئی جگہوں پر مدد طلب کی ہے اور اولیاء نے کرامات دکھائے ہیں مثال کے طور پر:

سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے .ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس لا دیتا ہوں ، یقین مانئے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار ۔ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری ، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار ( بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،سورۃ نمل 38تا40)

یہ قرآن سے ثابت ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی شوریٰ جو جن و انس پر مشتمل تھی سے مدد طلب کی، پھر ایک آدمی (ولی جس کا نام آصف تھا، تفسیر ابن کثیر میں اس کا ذکر موجود ہے) جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا "پلک جھپکتے" ہی ملکہ بلقیس کا تخت لے آیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تخت بلقیس سینکڑوں میل دور تھا تو یہ کیسے عقل میں آ سکتا ہے کہ ایک شخص اسے پلک جھپکتے ہی لے آئے۔ یہ بھی کہ اگر انبیاء اور اولیاء کو اختیار نہ ہوتا تو سلیمان علیہ السلام نے کبھی بھی جن و انس کی شوریٰ سے مدد نا مانگی ہوتی۔

دوسرا یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے ماتحت لوگوں سے کیوں مانگا اللہ سے کیوں نہیں؟ اس کا ایک سادہ سا جواب ہے کہ یہ سب اللہ کی رضا سے ہوا اور اس عقیدے کے ساتھ استغاثہ بالکل جائز ہے چاہے ہم کسی زندہ سے کریں، یا فوت شدہ نیک شخص سے۔ 

2- قرآن کہتا ہے: ۔ یقینا تمہارے ولی (محافظ و مدد گار) ﷲ اس کا رسول اور مومنین ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔۔۔ (سلفی مترجم محسن خان کا ترجمہ سورہ المائدہ:55) 

اگلی آیت میں ہے: کہ دوبارہ محسن خان کا ترجمہ دیکھیں

وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ

3- اور جو کوئی اللہ اس کے رسول اور جو ایمان لائے کو محافظ بنائے تو  تو اللہ کی جماعت ہی فاتح ہو گی ۔(المائدہ:56)

مندرجہ ذیل آیت سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر بجلی برساتی ہے جو استغاثہ کو رد کرتے ہیں۔ "

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

4۔ قرآن کہتا ہے: جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی ۔ تم لوگوں سے کلام کرتے  تھے 
گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔ (مولانا محمد جوناگڑھی ،المائدہ:110)

5- قرآن ال عمرآن :49 بھی دیکھیے جو اور بھی واضح ہے۔ اس میں ہے کہ عیسی علیہ السلام نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں میں "بناتا ہوں" "پھونک مارتا ہوں" اس میں اور وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کر تا ہوں۔ 

عربی میں مکمل آیت 

وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ  أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ  وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ  وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ا- اس پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ ہی زندگی دے سکتا ہے اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔

2-  اس پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ ہی اندھے کو تندرست کرتا ہے۔ 

3-  اس پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ ہی کوڑھی کو تندرست کرتا ہے۔ 

4-  اس پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ ہی مٹی سے تخلیق کرتا ہے اور روح پھونکتا ہے۔ 

تو پھر اللہ نے یہ سب خصوصیات/صفات عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں عطا کیں؟ جواب انہی آیات میں ہے یعنی" یہ سب اللہ کی اجازت سے ہوا" لہٰذا انبیاء اور اولیاء سے استغاثہ ان کی ذاتی قوّت نہیں بلکہ دراصل اللہ کی قوت ہے۔ اس عقیدے کے ساتھ ان کی مدد طلب کرنا شرک نہیں بلکہ یہ عرفان کا اعلیٰ ترین مقام ہے 

6- قرآن یہ بھی کہتا ہے: 

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ

ترجمہ: اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی ہم تو اللہ کی ذات سے ہی توقع رکھنے والے ہیں۔(مولانا محمد جوناگڑھی توبہ:59)

قرآن مجید کے لئے یہ کہنا کافی ہوتا کہ اللہ ہی کافی ہے لیکن اللہ نے نبی کو بھی ساتھ شامل کیا۔ 

7- قران ایک اور جگہ کہتا ہے: 

اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے  دل  (ایک ہی  بات  کی طرف) جھک گئے ہیں ، اگر تم دونوں نے اس  بات  پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا  دوست  و  مددگار  ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد ( سارے) فرشتے بھی (اُن کے)  مددگار  ہیں 

 (ڈاکٹر طاہر القادری ،التحریم: 4)

یہاں اللہ نے خود کے، جبرائیل اور باقی ایمان والوں کے ساتھ لفظ "مولی (ولی)" کہا ہے یعنی یہ سب مددگار ہیں۔

8- قرآن کہتا ہے: 

مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کا کفر محسوس کرلیا تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔ (مولانا محمد جوناگڑھی آل عمران:52) 

اس آیت کو پڑھنے کے بعد ہم یہ چاہیں گے کہ آپ پیچھے جا کر سورہ فاتحہ کے حوالے سے جو نکتہ 3 (point 3) لکھا تھا اس کو پڑھیں۔

9- قران کہتا ہے: 

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ

ترجمہ: اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟ (مولانا محمد جوناگڑھی الزحرف: 45)

یہاں اللہ براہ راست رسول اللہ سے کہہ رہا ہے کہ وہ پرانے انبیاء سے پوچھیں۔ اس کی تشریح کہ یہ آیت علم رکھنے والے یہود و نصاریٰ سے پوچھنے کے بارے کہہ رہی ہے، اس آیت کے بالکل صاف مطلب کے ساتھ انصاف نہیں کرتی۔ 

یہ تشریح کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرانے انبیاء سے اسراء و المعراج کی رات پوچھا تھا صحیح ہے۔ البتہ سلفیوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کا سفر جسم اور روح دونوں کے ساتھ تھا اور یہ انبیاء کی حقیقی زندگی کا ثبوت ہے کہ وہ اس چیز پر قادر ہیں کہ وہ واپس زمین پر بھی آ سکتے ہیں اور اسی وقت جنت میں بھی ہو سکتے ہیں۔

اب ہم استغاثہ کو احادیث کی روشنی میں سمجھتے ہیں:

قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إن الله قال ‏ ‏من عادى لي وليا فقد ‏ ‏آذنته ‏ ‏بالحرب وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به وبصره الذي يبصر به ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بها وإن سألني لأعطينه ولئن استعاذني لأعيذنه وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن يكره الموت وأنا أكره مساءته

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ   دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ (صحیح بخاری 6502). 

اس حدیث کی شرح میں ہم تین بڑے علماء کو نقل کریں گے۔

امام فخرالدین رازی نے کہا:

وكذلك العبد إذا واظب على الطاعات بلغ إلى المقام الذي يقول الله كنت له سمعا وبصرا فإذا صار نور جلال الله سمعا له سمع القريب والبعيد وإذا صار ذلك النور بصرا له رأى القريب والبعيد وإذا صار ذلك النور يدا له قدر على التصرف في الصعب والسهل والبعيد والقريب.

ترجمہ: جب کوئی شخص مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اوراطاعت گزار بن جاتا ہے تو وہ اس حال میں چلا جاتا ہے جس کے بارے میں اللہ نے کہا ہے: میں اس کی سماعت اور بصیرت بن جاتا ہوں لہٰذا جب اللہ کا نور اس کی سماعت بن جاتا ہے تو وہ "نزدیک اور دور کی جگہوں سے سن سکتا ہے" اور جب اللہ کا نور اس کی بصیرت بن جاتا ہے تو وہ نزدیک اور دور کی جگہوں تک دیکھ سکتا ہے۔ اور جب اللہ کا نور اس کاہاتھ بن  جاتا  ہے  تو  وہ  تصرف  (یعنی مدد، بدلاؤ   لانا)  کر سکتا ہے آسان اور مشکل معاملات میں، نزدیک اور دور سے۔ (تفسیر الکبیر جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 77)

امام فخر الدین رازی نے یہ بھی کہا:

الأنبياء، وهم الذين أعطاهم الله تعالى من العلوم والمعارف ما لأجله بها يقدرون على التصرف في بواطن الخلق وأرواحهم، وأيضا أعطاهم من القدرة والمكنة ما لأجله يقدرون على التصرف في ظواهر الخلق

