(Urdu) انجینئر علی مرزا کا رد

(Urdu) انجینئر علی مرزا کا رد

Article Bottom

(Urdu) انجینئر علی مرزا کا رد



انجینئر مرزا کہتا رہتا ہے بابوں کا خدا اور، کتابوں کا خدا اور۔  یا بابے تے شے ہی کوئی نہیں۔ لیکن اصل میں مرزا کے بھی اپنے بابے ہیں جیسے مولوی اسحاق، شیخ زبیر علی زئی، شیخ  البانی، مودودی وغیرہ۔ اور اس کے سامنے جو احادیث کی کتب پڑی ہوتی ہیں وہ بھی بابوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ 

اصل میں اسلام ہے ہی نیک بابوں کو فالو کرنا۔ قرآن کہتا ہے۔ 

صِرَاطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلاَ ٱلضَّآلِّينَ  (سورہ فاتحہ)

اب یہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟  قرآن کی تفسیر قرآن سے ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے: 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا

ترجمہ:  اور جو لوگ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، جیسے انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین (نیک لوگ)، اور یہ بہترین رفیق ہیں۔(سورہ النساء ، آیت 69)

تفسیر ابن کثیر میں سورہ فاتحہ کی اوپر دی گئی آیت کے بارے لکھا ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یا اللہ تو مجھے ان فرشتوں، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں، اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تونے اپنی اطاعت اور عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔اور یہ بھی تفسیر ہے کہ اس سے مراد مومنین ہیں۔ (یہ روایات متن کے لحاظ سے صحیح ہیں)

قرآن ہمیشہ کے لیے ہدایت ہے تو صالحین میں تمام اولیاء شامل ہیں۔ قرآن میں نبی کریم علیہ السلام کی کچھ ڈیوٹیز بتائی گئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: 

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ

اے ہمارے رب !ان میں انہیں میں سے رسول بھیج  جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ،  انہیں کتاب و حکمت  سکھائے اور انہیں پاک کرے  یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے ۔ (سورہ بقرہ، آیت 129)

کتاب و حکمت سے مراد قرآن اور سنت (اور دین کا فقه) ہے جو مفسرین و محدثین و فقہاء سے ملتا ہے اور پاک کرنے سے مراد تزکیہ نفس ہے جو اہل تصوف سے ملتا ہے۔ اس لیے تمام نیک بابے چاہے مفسرین ہوں یا محدثین یا  فقہاء یا صوفیہ کرام۔ وہ سب اس میں شامل ہیں۔ مزے کی بات ہے کے امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ جو محدث تھے انہوں نے اپنی کتاب حلية الاولياء پوری کی پوری صوفیہ اور آئمہ (علماء) کو dedicate کی جیسے انہوں نے کتاب کے مقدمے میں لکھا۔ ایسے ہی احادیث کی اسانید میں صوفیہ بھی موجود ہیں۔ محدثین نے باقاعدہ اسناد میں راویوں کو شیخ تصوف تک لکھا ہے۔ اور نقاد جیسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے حالات میں انہیں نا صرف ثقه لکھا بلکہ ساتھ صوفی اور ولی بھی لکھا 

الإِمَامُ الْحَافِظُ الرَّبَّانِيُّ الْعَابِدُ، شَيْخُ الصُّوفِيَّةِ أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ النَّيْسَابُورِيُّ الزَّاهِدُ… قَالَ أَبُو الْفَتْحِ الْقَوَّاسُ: سَمِعْتُ مِنْهُ، وَكَانَ يُقَالُ: إِنَّهُ مِنَ الأَوْلِيَاءِ وَسُئِلَ الدَّارَقُطْنِيُّ عَنْهُ، فَقَالَ: فَاضِلٌ ثِقَةٌ أَرَّخَهُ الْحَاكِمُ، وَقَالَ: هُوَ شَيْخُ عَصْرِهِ فِي التَّصَوُّفِ۔۔۔
(امام ذہبی سیر اعلام 12/83)

