میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیوار ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیوار ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

Article Bottom

میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیوار ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

یہ حدیث: میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیوار ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ 

یہ تو موضوع ہے لیکن غلام مصطفی ظہیر صاحب نے: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے کو بھی ضعیف و موضوع کہہ ڈالا۔ آیے اس حدیث پر تحقیق دیکھتے ہیں۔ 

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے 

 [مستدرک الحاکم ، (3/136 ، حدیث # 4637)] 


امام حاکم نے اس حدیث کو 3 مختلف اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، 2 ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور 1 جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے۔ ان سب کو انہوں نے صحیح قرار دیا اور انہوں نے ان کی تفصیلی توثیق کی ہے۔ 


البتہ امام ذھبی نے ان سے اختلاف کیا اور انہیں موضوع (من گھڑت) قرار دیا۔ امام ذھبی کے استاد نے بھی یعنی ابن تیمیہ نے انہیں من گھڑت قرار دیا۔ ابن جوزی اور امام نووی نے بھی اس حدیث کو رد کیا ہے۔ اس حدیث کے حوالے سے علماء میں اختلاف ہے۔ بہت سے علماء کی صحیح رائے یہ ہے کہ یہ حدیث "حسن " ہے لیکن صحیح کے درجے تک نہیں پہنچتی۔ 

امام ابن جریر الطبری نے انا دار الحکمة والے طرق کے بارے کہا: اس حدیث کی سند صحیح ہے (تھذیب الاثار 1/395)

امام زرکشی نے اس حدیث پر لمبی بحث کرنے کے بعد فرمایا: مختصرا یہ حدیث ابو معاویہ اور شریک کے طریق سے حسن کے درجے تک پہنچتی ہے اور اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضعیف تک نہیں ہے چہ جائے من گھڑت۔ 

 التذكرة في الأحاديث المشتهرة ، صفحہ # 165
  

امام سخاوی (رح) نے بھی اسے حسن قرار دیا 

 [المقاصد الحسنہ ، صفحہ # 124 ، نمبر۔ 189] 

 
امام ابن حجر عسقلانی (رح) نے فرمایا: 

  
اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں جن کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے۔ یہ تمام اسناد ثابت کرتی ہیں کہ اس حدیث کی کم از کم اصل ضرور ہے ، اس لیے اسے من گھڑت کہنا غلط ہے۔ 

[لسان المیزان (2/218)] 

شاہ ولی اللہ محدث دلوی (رح) نے کہا: 

مختصرا، ، میں من گھڑت یا ان احادیث کا ذکر نہیں کروں گا جن میں شدید کمزوری ہے جو مطابعت اور شواہد کی وجہ سے مستند نہیں بن سکتیں۔ بلکہ میں صرف ان احادیث کا ذکر کروں گا جو صحیح یا حسن ہیں یا ایسی احادیث جو کمزوری کے باوجود (مستند) ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 

ازالۃ الخفا ، فارسی (4/444) ، اردو ترجمہ میں (4/442)

پھر شاہ ولی اللہ نے اس حدیث کا ذکر سیدنا علی بن ابی طالب کے فضائل میں کیا 

 [ibid ، (4/451)] 
  

سلفیوں کے ایک مقبول اور بڑے عالم قاضی شوکانی نے ابن حجر عسقلانی (رح) کی توثیق بیان کرنے کے بعد کہا: 

یہ قول سچ ہے ، کیونکہ امام حاکم اور یحییٰ بن معین نے ابو الصلت کی توثیق میں اختلاف کیا۔ لہذا اس اختلاف رائے کی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں لیکن دوسری قوی احادیث کی وجہ سے حسن بن جاتی ہے۔ 

الفوائد المجموعہ فی الحدیث الموضوعہ صفحہ 374

امام متقی الھندی (رح) کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے اللہ سے استخارہ کیا تو معلوم ہوا کے یہ حدیث درجہ حسن تک طرقی کر جاتی ہے۔ (کنز العمال تحت حدیث نمبر 36464)

About Author:

Aamir Ibraheem

Aamir Ibrahim Al Hanafi

Islamic Researcher

Aamir Ibrahim al-Ash'ari is an Islamic researcher who sought and seeks knowledge in the company of great scholars. He is an author of many books and articles related to Islam and its defense. He follows Hanafi school in Fiqh. Ash'ari in creed, and is an admirer of Tassawuf.

STAY CONNECTED:

Copyright2024 www.ahlus-sunnah.com Developed by Muhammad Shafique Attari