ترجمہ: انبیاء کو اللہ کی طرف سے کثرت سے علم اور معرفت عطا کی جاتی ہے کہ ان کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ "مخلوق کے ظاہر اور باطن میں تصرف کرتے ہیں۔"(تفسیرالکبیر سورہ انعام:88 کے تحت)

ملا علی قاری اپنی مرقاۃ شرح مشکاۃ میں کہتے ہیں:

والمواظبة على العلم والعمل وفيضان الأنوار الإلهية حتى يقوى النور وينبسط في فضاء قلبه فتنعكس فيه النقوش المرتسمة في اللوح المحفوظ ويطلع على المغيبات ويتصرف في أجسام العالم السفلي بل يتجلى حينئذ الفياض الأقدس بمعرفته التي هي أشرف العطايا فكيف بغيرها

ترجمہ: علم و عمل اور احسان الہی کے فیض کی وجہ سے نور قوی ہوتا ہے اور دل کے ہر کونے میں پھیل جاتا ہے، پھر اسے لوح محفوظ بھی نظر آنے لگتا ہے، "پھر اسے غیب کے معاملات کا علم ہو جاتا ہے اور وہ عالم سفلی میں تصرف کرنے لگتا ہے۔"بلکہ خداوند کا فیض اس کی معرفت کے ساتھ اس پر ظاہر ہوتا ہے ، جو نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکاۃ جلد نمبر 1 صفحہ 26 ). 

مشہور دیوبندی شارح اور عالم علامہ انور شاہ لکھتے ہیں:
 
اس کے بارے میں جو کچھ شریعت مقدسہ کے علمائے کرام نے کہا ہے کہ بندے(غلام) کے جسمانی حصے اس حد تک اللہ کی مرضی کے تابع ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ کے تقاضا کے سوا کچھ نہیں کرتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں سنتا ہے۔ ، وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں بولتا۔ "میں یہ کہتا ہوں کہ یہ الفاظ ، حدیث کے اصل الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کرتے" کیوںکہ " کنت سمعه" صیغہ متکلم کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک شخص جو نماز اور نوافل کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے صرف ایک ڈھانچہ اور جسم بنتا ہے۔ " جب کہ اس کے ذریعے تصرف کرنے والا صرف اللہ ہوتا ہے" ۔جس کو صوفیہ فنا فی اللہ کہتے ہیں یعنی نفسی خواہشات سے دوری ،کوئی متصرف نہیں رہتا سوا اللہ کے اور اس حدیث میں وحدۃ الوجود کی جھلک ہے اور ہمارے مشائخ اس مسئلہ کا ذوق رکھتے تھے شاہ عبدالعزیز کے زمانے تک جہاں تک میری بات ہے میں اس معاملے میں شدت نہیں کرتا (فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 270 تا 271)

نوٹ: حدیث یہ بھی کہتی ہے "اگر وہ مجھ سے مانگے گا میں اسے دوں گا" اس کا مطلب اولیاء کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے لہٰذا ہم ان سے یہ مانگ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے دعا کریں ہم (مردوں کا سننا کے) تصور کو اگلے باب میں بیان کریں گے۔ 

حدیث : 2: 

مشکاۃ المصابیح میں ہے کہ: 

سل فقلت أسألك مرافقتك في الجنة . قال أو غير ذلك ؟ . قلت هو ذاك . قال فأعني على نفسك بكثرة السجود . رواه مسلم

ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں رات بسر کیا کرتا تھا،میں آپ کے لیے وضو کا پانی اور آپ کی دیگر ضروریات کا انتظام کیا کرتا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مجھ سے فرمایا :’’ مجھ سے کوئی چیز مانگو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، میں آپ سے ، جنت میں آپ کے ساتھ ہونے کا سوال کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا اس کے علاوہ کچھ اور ؟‘‘ میں نے عرض کیا : بس یہی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ پس اپنی ذات کے لیے کثرت سجود سے میری مدد کر ۔‘‘ رواہ مسلم(مشکاۃ 896)

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابی نے نبی کریم ﷺسے جنت مانگی اور نبی کریم ﷺنے اس کے بعد کہا کہ اور مانگو۔ نبی کریم ﷺنے یہ نہیں کہا کہ تم نے جنت غیر اللہ سے مانگی ہے لہٰذا تم مشرک ہو گئے ہو۔ 

شیخ عبدالحق محدث دہلوی جو سلفیوں کے نزدیک بھی بڑے عالم مانے جاتے ہیں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: 

رسول اللہ ﷺ کا یہ کہنا کہ "مانگ" اور اسے کسی ایک شے تک محدود نہ کرنا کا معنی یہ ہے کہ یہ ثابت کرتا  ہے کہ رسول  اللہ ﷺ کے  ہاتھ  میں ہر چیز ہے اور وہ جسے چاہیں عطا کر  سکتے  ہیں اللہ کی اطاعت کے ذریعے۔ کیونکہ دنیا اورآخرت ان کی سخاوت ہے اور لوح و قلم کا علم ان کے علم کا ایک حصہ ہے۔ اگر تمہیں دنیا اور آخرت سے متعلق کسی چیز  کی   ضرورت ہو تو رسول اللہ کے پاس آؤ اور اپنی مراد پوری پاؤ۔ ( اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 247)

ملا علی قاری کہتے ہیں: 

يؤخذ من إطلاقه عليه السلام الأمر بالسؤال أن الله تعالى مكنه من إعطاء كل ما أراد من خزائن الحق

ترجمہ: نبی کا یہ کہنا کہ مانگ اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے اپنے خزانوں میں سے انہیں کچھ بھی عطا کرنے کی صلاحیت دی ہوئی ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکاۃ 2/615)

انہوں نے یہ بھی کہا: 

وذكر ابن سبع في خصائصه وغيره إن الله تعالى أقطعه أرض الجنة يعطي منها ما شاء لمن شاء

ترجمہ: امام ابن سبع نے اس بات کا ذکر رسول اللہ کی خصوصیات میں کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کی زمین رسول اللہ کو عطا کی ہے اور وہ جسے دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ (مرقاة شرح مشکاۃ 2/615). 

حدیث : 3

عبدالرحمان نے بتایا کہ انھوں نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گواہی طلب کررہے تھے ، (کہہ رہے تھے : ) میں تمھارے سامنے اللہ کا نام لیتا ہوں! کیاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناتھا ۔ حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دو ۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعے سے اس کی تائید فرما! ؟ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہاں ۔ (صحیح مسلم :6386)

  اگر اللہ کے علاوہ کسی سے مدد طلب کرنا شرک ہوتا تو رسول اللہ کبھی بھی نہ کہتے کہ یا اللہ حسان بن ثابت کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ 

حدیث : 4

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت نہ اختیار کرو کیونکہ میں قاسم ( تقسیم کرنے والا ) ہوں اور تمہارے درمیان نعمتوں کو تقسیم کرتا ہوں۔“ اور اس روایت کو انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا۔ (صحیح بخاری :6196)

یہ نوٹ کیجئے کہ یہ صحیح بخاری کی حدیث کا سلفی محسن خان کا ترجمہ ہے۔ 

سو اللہ دینے والا ہوا اور رسول اللہ بانٹنے والے۔ لہٰذا یہ حدیث بنا کسی شک کے نبی کے وسیلے کو ثابت کرتی ہے۔ یہ جان لینا چاہئے کہ استغاثہ وسیلہ کے علاوہ کچھ نہیں ، اور مسلمانوں کا عقیدہ ہمیشہ سے یہی تھا کہ اصل عطاء صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ 

حدیث : 5. 

قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو ”مقام محمود“ عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔ (صحیح بخاری: 1475) 

اب یاد رکھیے کہ لوگ نبی علیہ السلام کی طرف بڑھیں گے ان سے مدد طلب لینے کے لیے۔ واضح طور پر لفظ استغاثہ اس حدیث میں استعمال ہوا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر استغاثہ شرک ہوتا تو کبھی بھی آخرت کے دن اس کی اجازت نہ ہوتی ۔ اور سارے نبی لوگوں کو یہ کہتے کہ اگلے نبی کی بجائے اکیلے اللہ کی طرف جاؤ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شرک کی تعریف موت یا زندگی سے بدلتی نہیں۔ جب کسی زندہ یا مردہ کی عبادت نہیں جائز اور وہ شرک ہے تو کسی سے زندگی میں اور آخرت میں مدد طلب کرنے کی اجازت کیوں ہے۔ 

حدیث : 6

وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ‏"‏إن لله ملائكة في الأرض سوى الحفظة يكتبون ما يسقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد‏:‏ أعينوا عباد الله‏"‏‏.‏رواه البزار ورجاله ثقات‏.‏

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے زمین پر فرشتے ہیں سوائے ان دو کے جو دفاتر (ریکارڈ) محفوظ رکھتے ہیں اس کا بھی جو پتہ زمین پر گر جائے۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی کسی ایسی ویران زمین پر ہوبجہاں کوئی نظر نہ آئے تو ایسے پکارو: "اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو" امام ہیشمی اس حدیث کے بعد کہتے ہیں اسے بزار نے نقل کیا اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔( مجمع الزوائد جلد نمبر 10 حدیث نمبر 17104)

یہ حدیث صرف مستند نہیں ہے بلکہ اس پر کئی بڑے علماء نے عمل بھی کیا ہے۔
 
إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ 
لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ:"يَا عِبَادَ اللَّهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللَّهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لا نَرَاهُمْ"، وَقَدْ جَرَّبَ ذَلِكَ

امام طبرانی نے اپنی معجم الکبیر (17/117) میں پکارنے والی حدیث: " اے اللہ کے بندو میری مدد کرو" نقل کرنے کے بعد کہا " اس پر عمل کیا جاتا ہے"

اس حدیث پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جو سلف سے تھے، ان کا بھی عمل ہے۔ 

ترجمہ: عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے سنا کے وہ کہتے ہیں: میں نے 5 حج کیے، تین دفعہ پیدل چل کر اور دو دفعہ سواری پر یا انہوں نے کہا تین دفعہ سواری پر اور دو دفعہ پیدل۔ ایک دفعہ جب میں پیدل کر رہا تھا تو میں اپنا راستہ بھول گیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے بندو مجھے راستہ دکھاؤ۔ میں یہ کہتا رہا کے یہاں تک میں واپس راستے پر آ گیا (امام بیہقی، شعب الایمان 6/128 # 7697)

ملا علی قاری نے شرح حصن الحصین میں لکھا کہ ہمارے نبی نے کہا : 

اذا انفلتت دابة احد كم بارض فلاة فليناد يا عباد الله احبسوا

ترجمہ: اگر کسی کا جانور جنگل میں بھاگ نکلے تو اس کو کہنا چاہیے " اے اللہ کے بندو اسے روکو۔" 

وہ "عباد اللہ" کے نیچے لکھتے ہیں: 

المراد بهم الملىكة او المسلمون من الجن او رجال الغيب المستمون بابدال

ترجمہ: اس کا مطلب ہے فرشتے، مسلمان جنات، یا غیب کے لوگ یعنی ابدال۔

پھر لکھتے ہیں: 

هذا حديث حسن يحتاج اليه المسافرون وانه مجرب

ترجمہ: یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی اشد ضرورت ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ (شرح حصن الحصین الحرز الثمین صفحہ نمبر: 378)

اتنے بڑے علماءِ حدیث نے اس پر عمل کیا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے اگر اس میں شرک کا کوئی پہلو بھی ہوتا تو وہ علماء اس کا ذکر کرتے۔ 

حدیث : 7 

حدثتني ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بات عندها ليلتها فقام يتوضأ للصلاة فسمعته يقول في متوضئه لبيك لبيك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا فلما خرج قلت يا رسول الله سمعتك تقول في متوضئك لبيك لبيك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا كأنك تكلم إنسانا فهل كان معك أحد فقال هذاراجزبني كعب يستصرخني ويزعم أن قريشا أعانت عليهم بني بكر

ترجمہ: رسول اللہ کی زوجہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں: رسول اللہ میمونہ کے گھر پر رات کی نماز کے لئے وضو کر رہے تھے، اچانک انہوں نے تین بار کہا لبیک لبیک لبیک، اور نصرت نصرت نصرت، میمونہ نے پوچھا آپ نے یہ الفاظ کیوں کہے؟ رسول اللہ نے کہا راجز (دور رہنے والا صحابی) مجھے پکار رہا تھا کیونکہ قریش اسے قتل کرنا چاہتے تھے. ( امام طبرانی، معجم الصغیر جلد نمبر 2 حدیث نمبر 968)

اگر سلفیوں کو اس روایت سے مسئلہ ہے کیونکہ اس میں کچھ کمزوری پائی جاتی ہے تو مطابعت میں ایک صحیح روایت دکھائی جائے گی۔

صحیح اور مشہور روایت جس میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا ساریہ رضی اللہ عنہ کو دور سے پُکارا اور مدد کی (نوٹ: ساریہ رضی اللہ عنہ نے بھی پکار سنی)

عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أميرالمؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورناإلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. (ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن).

ترجمہ: ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے ایک بار ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر بنایا جس کا نام ساریہ تھا۔ ایک دن بعد جب عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے انہوں نے بلند آواز میں پکارا ، اے ساریہ پہاڑ کی طرف ہو جاؤ اور  انہوں نے یہ تین بار کہا (يا ساري الجبل) ۔ پھر جب اس لشکر میں سے قاصد آیا اور اس نے عمر سے پوچھا اے امیر المومنین ہم دشمن سے روبرو ہوئے اور ہم ہار رہے تھے کہ اچانک ایک آواز آئی " اے ساریہ، پہاڑ" اور یہ تین بار سنائی دی۔ ہم پیچھے پہاڑ کی طرف ہو لئے، اور اس وجہ سے اللہ نے دشمن کو مات دی۔ انہوں نے عمر سے پوچھا کیا وہ آپ پکار رہے تھے؟ 

امام متقی الہندی نے ابن حجر عسقلانی کی الاصابہ کا حوالہ دیا ہے اور ابن حجر عسقلانی کا قول نقل کیا ہے: 

قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن

ترجمہ: ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں کہا اس کی سند حسن ہے (کنز العمال حدیث نمبر 35788 ، یا پھر اردو ترجمہ دیکھیے جلد 12 صفحہ 608 ، شائع کردہ دارالاشاعت اردو بازار لاہور پاکستان) ، (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر عسقلانی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 4 ساریہ بن زنیم کے ترجمے میں)

امام ابن کثیر نے اسے محمد بن عجلان کی سند سے نقل کرنے کے بعد کہا: 

وهذا إسناد جيد حسن

ترجمہ: اس کی سند جید اور حسن ہے (البدایہ والنہایہ 7/131)

یہ مستند روایت یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی دور والے شخص کو پکارنا شرک نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایک دور کے صحابی (ساریہ) کی مدد کی جنہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ جن کی سارے مسلمان ، سلفیوں سمیت عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں: 

کاش میری عقل ان لوگوں کی ملکیت ہوتی جو اولیاء سے مدد کے لیے التجا کرنے کو رد کرتے ہیں"،کہ وہ اس سے کیا سمجھتے ہیں۔ جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو شخص دعا کرتا  ہے وہ اللہ پر انحصار کرتا ہے اوروہ اللہ ہی سے دعا کرتا ہے اور اس سے اپنی  ضرورت کے لئے التجاء کرتا ہے اور وہ اولیاء کا وسیلہ پیش کرتا ہے. وہ کہتا ہےکہ اے اللہ جو کرم تو نے اپنے اس ولی پرکیا، مجھے بھی اس کے وسیلہ سے کچھ عطا کردے کیونکہ تو عطا کرنے والوں میں سب 
سے اعلی ہے۔" دوسرا معاملہ یہ ہے کہ کوئی شخص براہ راست کسی ولی کو پکارے اور کہے اے بندہ خدا اے خدا کے ولی میری شفاعت کر اور میرے لئے اللہ سے دعا کر" کہ وہ میری ضرورت پوری کرے لہٰذا جو ضرورت پوری کرتا ہے، دونوں صورتوں میں ، وہ صرف اللہ ہے ان دونوں کے درمیان جو شخص ہے وہ صرف وسیلہ ہے جبکہ قادر ، فاعل، اور جو تبدیلی لا رہا ہے وہ صرف اللہ ہے۔ (شرح مشکاۃ اشعۃ اللمعات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 401).
 