امام حاکم رحمہ اللہ اصحاب صفہ کے بارے ایک حدیث کے نیچے فرماتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ""، قَالَ الْحَاكِمُ: «تَأَمَّلْتُ هَذِهِ الْأَخْبَارَ الْوَارِدَةَ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ فَوَجَدْتُهُمْ مِنْ أَكَابِرِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَعًا وَتَوَكُّلًا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَمُلَازَمَةً لِخِدْمَةِ اللَّهِ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اخْتَارَهُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُمْ مَا اخْتَارَهُ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَسْكَنَةِ، وَالْفَقْرِ، وَالتَّضَرُّعِ لِعِبَادَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَرْكِ الدُّنْيَا لِأَهْلِهَا، وَهُمُ الطَّائِفَةُ الْمُنْتَمِيَةُ إِلَيْهُمُ الصُّوفِيَّةُ قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ، فَمَنْ جَرَى عَلَى سُنَّتِهِمْ وَصَبْرِهِمْ عَلَى تَرْكِ الدُّنْيَا وَالْأُنْسِ بِالْفَقْرِ، وَتَرْكِ التَّعَرُّضِ لِلسُّؤَالِ فَهُمْ فِي كُلِّ عَصْرٍ بِأَهْلِ الصُّفَّةِ مُقْتَدُونَ وَعَلَى خَالِقِهِمْ مُتَوَكِّلُونَ»

ترجمہ: یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔

 فائدہ : امام حاکم کہتے ہیں : اہل صفہ کے متعلق وارد ان احادیث میں ، میں نے غور کیا تو اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پرہیزگار اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے پایا ، اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو وہی فقر و فاقہ ، وہی مسکنت اور عبادت الٰہی کے لیے گریہ زاری عطا فرمائی اور دنیا کو اہل دنیا کے سپرد کر دینے کا وہی جذبہ عطا فرمایا جو اس نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو عطا فرمایا تھا ۔ *اور یہ وہی لوگ ہیں جو ہر زمانہ میں صوفیہ کہلائے*. اور جو آدمی بھی ان کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہو کر ترک دنیا پر صبر اختیار کرے ، فاقہ مستی کے ساتھ لگاؤ قائم کرے اور اہل دنیا سے سوال ترک کرے ، تو ہر زمانہ میں ایسے لوگ اہل صفہ ہی کے پیروکار کہلائیں گے اور اپنے پیدا کرنے والے پر بھروسہ کرنے والے قرار پائیں گے ۔"

مستدرک حاکم حدیث # 4292 

قرآن کہتا ہے

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا  ہُمۡ  یَحۡزَنُوۡنَ

ترجمہ: سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم (سورہ یونس، آیت # 62)

بُخاری شریف میں حدیث ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے ۔

صحیح بُخاری # 6502

یعنی مرزا جیسے لوگوں کے خلاف اللہ کا اعلان جنگ ہے کیونکہ وہ اولیاء سے بغض رکھتے ہیں۔ اور کچھ علماء نے اس حدیث سے اولیاء کا دور اور قریب سے تصرف کرنا بھی ثابت کیا ہے۔ 

یہ حدیث بھی مفید ہے مرزا کے رد میں

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے ، بچوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے علماء کا حق نہ پہچانے ۔

مستدرک حاکم # 421۔ شیخ البانی نے اسے حسن کہا۔

اور حدیث ثقلین میں بھی قرآن اور اہل بیت کا ذکر ہے۔ سنت اور علم بھی ہم تک بابوں کے ذریعے پہنچا۔ بُخاری شریف میں خوبصورت حدیث ہے: 

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں لے کر حج کیا تو میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو ‘ اس کے بعد کہ تمہیں دیا ہے ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے ‘ ان سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور وہ فتویٰ اپنی رائے کے مطابق دیں گے ۔ پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے

بُخاری شریف، حدیث # 7307

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم علماء کی وجہ سے ملتا ہے اور ان کی وفات کی وجہ سے چھن جاتا ہے۔ اور مرزا جیسے جاھل لوگ اپنی طرف سے غلط فتوے دیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ 