شیخ شمس الدین الرملی متفق علیہ عالم نے استغاثہ کے بارے میں ایک سوال کا بہترین جواب دیا: 

سئل عما يقع من العامة من قولهم عند الشدائد يا شيخ فلان يا رسول الله ونحو ذلك من الاستغاثة بالأنبياء والمرسلين والأولياء والعلماء والصالحين فهل ذلك جائز أم لا وهل للرسل والأنبياء والأولياء والصالحين والمشايخ إغاثة بعد موتهم وماذا يرجح ذلك ؟

فأجاب ) بأن الاستغاثة بالأنبياء والمرسلين والأولياء والعلماء والصالحين جائزة وللرسل والأنبياء والأولياء والصالحين إغاثة بعد موتهم ؛ لأن معجزة الأنبياء وكرامات الأولياء لا تنقطع بموتهم . أما الأنبياء فلأنهم أحياء في قبورهم يصلون ويحجون كما وردت به الأخباروتكون الإغاثة منهم معجزة لهم . والشهداء أيضا أحياء شوهدوا نهارا جهارا يقاتلون الكفار . وأما الأولياء فهي كرامة لهم فإن أهل الحق على أنه يقع من الأولياء بقصد وبغير قصد أمور خارقة للعادة يجريها الله تعالى بسببهم و الدليل على جوازها أنها أمور ممكنة لا 
يلزم من جواز وقوعها محال وكل ما هذا شأنه فهو جائز الوقوع وعلى الوقوع قصة مريم ورزقها الآتي من عند الله على ما نطق به التنزيل وقصة أبي بكر ، وأضيافه كما في الصحيح وجريان النيل بكتاب عمر ورؤيته وهو على المنبر بالمدينة جيشه بنهاوند حتى قال لأمير الجيش يا سارية الجبل محذرا له من وراء الجبل لكمين العدو هناك ، وسماع سارية كلامه وبينهما مسافة شهرين ، وشرب خالد السم من غير تضرر به . وقد جرت خوارق على أيدي الصحابة والتابعين ومن بعدهم لا يمكن إنكارها لتواتر مجموعها ، وبالجملة ما جاز أن يكون معجزة لنبي جاز أن يكون كرامة لولي لا فارق بينهما إلا التحدي

سوال: یہ جو عام عوام الناس میں ہوتا ہے کہ جب کوئی مشکل میں ہو اور وہ مدد طلب کرنے کے لیے پکارتا ہے اے فلاں شیخ یا اے رسول اللہ اور باقی علماء انبیاء، اولیاء، اور نیک بندوں کو۔ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ کیا رسولوں ' انبیاء اولیاء ' نیک بندے اور مشائخ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اوروں کی مدد کر سکیں؟ 

جواب: استغاثہ یعنی انبیاء ،رسول، اولیاء ، علماء اور نیک بندوں سے ان کے گزر جانے کے بعد مدد طلب کرنا جائز ہے۔ رسولوں، انبیاء اور اولیاء کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے گزر جانے کے بعد بھی امداد کرسکیں   کیونکہ ان کے معجزات وکرامات ان کے گزر جانے کے بعد ختم نہیں ہوتے۔ 

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور وہ عبادت کرتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں جیسا کہ کئی احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ لہٰذا ان کی طرف سے امداد ان کا معجزہ ہوگی،شہیدبھی زندہ ہوتے ہیں جو ثابت ہےکہ ان کو کفار کو قتل کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے
اب اولیاءکرام علیہم الرضوان کے حوالے سے یہ ان کی طرف سے ان کی کرامت ہوتی ہے اہل حق کا اس بات پر یقین ہے کہ یہ اولیا کرام علیہم الرضوان کے ہاتھوں سے ہی ہوتا ہے ، ان کی مرضی یا ان کی مرضی کے بغیر۔ ظاہری پہلوؤں میں تبدیلی ان کے ذریعے اللہ لے کر آتا ہے۔" اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ چیزیں ممکن ہیں مگر ان کا ہو جانا کسی طرح سے ناممکن نہیں ۔مثال کے طور پر مریم علیہ السلام کا واقع، کہ کیسے ان کے پاس اللہ کی طرف سے رزق آتا تھا جیسے قرآن میں ذکر ہے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ان کے مہمانوں کے ساتھ جو صحیح روایات میں موجود ہے، دریائے نیل کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خط کی وجہ سے پورے بہاؤ سے بہنا، "اور ان کا مدینہ کے ممبر سے ساریہ کی طرف لشکر کو بڑھتے ہوئے دیکھ لینا اور پکارنا یا ساریہ الجبل ( اے ساریہ، وہ پہاڑ) ، یعنی ساریہ کو پہاڑ کے پیچھے سے آنے والے دشمن کے بارے میں خبردار کرنا، اور ساریہ کا دو ماہ کی مسافت کی دوری سے اس کو سن لینا۔ " اور خالد بن ولید کا زہر پی جانا اور اس سے کوئی نقصان نہ ہونا۔ ایسے معاملات جو معمول کے خلاف ہوں، صحابہ، تابعین اور بعد میں آنے والوں کے ہاتھوں ہوئے ہیں۔ اس سب کو رد کرنا ناممکن ہے کیونکہ جب ہم ان سب کو ایک ساتھ لیں گے تو یہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا جو نبی کریم ﷺ کے ذریعے معجزےکے طور پر ممکن ہے وہ ولی کے ذریعے کرامت کے طور پر بھی ممکن ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے اس حقیقت کے کہ سابقہ کو ایک چیلنج کے طور پر دکھایا جاتا ہے (فتاوى الرملي بهامش الفتاوى الكبرى لابن حجر الهيتمي ، فتاویٰ الرملی 4/382 ) 

آئیے اب پہلے ایک شاندار عالم اور اپنے وقت کے اصلی شیخ الاسلام کا تعارف دیکھیں۔ 

امام جلال الدین سیوطی نے امام سبکی کے بارے میں کہا: 

الإمام الفقيه المحدث الحافظ المفسر الأصولي النحوي اللغوي الأديب المجتهد تقي الدين أبو الحسن  علي  بن  عبد  الكافي  بن  علي  بن تمام بن يوسف بن موسى بن تمام بن حامد بن يحيى بن عمر بن عثمان بن علي بن سوار بن سليم. شيخ الإسلام إمام العصر

ترجمہ: امام ،فقیہ ، محدث ، حافظ، مفسر، اصولی، نحوی، لغوی ،ادیب مجتہد " تقی الدین ابو الحسن علی بن عبد الکافی بن علی بن تمام بن یوسف بن موسی بن تمام بن حامد بن یحیی بن عمر بن سلمان بن علی بن سواربن سلیم "اپنے وقت کا امام اور شیخ الاسلام امام العصر" (طبقات الحفاظ 1/525)

شیخ الاسلام امام سبکی نے کہا: 

 یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں نبی کا وسیلہ, ان سے استغاثہ یا توسل اختیار کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس کے جائز اور مستحب کردہ ہونے کی حقیقت ان سب کو معلوم ہے جن کو دین کی سمجھ ہے۔ یہ انبیاء، سلف صالحین ، علماء اور عوام الناس کا عمل ہے۔ کسی نے اس کا رد نہیں کیا اور نہ ہی اس عمل کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا سوائے ابن تیمیہ کے آنے سے پہلے، اور اس نے اس کا رد کیا، اس کے اقوال نے کمزوروں کو الجھن میں ڈال دیا "اور اس نے وہ بدعت قائم کی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی۔" (امام تقی الدین السبکی نے اپنی شاندار کتاب شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام صفحہ نمبر 357)

ایک عظیم عالم کا عقیدہ اور استغاثہ کو قائم کرنا۔ 

امام قسطلانی نے اپنی شاندار کتاب "المواہب اللدنیۃ" میں کہا: 

میں ایک بار اتنا بیمار ہوگیا کہ طبیب اس کا علاج فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے اور میں کئی سالوں تک ایسا ہی رہا۔ "جب میں 28 جمادی الاول 893ھ کو مکہ مکرمہ آیا تو میں نے نبی علیہ السلام سے مدد طلب کی" اللہ اس شہر کے درجات بلند کرے اور مجھ پر کرم کرے کہ میں دوبارہ کسی مشکل کے بغیر اس شہر کی زیارت کر سکوں۔ میں سو گیا اور اس کے بعد ایک شخص آیا جس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس پر لکھا تھا: "یہ احمد بن قسطلانی کی بیماری کی دوا ہے"، اللہ کی بارگاہ سے نبی کے اذن کے ذریعے۔ "جب میں جاگا تو میں نے اللہ کی قسم کھائی کہ مجھے کامل علاج مل گیا اور پھر میرا علاج ہوگیا نبی علیہ السلام کے برکت کے باعث"  (امام قسطلانی، المواہب اللدنیۃ ,3/149، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جس کو سلفی اور اہل سنت دونوں عزت دیتے ہیں نے فارسی میں لکھا: 

امروز اگر كسے رامنا سبت بروح خاص پيدا شود واز آں جا فيض بردارد غالبا بيروں نيست از آنکہ ايں معنی بہ نسبت پيغمر صلی اللہ تعالے عليہ وآلہ وسلم باشد يا بہ نسبت حضرت امير المومنين علی کرم اللہ تعالے وجہ يا بہ نسبت ''غوث العظم'' جيلانی رضی اللہ تعالے عنہ

ترجمہ: اگر اس وقت میں کوئی شخص کسی ولی کی روح سے مائل ہو اور اس کو فیض حاصل ہوتا ہو تو یہ کہا جائے گا کہ یہ صرف حضور (علیہ السلام) یا امیر المومنین علی (رضی اللہ عنہ) یا غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہے۔ (ھمعات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صفحہ نمبر 62 شائع کردہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد)

شاہ ولی اللہ نے یہ بھی کہا ہے: 

اے خلق میں سب سے بہتر، اے لوگو میں سب سے اعلی جس کے ساتھ امید، اور اے عطا کرنے والوں میں سب سے اعلیٰ، اے لوگوں میں سب سے اعلی جس کے ساتھ مشکلات کے حل کی امید ہے، جس کی سخاوت بارش سے زیادہ ہے (سبقت لے جاتی ہے) ۔ آپ ہی ہیں وہ جو مجھے مشکلات میں پناہ عطا کرتے ہیں۔ (اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم باب نمبر 11 صفحہ نمبر 22)

شاہ ولی اللہ ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں: 

چشتیہ کے مشائخ کی تعلیمات کے مطابق جب کوئی قبرستان جائے تو وہاں وظیفہ کرے، اور تب تک وہاں بیٹھا رہے جب تک وہ صاحب قبر سے فیض نہ حاصل کر لے.  (القول الجمیل صفحہ نمبر 78 دہلی) 

اس کے علاوہ اور بھی کئی ثبوت ہیں جو شاہ صاحب سے دکھائے جا سکتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ شاولی اللہ کی کچھ کتابوں میں سلفیوں کی طرف سے تحریف کی گئی ہے اور ان کی طرف سے یہ لکھا گیا ہے کہ انہوں نے استغاثہ کا رد کیا۔ البتہ جب ہم ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کو پڑھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شاہ ولی اللہ بھی استغاثہ پر یقین رکھتے تھے۔ اصل میں اس کا پوتا اسماعیل دہلوی تھا جو علمی میراث سے منحرف ہوگیا۔ اگر ہم ان کی کتابوں کو غیر تحریف شدہ مان بھی لیں تو وہ اس استغاثہ کا رد کرتے تھے جو غیر اللہ کی حقیقی امداد پر مبنی ہے (یعنی اللہ کے بغیر)۔ ہم اہل سنت بھی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اصل مددگار اور کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے اور استغاثہ صرف اسی عقیدے کے ساتھ انبیاء اور اولیاء سے جائز ہے۔

امام ابن حجر الہیثمی المکی نے اس پر پورا باب باندھا ہے۔نبی کریمﷺ کا وسیلہ استغاثہ اور شفاعت

وہ کہتے ہیں: 

ابن تیمیہ کی قبیح اعمال میں سے ایک ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی، کہ اس نے نبی علیہ السلام سے استغاثہ اور توسل کا رد کیا۔ نبی علیہ السلام سے وسیلہ ہر صورت میں مستحب ہے چاہے وہ ان کے آنے سے پہلے ہو یا بعد میں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (امام ابن حجر ہیثمی اپنی شاندار کتاب الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر المکرم، صفحہ نمبر 171 شائع کردہ دار الحاوی بیروت لبنان).

قرآن کے بڑے مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی جنہوں نے حدیث کے اصولوں کو بھی پڑھا ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شاگردی میں ، انہیں برصغیر کے سنی اور سلفی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ قرآن سورۃ بقرہ:154 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 

شہید کے زندہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو جسم کی سی قوت عطا فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے وہ زمین آسمان جنت سب کی سیر کرتے ہیں۔ اور اپنے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور اسی حیات کی وجہ سے زمین ان کے بدن اور کفن کو نہیں کھاتی۔۔۔۔۔ میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ یہ حیات شہداء ہی کو عطا نہیں ہوئی بلکہ آثار اور احکام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء میں یہ حیات سب سے زیادہ ہے حتی کہ اس کا اثر خارج میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے آپ کی وفات کے بعد نکاح جائز نہیں بخلاف شہید کے کہ اس کی زوجہ سے نکاح جائز ہے اور صدیق اس حیات میں شہداء سے اعلی درجے میں ہیں۔ چنانچے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے وہ نبی اور صدیق اور شہداء اور صالحین ہیں۔ (النساء:69) ۔۔۔۔۔ اس واسطے صوفیاء کرام نے فرمایا ہے کہ ہماری روح ہمارے بدن ہیں اور ہمارے بدن ہماری روح ہیں اور سینکڑوں ہزاروں معتبر حکایتیں ایسی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء اپنے دوستوں کی اعانت کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو تباہ کرتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اسے ہدایت فراہم کرتے ہیں۔ (تفسیر مظہری)

سلفی استغاثہ کو اس سے ملاتےہیں جو مشرک اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم اگلے باب میں ابن عمر سے مستند روایات دکھائیں گے کہ وہ خوارج کو بدترین مخلوق تصور کرتے تھے کیونکہ وہ کفار کے بارے اترنے والی آیات کو مسلمانوں پر لاگو کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)

یہاں اس کی ضرورت ہے کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے تفصیلی بیان دکھایا جائے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ بتوں کے پجاریوں کا وسیلہ پر صحیح تصور نہیں اور وہ اپنے بتوں کو خدا مانتے ہیں جب کہ مسلمان انبیاء اور اولیاء کی عبادت نہیں کرتے لہٰذا انبیاء اور اولیاء کو پکارنے کا موازنہ بتوں کی پوجا کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ 

شاہ عبدالعزیز محدث جو لازوال کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف ہیں جو مدلل کتاب انہوں نے شیعہ کے رد پر لکھی ہے وہ اپنے فتاوی عزیزی میں اس پہ تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 
اے اللہ اس فلاں بندے کے واسطے جس پر تو نے اپنا کرم کیا میری مشکل کو آسان کر۔ یا کوئی کہتا ہے کہ اے اللہ کے بندے اور اس کے ولی میرے معاملے میں وسیلہ بن، اللہ کی بارگاہ میں میرے لیے دعا کر تاکہ اللہ اسے پورا کرے۔" ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ شخص جو بیچ میں سوائے وسیلہ کے اور کچھ نہیں جب کہ قادر ،دینے والا ، اور موصول (جس سے التجاء کی جائے) اللہ ہے۔ اس طریقہ کار سے شرک کی کوئی  گنجائش  باقی  نہیں رہتی۔ انکار کرنے والا صرف اپنی ضد اور ہوس کی پیروی کرتا ہے، یقینا  یہ  بغیر  کسی تنازعے  کے جائز ہے کہ وسیلہ طلب کیا جا سکتا ہے اللہ کے ولیوں سے جب وہ زندہ ہوں اور ان سے یہ کہا جا  سکتا ہے کہ وہ دعا کریں تو جب وہ  گزر جاتے ہیں اس  کے بعد یہ کیسے نا جائز ہو سکتا ہے؟  (نوٹ: اس سے   پہلے   شاہ  عبدالعزیز  نے  امام  غزال کا موقفبدکھایا  کہ جس سے اس کی زندگی میں مدد طلب کی جائے اس سے اس کی موت کے بعد بھی مددطلب کی جاتی ہے) موت اور زندگی کی وجہ سے کاملین کی روحوں میں کوئی فرق نہیں آتا سوائے اس کے کہ موت کے بعد ان کی روحیں اور زیادہ قوی ہو جاتی ہیں۔ شرح مشکاۃ (ملا علی قاری) میں اور امام سیوطی کی شرح الصدور میں اس بارے میں تفصیلاً لکھا ہے اور ان کتب میں اس حوالے سے کئی اسناد سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ (فتاویٰ عزیزی صفحہ نمبر 192 شائع کردہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی پاکستان یہ ترجمہ انگلش سے اردو میں کیا گیا ہے، اصل عبارت ایچ ایم سعید والے مطبوعہ میں دیکھیں)