نبی کریم علیہ السلام نے ہمارے لیے کتابیں نہیں چھوڑیں بلکہ خیر القرون اور علماء جو بابے ہیں وہ چھوڑے۔ علماء کو انبیاء کا وارث بھی کہا گیا ہے حدیث میں (دیکھیے ترمذی شریف # 2682۔ شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا، اور بھی بہت محققین نے اس حدیث کی تحسین کی)۔ اور قرآن و حدیث میں اللہ کے ولیوں جن میں علماء شامل ہیں ان کی بہت تعریف ہے۔ 

مسلم شریف کے مقدمے میں عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول لکھا ہے کے اسناد دین ہے۔ اب سمجھنے کی یہ بات ہے کے اسناد کا دارومدار محدثین/علماء/صالحین صوفیہ پر ہوتا ہے جو اصل میں بابے ہی ہیں۔ 

مسلم شریف میں حدیث ہے

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔‘‘ ہم ( صحابہ رضی اللہ عنہم ) نے پوچھا : کس کی ( خیر خواہی ؟ ) آپ نے فرمایا :’’ اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے آئمہ کی اور عام مسلمانوں کی۔ 

صحیح مسلم # 196

اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ امام خطابى رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں

آئمہ میں علماء داخل ہیں۔ اور ان کی خیر خواہی سے مراد ان کی احادیث کو قبول کرنا ہے اور احکام میں ان کی تقلید کرنا ہے۔ اور ان کے بارے اچھی رائے رکھنا ہے۔ 

شرح صحیح مسلم تحت حدیث # 196

مرزا جیسے لوگ کہتے ہیں کے بریلوی دیوبندی علماء کہتے ہیں قرآن اور حدیث بندہ خود سے پڑھ کر گمراہ ہو سکتا ہے۔ مرزا اس پر بہت طنز کرتا ہے اور قرآن کی آیات کا غلط استعمال کرتا ہے کے قرآن آسان ہے۔ جبکہ ان آیات سے مراد قرآن کو یاد یا حفظ کرنا آسان ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث کا پراپر علم حاصل کرنے میں ہم بابوں کے ہی محتاج ہیں۔

قرآن کہتا ہے

 مَا کُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ  مَا یُفۡعَلُ بِیۡ  وَ لَا بِکُمۡ ؕ اِنۡ  اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی  اِلَیَّ وَ مَاۤ  اَنَا  اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ

ترجمہ:  آپ کہہ دیجئے! کہ میں کوئی بالکل انو کھا پیغمبر  تونہیں  نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا  ۔  میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علی الاعلان آگاہ کر دینے والا ہوں ۔ (سورہ الاحقاف، آیت # 9)

اس آیت کو اسلام دشمن عیسائی اور غیر مسلم بہت استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں نبی کریم علیہ السلام کو اپنی آخرت کا بھی علم نہیں تھا معاذ اللہ کے وہ جنت جائیں گے یا جہنم (معاذ اللہ)۔ اب وہ بندہ جو خود سے پڑھتا ہے وہ مکمل قرآن اور احادیث کو نا جاننے کی وجہ سے گمراہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے علماء کی رہنمائی ضروری ہے۔ علماء کی رہنمائی میں پتا چلتا ہے کے یہ آیت اس وقت تھی جب نبی کریم علیہ السلام کو بتایا نہیں گیا تھا جبکہ بعد میں آپ نے اپنا جنتی ہونا واضح بیان فرمایا۔ شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 

 فوالله ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي ولا بكم " وإنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك موافقةلقوله تعالى في سورة الأحقاف ( قل ما كنت بدعا من الرسل , وما أدري ما يفعل بي ولا بكم ) وكان ذلك قبل نزول قوله تعالى ( ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر ) لأن الأحقاف مكية , وسورة الفتح مدنية بلا خلاف فيهما , وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم قال " أنا أول من يدخل الجنة " وغير ذلك من الأخبار الصريحة في معناه

ترجمہ: جہاں تک ان کے اس قول کا تعلق ہے کہ "خدا کی قسم، اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں، پھر بھی میں نہیں جانتا کہ اللہ میرے ساتھ کیا کرے گا"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الاحقاف میں اللہ کے اس فرمان کے مطابق فرمایا۔ : "میں رسولوں کے درمیان کوئی نیا عقیدہ لانے والا نہیں ہوں، اور نہ ہی میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ یا آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا" (46:9) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا " تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے ( ترجمہ کنز الایمان، سورہ الفتح، آیت # 2) کیونکہ الاحقاف (46) مکی سورہ ہے، جبکہ سورہ الفتح (48) مدنی سورہ ہے اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سب سے پہلا ہوں جو جنت میں داخل ہوں گا اور اس کے علاوہ دیگر روایات بھی اس معنی کو بیان کرتی ہیں۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری 3/115) 

جس نبی کریم علیہ السلام نے عشرہ مبشرہ صحابہ کو جنت کی بشارت دی اور قرآن اور نبی کریم نے تمام صحابہ کو جنت کی بشارت دی تو ایسے کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کے ان کو اپنی آخرت کا علم نا ہو؟ اس لیے قرآن و حدیث کو سمجھنے میں ہم بابوں کے محتاج ہیں۔ 

اس لیے علماء نے حدیث کے فہم کے بارے کیا خوب کہا

وقال ابن عيينة " الحديث مضلة إلا للفقهاء "قال عبد الله بن وهب:"الحديث مضلة إلا للعلماء

امام ابن عيينه نے کہا: حدیث گمراہی ہے سوائے فقہاء کے ذریعے (سمجھنے کے) 

امام ابن وہب نے کہا: حدیث گمراہی ہے سوائے علماء کے ذریعے (سمجھنے کے)

 دوسرے قول کو امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ نے  ترتیب المدارک میں نقل کیا، ص 28

قرآن کہتا ہے

۔۔۔فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ: ۔۔۔پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو (سورہ نحل، آیت 43)

اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں

واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم.
وفي " الإكليل " للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروع 

ترجمہ: اس آیت سے استدلال ہوتا ہے کے جن مسائل کا علم نہیں تو واجب ہے کے ان کے بارے علماء کی طرف رخ کیا جائے۔امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاکلیل  میں اس سے عام فرد کی فروعی (مسائل) میں (علماء کی) تقلید کے جواز پر استدلال کیا ہے

تفسیر روح المعانی تحت سورہ نحل ، آیت 43

احادیث سے ایسی بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کو اگر بندہ علماء/بابوں کی رہنمائی کے بغیر خود پڑھے تو گمراہ ہو سکتا ہے۔ جیسے بُخاری شریف میں ایک روایت میں لکھا ہے نبی کریم علیہ السلام نے بار بار خودکشی کرنے کی کوشش کی (معاذ اللہ)۔ اب اگر بندہ اس روایت کو ظاہر پر لیے تو نبی کریم کی گستاخی بنتی ہے۔ اور مرزا نے بھی ایک بیان میں اسے گستاخی مانا۔ لیکن جب مفتی راشد محمود حفظہ اللہ نے مرزا کا تعاقب کیا تو مرزا نے پینترا بدل لیا۔  خیر علماء نے سمجھایا کے یہ الفاظ ابن شہاب زہری کے ہیں نا کے حدیث کے۔

فدک کے بارے میں زہری سے جو روایات ہیں ان میں لکھا ہے کے سیدہ فاطمہ رض تا وفات سیدنا ابو بکر رض سے ناراض رہیں اور مولا علی رض نے 6 ماہ بعد بيعت کی۔ اور اسی زہری سے مروی ہے کے عباس رض نے علی رض کو کذاب و خائن وغیرہ کہا اور عمر رض نے کہا کے علی رض ابو بکر و عمر کو کذاب و خائن وغیرہ مانتے تھے (معاذ اللہ).

ان روایات میں زہری موجود ہے اور اس کے علاوہ یہ الفاظ ثابت نہیں۔ اب اگر کوئی خود یہ روایات پڑھے تو گمراہ ہو جائے گا۔ جبکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے کے سیدہ فاطمہ رض تا وفات ناراض نہیں رہیں بلکہ راضی تھیں اور سیدنا ابو بکر کی پیش کردہ حدیث کے انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس کو قبول کیا (یاد رکھیے یہ حدیث کثیر صحابہ سے بھی ثابت ہے. مثال کے طور پر دیکھیے مسند احمد # 336، 1391، الشمائل المحمدية امام ترمذی # 403 ،صحیح بُخاری # 2776، ترمذی # 1610، ترمذی # 1609، مسند احمد # 14 اس والی میں سیدہ فاطمہ رض نے سیدنا ابو بکر رض کی صداقت کی گواہی دی۔ وغیرہ۔ یہ تمام احادیث مستند ہیں۔ حوالاجات www.sunnah.com کے مطابق ہیں) اور مولا علی رض نے بھی فوراً بيعت کر لی تھی (دیکھیے سُنن بیہقی الکبریٰ # 16538، مستدرک حاکم # 4457 وغیرہ۔ یہ روایت صحیح ہے) 

اور بُخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے ۔ گھوڑے میں ، عورت میں اور گھر میں ۔

بُخاری # 2858

اب بندہ یہ حدیث پڑھ کر گمراہ ہو سکتا ہے اور یہ اسلام کے بارے بھی برا تاثر دیتی ہے کے عورتوں میں نحوست ہے۔ اسلام دشمن غیر مسلمین بھی ایسی روایات کو اسلام کا نام بدنام  کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ احادیث کا مکمل مطالعہ کر کے معلوم ہوتا ہے کے بات اس کے متضاد ہے اور یہ بات نبی کریم علیہ السلام کی خود کی نہیں بلکہ یہ جاہلیت کے لوگ اور یہودی کہتے تھے۔ ابن ماجہ شریف میں روایت ہے:

مخمر بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” نحوست کوئی چیز نہیں ، تین چیزوں میں برکت ہوتی ہے : عورت ، گھوڑا اور گھر میں “ ۔

ابن ماجہ # 1993 حدیث حسن ہے۔ 

اب احادیث میں تضاد وارد ہو گیا۔ اور ایک دوسری مسند احمد کی حدیث میں ہے

 بنو عامر کے دو آدمی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے۔' وہ غصے سے کہنے لگیں۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ کہا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان چیزوں میں بدشگونی لیتے تھے۔

مسند احمد # 24841۔ شیخ شعیب ارناووط نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا۔ 

مسند ابو داؤد طيالسى میں روایت ہے

عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کیا گیا کے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نحوست تین چیزوں میں ہے۔ گھر، عورت اور گھوڑا۔' تو سیدہ عائشہ نے کہا؛ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ یاد نہیں کیونکہ جب وہ داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اصل میں پہلے یہ) فرمایا: اللہ یہودیوں کو تباہ کرے جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ نحوست تین چیزوں میں ہے، گھر، عورت اور گھوڑے میں۔ چنانچہ انہوں نے حدیث کا آخری حصہ سنا اور پہلا حصہ نہیں سنا۔

مسند ابو داؤد طيالسى # 1630۔ شیخ البانی نے اسے حسن کہا۔ 

بُخاری شریف میں صرف کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی روایت موجود ہے۔ مرزا خود سے محقق بن کر کہتا ہے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ سنت ہے اگر چھینٹیں کپڑوں پر نا گریں (معاذ اللہ)۔ اصل میں بُخاری شریف والی روایت صرف مجبوری کی حالت کی وجہ سے ہے۔ جبکہ دوسری احادیث میں ہے: 

حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا : جو شخص تمہیں یہ بات بتائے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ، اس کی تصدیق نہ کرنا ، میں نے آپ ﷺ کو ( ہمیشہ ) بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھا ہے

ابن ماجہ # 307، حدیث حسن ہے۔ 

ایسا سیدنا عمر، سیدنا بریدہ، اور سیدنا عبد الرحمن بن حسنه سے بھی ثابت ہے (ترمذی # 12)

ایسے ہی مرزا کھڑے ہو کر پانی پینے کو بھی سنت کہتا ہے۔ اس کو ان احادیث سے مغالطہ لگا۔ 

نزال نے بیان کیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد کوفہ کے صحن میں حاضر ہوئے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پیا اور کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہی وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے اس وقت کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے ۔

بُخاری # 5615 

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چلتے پھرتے کھاتے تھے، اور کھڑے کھڑے پیتے تھے

سنن ابن ماجہ # 3301۔ حدیث صحیح ہے۔

حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے ڈول میں آب زم زم نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا ۔ متفق علیہ ۔

مشکاة # 4268

ایسے ہی کچھ دیگر صحابہ سے بھی کھڑے ہو کر پانی پینا ثابت ہے۔

جبکہ دوسری احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کے خلاف سخت روایات ہیں۔ ہاں کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ ہے لیکن ناجائز نہیں۔ مرزا کا اس کو سنت کہنا بدترین گمراہی ہے۔ آئیے دوسری احادیث دیکھتے ہیں۔ 

1۔ 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹ کر منع فرمایا ۔

صحیح مسلم # 2024


حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر نہ پیئے ، تم میں سے جو شخص بھول جائے تو وہ قے کر دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

مشکاة # 4267


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا قے کرو اُس نے عرض کِیا: کیوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تُمہیں یہ بات خوشی دے گی کہ تمہارے ساتھ بِلا پیے؟ اُسنے کہا:جی نہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک (تمہارے کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے ) بِلے سے زیادہ شر والا تمہارے ساتھ پی چُکا ہے ، اور وہ ہے شیطان

مسند احمد # 8003۔ حدیث صحیح ہے


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کھڑے ہو کر پانی پینے والا اگر یہ جان لے کہ اس کے پیٹ میں کیا نقصان ہورہا ہے، تو وہ اس کو قے کرکے نکال دے

مسند احمد # 7808 شیخ شعیب الارناووط نے اسے صحیح کہا۔

اب اتے ہیں سیدنا علی والی حدیث کی طرف تو اس کا جواب یہ ہے کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک ممانعت والی احادیث نہیں پہنچی ہوں گی۔ باقی صحابہ پر بھی یہ لاگو ہو گا۔اگر یہ نا بھی مانا جائے اور کہا جاۓ کے حدیث ضرور پہنچی ہو گی تو وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہو کر پینا جائز ہے اور ایک دوسری حدیث سے سیدنا علی کا یہ عمل وضو کے بچے ہوئے پانی کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے۔

نزال بن سبرہ سے، وہ علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، ان کے سر اور پاؤں ( کے دھونے کا بھی ) ذکر کیا۔ پھر انہوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا، وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔

صحیح البخاری # 5616

جہاں تک زم زم کا کھڑے ہو کر پینا ثابت ہے تو یہ زم زم کی خصوصیت ہے۔ زم زم کا کھڑے ہو کر پینا سنت ہے۔ لیکن عام پانی کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وجہ یہ بتائی کے جب تم کھڑے ہو کر پانی پیتے ہو تو تمہارے ساتھ شیطان بھی پیتا ہے۔ یہ بات نبی کریم پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کے نبی کریم کے ساتھ جو جن (شیطان) تھا اس کو انہوں نے اللہ کی مدد سے مسلمان بنا لیا تھا۔ تو اگر نبی کریم نے کھڑے ہو کر پانی پیا تو ان کے ساتھ شیطان نہیں پی سکتا تھا۔ جبکہ باقی سب امتیوں پر یہ لاگو نہیں ہوتا۔

جہاں تک ابن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کی بات ہے کے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چلتے پھرتے کھانا کھا لیا کرتے تھے اور کھڑے ہو کر پانی پی لیا کرتے تھے۔ تو اس روایت سے کھڑے ہو کر کھانے کا بھی ذکر ہے جبکہ دوسری روایات میں کھڑے ہو کر کھانا کھانا زیادہ برا لکھا ہے۔

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا، پوچھا گیا: کھڑے ہو کر کھانا کیسا ہے؟ کہا: ”یہ اور برا ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے

ترمذی # 1879

ایسی اور بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں کے بندہ خود سے قرآن و حدیث پڑھ کر گمراہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے علماء/بابوں کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔

آخر میں کہنا چاہوں گا کے مرزا جن اولیاء اور صوفیہ پر طنز کرتا ہے وہ اہل سنت کے متفقہ بزرگ ہیں۔ جیسے معین الدین چشتی رحمہ اللہ، بایزید بسطامی رحمہ اللہ ، علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ وغیرہ۔ خاص طور پر جو چشتی رسول اللہ والی بات کچھ کتب میں لکھی ہے وہ مردود ہے۔ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمہ اللہ نے واضح کہا ہے کے مشائخ چشت کی طرف جھوٹی باتیں منسوب ہیں۔ جہاں تک سبع سنابل کتاب کی اعلیٰ حضرت نے تعریف کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں اس میں ہر چیز صحیح ہے۔ مرزا کے سامنے جو مشکوٰۃ وغیرہ کتب پڑی ہوتی ہیں ان کی بھی مرزا تعریف کرتا ہے جبکہ وہ مکمل صحیح نہیں اور ان میں گستاخیاں بھی موجود ہیں جیسے ایک حدیث کے بارے مرزا کہتا ہے کے کیا اس کو مان کر بندہ بے ایمان ہو جائے؟ وہ حدیث ہے

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص جاہلی نسب کی طرف نسبت کرے (اور اس پر فخر کرے) تو اس سے کہو اپنے باپ کا آلہ تناسل کاٹ کر منہ میں لے لو اور یہ بات کنایہ سے مت کہو۔ (مشکوٰۃ # 4902، ادب المفرد امام بُخاری # 963 وغیرہ) اس حدیث کو مرزا کے آئنسٹائن شیخ البانی نے صحیح کہا ہوا ہے۔ تو کیا وہ بے ایمان ہو گئے؟ 

اور کشف المحجوب میں جو سیدہ زینب کی طرف ایک بات اشارتاً موجود ہے تو یہ بات بھی کثیر تفاسیر اور کتب میں نقل ہوئی ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے بھی اسے بالجزم نقل کیا۔  ان باتوں پر مفتی راشد محمود حفظہ اللہ مرزا کا مدلل رد کر چکے ہیں۔ ان کے چینل پر ویڈیوز دیکھیں۔


جہاں تک اشرف علی رسول اللہ والی بات ہے تو بےشک میں دیوبندی نہیں لیکن اللہ قرآن میں ہمیں سچی گواہی دینے کا حکم دیتا ہے۔ اس بات پر مفتی عمران دیوبندی کا بیان سنیں۔ مفتی عمران بھی مرزا کا مدلل رد کرتے ہیں۔ ان کی یہ ویڈیو دیکھیں۔ 


 اگر مرزا کہتا ہے ان کتب کو جلا دیا جائے اور چھاپا نا جائے تو ایسے کوئی حدیث کی کتاب بھی نہیں بچ سکتی کیونکہ ان میں کچھ گستاخیاں ہیں اور کثیر کتب
حدیث میں موضوع اور ضعیف روایات بھی ہیں۔ تو کیا ان کی بھی اشاعت بند کر دی جائے یا انہیں معاذ اللہ جلا دیا جائے؟

About Author:

Aamir Ibraheem

Aamir Ibrahim Al Hanafi

Islamic Researcher

Aamir Ibrahim al-Ash'ari is an Islamic researcher who sought and seeks knowledge in the company of great scholars. He is an author of many books and articles related to Islam and its defense. He follows Hanafi school in Fiqh. Ash'ari in creed, and is an admirer of Tassawuf.

STAY CONNECTED:

Copyright2024 www.ahlus-sunnah.com Developed by Muhammad Shafique Attari