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بتوں کے پجاریوں کے حوالے سے ایک بہت اہم سوال کا جواب دیتے ہیں۔ 

سوال: کچھ بتوں کے پجاریوں نے بت سے مدد طلب کی جس پر ایک عالم نے اسے منع کیا کہ اس کو شرک نہیں کرنا چاہیے، بت پرست نے اس کے جواب میں کہا کہ اگر میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ اللہ کا برابر یا شریک ہے اور میں اس وجہ سے اس کی عبادت کرتا ہوں تو یہ شرک ہوگا جبکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ بت ایک مخلوق ہے اور اس وجہ سے میں "اس کی عبادت کرتا" ہوں تو پھر یہ کیسے شرک ہو سکتا ہے ؟ عالم نے جواباً کہا کہ قرآن میں متواتر طور پر آیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے، اس پر اس بت کے پجاری نے کہا:  پھر انسان ایک دوسرے سے مدد طلب کیوں کرتے ہیں؟ عالم نے کہا کہ وہ لوگ زندہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے مانگنا حرام نہیں۔ جب کہ تمہارے بت جیسے کہ کنہیا ، کالکا وغیرہ مردہ ہیں۔ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں، یہ سننے کے بعد بتوں کے پجاری نے جواباً کہا: مگر تم لوگ تو اہل قبور سے مدد طلب کرتے ہو اور ان کا وسیلہ تلاش کرتے ہو لہٰذا یہ بھی شرک ہوا جو تم کرتے ہو خلاصہ یہ کہ جیسے تم لوگ اہل قبور کو لیتے ہو ہم بھی اسی طرح کنہیا یا کالکا کی تصاویر یابت کو  لیتے  ہیں  ۔ ۔۔۔۔  لہٰذا  ظاہری  طور  پر  بتوں اور اہل قبور کے پاس کوئی 
قوت/اختیار نہیں، مگر اگر تم یہ کہو کہ کہ اہل قبور کے پاس اس باطنی اختیارات کی قوت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی امداد کرتے ہیں تو یہ بھی نوٹ کرو کے بت بھی کئی اوقات میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگر تم یہ کہو کہ تمہیں اہل قبور سے صرف شفاعت چاہیے، تو ہمیں بھی بتوں سے صرف شفاعت چاہیے۔

جواب: اس سوال میں بتوں کے پجاری نے شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں ان سے خبردار رہنا چاہیے۔ اب ان شاءاللہ اللہ کی عطا سے جواب کو واضح کیا جائے گا۔

1- سب سے پہلی بات یہ مدد طلب کرنا ایک بالکل الگ قصہ ہے جب کہ عبادت بالکل الگ۔ عام مسلمانوں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ اہل قبور سے اس طرح مدد طلب کرتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہے مگر وہ پھر بھی ان کی عبادت نہیں کرتے۔ جب کہ بتوں کے پجاری صرف ان سے مدد ہی طلب نہیں کرتے بلکہ ان کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ ایک بندہ کسی کے سامنے سجدہ(عبادت کے غرض سے)، یا عبادت کی غرض سے کسی شے کا طواف کرے، کوئی کسی کے نام کا ورد کرنا شروع کر دے تاکہ اس سے قربت حاصل کرسکے یا کوئی جانور ذبح کرے کسی کے نام پر،یا اپنے آپ کو کسی کی مخلوق کہے۔ لہٰذا کوئی جاھل جو اہل قبور کے لیے ایسا کچھ کرتا ہے جیسے اگر وہ ان کے سامنے (عبادت کے غرض سے) سجدہ کرے کافر ہو جاتا ہے اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے گا۔ 

2- اس سوال سے دوسری چیز جو نوٹ کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ مدد طلب کرنے کی دو اقسام ہیں، پہلی یہ کہ کوئی مخلوق کسی دوسری مخلوق سے طلب کرے مثال کے طور پر کوئی غلام اپنے آقا سے، عوام الناس اولیاء سے اس طرح مدد مانگتی ہے کہ اولیاء، اللہ کے حضور ان کے لیے دعا کریں تاکہ اللہ کے حکم  سے ان کی مشکلات حل ہوں۔ اس طریقہ کار کے ذریعہ زندہ یا مردہ سے مانگنا جائز ہے۔

3- تیسرا طریقہ کار یہ ہے کہ ان چیزوں کے لئے مدد طلب کی جائے جو صرف اللہ کی قدرت میں ہیں جیسے بیٹا عطا کرنا ، بارش برسانا ،بیماری سے شفا دینا ، عمر دراز کرنا اور باقی چیزیں جو صرف اللہ کی قدرت میں ہیں۔اگر ان چیزوں کے لئے کوئی کسی مخلوق سے مانگے اور اس کی یہ نیت نہ ہو کہ مخلوق صرف اور صرف اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنتی ہے تاکہ اللہ اپنے حکم کے ذریعے اس کی مشکل آسان کر دے تو پھر یہ حرام ہے بلکہ کفر ہے، یا پھر کوئی شخص اولیاء سے اس طرح سے مانگے یہ مانتے ہوئے کہ اولیاء کی اپنے مکمل قدرت ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ تو ایسا شخص اسلام سے باہر ہو جاتا ہے۔
 
بت پرست لوگ بھی اسی ناجائز طور سے اپنے معبودان باطلہ سے مدد چاہتے ہیں اور اس امر ناجائز کو جائز سمجھتے ہیں۔اور اس سوال میں یہ جو مذکور ہے کہ بت پرست نے کہا کہ میں بھی اپنے بتوں سے صرف شفاعت طلب کرتا ہوں جیسا تم لوگ پیغمبروں اور اولیاء اللہ سے سفارش چاہتے ہو، تو یہ کلام بھی مکر و فریب سے خالی نہیں۔ اس واسطے کہ بت پرست لوگ ہرگز شفاعت نہیں چاہتے بلکہ بت پرست لوگ شفاعت کے معنی جانتے ہی نہیں اور نہ ان لوگوں کو شفاعت کا خیال ہوتا ہے۔ شفاعت سے مراد سفارش ہے اور سفارش سے مقصود یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے مطلب کے لیے کسی تیسرے سے کہے اور بت پرست لوگ ایسا نہیں سمجھتے اور نہ وہ لوگ بت سے یہ کہتے ہیں کہ تم ہماری سفارش اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں کرو۔ اور ہمارا مطلب اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں حاصل کرا دو بلکہ وہ لوگ خاص بتوں سے اپنا مطلب چاہتے ہیں اور یہ جو اس بت پرست نے کہا کہ اہل قبور کو جیسا تم جانتے ہو ویسا ہی کنہیا اور کالکا کی تصویر کو ہم جانتے ہیں۔ تو یہ بھی غلط در غلط ہے اس واسطے کہ یہ ثابت ہے کہ اگرچہ بعد موت کے بدن قبر میں داخل کر دیا جاتا ہے مگر اس بدن کے ساتھ روح کا تعلق ضرور رہتا ہے اس واسطے کہ ایک مدت دراز  تک اس بدن میں روح رہ چکی ہے۔ اور
 بت پرست لوگ اپنے معبودوں کی قبر کی تعظیم نہیں کرتے۔ بلکہ خود تصویروں اور پتھروں اور درختوں اور دریاؤں کو قرار دیتے ہیں کہ یہ فلاں کی تصویر ہے۔ حالانکہ اس کی روح کو اس چیز سے کوئی تعلق رہتا نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ وہ چیز وہاں جلائی گئی ہو تو ایسے محض فرضی قرارداد کا کچھ اعتبار نہیں۔ البتہ اللہ اپنی رحمت سے لوگوں کی مراد پوری کردیتا ہے تو بت پرستوں کو خیال ہوتا ہے کہ بتوں سے یہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے بندوں کی حالت جانتا ہے اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ دنیا میں لوگوں کی حاجت روائی بالکل موقوف نہ کر دی جائے۔ چاہے کوئی کسی سے اپنے مطلب کے لئے خواستگار ہوں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے تو وہ مطلب پورا کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جن اہل قبور سے استمداد کی جاتی ہے ان کا حال معلوم ہے وہ اہل قبور صالحین اور بزرگان دین سے ہوگئے ہیں اور ستیلا و مسانی موہوم محض ہیں۔ ان کا وجود معلوم نہیں بلکہ بت پرستوں نے ان کا صرف فرضی وجود خیال کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔اہل قبور سے استمداد بطور دعا کے ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں تاکہ ہمارا مطلب حاصل ہو۔ جب کہ جو لوگ ستیلا وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ ان کے پاس مستقل طور پر حاجت روائی کا اختیار ہے۔ اور یہ خالص کفر ہے نعوذ باللہ۔

 (فتاوی العزیزی صفحہ نمبر 174 تا 177 شائع کردہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، پاکستان انگریزی سے اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور کچھ بریکٹس بھی لگائی گئیں ہیں)

یہ شاہ عبدالعزیز کا تفصیلی اور خوبصورت فتویٰ ہے۔ یہ نوٹ کیجئے کہ برصغیر کے سلفی رسول اللہ ﷺ تک اپنی سند شاہ عبدالعزیز کے ذریعے لے کر جاتے ہیں۔ ہم نے مفاہمت میں شروع میں ذکر کر دیا تھا کہ یہ بہتر ہے کہ صرف اللہ ہی سے مدد طلب کی جائے اور عوام الناس کو استغاثہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کو صحیح اور غلط طریقہ کار میں فرق نہیں معلوم۔ 

استغاثہ صرف تب جائز ہے جب نبی یا ولی سے اس نیت سے مانگا جائے کہ اصل مدد کرنے والا صرف اللہ ہے اور نبی اور ولی صرف وسیلہ ہیں۔ دوسرا، یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ انبیاء اور اولیاء اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث سے ہم دکھا چکے ہیں۔

سلفی اس عقیدے کو رد کرنے کے لئے کچھ آیات استعمال کرتے ہیں جو کفار اور بتوں کے لئے نازل کی گئی اور ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں۔ یہ خوارج کا طریقہ کار تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: 

وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله، وقال: إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار، فجعلوها على المؤمنين 

ترجمہ: ابن عمر خوارج کو بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور انہوں نے کہا کہ: انہوں نے وہ آیات جو کفار کے لئے نازل ہوئی تھی مسلمانوں پر لاگو کیں۔ (صحیح بخاری جلد 9 کتاب 84 حدیث 64). 

امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اس روایت کو صحیح کہا۔ (14/289). 

لہٰذا وہ ساری آیات جو کفار بتوتوں کے لیے ہیں ان کو انبیاء اور اولیاء پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔(مثال دیکھئے ،سورہ بونس: 18، الزمر:3)

جس میں واضح طور پر ذکر ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کی پوجا (عبادت) کرتے تھے، جب کہ کوئی مسلمان انبیاء اور اولیاء کی عبادت نہیں کرتا۔ یا سورہ احقاف # 5 جو پھر سے بتوں کے بارے میں ذکر کرتی ہے۔

 جبکہ ایسی کئی مستند احادیث موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اہل قبور ہمیں سنتے ہی اس کو اگلے باب میں بیان کیا جائے گا۔ 

ایسی آیات مثال کے طور پر سورہ ق:16 اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، ابن کثیر اس قرب کی تفصیل یوں کرتے ہیں: " اس کے فرشتے انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں"۔(تفسیر ابن کثیر سورۃ ق:16کے تحت)

اور یہ کہ قرآنی آیات سے ثابت ہے کہ فرشتے بہت سے کاموں پر مامور کیے گئے ہیں، مثال کے طور زندگی لے لینا۔ قرآن کہتا ہے " موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے۔۔۔۔۔ " (سورہ سجدہ11)

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ ہی جان لے سکتا ہے جبکہ قرآن یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کے اذن کے ذریعے فرشتہ بھی یہ کر سکتا ہے۔

اسی طرح انبیاء اور اولیاء اللہ کی عطا کے ذریعے امداد کرتے ہیں اور اس کو کبھی بھی شرک نہیں کہا جا سکتا، جب اس کے ساتھ کوئی انہیں اللہ کا شریک نہ مانتا ہو۔ اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن کا سلفی غلط استعمال کرتے ہیں مگر ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا کتاب کو مختصر رکھنے کی وجہ سے۔ 

سورۃ الفاطر :14کے حوالے سے ابن کثیر کہتے ہیں: 

اللہ کے علاوہ جن خداؤں کو تم پکارتے ہو وہ تمہاری دعا نہیں سنتے، کیونکہ وہ بے جان ہیں اور ان میں روح نہیں موجود۔ (تفسیر ابن کثیر الفاطر:14کے تحت)
سورۃ الزمر:3کے حوالے سے پھر آیت خود ذکر کرتی ہے کہ مشرکین اوروں کی پوجا (عبادت) کرتے تھے تاکہ انہیں اللہ کے قریب لایا جا سکے۔ 

سورۃ النحل :20 تا 21 کے حوالے سے جس میں ہے کہ: 
اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے ، بلکہ وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ مردے ہیں زندہ نہیں انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔ (مولانا محمد جوناگڑھی سورۃ النحل :20تا 21)

ابن کثیر ان آیات کے بارے میں کہتے ہیں کہ: پھر اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ بت جن کو لوگ پکارتے ہیں اللہ کی بجائے ،وہ کچھ خلق نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے کہا: تم انہیں پوجتے ہو جنہیں ( خود ) تم تراشتے ہو ۔ حالانکہ تمہیں 

اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ (صورۃ الصافات:95 تا 96)

(وہ مردہ ہیں ,زندہ نہیں ) کا مطلب ہے وہ بے جان ہیں اور ان کو سنائی نہیں دیتا نہ وہ دیکھتے ہیں نہ سوچتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کہتے ہیں: تو کوئی کیسے ان بتوں سے کسی نفع کی امید رکھ سکتا ہے؟ (تفسیر ابن کثیر سورۃ النحل 20 تا 21 کے تحت l)

سورۃ الاحقاف 4 تا 6 کے حوالے سے : اس آیت کا قرینہ خود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ بتوں کی طرف اشارہ ہے۔

 ابن کثیر بیان کرتے ہیں: (اس سے پوچھنا کوئی صحیفہ لا کر دکھاؤ) کا معنی ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتابوں میں سے کوئی کتاب لا کر دکھاؤ جو تمہیں یہ حکم دے کہ بتوں کی عبادت کرو۔ ۔۔۔۔ ' پھر ابن کثیر کہتے ہیں: ( اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں ) کا معنی ہے کہ ان کے سوا کوئی اور اتنا گمراہ نہیں ہے جو اللہ کے علاوہ بتوں سے مانگتے ہیں ان سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو وہ قیامت تک نہیں دے سکتے۔ وہ اس سے بے خبر ہیں جو کوئی اس سے کچھ مانگیں وہ نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں نہ حرکت کر سکتے ہیں ایسا اس لئے کیونکہ وہ بے جان اور بےحس پتھر ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ) 

سلفی سورۃ الاعراف:194 کا بھی استعمال کرتے ہیں جو پھر سے مشرکین کو مخاطب کرتی ہے مسلمانوں کو نہیں، اور یہ آیت مسلمانوں پر لاگو نہیں کی جاسکتی۔ اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر کو پڑھیے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مشرکین کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 

سلفی کہتے ہیں کہ یہ آیات انبیاء علیہم السلام کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں جیسا کہ اس میں ذکر ہے کہ " وہ قیامت کے دن تمہارا ان کا شریک کرنے کو رد کر دیں گے اور وہ ہماری طرح ہی غلام ہیں" اس کا جواب بھی قرآن ہی سے ملتا ہے جب ابراہیم علیہ السلام نے قیامت کے روز بتوں کے اٹھنے کے بارے میں بات کی۔ 

قرآن سورۃ العنکبوت :25 میں کہتا ہے: 

 ( حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا ۔

  دوسرا یہ کہ الاعراف:194 اپنے سیاق و سباق کے ساتھ 191 سے شروع ہوکر 198 پر ختم ہوتی ہے۔ یہ واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ یہ بھی بتوں کی طرف ہی اشارہ ہے جن کو فہم نہیں ۔جبکہ اسلام کے مطابق ، انبیاء خاص طور پر اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں، ان ثبوتوں کو اگلے باب میں دکھایا جائے گا۔ 

انبیاء و اولیاء کو بتوں کے ساتھ ملانا صریح جہالت بلکہ کفر ہے، یا ان پر وہ آیات لاگو کرنا جو کفار کے لئے نازل ہوئی، یہ دراصل خوارج کی روش ہے جیسا کہ صحیح احادیث کے مطابق یہ ثابت ہے۔ 

ابن کثیر الاعراف 191 تا 198کی تشریح یوں شروع کرتے ہیں: اللہ ان مشرکوں کو نصیحت کرتا ہے جو اس کے سوا بتوں ، حریفوں اور تصاویر کی پوجا کرتے تھے ، اگرچہ یہ چیزیں اللہ نے تخلیق کیں ، اور نہ ہی کسی شے کی مالک ہیں نہ ہی وہ نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ یہ چیزیں ان لوگوں کو نہیں دیکھتی اور نہ ہی ان کی مدد کرتی ہیں جو ان کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ بے جان چیزیں ہیں، جو نہ حرکت کرتی ہیں ، نہ سنتی ہیں اور نہ ہی دیکھتی ہیں۔ جو لوگ ان اشیاء کی پوجا کرتے ہیں وہ ان سے بہتر ہیں کیونکہ وہ سنتے ہیں اور اپنی طاقت رکھتے ہیں۔ (انگلش تفسیر ابن کثیر سلفی دار السلام اعراف:191 تا 198 تک پڑھیے)
 
سلفی بخاری سے ایک ضعیف حدیث کا استعمال کرتے ہیں، یہ اخذ کرنے کے لئے کہ مشرکین کے کچھ بت نیک لوگوں کے تھے۔ کچھ کان کھڑے ہونگے کہ میں نے بخاری کی حدیث کو ضعیف کہا۔ آئیے اب ہم اس حدیث کو دیکھتے ہیں اس کی سند اور شرح کے ساتھ۔
 
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَقَالَ، عَطَاءٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِي كَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي الْعَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وُدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا، وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ، لآلِ ذِي الْكَلاَعِ‏.‏ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا، وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ‏.‏

ترجمہ: جو بت نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے  بت  قائم  کئے  تھے  اورعلم  لوگوں  میں  نہ  رہا  تو ان کی پوجا ہونے لگی۔ (صحیح بخاری 4920)

عطاء عن ابن عباس پر غور کیجیے۔

علامہ بدر الدین عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: 

اس حدیث کی سند میں ہشام کا ذکر ہے، یہ ہشام بن یوسف الصنعانی ہے۔ اور ابن جریج، یہ عبد المالک بن عبد العزیز بن جریج ہے۔ اور عطاء، یہ عطاء الخراسانی ہے۔ یہ دیکھیے کہ یہ نہ تو عطاء بن ابی رباح ہے نہ ہی عطاء بن یسار۔ اسی لیے یہ وجہ ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے۔ (ایسی حدیث جس میں ایک یا ایک سے زیادہ راوی حذف ہوں). کیونکہ عطاء الخراسانی نے ابن عباس سے یہ حدیث نہیں سنی۔ ابو مسعود دمشقی نے کہا کہ امام بخاری نے شاید اس عطاء کو عطاء بن ابی رباح سمجھا جو وہ ہے نہیں۔ اور ابن جریج نے یہ تفسیر عطاء الخراسانی سے نہیں سنی جو سند میں ایک اور انقطاع کو ظاہر کرتی ہے۔ بلکہ ابن جریج نے عطاء الخراسانی کے بیٹے سے کتاب لے کر پڑھی تھی۔
 
علامہ عینی بھی لکھتے ہیں:

صالح بن احمد ابن المدینی سے روایت کرتے ہیں کہ ابن المدینی نے یحییٰ بن سعید سے ابن جریج کی عطاء الخراسانی سے حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ساری ضعیف ہیں۔ (علامہ بدرالدین عینی عمدۃ القاری جلد نمبر 19 صفحہ 377 دار الکتب العلمیہ بیروت)

امام ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں: 

عطاء الخراسانی نے ابن عباس سے یہ حدیث نہیں سنی (جو پھر سے اس کی سند میں انقطاع کو ظاہر کرتا ہے۔) 

(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 197)

علامہ شہاب الدین قسطلانی لکھتے ہیں: 

عطاء الخراسانی کبھی ابن عباس سے نہیں ملے اور ابن جریج کبھی عطاء الخراسانی سے نہیں ملے۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری) 

امام بیہقی نے بھی یہی بات لکھی ہے کہ: عطاء الخراسانی کبھی ابن عباس سے نہیں ملا۔ (السنن الکبری جلد 7 صفحہ 307).

امام ابن حبان نے کہا: عطاء الخراسانی نے ابن عباس سے کبھی کچھ نہیں سنا۔(کتاب المجروحین جلد 2 صفحہ 250).

شیخ ابن حزم الظاہری نے لکھا: عطاء الخراسانی نے کبھی عبداللہ بن عمر بن عاص سے نہیں سنا نہ ہی اس نے کسی اور صحابی سے سنا سوائے انس رضی اللہ عنہ کے۔ (المحلیٰ) 

لہٰذا سند منقطع ہے اور روایت ضعیف ہے۔ 

سلفی ایک اور حدیث استعمال کرتے ہیں جس میں ہے کہ: 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا عبادت ہے، تمہارا رب فرماتا ہے: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ( سورۃ المومن:60) ۔ (سنن ابی داؤد: 1479) 

وہ ان احادیث کے ذریعے لوگوں کو الجھن میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کہہ کر کے مسلمان انبیاء اور اولیاء سے عبادت والی دعا کرتے ہیں۔ تاہم قرآن اور سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ لفظ دعا الگ معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے: 

لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔۔۔(سورۃ النور :63)

 اس آیت میں لفظ دعا پکارنے کے طور پر استعمال ہوا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ نے نبی اکرم ﷺ کو عبادت کے زمرے میں پکارا (دعا)؟ لہٰذا یہ قرآن سے ہی ثابت ہے کہ لفظ دعا الگ الگ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب مسلمان انبیاء اور اولیاء کو پکارتے ہیں تو یہ عبادت کے زمرے میں نہیں آتا ، بلکہ یہ تو صرف پکارنا یا ندا دینا ہے۔ اصل میں کرنے والا اور مدد دینے والا اللہ ہی کو مانا جاتا ہے۔ 

قرآن یہ بھی کہتا ہے: 

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو ، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو ، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو ، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں ، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (مفتی تقی عثمانی آل عمران:61)

اس آیت میں پھر سے لفظ دعا استعمال ہوا ہے تو کیا اللہ نبی سے اپنے بیٹوں عورتیں اور اپنے
لوگوں کی عبادت کرنے کا کہہ رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔


مصنف کے بارے میں:

Aamir Ibraheem

عامر ابراہیم الحنفی

اسلامی محقق

عامر ابراہیم اشعری ایک اسلامی محقق ہیں جنہوں نے عظیم علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے دفاع کے متعلق بہت سی کتابوں اور مضامین کے مصنف ہیں۔ وہ فقہ میں حنفی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ اصول میں اشعری ہیں اور تصوف کے مداح ہیں۔

ہمارے ساتھ رابطے میں رہئے:

2024 اہلسنت وجماعت کی اس ویب سائیٹ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں